معاصر دُنیا ادیب اور قیامِ امن
ہمارے یہاں اداروں کے علاوہ افراد کا انفرادی کردار بھی معاشرتی رویوں کی تشکیل میں بہت کارآمد اور اثر انگیز رہا ہے۔
(گذشتہ سے پیوستہ)
تاہم ان سوالات پر گفتگو سے قبل ہمیں ایک اور نکتے کو سمجھ لینا چاہیے۔ اس وقت یہ بات بین الاقوامی سطح پر امرِ واقعہ کے طور پر تسلیم کر لی گئی ہے کہ گزشتہ تین چار دہائیوں میں ادب کے مطالعے کے رُجحان میں بہ تدریج کمی واقع ہوئی ہے۔
ہمارے یہاں تو خیر ایسے جائزے اور اعداد و شمار مرتب کرنے کا کوئی خاص اہتمام نہیں پایا جاتا اور نہ ہی ایسے کوئی ادارے ہیں جو سماجی رویوں کی جانچ پرکھ کے سلسلے میں کوئی سروے وغیرہ کرتے ہیں اور جو کچھ ایسا کام کرتے بھی ہیں، وہ قابلِ اعتبار نہیں سمجھے جاتے ہیں۔ اس لیے کہ ہمارے یہاں ایسے کام اُسی وقت کیے جاتے ہیں جب کہیں سے ان کی فنڈنگ کسی خاص مقصد کے تحت اور کسی مخصوص طرزِاحساس کے فروغ کے لیے کی جاتی ہے۔ تاہم یورپ اور امریکا میں سماجی رویوں کی تبدیلی اور تخمین و ظن کا کام کرنے والے باقاعدہ ادارے ہیں جو اپنے معاشرے میں آنے والی تبدیلیوں کو نہ صرف نوٹ کرتے ہیں، بلکہ اُن کے عقب میں کارفرما محرکات کا بھی سراغ لگاتے ہیں۔
مغرب میں سماجی رُجحانات کی تبدیلی کا جائزہ لینے اور سروے کے ذریعے نتائج مرتب کرنے والے ادارے کہتے ہیں کہ وہاں ادب کے مطالعے کی کمی کے کئی اسباب دیکھے گئے ہیں، مثلاً یہ کہ اب ادب کو اتنا اہم اور مؤثر ذریعہ نہیں سمجھا جاتا، جتنا وہ پہلے تھا۔ اب خود ادیب بھی پرنٹ میڈیا سے زیادہ الیکٹرونک میڈیا کی طرف مائل ہے۔ اب لوگوں کے پاس وقت گزاری اور تفریحِ طبع کے لیے کتاب کے علاوہ دوسرے بہت سے اور نسبتاً زیادہ دل چسپ ذراؤ موجود ہیں، مثلاً یوں تو پہلے بھی ٹی وی، سنیما اور تھیٹر موجود تھے، لیکن اُن کے مخصوص اوقات اور محدود دائرے کے سبب کتاب کو فوقیت حاصل تھی۔ اب صورتِ حال بہت بدل چکی ہے اور راؤنڈ دی کلاک الیکٹرونک میڈیا کی رنگی برنگی تفریح سستے داموں میسر ہے۔
اس کے علاوہ پہلے ادیب اور شاعر اپنے کام کو مطبوعہ یعنی کتابی صورت میں پیش کرنا ہی اپنا حاصل سمجھتا ہے۔ اب یہ رویہ بھی بدل چکا ہے۔ آج کا ادیب شاعر اظہاریت پسندی کی طرف اس طرح مائل نظر آتا ہے کہ وہ خود کو تحریر تک محدود نہیں رکھنا چاہتا، بلکہ ادب کی سماجیات کو ضروری خیال کرتا ہے۔ اس کے لیے وہ سوشل میڈیا کے وسیع نیٹ ورک کو زیادہ بہتر اور مؤثر دیکھتے ہوئے اس پر مصروف ہوگیا ہے۔ اس کے علاوہ ریڈنگ اور پوئٹری سیشن اور سیمینارز اور کانفرنسز کے تناسب میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اجمالاً یہ تو ہوئے اہلِ مغرب کے خیالات، اب ذرا ہمیں اپنے زاویے سے بھی اس مسئلے پر غور کرنا چاہیے۔
اس وقت دنیا کا ایک بڑا حصہ جس میں ہم بھی شامل ہیں، خصوصاً جسے نوآبادیاتی دنیا کہہ سکتے ہیں یا کہ ترقی پذیر خطّے اور محکوم اقوام- یہ سب کنزیومر سوسائٹی کے درجے میں رکھے جاتے ہیں۔ جہانِ اوّل یا ترقی یافتہ ممالک اس یک قطبی دنیا میں اس بڑی آبادی کو آج بھی جغرافیائی طور پر نہ سہی مگر ذہنی، فکری اور مالیاتی لحاظ سے اپنی نوآبادیات ہی کے درجے میں رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے وہ ایسے سب ذراؤ اور طریقہ ہائے کار وضع اور اختیار کرتے ہیں کہ اُن کی یہ برتری اور تسلّط ہر ممکن قائم رہے۔
اس کا سب سے مؤثر ہتھیار تو یقیناً مارکیٹ اکانومی اور مارکیٹنگ اسٹریٹی جیز ہیں اور اگر کہیں کسی وجہ سے یہ ہتھیار کارگر نہ رہے تو پھر انتشار، فساد اور اسلحے کا استعمال کارآمد ثابت ہوتا ہے۔ تاہم دوسرے ذراؤ میں الیکٹرونک اور سوشل میڈیا بے حد اہم اور سریع الاثر نظر آتے ہیں۔ ان کے ذریعے آج کی دنیا کا ایک بڑا حصہ نوآبادیات ہی میں تبدیل ہوچکا ہے۔ یہ دونوں ذراؤ اس نوآبادیات کے افراد کو غیر محسوس انداز میں، مگر بے حد کامیابی کے ساتھ بے شناخت اور بے اقدار گروہ میں تبدیل کر رہے ہیں- ایک ایسے ہجوم میں جو ثقافتی نشان اور تہذیبی ضابطے ہی سے نہیں، بلکہ اپنے انفرادی و انسانی جوہر سے بھی بے تعلق ہو کر محض ایک روبوٹین انداز کی بے حس، لیکن بہ ظاہر رنگین نظر آنے والی زندگی کی طرف مائل ہو رہا ہے۔
