تحریک انصاف کی طالبان کے حوالے سے بدلتی پالیسی

عمران خان کو طالبان اور دہشت گردی کے حوالے سے اپنے مؤقف پرصرف ایک بیان کی بجائے بطور پارٹی پالیسی نظرثانی کرنی چاہئے۔

کالعدم لشکر جھنگوی جو کچھ کر رہی ہے یہ اسلام نہیں ہے، عمران خان۔ فوٹو : فائل

سانحہ کوئٹہ نے پورے ملک کو دکھی کر رکھا ہے۔ ہزارہ منگول برادری کو جس سفاکی سے نشانہ بنایا جا رہا ہے اس نے دہشت گردی اور فرقہ واریت کے حوالے سے عوام کی سوچ تبدیل کر دی ہے۔

عوام دہشت گردی کی ہر شکل کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ ملک کی سیاسی قیادت بھی عوام کے اس موڈ کو بھانپ رہی ہے۔اب سیاسی قیادت کے پاس'' اگر مگر چونکہ چنانچہ'' کی گنجائش نہیں ہے۔ انہیں دو ٹوک انداز میں ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرنا پڑے گی۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اگلے روز کالعدم لشکر جھنگوی کو مخاطب کر کے کہا ہے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں' یہ اسلام نہیں ہے۔ عمران خان کے اس واضح اور دو ٹوک بیان کو عوامی حلقوں اور باشعور طبقے نے سراہا ہے۔ عمران خان کا طالبان کے حوالے سے جو مؤقف ماضی میں رہا ہے' اس کی وجہ سے ملک کا لبرل طبقہ ہی نہیں بلکہ کاروباری طبقہ بھی تحفظات کا شکار ہے۔ تحریک ا1نصاف کی قیادت خصوصاً عمران خان کو طالبان اور دہشت گردی کے حوالے سے اپنے مؤقف پرصرف ایک بیان کی بجائے بطور پارٹی پالیسی نظرثانی کرنی چاہئے۔

انہیں اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہئے کہ طالبان اور کالعدم مذہبی تنظیموں کے صرف لبرل لوگ ہی خلاف نہیں ہیں بلکہ دائیں بازو کا کاروباری طبقہ بھی انہیں قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ خان صاحب نے کالعدم لشکر جھنگوی کے بارے میں دلیرانہ مؤقف اختیار کیا ہے، اس سے تحریک انصاف کے امیج میں بہتری آئی ہے۔ اب انہیں کالعدم تحریک طالبان کے بارے میں بھی ایسی ہی جرأت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اگر تحریک انصاف نے طالبان کے خلاف دو ٹوک مؤقف اختیار کر لیا تو وہ پیپلزپارٹی' ایم کیو ایم اور اے این پی کے ہاتھوں سے دہشت گرد مخالف ہونے کا کارڈ چھین لیں گے، پیپلزپارٹی' ایم کیو ایم اور اے این پی اس لئے کامیاب ہیں کہ وہ خود کو طالبان مخالف کہلاتی ہیں۔ تحریک انصاف کے پاس سیاسی غلطیوں کے ازالے کے لئے خاصا وقت موجود ہے۔


پارٹی الیکشن کرا کے اس نے اپنی ساکھ کو بہتر بنایا ہے۔ اب پارٹی کے قائدین اور کارکن کہہ سکتے ہیں کہ ان کی پارٹی مکمل طور پر جمہوری پارٹی ہے اور اس میں خاندانی نظام نہیں ہے۔ اب اگلا مرحلہ اہم ایشوز پر واضح پارٹی لائن اختیار کرنے کا ہے۔ صدر زرداری اور میاں نواز شریف پر تبرا کرنا کوئی پالیسی نہیں ہے۔ محض اس وجہ سے عوام تحریک انصاف کے امیدواروں کو ووٹ نہیں دیں گے۔ تحریک انصاف کو بتانا ہو گا کہ کالعدم تحریک طالبان کی دہشت گردی او رفرقہ پرست تنظیموں سے کیسے نپٹیں گے۔ امریکہ کی جنگ کی گردان کرنے سے لوگ مطمئن نہیں ہوں گے۔ ایسی بات تو جماعت اسلامی بھی کرتی ہے' جے یو آئی بھی کرتی ہے' دفاع پاکستان کونسل والے بھی کرتے ہیں پھر تحریک انصاف اور ان جماعتوں میں کیا فرق رہ جاتا ہے۔ ایسی صورت میں عوام یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ وہ تحریک انصاف کے بجائے مذہبی جماعتوں کو ووٹ دیں۔

