میں میں میں
اصل میں ایسے انسانوں کو ’’میں ‘‘ سے اس قدرمحبت ہو جاتی ہے کہ انھیں پھر ’’میں‘‘ کے علاوہ اور کچھ سجھائی ہی نہیں دیتا ہے
انسان ساری عمر اپنے حالات اور ماحول سے باہر نہیں نکل پاتا اور عمر بھر انھی کے ہاتھوں قید رہتا ہے۔ حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے دو ہزاردو سو برس پہلے بادشاہ مصرا خطوی نے اپنے فرزند کو جو نصیحت کی تھی اس کی آج پہلے سے بھی زیادہ اہمیت ہے، خصوصاً ہمارے ملک کے سیاسی اہم کرداروں کے لیے یہ تو سب سے زیادہ اہم ہے۔
اس ضعیف العمر بادشاہ نے آج سے چار ہزار سال پہلے اپنے فرزند سے کہا تھا ''اپنے مقصد میں کامیاب ہونا چاہتے ہو تو تدبیر سے کام لو '' ہم سب بہت کم عقل کا پورا پورا استعمال کرتے ہیں ہم میں سے اکثر لوگ متعصب اور جانبدار ہیں وہ پہلے ہی سے اپنے من گھڑت نظریات ، حسد، شبہات ، خوف ، رشک اور غرور سے بھرے ہوتے ہیں اور وہ اپنی رائے بدلنے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتے ہیں ، انھیں ہر روز ناشتے سے پہلے پروفیسر جیمس ہاروے راہسنن کی کتاب '' ذہن کی نشوونما '' کا مندرجہ ذیل پیرا گراف کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے '' اکثر اوقات ہم کسی مزاحمت یا شدید احساس کے بغیر اپنے خیالات و نظریات بدلتے رہتے ہیں لیکن اگر ہم سے کہا جائے کہ ہمارا نظریہ یا خیال غلط ہے اور ہمیں اسے بدلنا چاہیے تو ہم اس الزام کا بہت برا مانتے ہیں اور اپنے دلوں کو سخت کرلیتے ہیں۔
ہم اپنے نظریے یا عقیدے بڑی لاپرواہی سے اخذ کرتے اور بناتے ہیں لیکن اگر کوئی ہمیں ان سے محروم کرنا چاہے تو ہمیں یہ جان سے بھی زیادہ عزیز محسوس ہوتے ہیں اور ہم ان سے جدا ہونا کسی قیمت پر پسند نہیں کرتے ۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے خیالات اتنے عزیز نہیں ہوتے ، لیکن ہمیں اپنی عزت نفس کا پاس ہوتا ہے ''
انسانی تاریخ میں ایک ادنیٰ سے لفظ ''میں'' کو بہت اہمیت حاصل رہی ہے اور ان گنت انسانوں کی پوری زندگی کبھی 'میں ' سے آگے ہی نہیں بڑھی اور نہ ہی انھوں نے کبھی '' میں ''سے آگے دیکھنے کی کوشش کی۔ اصل میں ایسے انسانوں کو ''میں '' سے اس قدرمحبت ہو جاتی ہے کہ انھیں پھر ''میں'' کے علاوہ اور کچھ سجھائی ہی نہیں دیتا ہے، ان کی ساری زندگی صرف ''میں '' کے گرد ہی گھومتی رہتی ہے، کنویں کے مینڈک کی طرح ۔ اسے ہم اپنی خوش نصیبی کہیں یا بد قسمتی کہ ہماری ملکی تاریخ کے اہم سیاسی کرداروں کی اکثریت اسی '' میں '' کی پجاری رہی ہے اور آج بھی ہمیں ایسے ہی لاتعداد پجاریوں سے پالا پڑا ہوا ہے نجانے کیوں خدا نے '' میں '' کے تمام کے تمام پجاریوں کو ہمارے ہی نصیب میں لکھ دیا ہے۔
آپ کسی روز اور کچھ نہ کریں صرف شام 6 بجے سے لے کر رات بارہ بجے تک ٹی وی کے سامنے بیٹھ جائیں اور ان چھ گھنٹوں میں آپ ملک کے تمام سیاسی اور حکومتی کرداروں کے بیانات ان کی ٹاک شو میں گفتگو ، ان کے پبلک جلسوں کے خطاب کا بغور معائنہ کرکے دیکھ لیں ان چھ گھنٹوں کے دوران آپ اتنی مرتبہ ان کے منہ سے '' میری حکومت ، میرے بچے ، میرا خاندان ، میرا کاروبار ، میری قربانی ، میری جدوجہد ، میرے عوام، میں نے یہ کر دیا میں نے وہ کردیا ، مجھ سے پہلے ملک دیوالیہ ہونے والا تھا ، میں نہ ہوتا تو پتہ نہیں کیا ہوجاتا، میری پالیسیاں ، میرے کارنامے ، مجھے کیوں نکالا ، اب میں ملک کو چلنے نہیں دوں گا ، میں سب سے زیادہ طاقتور ہوں، میرے بغیر ملک تباہ ہوجائیگا ، میں دوبارہ وزیراعظم بنوں گا، میرے بچے ہی میرے بعد حکومت کریں گے ، میری بیوی الیکشن میں تاریخ ساز کامیابی حاصل کریگی۔ ''میں ، میں میں ، میں '' سنیں گے کہ آپ بھی اسی مرض ' ' میں '' کاشکار ہوچکے ہونگے اور پھر آپ کہیں کے بھی نہیں رہیں گے ۔ کیونکہ آپ بھی اپنی ہر بات کا آغاز ان کی طرح ' 'میں'' سے ہی کررہے ہونگے۔
آئیں یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر '' میں '' کا مرض ہے کیا اور یہ کن لوگوں کو مرض لاحق ہوتا ہے ؟ اس بات پر تو تقریبا تمام ماہرین نفسیات متفق ہیں کہ احساس کمتری یا بچپن کی محرومیوں میں مبتلا لوگ مرض ''میں''میں مبتلا ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ اپنے آپ کو جتنا مکمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اتنا ہی اپنے اندر اور محرومیوں کو جنم دیتے رہتے ہیں وہ پھر کوشش کرتے ہیں لیکن نئی محرومیاں اور جنم لے لیتی ہیں، اسی کشمکش میں ان کی ساری زندگی گزرتی رہتی ہے وہ دوسروں کے سامنے اپنے آپ کو مکمل ثابت کرنے کے لیے اپنی ہر بات کا آغاز اور اختتام '' میں'' پر کرتے ہیں اور ساری زندگی اس کشمکش کا جرمانہ بھرتے رہتے ہیں۔ پریشانیوں اور الجھنوں میں اس طرح گرفتار ہوجاتے ہیں کہ پھر کسی بھی طرح انھیں رہائی مل ہی نہیں پاتی ہے۔
ولیمز جیمز لکھتا ہے '' خدا ہمارے گناہ بخش سکتا ہے لیکن اعصابی نظام کبھی معاف نہیں کرتا '' ۔ جب چین کے ظالم جنگی رہنما اپنے قیدیوں کو ستانا اوراذیت دینا چاہتے تھے تو وہ ان کے ہاتھ اور پاؤں باندھ کر پانی کے ایک ٹب کے نیچے بٹھا دیتے تھے جس سے مسلسل قطرہ قطرہ پانی ٹپکتا رہتا تھا ۔۔۔ ٹپ ۔ ٹپ، ٹپ ۔۔۔ دن رات ٹپکتا تھا پانی کے یہ قطرات سر پر متواتر ٹپکنے سے ایسا معلوم ہونے لگتا تھا جیسے ہتھوڑے کی ضربیں پڑرہی ہوں اس طریق کار سے لوگوں کے ہوش و حواس زائل ہوجاتے تھے۔ اذیت کا یہ ہی طریقہ ہسپانوی احتساب و ہٹلر کے جرمن اجتماعی کیمپوں میں اختیار کیا گیا تھا۔
پریشانیاں اور الجھنیں اور محرومیاں قطرہ قطرہ پانی کے ٹپکنے کے مانند ہیں اور ان کی مسلسل ٹپ ٹپ انسانوں کو جنون کی طرف دھکیل دیتی ہیں اور انسان پھر ''میں ، میں ، میں ، میں کرنا شروع ہوجاتا ہے ہم میں سے کوئی بھی انسان مکمل نہیں ہے اور نہ ہی ہوسکتا ہے ہم سب اپنی اپنی محرومیوں کے ساتھ نہ صرف زندہ رہتے ہیں بلکہ خوش اور چین سے بھی رہتے ہیں اور دوسروں کا جینا بھی حرام نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی من گھڑت نظریات، حسد، خوف اور غرور میں بھرتے ہوئے ہوتے ہیں۔
اس معاملے میں تمام نارمل انسان یکساں ہیں مرض '' میں '' میں مبتلا لوگوں کو یہ بات سمجھنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ '' میں'' نہ صرف یہ کہ خدا کو سخت نا پسند ہے بلکہ اس کے بندے بھی اس لفظ کو سخت نا پسند کرتے ہیں کیونکہ ہم میں سے کوئی بھی نا گزیر نہیں ہے اور دوسرے یہ کہ ہمارے پاس غرور و تکبر کرنے کے لیے آخر ہے ہی کیا۔ یاد رہے سب کچھ فانی ہے صرف خدا کی ذات لافانی ہے اس لیے '' میں'' کے مرض میں مبتلا لوگ پہلی فرصت میں اپنا علاج کروانا شروع کر وا دیں تاکہ انھیں بھی چین اور سکون مل سکے اور ان کی وجہ سے بے چین اور بے سکون ہونے والے بھی چین اور سکون حاصل کر سکیں۔
