خارجہ پالیسی میں بریک تھرو شرط ہے
پاک امریکا تعلقات میں امریکی افغان پالیسی کے وسیع تر تناظر میں چین کا صائب کرداراب مزید ابھرکرسامنےآیا ہے
پاک امریکا تعلقات میں امریکی افغان پالیسی کے وسیع تر تناظر میں چین کا صائب کردار اب مزید ابھر کر سامنے آیا ہے، اور چین نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ پاکستان کی کو خود مختاری اور سالمیت کے تحفظ کے لیے چین اپنے ''آہنی بھائی'' کے شانہ بشانہ ہے۔
چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی نے دہشتگردی کی لعنت کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مسلسل اور پختہ حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک خطے میں امن کے لیے مشترکہ کاوشیں بروئے کار لا رہے ہیں، چین انسداد دہشتگردی کے لیے پاکستان کی کاوشوں کا اعتراف کرتا ہے جب کہ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان کی علاقائی سالمیت کے لیے چین کی حمایت کو پاکستان نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، انھوں نے کہا کہ افغان مسئلہ کا فوجی حل ممکن نہیں، مسئلے کو صرف بات چیت سے حل کیا جا سکتا ہے۔
جمعے کو یہاں وزیر خارجہ خواجہ آصف اور ان کے چینی ہم منصب وانگ ژی کے درمیان تفصیلی ملاقات ہوئی، قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ، پاکستان کے سفیر مسعود خالد اور وزارت خارجہ کے سینئر حکام بھی اس موقع پر موجود تھے جس میں دوطرفہ تعلقات، افغانستان سمیت خطے کی صورت حال، دہشتگردی کے خلاف جنگ اور سی پیک منصوبوں سمیت دیگر اہم امور پر تفصیلی بات چیت کی گئی۔ بعد ازاں چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی نے وزیر خارجہ خواجہ آصف کے ہمراہ اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاک چین سدا بہار تعلقات مضبوط اور اٹوٹ ہیں، ان کا ملک پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔
عالمی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو ایک اہم ملک قرار دیتے ہوئے وانگ ژی نے دہشتگردی کے خلاف جنگ کے دوران پاکستان کی بے مثال قربانیوں کو تسلیم کیا اور بین الاقوامی برادری پر زور دیاکہ وہ انسداد دہشتگردی کے لیے پاکستانی کوششوں کا اعتراف کرے۔
عالمی مبصرین کے مطابق چین افغان صورتحال میں مصالحت اور پاک افغان تعلقات میں بہتری، باہمی اعتماد کی بحالی اور خطے میں جنگ سے احتراز کے ضمن میں اہم کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے، ایک تو سی پیک کی وجہ سے چین پاکستانی سویلین اور عسکری اسٹیبلشمنٹ سے جڑا ہوا ہے اسے امریکا کے ''علاقائی حل'' کے دفاعی پلان کا توڑ پیش کرنے کے لیے پاکستان سمیت دیگر اسلامی ملکوں کی حمایت درکار ہے، وزیر خارجہ خواجہ آصف کا مشن دوست مسلم و یورپی ملکوں سے رابطہ کر کے امریکیوں کو اس بات پر قائل کرنے میں بریک تھرو اسی وقت کر سکتا ہے جب کہ چین، روس، وسط ایشیائی ریاستیں، ترکی، سعودی عرب، مسقط، متحدہ عرب امارات، قطر، ایران، بنگلہ دیش انڈونیشیا، ملائیشیا سمیت تمام سفارتی حلقے بھی یکساں ویو لینتھ پر آ جائیں اور پاکستان کی قربانیوں کا ادراک کرنے کی عمومی امنگ پیدا ہو، برطانوی اپوزیشن لیڈر جیریمی کوربن کا بیان امریکیوں کے لیے زیتون کی شاخ کی حیثیت رکھتا ہے کہ پاکستان سے عزت کے ساتھ پیش آنا چاہیے اور اس پر باہر سے تنقید نہیں ہونی چاہیے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی افغانستان کے حوالے سے نظر ثانی شدہ پالیسی کے اعلان کے بعد دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان یہ اعلیٰ سطح کا پہلا رابطہ ہے۔ وزیر خارجہ نے پاک چین اقتصادی راہداری کے لیے مکمل سیکیورٹی فراہم کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ منصوبے کے لیے کسی قسم کے خطرے کے خلاف سخت اقدام کیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ چین دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی خدمات اور عظیم قربانیوں کا اعتراف کرتا ہے اور بین الاقوامی برادری کو بھی ان کاوشوں کا بھرپور اعتراف کرنا چاہیے۔