یہاں پہلا سوال یہ ہے کہ افراد کا یہ گروہ از خود اس طرزِزیست کی طرف مائل ہے یا اُسے کسی قاعدے سے اس راہ پر گام زن کیا جا رہا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ انبوہِ عالم کی قلبِ ماہیت کے ایسے کام ازخود نہیں ہوا کرتے، بلکہ ان کے پس منظر میں کوئی مقصد اور اس کے لیے ایک حکمتِ عملی ضرور ہوتی ہے۔ سو اس وقت بھی انسانوں کی اس بڑی آبادی کو مشینی زندگی کی طرف راغب کرنے کا یہ سارا عمل دیدہ دانستہ اور ایک مقصد کے تحت ہے۔ بادی النظر میں اگرچہ ایسا محسوس نہیں ہوتا اور یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ سب کچھ ایک فطری انداز میں اور وقت کے تغیر کے تحت ہورہا ہے۔ فی الاصل ایسا نہیں ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کے ذراؤ وسیع پیمانے پر مؤثر انداز سے استعمال کیے جا رہے ہیں۔
غور کیا جائے تو یہ بات بہرحال سمجھی جاسکتی ہے کہ اس انبوہِ افراد کو سنبھالا ہی اُس وقت جا سکتا ہے، جب اس کے ذہن اور اعصاب کو ایک متعینہ ضابطے (Code) کا پابند کردیا جائے اور وہ چوبیس گھنٹے کا دن ذہن کے خلیوں اور اعصابی ریشوں کو طے شدہ سانچے میں مصروف رکھ کر گزار سکے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس انبوہ کے لیے ایک ایسا دائرہ بنایا جائے جس میں یہ چوبیس گھنٹے، ہفتے کے سات، مہینے کے تیس اور سال کے تین سو پینسٹھ دن اور اسی طرح ستّر اسّی برس کی زندگی محویت کے ساتھ گزار سکے۔
یہ واردات ادب پڑھنے والوں کے ساتھ کر گزرنا اوّل تو ممکن ہی نہیں اور اگر ہو بھی تو ہزار دشواریوں کے ساتھ ہوگا اور پھر بھی اس طرح کے یقینی نتائج کی ضمانت نہیں دی جاسکتی، جیسے الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کے ذراؤ کے حوالے سے دی جا سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ادب لاکھ تفریح کا سامان رکھتا ہو، مگر بہرحال ایک ذہنی سرگرمی ہے۔ ادب پڑھنے والا ذہن سوالات سے دوچار ہوتا ہے، مسائل پر سوچتا ہے، گرد و پیش کو دیکھ کر مضطرب ہوتا ہے اور آتے وقت کے قدموں کی چاپ پر غور کرتا ہے۔ یہ ذہن آسودگی کی پینک میں کیوں کر رہ سکتا ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور بہت اہم مسئلہ یہ ہے کہ الیکٹرونک اور سوشل میڈیا نے بہ ظاہر دنیا کی طنابیں کس دی ہیں۔ جغرافیائی اور زمینی فاصلے سمٹ گئے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ افراد اپنی اپنی ذاتی زندگی میں اس طرح اور اس درجہ کھو گئے ہیں کہ وجودی سطح پر قریب رہنے والے دو افراد کے درمیان بھی براعظموں کا فاصلہ در آیا ہے۔
احساس میں مشارکت کا رشتہ مکمل طور سے ختم نہیں ہوا تو اتنا کم زور ضرور ہوگیا ہے کہ روز و شب کے ایک بڑے دورانیے میں اس کے ہونے کی طرف دھیان تک نہیں جاتا، جب کہ ادب کا معاملہ یہ تھا کہ پابلو نرودا کی شاعری پڑھ کر پاکستانی قاری اس کے تجربے میں شریک ہوتا تھا، چیکوسلواکیا کے میلان کنڈیرا کو پڑھ کر امریکا کا قاری اعصاب شکنی محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا تھا اور شمالی امریکا کے مقامی باشندوں کی نظمیں اور گیت پڑھ کر بنگالی باشندے ریڑھ کی ہڈی میں ٹھنڈک اُترتی محسوس کرتے تھے اور روس کے آئنسووچ کے ایک دن کی رُوداد میں ہندوستانی قاری کو اپنے روزمرہ معمولات کا عکس نظر آتا تھا۔