اس ضعیف العمر بادشاہ نے آج سے چار ہزار سال پہلے اپنے فرزند سے کہا تھا ''اپنے مقصد میں کامیاب ہونا چاہتے ہو تو تدبیر سے کام لو '' ہم سب بہت کم عقل کا پورا پورا استعمال کرتے ہیں ہم میں سے اکثر لوگ متعصب اور جانبدار ہیں وہ پہلے ہی سے اپنے من گھڑت نظریات ، حسد، شبہات ، خوف ، رشک اور غرور سے بھرے ہوتے ہیں اور وہ اپنی رائے بدلنے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتے ہیں ، انھیں ہر روز ناشتے سے پہلے پروفیسر جیمس ہاروے راہسنن کی کتاب '' ذہن کی نشوونما '' کا مندرجہ ذیل پیرا گراف کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے '' اکثر اوقات ہم کسی مزاحمت یا شدید احساس کے بغیر اپنے خیالات و نظریات بدلتے رہتے ہیں لیکن اگر ہم سے کہا جائے کہ ہمارا نظریہ یا خیال غلط ہے اور ہمیں اسے بدلنا چاہیے تو ہم اس الزام کا بہت برا مانتے ہیں اور اپنے دلوں کو سخت کرلیتے ہیں۔
ہم اپنے نظریے یا عقیدے بڑی لاپرواہی سے اخذ کرتے اور بناتے ہیں لیکن اگر کوئی ہمیں ان سے محروم کرنا چاہے تو ہمیں یہ جان سے بھی زیادہ عزیز محسوس ہوتے ہیں اور ہم ان سے جدا ہونا کسی قیمت پر پسند نہیں کرتے ۔ اصل بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے خیالات اتنے عزیز نہیں ہوتے ، لیکن ہمیں اپنی عزت نفس کا پاس ہوتا ہے ''
انسانی تاریخ میں ایک ادنیٰ سے لفظ ''میں'' کو بہت اہمیت حاصل رہی ہے اور ان گنت انسانوں کی پوری زندگی کبھی 'میں ' سے آگے ہی نہیں بڑھی اور نہ ہی انھوں نے کبھی '' میں ''سے آگے دیکھنے کی کوشش کی۔ اصل میں ایسے انسانوں کو ''میں '' سے اس قدرمحبت ہو جاتی ہے کہ انھیں پھر ''میں'' کے علاوہ اور کچھ سجھائی ہی نہیں دیتا ہے، ان کی ساری زندگی صرف ''میں '' کے گرد ہی گھومتی رہتی ہے، کنویں کے مینڈک کی طرح ۔ اسے ہم اپنی خوش نصیبی کہیں یا بد قسمتی کہ ہماری ملکی تاریخ کے اہم سیاسی کرداروں کی اکثریت اسی '' میں '' کی پجاری رہی ہے اور آج بھی ہمیں ایسے ہی لاتعداد پجاریوں سے پالا پڑا ہوا ہے نجانے کیوں خدا نے '' میں '' کے تمام کے تمام پجاریوں کو ہمارے ہی نصیب میں لکھ دیا ہے۔
آپ کسی روز اور کچھ نہ کریں صرف شام 6 بجے سے لے کر رات بارہ بجے تک ٹی وی کے سامنے بیٹھ جائیں اور ان چھ گھنٹوں میں آپ ملک کے تمام سیاسی اور حکومتی کرداروں کے بیانات ان کی ٹاک شو میں گفتگو ، ان کے پبلک جلسوں کے خطاب کا بغور معائنہ کرکے دیکھ لیں ان چھ گھنٹوں کے دوران آپ اتنی مرتبہ ان کے منہ سے '' میری حکومت ، میرے بچے ، میرا خاندان ، میرا کاروبار ، میری قربانی ، میری جدوجہد ، میرے عوام، میں نے یہ کر دیا میں نے وہ کردیا ، مجھ سے پہلے ملک دیوالیہ ہونے والا تھا ، میں نہ ہوتا تو پتہ نہیں کیا ہوجاتا، میری پالیسیاں ، میرے کارنامے ، مجھے کیوں نکالا ، اب میں ملک کو چلنے نہیں دوں گا ، میں سب سے زیادہ طاقتور ہوں، میرے بغیر ملک تباہ ہوجائیگا ، میں دوبارہ وزیراعظم بنوں گا، میرے بچے ہی میرے بعد حکومت کریں گے ، میری بیوی الیکشن میں تاریخ ساز کامیابی حاصل کریگی۔ ''میں ، میں میں ، میں '' سنیں گے کہ آپ بھی اسی مرض ' ' میں '' کاشکار ہوچکے ہونگے اور پھر آپ کہیں کے بھی نہیں رہیں گے ۔ کیونکہ آپ بھی اپنی ہر بات کا آغاز ان کی طرح ' 'میں'' سے ہی کررہے ہونگے۔