خواجہ آصف نے پاک چین دوستی اور اسٹرٹیجک شراکت داری و اقتصادی روابط کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے چین کے بنیادی مفاد کے حامل تمام ایشوز پر پاکستان کی بھرپور حمایت کا بھی اعادہ کیا تاہم انھوں نے زور دیتے ہوئے اس امر کی نشاندہی کی کہ پاکستان کے سیکیورٹی خدشات دور ہونا چاہئیں اور پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کیا جانا چاہیے۔ بی بی سی کے مطابق چین کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ان کا ملک پاکستان اور افغانستان کے درمیان اختلافات کو کم کرنے کی بھرپور کوشش کرے گا، ان کا کہنا تھا کہ افغانستان پر امریکی پالیسی کا ہم نے گہرا مطالعہ کیا ہے اور افغان قیادت پر مشتمل مصالحتی عمل ہی افغانستان میں امن کا ضامن ہے۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان چین اور روس سے ٹرمپ کے مخصوص انداز نظر کو مد نظر رکھتے ہوئے بلا تاخیر امریکا سے براہ راست جامع مذاکرات کا کوئی راستہ تلاش کرے تا کہ بھارت افغان پالیسی کو ترپ کا پتا سمجھتے ہوئے افغانستان میں امن کی راہ میں بارودی سرنگ بچھانے میں کامیاب نہ ہو، کیونکہ بھارت ٹرمپ انتظامیہ کو مس گائیڈ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا، اس نے امریکی تھنک ٹینکس کو بھی پاکستان سے برگشتہ کیا لہٰذا پاکستان کے لیے تاریخ ساز موقع ہے کہ وہ افغان جنگ کو پاکستان کی سرزمین پر لڑانے کی کثیر طرفہ خواہش کو ناتمام بنائے اور امریکا کو افغانستان میں جنگجویانہ مہم جوئی سے روکنے کے لیے مدبرانہ مکالمہ کا ماحول سازگار کرتے ہوئے دہشتگردی اور انتہا پسند تنظیموں سے چھٹکارے کے مسئلہ کا ٹھوس حل تلاش کرے، یہی وہ صائب مشورہ ہے جو ارباب اختیار کو دیا جا سکتا ہے تا کہ امریکا دور اندیشی سے کام لے اور خطے میں امن و استحکام پید ا ہو سکے۔
چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی نے دہشتگردی کی لعنت کے خلاف جنگ میں پاکستان کی مسلسل اور پختہ حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک خطے میں امن کے لیے مشترکہ کاوشیں بروئے کار لا رہے ہیں، چین انسداد دہشتگردی کے لیے پاکستان کی کاوشوں کا اعتراف کرتا ہے جب کہ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان کی علاقائی سالمیت کے لیے چین کی حمایت کو پاکستان نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، انھوں نے کہا کہ افغان مسئلہ کا فوجی حل ممکن نہیں، مسئلے کو صرف بات چیت سے حل کیا جا سکتا ہے۔
جمعے کو یہاں وزیر خارجہ خواجہ آصف اور ان کے چینی ہم منصب وانگ ژی کے درمیان تفصیلی ملاقات ہوئی، قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ، پاکستان کے سفیر مسعود خالد اور وزارت خارجہ کے سینئر حکام بھی اس موقع پر موجود تھے جس میں دوطرفہ تعلقات، افغانستان سمیت خطے کی صورت حال، دہشتگردی کے خلاف جنگ اور سی پیک منصوبوں سمیت دیگر اہم امور پر تفصیلی بات چیت کی گئی۔ بعد ازاں چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی نے وزیر خارجہ خواجہ آصف کے ہمراہ اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاک چین سدا بہار تعلقات مضبوط اور اٹوٹ ہیں، ان کا ملک پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔
عالمی دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو ایک اہم ملک قرار دیتے ہوئے وانگ ژی نے دہشتگردی کے خلاف جنگ کے دوران پاکستان کی بے مثال قربانیوں کو تسلیم کیا اور بین الاقوامی برادری پر زور دیاکہ وہ انسداد دہشتگردی کے لیے پاکستانی کوششوں کا اعتراف کرے۔