ایسا کس لیے ہوتا تھا؟ یہ اصل میں ادب میں منتقل کیے جانے والے احساس کی تاثیر تھی۔ زمینی فاصلوں کی حقیقت اپنی جگہ، لیکن ادب کا رشتہ قاری اور ادیب کے درمیان جغرافیائی فاصلوں کی نفی کر دیتا ہے اور یوں ادیب اور قاری ایک ہی دنیا میں سانس لیتے نظر آتے ہیں۔ گویا ادب کے ذریعے ایک انسان سے دوسرے انسان کی ذہنی، قطبی اور جذباتی قربت کا تصور آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ ایسے میں اس مسئلے کو سمجھا جا سکتا ہے کہ اس یک قطبی دنیا کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں رکھنے کی خواہاں قوتوں کے لیے ادب بھلا کیوں کر مفیدِ مطلب ہو سکتا ہے۔ یوں ان دہائیوں میں ادب سے لوگوں کی توجہ کا ہٹ جانا محض وقت کے تغیر کا عمل نہیں ہے، بلکہ اس کے پس منظر میں ایک باضابطہ حکمتِ عملی کار فرما ہے۔ یہ حکمتِ عملی یقیناً کچھ نتائج کے حصول کے لیے بہت سوچ سمجھ کر اختیار کی گئی ہے۔ یہ تو ہوئی عالمی سطح کے فینومینا کی ایک اجمالی تفہیم، اب آئیے مقامی حقائق کی طرف۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جانا چاہیے کہ ہمارے یہاں کتاب بینی اور مطالعۂ ادب کے ذوق میں عوامی سطح پر کمی واقع ہوئی ہے، بلکہ ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اس کے چند در چند اسباب ہیں۔ ان میں کچھ عالمی اثرات کے زائیدہ ہیں، جن کا ذکر سطورِ گذشتہ میں کیا گیا۔ یہ اثرات ہمارے یہاں زیادہ بوقلموں اور گہرے اس لیے ظاہر ہو رہے ہیں کہ ہم پہلے ہی مارگزیدہ ہیں۔ ہمارے یہاں نوآبادیاتی طرزِحیات کی پیدا کردہ اجتماعی ذہنی ساخت ابھی بدلی نہ تھی کہ ہم پھر اب اس نئی سامراجیت کے چنگل میں آگئے۔ ماجرا وہی ہوا کہ تابہ تریاق از عراق آوردہ شود۔۔۔ یہ حقیقت ہے کہ غلامی ختم ہونے سے زیادہ بڑی مشکل دراصل غلامانہ ذہنیت کا ختم ہونا ہے۔
ہمارے ساتھ یہی مشکل پیش آئی۔ اس پر مستزاد ہمارے اپنے ذاتی، اجتماعی، تہذیبی، تعلیمی اور ادبی رویوں کا افتراق۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے یہاں سماج کی صورت گری کرنے والے ادارے نہ تھے۔ یقیناً تھے اور انھوں نے ماضی میں ہماری تہذیبی اور معاشرتی زندگی میں اپنا کردار بھی ادا کیا ہے۔ ندوۃ العلما، علی گڑھ، دیوبند اور اعظم گڑھ وغیرہ ہماری ذہنی اور فکری زندگی کے روشن حوالے ہیں۔ تاہم آہستہ آہستہ اور غیرمحسوس انداز میں ایسے سب اداروں کو ناکارہ یا بے اثر بنانے کا عمل ہوا۔ اب ہمارے یہاں ادارے تو بہت سے ہیں، پہلے کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہیں، لیکن افرادِ معاشرہ کی ذہنی و فکری تربیت اور کردار سازی سے انھیں کچھ ایسا سروکار نہیں ہے۔
ہمارے یہاں اداروں کے علاوہ افراد کا انفرادی کردار بھی معاشرتی رویوں کی تشکیل میں بہت کارآمد اور اثر انگیز رہا ہے۔ یہ افراد اپنی ذات میں اداروں کا اور انجمن کا درجہ رکھتے اور شمعِ فروزاں کی طرح نور بانٹتے آئے ہیں۔ آج ہمارا معاشرہ اس حوالے سے بھی تہی دامن نظر آتا ہے۔ ایسے افراد باید و شاید ہی نظر پڑتے ہیں کہ جن کی ذات اثر آفرینی کا کوئی دائرہ رکھتی ہو۔ اگر کوئی ہے بھی تو اُس کا عالم یہ ہے کہ معاشرہ، تہذیب اور نظامِ حیات کوئی بھی اُسے کمک نہیں پہنچا رہا، اور وہ عالمی سامراجی طاقتوں اور اُن کے سارے ذراؤ، ہتھیاروں اور ہتھکنڈوں کے خلاف بالکل ذاتی حیثیت اور بہت محدود دائرے میں نبرد آزما ہے۔ ایسے میں کن نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے؟ کیا معاشرہ اور اس کے افراد تفریح اور آسائش کو چھوڑ کر کسی ادب جیسی قدرے سنجیدہ اور ذہنی سرگرمی کی طرف مائل ہوں گے؟
اس صورتِ حال میں رہی سہی کسر خود ہمارے ادیب اور شاعر نے پوری کردی ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ اب وہ خود بھی عام آدمی سے زیادہ ان تفریحات و مرغوبات کی طرف لپکتا نظر آتا ہے، اور اس طرح کہ اُسے اب اپنے کردار، اپنی حیثیت اور اپنی ذمے داری کسی شے کی کچھ زیادہ پروا نہیں رہی۔ خیال رہے کہ یہاں جو بات کی جارہی ہے وہ ایک عمومی رویّے کو سامنے رکھتے ہوئے کی جارہی ہے، مستثنیات اپنی جگہ ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم دیکھ سکتے ہیں، آج ہمارے ادیب کو اُس کے اپنے دل سے زیادہ یہ دنیا ٹرانس میں رکھتی ہے۔
