استحکام پاکستان کے تقاضے

آخر پاکستان کا استحکام کس طرح ممکن ہے اور پاکستان کی سلامتی اور استحکام کوکون سے خطرات درپیش ہیں۔

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

آج وطن عزیز انگنت مسائل سے دو چار اور بے شمار مصائب و مشکلات کا شکار ہے۔ داخلی معاملات ہوں یا خارجی مسائل، اسے ہر سمت نئے نئے چیلنجوںکا سامنا ہے۔ امن وامان اور ملکی استحکام بھی مختلف حوالوں سے ہم سے فوری غور و فکر اور مثبت و تعمیری اقدامات متقاضی ہیں۔

ہر محب وطن پاکستانی مملکت خداداد پاکستان کو مستحکم اور مضبوط دیکھنا چاہتا ہے لیکن یہ سوال اس کے دل کو بے چین کیے رکھتا ہے کہ آخر پاکستان کا استحکام کس طرح ممکن ہے اور پاکستان کی سلامتی اور استحکام کوکون سے خطرات درپیش ہیں۔

استحکام سلطنت و مملکت سے مراد ریاست میں قائم حکومت کا مضبوط ہونا، امن وامان اور قانون کی حکمرانی کے اعتبار سے صورتحال کا قابل اطمینان اور وہاں کے حکمرانوں پر عوام کا اعتماد ہونا ہے۔ یعنی حکومت اور ریاست کو تمام خطرات سے امان واطمینان حاصل ہوتا کہ وہ اپنے مقاصد اصلیہ کی جانب پیش قدمی کرسکے اور اس کی تمام تر صلاحیتیں تعمیری اقدامات میں صرف ہوں۔

اور ایک نظریاتی مملکت کی بقا صرف اس نظریے کو زندہ رکھنے ہی سے ممکن ہے۔ 14 اگست 1947 کو حصول آزادی کے بعد مغربی صوبوں اور مشرقی پاکستان پر مشتمل ایک وفاق تشکیل دیا گیا۔ 1935 کے ایکٹ کو ترمیم کرکے اس کے ساتھ گورنمنٹ آف انڈیا، انڈی پنڈنٹ ایکٹ 1947 کو عبوری دستورکے تحت نافذ کیا گیا۔ اسی اثنا میں دستور ساز اسمبلی میں قراردادِ مقاصد کو بحث و تمحیص کے بعد منظور کرلیا گیا۔ جسے 1949 میں وزیراعظم لیاقت علی خاں نے پیش کیا تھا۔ 1956 کا دستور چوہدری محمد علی کی نگرانی میں دو صوبوں پر مشتمل ایک وفاق، پارلیمانی طرزِِ حکومت اور اسلامی دفعات پر مبنی ایک دستور منظور کرکے نافذ کردیا گیا۔

مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نفاذ شریعت کے لیے طویل جد وجہد ہوتی رہی ہے۔ 1973 کے آئین کی اسلامی دفعات بھی اس جد وجہد کا حصہ ہیں۔


حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا۔

کوئی بھی ملک اور قوم سیاسی، معاشی اور معاشرتی اعتبار سے مستحکم نہیں ہوسکتی جو مخلص اور جرأت مند قیادت سے محروم ہو۔ ملک کی قیادت جس قدر مخلص، راست باز، دیانت دار اور قابل افراد کے ہاتھوں میں ہوگی، اسی قدر ملک و قوم اور معاشرے کے لیے مفید ثابت ہوگی۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو ایسی قیادت منتخب کرنے کی ہدایت کرتا ہے جو مومن، صالح، قابل اور جرأت مند ہو۔

اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کو استحکام حاصل ہو، ملک داخلی اور خارجی طور پر مستحکم ہو تو پھر ہماری یہ ذمے داری ہے کہ ہم اسی مخلص اور جرأت مند قیادت منتخب کریں جو عوام کے مسائل کا ادراک رکھتی ہو، جھوٹ، دغا بازی، منافقت اور وعدہ خلافی پر مبنی سیاست سے پاک ہو، دولت، اقتدار جاہ و منصب کی حرص اور طمع سے بے نیاز اور خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار ہوکر میدان عمل میں اتری ہو۔ ہمارے ہاں صورتحال اس کے برعکس ہے، سیاست دانوں کی اکثریت دولت اور خاندانی اثر و رسوخ کی بنا پر اقتدار پر قابض ہوتی ہے اور ملک و قوم کی خدمت کے بجائے اپنی تمام تر صلاحیت وقابلیت کو دولت و شہرت کے حصول اور اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے میں صرف کرتی ہے، فرائض سے غفلت، قانون شکنی،کرپشن، اختیارات کا ناجائز استعمال، اقربا پروری اور جماعتی والمتکیوں کی بنا پر نوازشات کا سلسلہ موجودہ سیاسی کلچر کا حصہ بن چکا ہے۔ ایسی نا اہل قیادت اپنے بد اعمالیوں کے صلہ میں اپنے ساتھ ملک اور قوم کو بھی لے ڈوبتی ہے۔

مسلم ممالک میں بالخصوص ہمارے ہاں سیاسی عدم استحکام کے پس پردہ مغرب کی سازشیں کار فرما ہیں وہ ان ممالک میں ایسی سیاسی قیادت کی حمایت کرتا ہے جو عوام کے مسائل کا شعور رکھنے اور ان کو حل کرنے کی قابلیت نہیں رکھتی، قابل اور لائق قیادت اور اس کے زیر اثر ملکی استحکام اور ترقی کو وہ اپنی بالادستی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے اس لیے وہ نا اہل حکمرانوں کی حمایت اور پشت کرکے انھیں اپنے مقاصد کے لیے آلۂ کار کے طور پر استعمال کرتا ہے اور ان کے ذریعے ملک میں اپنی پالیسیوں کا اجرا کرتا ہے۔

کسی ملک و ملت کا استحکام اس کی داخلی و خارجی حیثیت سے وابستہ ہے۔ داخلی طور پر ان معنوں میں کہ اس کے باشندگان و افراد میں مکمل اتحاد و یکجہتی قائم ہو اور ان کا ایک مربوط متحد پلیٹ فارم ہو اور یہ سارا کھیل ایک اعلیٰ و ارفع اور مضبوط سیرت کی قیادت کی سرکردگی میں کھیلا جا رہا ہو۔ ان افراد میں علمی یک رنگی و مساوات ہی نہ ہو بلکہ ایک دوسرے کی کامل محبت و غم خواری بھی موجود ہو۔ ان میں کوئی ایک فرد یا طبقہ کسی دوسرے کے لیے حسد و عناد کا موجب نہ ہو اور نہ ان میں کوئی خفیہ دشمن سازشی یا شاکی موجود ہو بلکہ سب بنیان مرصوص کی طرح اپنی منزلیں طے کرتے جارہے ہوں، ان تمام کی بنیادی ضرورتیں کما حقہ پوری ہورہی ہوں اور کوئی وجہ پریشانی و بد حواسی کی موجود نہ ہو، پوری کی پوری قوم تربیت یافتہ اور اہم مسائل زندگی کو سمجھنے والی ہو بھلے برے کا واضح شعور رکھتی ہو اور آسانی سے فریب نہ کھاسکتی ہو اس قوم کا ایک واضح اور احسن نصب العین ہو جس کے حصول کے لیے اس میں سچی تڑپ پائی جاتی ہو اس کا اخلاق قابل اعتماد و تقلید ہو وہ اتنی ذہین ہو کہ اس کائنات میں بکھرے ہوئے اسباب کو خوب سمجھ کر ان سے پورا پورا استفادہ کرسکے۔

پاکستان کے قیام کو 70 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا ہے ہم جہاں عملی میدان میں پاکستان کی کامیابیوں اور نارسائیوں، ترقیوں اور کوتاہیوں، پیش قدمیوں، جمود یا رجعتوں کی مکمل بیلنس شیٹ تیارکریں اور خود اپنا احتساب کریں وہاں ہم کو نظریۂ پاکستان کے حوالے سے بھی دیکھنا چاہیے کہ ان برسوں میں وہ ارتقا اور تنزل کے کن کن مراحل سے گزرا۔ ہم نے کس حد تک اس نظریہ کو اپنایا اورکہاں کہاں مخالف سمت میں نکل گئے۔
Load Next Story