اسٹریٹ کرمنلز کے خلاف کریک ڈاؤن کی ضرورت
شہر میں اسٹریٹ کرمنلز دندناتے پھرتے اور دن دہاڑے شہریوں کو گن پوائنٹ پر لوٹ کر فرار ہو جاتے ہیں
KUWAIT CITY:
سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس منیب اختر کی سربراہی میں2 رکنی بنچ نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو عہدے پر کام جاری رکھنے کاحکم دیا ہے جب کہ تقرریوں اور تبادلوں سے متعلق حکومت سندھ کے دونوں نوٹیفکیشن کالعدم قراردے دیے، عدالت کا کہنا ہے کہ محکمہ پولیس میں پی ایس پی افسران سمیت ہر سطح کی تقرری و تبادلے کا اختیار آئی جی سندھ کے پاس ہے جب کہ آئی جی سندھ کے جاری کردہ احکام پر عملدرآمد سندھ حکومت کے تمام محکموں پر لازم ہے، جمعرات کو عدالت عالیہ نے98 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں حکم دیا کہ سندھ بزنس رولز1986ء میں آئی جی سندھ کی مدت ملازمت کا طریقہ کار موجود ہے۔ عدالت عالیہ کے اس فیصلہ کے سیاق و سباق میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کا پیغام مضمر ہے اور اس سے سندھ حکومت کے لیے صوبے میں پولیس کی کارکردگی اور اس ادارے کے استحکام پر توجہ دینے کی گنجائش پیدا ہو گئی ہے، پولیس میں دھماچوکڑی صوبے کے مفاد میں نہیں، تاہم آئی جی سندھ اور صوبائی حکومت کے درمیان مستقل چپقلش اور کشیدگی سے پولیس کے حفظ مراتب کا پورا ڈھانچہ شدید دباؤ کا شکار ہو گیا تھا اور شہر قانون شکنوں کے نرغہ میں تھا، جب کہ کراچی کو اسٹریٹ کرمنلز کے رحم و کرم پر چھوڑنا کوئی دانشمندی نہیں، حقیقت یہ ہے کہ صوبہ کی سب سے بنیادی ضرورت شہر قائد میں امن و استحکام، جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کراچی آپریشن کے تحت نتیجہ خیز کریک ڈاؤن اور اسٹریٹ کرمنلز کو عدالتوں سے فوری سزائیں دلانے کے لیے مضبوط اور شفاف پراسیکیوشن سسٹم کو یقینی بنانے کی ہے۔
اس وقت صورتحال دگرگوں ہے، شہر میں اسٹریٹ کرمنلز دندناتے پھرتے اور دن دہاڑے مصروف بازاروں، بسوں، کوچز اور شاہراہوں پر ٹریفک جام کے دوران شہریوں کو گن پوائنٹ پر لوٹ کر فرار ہو جاتے ہیں، کئی گینگز پولیس سے ملے ہوئے بھی ہوتے ہیں، بینک ڈکیتیوں کی وارداتوں کے ملزم پکڑے نہیں جاتے، خواتین سے پرس، نقدی اور موبائل فون چھیننا معمول بن چکا ہے، گزشتہ روز اینٹی وائلنٹ کرائم سیل کی پولیس نے گلشن حدید میں ایک مبینہ مقابلے میں 2 اغوا کاروں کو ہلاک جب کہ ایک زخمی اغوا کار اور اس کے بیٹے کو گرفتار کر کے مغوی کو بحفاظت بازیاب کرا لیا، ملزمان نے تاجر گھرانے کے نوجوان مسعود فیروز کو15 دن قبل دھورا جی سے اغوا کیا اور15 کروڑ روپے تاوان مانگا تھا۔ لہٰذا صائب اقدام یہی ہے کہ اب سندھ حکومت پولیس فورس کی تعمیر نو کرے تا کہ وہ اسٹریٹ کرمنلز کے خلاف یکسوئی سے کارروائی کر کے شہریوں کو تحفظ کا مکمل احساس دلا سکے۔
سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس منیب اختر کی سربراہی میں2 رکنی بنچ نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو عہدے پر کام جاری رکھنے کاحکم دیا ہے جب کہ تقرریوں اور تبادلوں سے متعلق حکومت سندھ کے دونوں نوٹیفکیشن کالعدم قراردے دیے، عدالت کا کہنا ہے کہ محکمہ پولیس میں پی ایس پی افسران سمیت ہر سطح کی تقرری و تبادلے کا اختیار آئی جی سندھ کے پاس ہے جب کہ آئی جی سندھ کے جاری کردہ احکام پر عملدرآمد سندھ حکومت کے تمام محکموں پر لازم ہے، جمعرات کو عدالت عالیہ نے98 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں حکم دیا کہ سندھ بزنس رولز1986ء میں آئی جی سندھ کی مدت ملازمت کا طریقہ کار موجود ہے۔ عدالت عالیہ کے اس فیصلہ کے سیاق و سباق میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کا پیغام مضمر ہے اور اس سے سندھ حکومت کے لیے صوبے میں پولیس کی کارکردگی اور اس ادارے کے استحکام پر توجہ دینے کی گنجائش پیدا ہو گئی ہے، پولیس میں دھماچوکڑی صوبے کے مفاد میں نہیں، تاہم آئی جی سندھ اور صوبائی حکومت کے درمیان مستقل چپقلش اور کشیدگی سے پولیس کے حفظ مراتب کا پورا ڈھانچہ شدید دباؤ کا شکار ہو گیا تھا اور شہر قانون شکنوں کے نرغہ میں تھا، جب کہ کراچی کو اسٹریٹ کرمنلز کے رحم و کرم پر چھوڑنا کوئی دانشمندی نہیں، حقیقت یہ ہے کہ صوبہ کی سب سے بنیادی ضرورت شہر قائد میں امن و استحکام، جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کراچی آپریشن کے تحت نتیجہ خیز کریک ڈاؤن اور اسٹریٹ کرمنلز کو عدالتوں سے فوری سزائیں دلانے کے لیے مضبوط اور شفاف پراسیکیوشن سسٹم کو یقینی بنانے کی ہے۔
اس وقت صورتحال دگرگوں ہے، شہر میں اسٹریٹ کرمنلز دندناتے پھرتے اور دن دہاڑے مصروف بازاروں، بسوں، کوچز اور شاہراہوں پر ٹریفک جام کے دوران شہریوں کو گن پوائنٹ پر لوٹ کر فرار ہو جاتے ہیں، کئی گینگز پولیس سے ملے ہوئے بھی ہوتے ہیں، بینک ڈکیتیوں کی وارداتوں کے ملزم پکڑے نہیں جاتے، خواتین سے پرس، نقدی اور موبائل فون چھیننا معمول بن چکا ہے، گزشتہ روز اینٹی وائلنٹ کرائم سیل کی پولیس نے گلشن حدید میں ایک مبینہ مقابلے میں 2 اغوا کاروں کو ہلاک جب کہ ایک زخمی اغوا کار اور اس کے بیٹے کو گرفتار کر کے مغوی کو بحفاظت بازیاب کرا لیا، ملزمان نے تاجر گھرانے کے نوجوان مسعود فیروز کو15 دن قبل دھورا جی سے اغوا کیا اور15 کروڑ روپے تاوان مانگا تھا۔ لہٰذا صائب اقدام یہی ہے کہ اب سندھ حکومت پولیس فورس کی تعمیر نو کرے تا کہ وہ اسٹریٹ کرمنلز کے خلاف یکسوئی سے کارروائی کر کے شہریوں کو تحفظ کا مکمل احساس دلا سکے۔