اس لیے وہ بے تابی سے اس کی طرف بڑھتا اور اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہماری تہذیب نے جس طرز، قماش یا مزاج کا ادیب اور شاعر اب سے پہلے پیش کیا، وہ کوئی فرشتہ تو یقیناً نہیں تھا۔ انسانی ضرورتیں اور خواہشیں اس کے اندر بھی پائی جاتی تھیں۔ وہ بشری کم زوریوں سے بھی مبرا نہیں تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان سب کے باوجود ذہنی و فکری سطح پر وہ عمومی لحاظ سے قدرے بلند نظر آتا تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے مزاج میں دنیا سے بے نیازی پائی جاتی تھی۔ دنیا اسے مطلوب تو تھی مگر صرف بہ قدرِ ضرورت، اس سے زیادہ نہیں۔ علاوہ ازیں اُسے یہ احساس بھی ہمہ وقت رہتا تھا کہ وہ اپنے سماج کے لیے مثال کا درجہ رکھتا ہے۔
چناں چہ اپنے جذبہ و فکر کے اظہار اور اپنے تہذیبی و ثقافتی کلامیے کے معاملے میں وہ ہمیشہ محتاط اور ذمے دار نظر آتا تھا۔ اس کا اپنے سماج سے رشتہ گہرا اور قلبی تھا۔ انسانی اقدار سے اس کی وابستگی غیرمشروط تھی۔ یہی وہ سب باتیں تھیں کہ جن کے زیرِاثر اُس کے اندر ایک ایسی قوت پیدا ہوجاتی تھی جو اُس کے عمومی مشاہدے کو بیان کرتے ہوئے احساس کی سطح پر زندہ تجربے میں ڈھال دیتی تھی۔ یوں جب وہ اپنا تخلیقی تجربہ معاشرے کو پیش کرتا تھا تو اُس کے افسانے، ناول، غزل، نظم یا گیت کو پڑھ کر اُس کا قاری زبانِ حال سے کہتا تھا:
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
آج اس کے برعکس صورتِ حال ہے۔ ادیب کا مزاج، اُس کا کردار اور طرزِعمل یکسر بدل گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس کے فن سے جو کلامیہ تشکیل پاتا ہے، اس میں عوامی ایڈیم نہیں ملتا اور وہ سماجی شعور سے اور سچے اور گہرے جذبے کی حرارت سے عاری نظر آتا ہے۔ ایسے میں ادب اور ادیب کو قاری بھلا کیوں کر میسر آسکتا ہے؟
اب اگر اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ آج بھی لوگ کچھ ادبی رسائل کا انتظار کرتے ہیں اور بعض ادیبوں کی کتابوں کی اشاعت کی خبر پاکر اُن کے حصول کے لیے بے چین ہو جاتے ہیں تو کم سے کم ایک بار تو اس پر غور کرنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہے اور اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ابھی ہمارے یہاں ادب اور قاری کے رشتے کا اسقاط بہرحال نہیں ہوا ہے۔ تمام تر تغیرات اور ترغیبات کے باوجود ابھی کسی نہ کسی درجے میں ادب کا ذوق اور ادب کی سماجی اثر آفرینی کا احساس باقی ہے- یعنی وہ جوہر ابھی ختم نہیں ہوا۔ بیج ابھی محفوظ ہے، جوہر ابھی زندہ ہے۔ گویا باغ پھر لگایا جا سکتا ہے، کرشمہ پھر دکھایا جا سکتا ہے۔
تاہم یہ کام اُسی وقت ممکن ہے جب ہمارا ادیب اپنی ذمے داری کا احساس پوری بردباری سے کرے، خود احتسابی کے کڑے عمل سے گزرے، اپنے سماجی کردار کو سمجھے، اپنے فن کو عوامی ایڈیم سے ہم آہنگ کرے۔ یہ سب کام تب ہو سکتے ہیں، جب سب سے پہلے منفی اور انہدامی رویوں کو ترک کرکے مثبت اور تعمیری رویوں کو فروغ دیا جائے۔ قاری کے گم ہونے اور معاشرے کے بدل جانے اور سماج میں ادب کی ضرورت کے ختم ہوجانے پر واویلا کرنے کے بجائے حقائق کو سمجھا جائے۔ اپنی کوتاہی، خامی، غیر ذمے داری اور دُنیا پرستی کے رویّے کو تسلیم کیا جائے۔
اس کے بعد اپنی اصلاح کے ذراؤ اختیار کیے جائیں۔ معاشرے میں اچھے اور زندہ ادب کی ضرورت ختم نہیں ہوئی۔ یہ ضرورت اس وقت تک ختم بھی نہیں ہوسکتی، جب تک انسان اپنے تہذیبی و تمدنی سفر کی نفی کرکے واپس جنگلوں اور غاروں کو لوٹ نہیں جاتا- لیکن، اور یہ لیکن بہت غور طلب ہے، ادب کی حیثیت اور ضرورت کو معاشرے میں دوبارہ تازہ کرنے کے لیے ادیب کو اپنا کام نئے جذبے اور تہذیبی یقین کے ساتھ ازسرِنو آغاز کرنا ہوگا۔
