کس کس کا نوحہ لکھوں
ایسا نوحہ جس میں دل کا خون اور آنسوؤں کی برسات شامل ہے
فلسطین کا نوحہ لکھوں جہاں سالہا سال سے نہتے فلسطینی بچے بڑے جن کے ہاتھوں میں پتھر ہیں، اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور ظلم کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں، ہزاروں گھر مسمار کر دیے گئے، ہنستے بستے لوگ در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوگئے۔ لیکن انھوں نے اپنی بقا کی جنگ میں ہمت نہیں ہاری، اسرائیلیوں نے زبردستی اپنے گھر بنائے اور ان کے جلتے ہوئے آشیانوں پر آباد ہونا شروع کردیا اور آج یہودیوں کی بستیوں میں بڑی حد تک اضافہ ہوچکا ہے، فلسطینی نوجوانوں کو شہید کیا جا رہا ہے، نفرت اور تعصب کی آگ پورے فلسطین میں پھیل چکی ہے لیکن اقوام متحدہ خاموش تماشائی بنا ہوا ہے، سلامتی کونسل کے ارکان نے ہونٹ سی لیے ہیں۔ گزرے برسوں میں بوسنیا میں جو انسانیت سوز کھیل کھیلا گیا اس سے پوری دنیا واقف ہے۔
کس کس کا نوحہ لکھوں۔ گجرات میں مسلمانوں سے نفرت کی بنا پر پوری بستی جلادی گئی، مسلم بچوں، عورتوں، مردوں کو تڑپا تڑپا کر مارا، نازک اجسام کو چھلنی اور عزت کو تار تار کیا گیا، یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو جمہوریت کا دعویدار کہتے ہیں، انسانیت کی تذلیل کرنے میں حقیقتاً ان کا کوئی ثانی نہیں، کشمیر میں بھارتی حکومت کی درندگی ناچ رہی ہے یہ لوگ لاشوں پر رقص کر رہے اور جشن منا رہے ہیں کوئی سفاکی سی سفاکی ہے، لیکن اسلامی حکومتیں خاموش ہیں، عراق کا نوحہ لکھوں؟
ایسا نوحہ جس میں دل کا خون اور آنسوؤں کی برسات شامل ہے اور یہی لہو اور اشک باری میانمار میں ہونے والے بدھ مت کا دنیا کو دکھانے والے تماشے میں شامل ہے لیکن ابھی تو میں عراق کا نوحہ لکھ رہی ہوں اور غم کی اتھاہ وادیوں میں قید ہوں۔
صدام حسین کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ظالم حکمران تھا لیکن اس کا ظالمانہ رویہ اپنے ملک کی حد تک تھا، اس نے طاقت کے بل پر اپنے سے کمزور ملک پر حملہ کیا اور نہ اسے تہہ و بالا کیا، اس نے ننھے منے بالکوں پر راکٹ اور بارودی گولے نہیں برسائے اور نہ ہی وہ خون کا پیاسا تھا کہ دوسرے ملک کے باسیوں کا لہو پی لیتا اور ان کے لیے زمین تنگ کردیتا۔ لیکن اس کے برعکس امریکا نے محض ہتھیاروں کی تلاش کے بہانے عراق اور معصوم عراقیوں کی زندگی کو موت میں بدل دیا، املاک کو برباد کردیا، گلی کوچوں میں اسلام دشمنی کے نتیجے میں بارودی آگ بھڑکادی، صدام حسین کو تختہ دار پر چڑھادیا اور بعد میں امریکا کے سابق صدر بش نے کہا غلطی ہوگئی۔ چونکہ ہتھیار نہیں ملے تھے، اسے تو تیل کے کنوؤں پر قبضہ کرنا تھا۔