دوسری جانب تحریک انصاف کے یونین کونسل کی سطح پر تنظیمی الیکشن ملک بھر میں مکمل ہو چکے ہیں اور 17 مارچ تک ٹاون،تحصیل،ضلع اور صوبے کی سطح پر امیدواروں کا انتخاب بھی مکمل کر لیا جائے گا جس کے بعد 23 مارچ کو مینار پاکستان کی گراونڈ میںنو منتخب عہدیداروں کی حلف برداری کی تقریب منعقد کی جائے گی جس میں محتاط اندازے کے مطابق 4 سے5 لاکھ کارکن اور عوام شریک ہوں گے۔ درحقیقت یہ سونامی کا 8 ماہ بعد کم بیک ہوگا ۔ پنجاب میں تحریک انصاف کا تنظیمی ڈھانچہ کیا صورت اختیار کرتا ہے اس کے حوالے سے متضاد دعوے سامنے آرہے ہیں ۔ اعجاز چوہدری کو اس وقت بھی احسن رشید کے مقابلے میں برتری حاصل ہے تاہم نظریاتی گروپ کے رہنما میاں محمود الرشید کے ہمراہ ان کے اختلافات کی افواہیں ان کی مشکلات کا سبب بن سکتی ہیں۔لاہور کی صورتحال واضح ہو چکی ہے ۔

تحریک انصاف کے غیر جانبدار حلقوں کا کہنا ہے کہ لاہور میں نئے اور پرانے رہنماوں پر مشتمل ''یونٹی گروپ''میدان مار چکا ہے اور ایک بہت بڑی لیڈ کے ساتھ اس گروپ کے سربراہ عبدالعلیم خان تحریک انصاف لاہور کے صدر، عبدالرشید بھٹی جنرل سیکرٹری،میاں حامد معراج اور شعیب صدیقی سینئر نائب صدر اور این اے 124 سے مجوزہ امیدوارجمشید اقبال چیمہ نائب سمیت پورا پینل منتخب ہوجائے گا ۔ تنظیمی الیکشن کے حوالے سے کچھ افراد کے رویوں پر بھی بہت تنقید کی جا رہی ہے ۔

سابق گورنر میاں اظہر کے صاحبزادے حماد اظہر نے''یونٹی گروپ'' کی جانب سے جنرل سیکرٹری کے عہدے پر امیدوار نہ بنائے جانے پر ناراض ہو کر آزاد امیدوار کی حیثیت سے اسی عہدے پر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔''میاں اینڈ کمپنی'' نے تین ٹاونز میں اپنی تنظیمی گرفت ثابت کرنے والے عبدالرشید بھٹی کو گیم سے آوٹ کروانے کی کوشش کی لیکن حتمی فیصلہ بھٹی صاحب کے حق میں ہی ہوا ہے۔ ضلع قصور میں خورشید قصوری نے سردار آصف احمد علی کے مقابلے میں اپنی تنظیمی اور عوامی مقبولیت کو 113 میں سے91 یونین کونسلز جیت کر ثابت کردیا ہے۔ انہوں نے نعیم ہارون خان کو تحریک انصاف قصور کیلئے نامزد کیا ہے۔عمران خان کو لاہور سمیت بڑے شہروں میں پارٹی ٹکٹ دیتے وقت یہ بات یاد رکھنا ہو گی کہ مسلم لیگ(ن)کا مقابلہ کرنے کیلئے اناڑی نہیں بلکہ کھلاڑی کو ٹکٹ دینا پی ٹی آئی کیلئے مفید ہوگااور زیادہ بہتر یہی ہے کہ نئے کے ساتھ پرانے کا تڑکا لگایا جائے۔
Load Next Story