تاہم ان سوالات پر گفتگو سے قبل ہمیں ایک اور نکتے کو سمجھ لینا چاہیے۔ اس وقت یہ بات بین الاقوامی سطح پر امرِ واقعہ کے طور پر تسلیم کر لی گئی ہے کہ گزشتہ تین چار دہائیوں میں ادب کے مطالعے کے رُجحان میں بہ تدریج کمی واقع ہوئی ہے۔
ہمارے یہاں تو خیر ایسے جائزے اور اعداد و شمار مرتب کرنے کا کوئی خاص اہتمام نہیں پایا جاتا اور نہ ہی ایسے کوئی ادارے ہیں جو سماجی رویوں کی جانچ پرکھ کے سلسلے میں کوئی سروے وغیرہ کرتے ہیں اور جو کچھ ایسا کام کرتے بھی ہیں، وہ قابلِ اعتبار نہیں سمجھے جاتے ہیں۔ اس لیے کہ ہمارے یہاں ایسے کام اُسی وقت کیے جاتے ہیں جب کہیں سے ان کی فنڈنگ کسی خاص مقصد کے تحت اور کسی مخصوص طرزِاحساس کے فروغ کے لیے کی جاتی ہے۔ تاہم یورپ اور امریکا میں سماجی رویوں کی تبدیلی اور تخمین و ظن کا کام کرنے والے باقاعدہ ادارے ہیں جو اپنے معاشرے میں آنے والی تبدیلیوں کو نہ صرف نوٹ کرتے ہیں، بلکہ اُن کے عقب میں کارفرما محرکات کا بھی سراغ لگاتے ہیں۔
مغرب میں سماجی رُجحانات کی تبدیلی کا جائزہ لینے اور سروے کے ذریعے نتائج مرتب کرنے والے ادارے کہتے ہیں کہ وہاں ادب کے مطالعے کی کمی کے کئی اسباب دیکھے گئے ہیں، مثلاً یہ کہ اب ادب کو اتنا اہم اور مؤثر ذریعہ نہیں سمجھا جاتا، جتنا وہ پہلے تھا۔ اب خود ادیب بھی پرنٹ میڈیا سے زیادہ الیکٹرونک میڈیا کی طرف مائل ہے۔ اب لوگوں کے پاس وقت گزاری اور تفریحِ طبع کے لیے کتاب کے علاوہ دوسرے بہت سے اور نسبتاً زیادہ دل چسپ ذراؤ موجود ہیں، مثلاً یوں تو پہلے بھی ٹی وی، سنیما اور تھیٹر موجود تھے، لیکن اُن کے مخصوص اوقات اور محدود دائرے کے سبب کتاب کو فوقیت حاصل تھی۔ اب صورتِ حال بہت بدل چکی ہے اور راؤنڈ دی کلاک الیکٹرونک میڈیا کی رنگی برنگی تفریح سستے داموں میسر ہے۔
اس کے علاوہ پہلے ادیب اور شاعر اپنے کام کو مطبوعہ یعنی کتابی صورت میں پیش کرنا ہی اپنا حاصل سمجھتا ہے۔ اب یہ رویہ بھی بدل چکا ہے۔ آج کا ادیب شاعر اظہاریت پسندی کی طرف اس طرح مائل نظر آتا ہے کہ وہ خود کو تحریر تک محدود نہیں رکھنا چاہتا، بلکہ ادب کی سماجیات کو ضروری خیال کرتا ہے۔ اس کے لیے وہ سوشل میڈیا کے وسیع نیٹ ورک کو زیادہ بہتر اور مؤثر دیکھتے ہوئے اس پر مصروف ہوگیا ہے۔ اس کے علاوہ ریڈنگ اور پوئٹری سیشن اور سیمینارز اور کانفرنسز کے تناسب میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اجمالاً یہ تو ہوئے اہلِ مغرب کے خیالات، اب ذرا ہمیں اپنے زاویے سے بھی اس مسئلے پر غور کرنا چاہیے۔
اس وقت دنیا کا ایک بڑا حصہ جس میں ہم بھی شامل ہیں، خصوصاً جسے نوآبادیاتی دنیا کہہ سکتے ہیں یا کہ ترقی پذیر خطّے اور محکوم اقوام- یہ سب کنزیومر سوسائٹی کے درجے میں رکھے جاتے ہیں۔ جہانِ اوّل یا ترقی یافتہ ممالک اس یک قطبی دنیا میں اس بڑی آبادی کو آج بھی جغرافیائی طور پر نہ سہی مگر ذہنی، فکری اور مالیاتی لحاظ سے اپنی نوآبادیات ہی کے درجے میں رکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے وہ ایسے سب ذراؤ اور طریقہ ہائے کار وضع اور اختیار کرتے ہیں کہ اُن کی یہ برتری اور تسلّط ہر ممکن قائم رہے۔
اس کا سب سے مؤثر ہتھیار تو یقیناً مارکیٹ اکانومی اور مارکیٹنگ اسٹریٹی جیز ہیں اور اگر کہیں کسی وجہ سے یہ ہتھیار کارگر نہ رہے تو پھر انتشار، فساد اور اسلحے کا استعمال کارآمد ثابت ہوتا ہے۔ تاہم دوسرے ذراؤ میں الیکٹرونک اور سوشل میڈیا بے حد اہم اور سریع الاثر نظر آتے ہیں۔ ان کے ذریعے آج کی دنیا کا ایک بڑا حصہ نوآبادیات ہی میں تبدیل ہوچکا ہے۔ یہ دونوں ذراؤ اس نوآبادیات کے افراد کو غیر محسوس انداز میں، مگر بے حد کامیابی کے ساتھ بے شناخت اور بے اقدار گروہ میں تبدیل کر رہے ہیں- ایک ایسے ہجوم میں جو ثقافتی نشان اور تہذیبی ضابطے ہی سے نہیں، بلکہ اپنے انفرادی و انسانی جوہر سے بھی بے تعلق ہو کر محض ایک روبوٹین انداز کی بے حس، لیکن بہ ظاہر رنگین نظر آنے والی زندگی کی طرف مائل ہو رہا ہے۔