یہ تو وہی ہوا کہ کسی کی آخری ہچکی کسی کی دل لگی ہوگی۔ ایسی دل لگی کی کہ پورا ملک کھنڈر میں تبدیل کردیا گیا۔ لاشوں کا انبار لگ گیا، دھواں، آگ، موت کا رقص اور قاتلوں کے قہقہے، فتح کا جشن۔ ان حالات میں بھی امت مسلمہ کے حکمرانوں نے بے حسی کا مظاہرہ کیا اور سب مل کر بندر کا تماشا دیکھتے رہے۔ اتحاد کا ملیا میٹ کردیا گیا۔ ملکوں ملکوں کے نوحے فضاؤں میں گردش کر رہے ہیں، میں سوچتی ہوں کہ کس کس کا نوحہ لکھوں؟
افغانستان کا نوحہ بھی لہو میں تر ہے لیکن انسانوں کی اموات کی کہانیاں، دربدری کے قصے اور امریکا کی سفاکی تاریخ کے صفحوں پر عیاں ہے افغانستان میں روس نے اپنے پیر اسلحے کے ساتھ جمانے کی کوشش کی، دہشت گردوں کو ٹھکانے لگانے کے بہانے ڈرون حملوں کی شدت میں اس قدر تیزی آئی کہ ہزاروں ذی نفس لقمہ اجل بنے، باراتیوں اور دلہا دلہن کا سواگت ڈرون حملوں سے کیا گیا۔ بے قصور بے خطا شہری آبادیاں جنازوں میں تبدیل ہوگئیں اور جو بچے وہ معذور ہوئے، ٹانگیں، بازو، گردن کی ہڈیاں ٹوٹ پھوٹ گئیں، محتاجی حصے میں آئی۔
اہل مغرب کی انسانیت، شرافت، تہذیب کچھ اسی طرح کی ہے کہ مسلمانوں کو پنپنے نہ دو، بڑے خطرات ہیں مسلمانوں سے ان کفار کو وہ جانتے نہیں؟ کہ مسلمان نبی پاک ﷺ کے امتی ہیں جن کے نبی ﷺ نے فتح مکہ کے وقت تمام لوگوں کو، ان میں بڑے بڑے مجرم، قاتل اور اسلام کے مخالفین شامل تھے، معاف فرمادیا، قیدیوں کے ساتھ نرم سلوک روا رکھا، حاتم طائی کی بیٹی کو اس کے باپ کی سخاوت کی وجہ سے معافی دے دی اور خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر اس بات کی وضاحت کردی کہ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر فوقیت نہیں ہے، اگر فوقیت ہے تو تقویٰ کی بنیاد پر، رنگ و نسل کی تفریق کو مٹا کر رکھ دیا۔
یہی تعلیم مسلمانوں کے ذہن و دماغ میں پیوست ہوچکی ہے، کلمے کی تاثیر رنگ و پے میں اتر گئی ہے، پھر وہ کیوں کر انسانیت اور انسانوں کا خون بلا جواز کرسکتے ہیں۔ لیکن صد افسوس کفار و نصاریٰ نے اپنے مذہبی پیشواؤں کی تعلیم کو طاق میں اٹھا کر رکھ دیا ہے اور جنگل کے درندے سے بدتر روپ میں سامنے آتے ہیں، اسلام کی حقانیت اور اس کی پیش گوئیوں سے ڈرے ہوئے ہیں اسی لیے مسلمانوں کا خون ملکوں ملکوں میں بہا رہے ہیں۔ ابھی شام کا نوحہ لکھنا باقی ہے پھر حالیہ خونی سمندر کا ذکر بھی لازم ہے۔ یہ سمندر انسانوں کے خون سے بنا ہے۔
شام کی حالت، مسلمانوں پر ستم، اذیت، بھوک، پیاس، موت، بے گھری، بچوں کی جدائی، ہزاروں شامی ہجرت پر مجبور کیے لیکن مقدس و مطیر ملک کے حکمران اپنے مسلمان بھائیوں کی طرف سے اس قدر بے فکر کیوں ہیں؟ قرآن کی تعلیم کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ وہ سب خاموش ہیں۔ حالانکہ صاحب ثروت ہیں، اتفاق کی دولت کے بل پر اسلام دشمنوں کو نیست و نابود کرکے مسلم بھائیوں کو تحفظ دے سکتے ہیں۔