آئیں یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر '' میں '' کا مرض ہے کیا اور یہ کن لوگوں کو مرض لاحق ہوتا ہے ؟ اس بات پر تو تقریبا تمام ماہرین نفسیات متفق ہیں کہ احساس کمتری یا بچپن کی محرومیوں میں مبتلا لوگ مرض ''میں''میں مبتلا ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ اپنے آپ کو جتنا مکمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اتنا ہی اپنے اندر اور محرومیوں کو جنم دیتے رہتے ہیں وہ پھر کوشش کرتے ہیں لیکن نئی محرومیاں اور جنم لے لیتی ہیں، اسی کشمکش میں ان کی ساری زندگی گزرتی رہتی ہے وہ دوسروں کے سامنے اپنے آپ کو مکمل ثابت کرنے کے لیے اپنی ہر بات کا آغاز اور اختتام '' میں'' پر کرتے ہیں اور ساری زندگی اس کشمکش کا جرمانہ بھرتے رہتے ہیں۔ پریشانیوں اور الجھنوں میں اس طرح گرفتار ہوجاتے ہیں کہ پھر کسی بھی طرح انھیں رہائی مل ہی نہیں پاتی ہے۔
ولیمز جیمز لکھتا ہے '' خدا ہمارے گناہ بخش سکتا ہے لیکن اعصابی نظام کبھی معاف نہیں کرتا '' ۔ جب چین کے ظالم جنگی رہنما اپنے قیدیوں کو ستانا اوراذیت دینا چاہتے تھے تو وہ ان کے ہاتھ اور پاؤں باندھ کر پانی کے ایک ٹب کے نیچے بٹھا دیتے تھے جس سے مسلسل قطرہ قطرہ پانی ٹپکتا رہتا تھا ۔۔۔ ٹپ ۔ ٹپ، ٹپ ۔۔۔ دن رات ٹپکتا تھا پانی کے یہ قطرات سر پر متواتر ٹپکنے سے ایسا معلوم ہونے لگتا تھا جیسے ہتھوڑے کی ضربیں پڑرہی ہوں اس طریق کار سے لوگوں کے ہوش و حواس زائل ہوجاتے تھے۔ اذیت کا یہ ہی طریقہ ہسپانوی احتساب و ہٹلر کے جرمن اجتماعی کیمپوں میں اختیار کیا گیا تھا۔
پریشانیاں اور الجھنیں اور محرومیاں قطرہ قطرہ پانی کے ٹپکنے کے مانند ہیں اور ان کی مسلسل ٹپ ٹپ انسانوں کو جنون کی طرف دھکیل دیتی ہیں اور انسان پھر ''میں ، میں ، میں ، میں کرنا شروع ہوجاتا ہے ہم میں سے کوئی بھی انسان مکمل نہیں ہے اور نہ ہی ہوسکتا ہے ہم سب اپنی اپنی محرومیوں کے ساتھ نہ صرف زندہ رہتے ہیں بلکہ خوش اور چین سے بھی رہتے ہیں اور دوسروں کا جینا بھی حرام نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی من گھڑت نظریات، حسد، خوف اور غرور میں بھرتے ہوئے ہوتے ہیں۔
اس معاملے میں تمام نارمل انسان یکساں ہیں مرض '' میں '' میں مبتلا لوگوں کو یہ بات سمجھنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے کہ '' میں'' نہ صرف یہ کہ خدا کو سخت نا پسند ہے بلکہ اس کے بندے بھی اس لفظ کو سخت نا پسند کرتے ہیں کیونکہ ہم میں سے کوئی بھی نا گزیر نہیں ہے اور دوسرے یہ کہ ہمارے پاس غرور و تکبر کرنے کے لیے آخر ہے ہی کیا۔ یاد رہے سب کچھ فانی ہے صرف خدا کی ذات لافانی ہے اس لیے '' میں'' کے مرض میں مبتلا لوگ پہلی فرصت میں اپنا علاج کروانا شروع کر وا دیں تاکہ انھیں بھی چین اور سکون مل سکے اور ان کی وجہ سے بے چین اور بے سکون ہونے والے بھی چین اور سکون حاصل کر سکیں۔