عالمی مبصرین کے مطابق چین افغان صورتحال میں مصالحت اور پاک افغان تعلقات میں بہتری، باہمی اعتماد کی بحالی اور خطے میں جنگ سے احتراز کے ضمن میں اہم کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے، ایک تو سی پیک کی وجہ سے چین پاکستانی سویلین اور عسکری اسٹیبلشمنٹ سے جڑا ہوا ہے اسے امریکا کے ''علاقائی حل'' کے دفاعی پلان کا توڑ پیش کرنے کے لیے پاکستان سمیت دیگر اسلامی ملکوں کی حمایت درکار ہے، وزیر خارجہ خواجہ آصف کا مشن دوست مسلم و یورپی ملکوں سے رابطہ کر کے امریکیوں کو اس بات پر قائل کرنے میں بریک تھرو اسی وقت کر سکتا ہے جب کہ چین، روس، وسط ایشیائی ریاستیں، ترکی، سعودی عرب، مسقط، متحدہ عرب امارات، قطر، ایران، بنگلہ دیش انڈونیشیا، ملائیشیا سمیت تمام سفارتی حلقے بھی یکساں ویو لینتھ پر آ جائیں اور پاکستان کی قربانیوں کا ادراک کرنے کی عمومی امنگ پیدا ہو، برطانوی اپوزیشن لیڈر جیریمی کوربن کا بیان امریکیوں کے لیے زیتون کی شاخ کی حیثیت رکھتا ہے کہ پاکستان سے عزت کے ساتھ پیش آنا چاہیے اور اس پر باہر سے تنقید نہیں ہونی چاہیے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی افغانستان کے حوالے سے نظر ثانی شدہ پالیسی کے اعلان کے بعد دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان یہ اعلیٰ سطح کا پہلا رابطہ ہے۔ وزیر خارجہ نے پاک چین اقتصادی راہداری کے لیے مکمل سیکیورٹی فراہم کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ منصوبے کے لیے کسی قسم کے خطرے کے خلاف سخت اقدام کیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ چین دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی خدمات اور عظیم قربانیوں کا اعتراف کرتا ہے اور بین الاقوامی برادری کو بھی ان کاوشوں کا بھرپور اعتراف کرنا چاہیے۔
خواجہ آصف نے پاک چین دوستی اور اسٹرٹیجک شراکت داری و اقتصادی روابط کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے چین کے بنیادی مفاد کے حامل تمام ایشوز پر پاکستان کی بھرپور حمایت کا بھی اعادہ کیا تاہم انھوں نے زور دیتے ہوئے اس امر کی نشاندہی کی کہ پاکستان کے سیکیورٹی خدشات دور ہونا چاہئیں اور پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کیا جانا چاہیے۔ بی بی سی کے مطابق چین کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ان کا ملک پاکستان اور افغانستان کے درمیان اختلافات کو کم کرنے کی بھرپور کوشش کرے گا، ان کا کہنا تھا کہ افغانستان پر امریکی پالیسی کا ہم نے گہرا مطالعہ کیا ہے اور افغان قیادت پر مشتمل مصالحتی عمل ہی افغانستان میں امن کا ضامن ہے۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان چین اور روس سے ٹرمپ کے مخصوص انداز نظر کو مد نظر رکھتے ہوئے بلا تاخیر امریکا سے براہ راست جامع مذاکرات کا کوئی راستہ تلاش کرے تا کہ بھارت افغان پالیسی کو ترپ کا پتا سمجھتے ہوئے افغانستان میں امن کی راہ میں بارودی سرنگ بچھانے میں کامیاب نہ ہو، کیونکہ بھارت ٹرمپ انتظامیہ کو مس گائیڈ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا، اس نے امریکی تھنک ٹینکس کو بھی پاکستان سے برگشتہ کیا لہٰذا پاکستان کے لیے تاریخ ساز موقع ہے کہ وہ افغان جنگ کو پاکستان کی سرزمین پر لڑانے کی کثیر طرفہ خواہش کو ناتمام بنائے اور امریکا کو افغانستان میں جنگجویانہ مہم جوئی سے روکنے کے لیے مدبرانہ مکالمہ کا ماحول سازگار کرتے ہوئے دہشتگردی اور انتہا پسند تنظیموں سے چھٹکارے کے مسئلہ کا ٹھوس حل تلاش کرے، یہی وہ صائب مشورہ ہے جو ارباب اختیار کو دیا جا سکتا ہے تا کہ امریکا دور اندیشی سے کام لے اور خطے میں امن و استحکام پید ا ہو سکے۔