یہاں پہلا سوال یہ ہے کہ افراد کا یہ گروہ از خود اس طرزِزیست کی طرف مائل ہے یا اُسے کسی قاعدے سے اس راہ پر گام زن کیا جا رہا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ انبوہِ عالم کی قلبِ ماہیت کے ایسے کام ازخود نہیں ہوا کرتے، بلکہ ان کے پس منظر میں کوئی مقصد اور اس کے لیے ایک حکمتِ عملی ضرور ہوتی ہے۔ سو اس وقت بھی انسانوں کی اس بڑی آبادی کو مشینی زندگی کی طرف راغب کرنے کا یہ سارا عمل دیدہ دانستہ اور ایک مقصد کے تحت ہے۔ بادی النظر میں اگرچہ ایسا محسوس نہیں ہوتا اور یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ سب کچھ ایک فطری انداز میں اور وقت کے تغیر کے تحت ہورہا ہے۔ فی الاصل ایسا نہیں ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کے ذراؤ وسیع پیمانے پر مؤثر انداز سے استعمال کیے جا رہے ہیں۔
غور کیا جائے تو یہ بات بہرحال سمجھی جاسکتی ہے کہ اس انبوہِ افراد کو سنبھالا ہی اُس وقت جا سکتا ہے، جب اس کے ذہن اور اعصاب کو ایک متعینہ ضابطے (Code) کا پابند کردیا جائے اور وہ چوبیس گھنٹے کا دن ذہن کے خلیوں اور اعصابی ریشوں کو طے شدہ سانچے میں مصروف رکھ کر گزار سکے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس انبوہ کے لیے ایک ایسا دائرہ بنایا جائے جس میں یہ چوبیس گھنٹے، ہفتے کے سات، مہینے کے تیس اور سال کے تین سو پینسٹھ دن اور اسی طرح ستّر اسّی برس کی زندگی محویت کے ساتھ گزار سکے۔
یہ واردات ادب پڑھنے والوں کے ساتھ کر گزرنا اوّل تو ممکن ہی نہیں اور اگر ہو بھی تو ہزار دشواریوں کے ساتھ ہوگا اور پھر بھی اس طرح کے یقینی نتائج کی ضمانت نہیں دی جاسکتی، جیسے الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کے ذراؤ کے حوالے سے دی جا سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ادب لاکھ تفریح کا سامان رکھتا ہو، مگر بہرحال ایک ذہنی سرگرمی ہے۔ ادب پڑھنے والا ذہن سوالات سے دوچار ہوتا ہے، مسائل پر سوچتا ہے، گرد و پیش کو دیکھ کر مضطرب ہوتا ہے اور آتے وقت کے قدموں کی چاپ پر غور کرتا ہے۔ یہ ذہن آسودگی کی پینک میں کیوں کر رہ سکتا ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور بہت اہم مسئلہ یہ ہے کہ الیکٹرونک اور سوشل میڈیا نے بہ ظاہر دنیا کی طنابیں کس دی ہیں۔ جغرافیائی اور زمینی فاصلے سمٹ گئے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ افراد اپنی اپنی ذاتی زندگی میں اس طرح اور اس درجہ کھو گئے ہیں کہ وجودی سطح پر قریب رہنے والے دو افراد کے درمیان بھی براعظموں کا فاصلہ در آیا ہے۔
احساس میں مشارکت کا رشتہ مکمل طور سے ختم نہیں ہوا تو اتنا کم زور ضرور ہوگیا ہے کہ روز و شب کے ایک بڑے دورانیے میں اس کے ہونے کی طرف دھیان تک نہیں جاتا، جب کہ ادب کا معاملہ یہ تھا کہ پابلو نرودا کی شاعری پڑھ کر پاکستانی قاری اس کے تجربے میں شریک ہوتا تھا، چیکوسلواکیا کے میلان کنڈیرا کو پڑھ کر امریکا کا قاری اعصاب شکنی محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا تھا اور شمالی امریکا کے مقامی باشندوں کی نظمیں اور گیت پڑھ کر بنگالی باشندے ریڑھ کی ہڈی میں ٹھنڈک اُترتی محسوس کرتے تھے اور روس کے آئنسووچ کے ایک دن کی رُوداد میں ہندوستانی قاری کو اپنے روزمرہ معمولات کا عکس نظر آتا تھا۔