اب پھر ایک تازہ نوحہ زمینی حقائق نے تخلیق کیا ہے یہ نوحہ برمی مسلمانوں کا ہے، جہاں کی حکمران آنگ سانگ سوچی نے اپنے ہی ملک میں بسنے والے انسانوں کو حشرات الارض سے بدتر جانا اور ان کے قتل و غارت کا حکم ہوش و ہواس کے ساتھ دیا یہ بدھ مت کے ماننے والے ہیں۔ کسی زمانے میں یہ مذہب امن و سلامتی کا تھا اور اب دہشت و بربریت کی علامت بن کر سامنے آیا ہے۔
ہزاروں مسلمان قتل کردیے گئے ایک خبر کے مطابق 700 مکانات کو مع مکینوں کے جلاکر خاکستر کردیا گیا 2000 سے زیادہ گھر جل چکے ہیں۔ بچے کچھے لوگ، قافلوں کی شکل میں جب بنگلہ دیش کی سرحد پر پہنچے، تو آنگ سانگ سوچی کی ہی طرح وہاں کی وزیر اعظم حسینہ واجد نے ان کے داخلے پر پابندی لگا کر سنگدلی کا بدترین مظاہرہ کیا، ہزاروں بچے دریا عبور کرتے ہوئے پانی میں ڈوب گئے، والدین کے جگر گوشوں کی اسی جگہ اجتماعی قبر بنا دی گئی۔
جب بربادی و ہلاکتوں کی خونی داستانیں رقم ہوگئیں سوختہ لاشوں سے دھواں اٹھنا بند ہوگیا اور انسانی اجسام ڈھانچوں میں تبدیل ہوگئے تب یہ ہوا کہ بہت سے ملک جاگ اٹھے، انھیں بے بس انسانوں کی بے کسی اور مجبوریوں پر رحم آ ہی گیا اور روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی پر پاکستانی سمیت ترکی، برطانیہ اور اقوام متحدہ نے شدید مذمت کی کئی ملکوں میں مظاہرے ہوئے، برما کے دارالخلافہ رنگون میں طلبا نے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی، ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے عالمی برادری سے کہا ہے کہ وہ روہنگیا کے مسلمانوں کے قتل عام کو نظرانداز کر رہی ہے، سعودی عرب کے وفد نے کہا کہ وہ قرارداد پیش کریں گے، وفد نے اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری سے ملاقات کرکے قرارداد سے متعلق آگاہ کیا۔ یہ دنیا نوحوں سے زخمی ہوچکی ہے، سوال یہ ہے کہ کس کس کا نوحہ لکھوں؟
کس کس کا نوحہ لکھوں۔ گجرات میں مسلمانوں سے نفرت کی بنا پر پوری بستی جلادی گئی، مسلم بچوں، عورتوں، مردوں کو تڑپا تڑپا کر مارا، نازک اجسام کو چھلنی اور عزت کو تار تار کیا گیا، یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو جمہوریت کا دعویدار کہتے ہیں، انسانیت کی تذلیل کرنے میں حقیقتاً ان کا کوئی ثانی نہیں، کشمیر میں بھارتی حکومت کی درندگی ناچ رہی ہے یہ لوگ لاشوں پر رقص کر رہے اور جشن منا رہے ہیں کوئی سفاکی سی سفاکی ہے، لیکن اسلامی حکومتیں خاموش ہیں، عراق کا نوحہ لکھوں؟
ایسا نوحہ جس میں دل کا خون اور آنسوؤں کی برسات شامل ہے اور یہی لہو اور اشک باری میانمار میں ہونے والے بدھ مت کا دنیا کو دکھانے والے تماشے میں شامل ہے لیکن ابھی تو میں عراق کا نوحہ لکھ رہی ہوں اور غم کی اتھاہ وادیوں میں قید ہوں۔