ایسا کس لیے ہوتا تھا؟ یہ اصل میں ادب میں منتقل کیے جانے والے احساس کی تاثیر تھی۔ زمینی فاصلوں کی حقیقت اپنی جگہ، لیکن ادب کا رشتہ قاری اور ادیب کے درمیان جغرافیائی فاصلوں کی نفی کر دیتا ہے اور یوں ادیب اور قاری ایک ہی دنیا میں سانس لیتے نظر آتے ہیں۔ گویا ادب کے ذریعے ایک انسان سے دوسرے انسان کی ذہنی، قطبی اور جذباتی قربت کا تصور آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ ایسے میں اس مسئلے کو سمجھا جا سکتا ہے کہ اس یک قطبی دنیا کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں رکھنے کی خواہاں قوتوں کے لیے ادب بھلا کیوں کر مفیدِ مطلب ہو سکتا ہے۔ یوں ان دہائیوں میں ادب سے لوگوں کی توجہ کا ہٹ جانا محض وقت کے تغیر کا عمل نہیں ہے، بلکہ اس کے پس منظر میں ایک باضابطہ حکمتِ عملی کار فرما ہے۔ یہ حکمتِ عملی یقیناً کچھ نتائج کے حصول کے لیے بہت سوچ سمجھ کر اختیار کی گئی ہے۔ یہ تو ہوئی عالمی سطح کے فینومینا کی ایک اجمالی تفہیم، اب آئیے مقامی حقائق کی طرف۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جانا چاہیے کہ ہمارے یہاں کتاب بینی اور مطالعۂ ادب کے ذوق میں عوامی سطح پر کمی واقع ہوئی ہے، بلکہ ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اس کے چند در چند اسباب ہیں۔ ان میں کچھ عالمی اثرات کے زائیدہ ہیں، جن کا ذکر سطورِ گذشتہ میں کیا گیا۔ یہ اثرات ہمارے یہاں زیادہ بوقلموں اور گہرے اس لیے ظاہر ہو رہے ہیں کہ ہم پہلے ہی مارگزیدہ ہیں۔ ہمارے یہاں نوآبادیاتی طرزِحیات کی پیدا کردہ اجتماعی ذہنی ساخت ابھی بدلی نہ تھی کہ ہم پھر اب اس نئی سامراجیت کے چنگل میں آگئے۔ ماجرا وہی ہوا کہ تابہ تریاق از عراق آوردہ شود۔۔۔ یہ حقیقت ہے کہ غلامی ختم ہونے سے زیادہ بڑی مشکل دراصل غلامانہ ذہنیت کا ختم ہونا ہے۔
ہمارے ساتھ یہی مشکل پیش آئی۔ اس پر مستزاد ہمارے اپنے ذاتی، اجتماعی، تہذیبی، تعلیمی اور ادبی رویوں کا افتراق۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے یہاں سماج کی صورت گری کرنے والے ادارے نہ تھے۔ یقیناً تھے اور انھوں نے ماضی میں ہماری تہذیبی اور معاشرتی زندگی میں اپنا کردار بھی ادا کیا ہے۔ ندوۃ العلما، علی گڑھ، دیوبند اور اعظم گڑھ وغیرہ ہماری ذہنی اور فکری زندگی کے روشن حوالے ہیں۔ تاہم آہستہ آہستہ اور غیرمحسوس انداز میں ایسے سب اداروں کو ناکارہ یا بے اثر بنانے کا عمل ہوا۔ اب ہمارے یہاں ادارے تو بہت سے ہیں، پہلے کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہیں، لیکن افرادِ معاشرہ کی ذہنی و فکری تربیت اور کردار سازی سے انھیں کچھ ایسا سروکار نہیں ہے۔
ہمارے یہاں اداروں کے علاوہ افراد کا انفرادی کردار بھی معاشرتی رویوں کی تشکیل میں بہت کارآمد اور اثر انگیز رہا ہے۔ یہ افراد اپنی ذات میں اداروں کا اور انجمن کا درجہ رکھتے اور شمعِ فروزاں کی طرح نور بانٹتے آئے ہیں۔ آج ہمارا معاشرہ اس حوالے سے بھی تہی دامن نظر آتا ہے۔ ایسے افراد باید و شاید ہی نظر پڑتے ہیں کہ جن کی ذات اثر آفرینی کا کوئی دائرہ رکھتی ہو۔ اگر کوئی ہے بھی تو اُس کا عالم یہ ہے کہ معاشرہ، تہذیب اور نظامِ حیات کوئی بھی اُسے کمک نہیں پہنچا رہا، اور وہ عالمی سامراجی طاقتوں اور اُن کے سارے ذراؤ، ہتھیاروں اور ہتھکنڈوں کے خلاف بالکل ذاتی حیثیت اور بہت محدود دائرے میں نبرد آزما ہے۔ ایسے میں کن نتائج کی توقع کی جا سکتی ہے؟ کیا معاشرہ اور اس کے افراد تفریح اور آسائش کو چھوڑ کر کسی ادب جیسی قدرے سنجیدہ اور ذہنی سرگرمی کی طرف مائل ہوں گے؟
اس صورتِ حال میں رہی سہی کسر خود ہمارے ادیب اور شاعر نے پوری کردی ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ اب وہ خود بھی عام آدمی سے زیادہ ان تفریحات و مرغوبات کی طرف لپکتا نظر آتا ہے، اور اس طرح کہ اُسے اب اپنے کردار، اپنی حیثیت اور اپنی ذمے داری کسی شے کی کچھ زیادہ پروا نہیں رہی۔ خیال رہے کہ یہاں جو بات کی جارہی ہے وہ ایک عمومی رویّے کو سامنے رکھتے ہوئے کی جارہی ہے، مستثنیات اپنی جگہ ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم دیکھ سکتے ہیں، آج ہمارے ادیب کو اُس کے اپنے دل سے زیادہ یہ دنیا ٹرانس میں رکھتی ہے۔
اس لیے وہ بے تابی سے اس کی طرف بڑھتا اور اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہماری تہذیب نے جس طرز، قماش یا مزاج کا ادیب اور شاعر اب سے پہلے پیش کیا، وہ کوئی فرشتہ تو یقیناً نہیں تھا۔ انسانی ضرورتیں اور خواہشیں اس کے اندر بھی پائی جاتی تھیں۔ وہ بشری کم زوریوں سے بھی مبرا نہیں تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان سب کے باوجود ذہنی و فکری سطح پر وہ عمومی لحاظ سے قدرے بلند نظر آتا تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے مزاج میں دنیا سے بے نیازی پائی جاتی تھی۔ دنیا اسے مطلوب تو تھی مگر صرف بہ قدرِ ضرورت، اس سے زیادہ نہیں۔ علاوہ ازیں اُسے یہ احساس بھی ہمہ وقت رہتا تھا کہ وہ اپنے سماج کے لیے مثال کا درجہ رکھتا ہے۔
چناں چہ اپنے جذبہ و فکر کے اظہار اور اپنے تہذیبی و ثقافتی کلامیے کے معاملے میں وہ ہمیشہ محتاط اور ذمے دار نظر آتا تھا۔ اس کا اپنے سماج سے رشتہ گہرا اور قلبی تھا۔ انسانی اقدار سے اس کی وابستگی غیرمشروط تھی۔ یہی وہ سب باتیں تھیں کہ جن کے زیرِاثر اُس کے اندر ایک ایسی قوت پیدا ہوجاتی تھی جو اُس کے عمومی مشاہدے کو بیان کرتے ہوئے احساس کی سطح پر زندہ تجربے میں ڈھال دیتی تھی۔ یوں جب وہ اپنا تخلیقی تجربہ معاشرے کو پیش کرتا تھا تو اُس کے افسانے، ناول، غزل، نظم یا گیت کو پڑھ کر اُس کا قاری زبانِ حال سے کہتا تھا:
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
آج اس کے برعکس صورتِ حال ہے۔ ادیب کا مزاج، اُس کا کردار اور طرزِعمل یکسر بدل گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس کے فن سے جو کلامیہ تشکیل پاتا ہے، اس میں عوامی ایڈیم نہیں ملتا اور وہ سماجی شعور سے اور سچے اور گہرے جذبے کی حرارت سے عاری نظر آتا ہے۔ ایسے میں ادب اور ادیب کو قاری بھلا کیوں کر میسر آسکتا ہے؟
اب اگر اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ آج بھی لوگ کچھ ادبی رسائل کا انتظار کرتے ہیں اور بعض ادیبوں کی کتابوں کی اشاعت کی خبر پاکر اُن کے حصول کے لیے بے چین ہو جاتے ہیں تو کم سے کم ایک بار تو اس پر غور کرنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہے اور اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ابھی ہمارے یہاں ادب اور قاری کے رشتے کا اسقاط بہرحال نہیں ہوا ہے۔ تمام تر تغیرات اور ترغیبات کے باوجود ابھی کسی نہ کسی درجے میں ادب کا ذوق اور ادب کی سماجی اثر آفرینی کا احساس باقی ہے- یعنی وہ جوہر ابھی ختم نہیں ہوا۔ بیج ابھی محفوظ ہے، جوہر ابھی زندہ ہے۔ گویا باغ پھر لگایا جا سکتا ہے، کرشمہ پھر دکھایا جا سکتا ہے۔
تاہم یہ کام اُسی وقت ممکن ہے جب ہمارا ادیب اپنی ذمے داری کا احساس پوری بردباری سے کرے، خود احتسابی کے کڑے عمل سے گزرے، اپنے سماجی کردار کو سمجھے، اپنے فن کو عوامی ایڈیم سے ہم آہنگ کرے۔ یہ سب کام تب ہو سکتے ہیں، جب سب سے پہلے منفی اور انہدامی رویوں کو ترک کرکے مثبت اور تعمیری رویوں کو فروغ دیا جائے۔ قاری کے گم ہونے اور معاشرے کے بدل جانے اور سماج میں ادب کی ضرورت کے ختم ہوجانے پر واویلا کرنے کے بجائے حقائق کو سمجھا جائے۔ اپنی کوتاہی، خامی، غیر ذمے داری اور دُنیا پرستی کے رویّے کو تسلیم کیا جائے۔
اس کے بعد اپنی اصلاح کے ذراؤ اختیار کیے جائیں۔ معاشرے میں اچھے اور زندہ ادب کی ضرورت ختم نہیں ہوئی۔ یہ ضرورت اس وقت تک ختم بھی نہیں ہوسکتی، جب تک انسان اپنے تہذیبی و تمدنی سفر کی نفی کرکے واپس جنگلوں اور غاروں کو لوٹ نہیں جاتا- لیکن، اور یہ لیکن بہت غور طلب ہے، ادب کی حیثیت اور ضرورت کو معاشرے میں دوبارہ تازہ کرنے کے لیے ادیب کو اپنا کام نئے جذبے اور تہذیبی یقین کے ساتھ ازسرِنو آغاز کرنا ہوگا۔