صدام حسین کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ظالم حکمران تھا لیکن اس کا ظالمانہ رویہ اپنے ملک کی حد تک تھا، اس نے طاقت کے بل پر اپنے سے کمزور ملک پر حملہ کیا اور نہ اسے تہہ و بالا کیا، اس نے ننھے منے بالکوں پر راکٹ اور بارودی گولے نہیں برسائے اور نہ ہی وہ خون کا پیاسا تھا کہ دوسرے ملک کے باسیوں کا لہو پی لیتا اور ان کے لیے زمین تنگ کردیتا۔ لیکن اس کے برعکس امریکا نے محض ہتھیاروں کی تلاش کے بہانے عراق اور معصوم عراقیوں کی زندگی کو موت میں بدل دیا، املاک کو برباد کردیا، گلی کوچوں میں اسلام دشمنی کے نتیجے میں بارودی آگ بھڑکادی، صدام حسین کو تختہ دار پر چڑھادیا اور بعد میں امریکا کے سابق صدر بش نے کہا غلطی ہوگئی۔ چونکہ ہتھیار نہیں ملے تھے، اسے تو تیل کے کنوؤں پر قبضہ کرنا تھا۔
یہ تو وہی ہوا کہ کسی کی آخری ہچکی کسی کی دل لگی ہوگی۔ ایسی دل لگی کی کہ پورا ملک کھنڈر میں تبدیل کردیا گیا۔ لاشوں کا انبار لگ گیا، دھواں، آگ، موت کا رقص اور قاتلوں کے قہقہے، فتح کا جشن۔ ان حالات میں بھی امت مسلمہ کے حکمرانوں نے بے حسی کا مظاہرہ کیا اور سب مل کر بندر کا تماشا دیکھتے رہے۔ اتحاد کا ملیا میٹ کردیا گیا۔ ملکوں ملکوں کے نوحے فضاؤں میں گردش کر رہے ہیں، میں سوچتی ہوں کہ کس کس کا نوحہ لکھوں؟
افغانستان کا نوحہ بھی لہو میں تر ہے لیکن انسانوں کی اموات کی کہانیاں، دربدری کے قصے اور امریکا کی سفاکی تاریخ کے صفحوں پر عیاں ہے افغانستان میں روس نے اپنے پیر اسلحے کے ساتھ جمانے کی کوشش کی، دہشت گردوں کو ٹھکانے لگانے کے بہانے ڈرون حملوں کی شدت میں اس قدر تیزی آئی کہ ہزاروں ذی نفس لقمہ اجل بنے، باراتیوں اور دلہا دلہن کا سواگت ڈرون حملوں سے کیا گیا۔ بے قصور بے خطا شہری آبادیاں جنازوں میں تبدیل ہوگئیں اور جو بچے وہ معذور ہوئے، ٹانگیں، بازو، گردن کی ہڈیاں ٹوٹ پھوٹ گئیں، محتاجی حصے میں آئی۔
اہل مغرب کی انسانیت، شرافت، تہذیب کچھ اسی طرح کی ہے کہ مسلمانوں کو پنپنے نہ دو، بڑے خطرات ہیں مسلمانوں سے ان کفار کو وہ جانتے نہیں؟ کہ مسلمان نبی پاک ﷺ کے امتی ہیں جن کے نبی ﷺ نے فتح مکہ کے وقت تمام لوگوں کو، ان میں بڑے بڑے مجرم، قاتل اور اسلام کے مخالفین شامل تھے، معاف فرمادیا، قیدیوں کے ساتھ نرم سلوک روا رکھا، حاتم طائی کی بیٹی کو اس کے باپ کی سخاوت کی وجہ سے معافی دے دی اور خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر اس بات کی وضاحت کردی کہ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر فوقیت نہیں ہے، اگر فوقیت ہے تو تقویٰ کی بنیاد پر، رنگ و نسل کی تفریق کو مٹا کر رکھ دیا۔
یہی تعلیم مسلمانوں کے ذہن و دماغ میں پیوست ہوچکی ہے، کلمے کی تاثیر رنگ و پے میں اتر گئی ہے، پھر وہ کیوں کر انسانیت اور انسانوں کا خون بلا جواز کرسکتے ہیں۔ لیکن صد افسوس کفار و نصاریٰ نے اپنے مذہبی پیشواؤں کی تعلیم کو طاق میں اٹھا کر رکھ دیا ہے اور جنگل کے درندے سے بدتر روپ میں سامنے آتے ہیں، اسلام کی حقانیت اور اس کی پیش گوئیوں سے ڈرے ہوئے ہیں اسی لیے مسلمانوں کا خون ملکوں ملکوں میں بہا رہے ہیں۔ ابھی شام کا نوحہ لکھنا باقی ہے پھر حالیہ خونی سمندر کا ذکر بھی لازم ہے۔ یہ سمندر انسانوں کے خون سے بنا ہے۔
شام کی حالت، مسلمانوں پر ستم، اذیت، بھوک، پیاس، موت، بے گھری، بچوں کی جدائی، ہزاروں شامی ہجرت پر مجبور کیے لیکن مقدس و مطیر ملک کے حکمران اپنے مسلمان بھائیوں کی طرف سے اس قدر بے فکر کیوں ہیں؟ قرآن کی تعلیم کو فراموش کر بیٹھے ہیں۔ وہ سب خاموش ہیں۔ حالانکہ صاحب ثروت ہیں، اتفاق کی دولت کے بل پر اسلام دشمنوں کو نیست و نابود کرکے مسلم بھائیوں کو تحفظ دے سکتے ہیں۔
اب پھر ایک تازہ نوحہ زمینی حقائق نے تخلیق کیا ہے یہ نوحہ برمی مسلمانوں کا ہے، جہاں کی حکمران آنگ سانگ سوچی نے اپنے ہی ملک میں بسنے والے انسانوں کو حشرات الارض سے بدتر جانا اور ان کے قتل و غارت کا حکم ہوش و ہواس کے ساتھ دیا یہ بدھ مت کے ماننے والے ہیں۔ کسی زمانے میں یہ مذہب امن و سلامتی کا تھا اور اب دہشت و بربریت کی علامت بن کر سامنے آیا ہے۔
ہزاروں مسلمان قتل کردیے گئے ایک خبر کے مطابق 700 مکانات کو مع مکینوں کے جلاکر خاکستر کردیا گیا 2000 سے زیادہ گھر جل چکے ہیں۔ بچے کچھے لوگ، قافلوں کی شکل میں جب بنگلہ دیش کی سرحد پر پہنچے، تو آنگ سانگ سوچی کی ہی طرح وہاں کی وزیر اعظم حسینہ واجد نے ان کے داخلے پر پابندی لگا کر سنگدلی کا بدترین مظاہرہ کیا، ہزاروں بچے دریا عبور کرتے ہوئے پانی میں ڈوب گئے، والدین کے جگر گوشوں کی اسی جگہ اجتماعی قبر بنا دی گئی۔
جب بربادی و ہلاکتوں کی خونی داستانیں رقم ہوگئیں سوختہ لاشوں سے دھواں اٹھنا بند ہوگیا اور انسانی اجسام ڈھانچوں میں تبدیل ہوگئے تب یہ ہوا کہ بہت سے ملک جاگ اٹھے، انھیں بے بس انسانوں کی بے کسی اور مجبوریوں پر رحم آ ہی گیا اور روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی پر پاکستانی سمیت ترکی، برطانیہ اور اقوام متحدہ نے شدید مذمت کی کئی ملکوں میں مظاہرے ہوئے، برما کے دارالخلافہ رنگون میں طلبا نے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی، ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے عالمی برادری سے کہا ہے کہ وہ روہنگیا کے مسلمانوں کے قتل عام کو نظرانداز کر رہی ہے، سعودی عرب کے وفد نے کہا کہ وہ قرارداد پیش کریں گے، وفد نے اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری سے ملاقات کرکے قرارداد سے متعلق آگاہ کیا۔ یہ دنیا نوحوں سے زخمی ہوچکی ہے، سوال یہ ہے کہ کس کس کا نوحہ لکھوں؟