ڈوبتا کراچی
شہر کے کسی باسی نے اپنی ذہانت اور ’واٹس ایپ‘ کی سہولت سے یہ مشکل آسان کردی۔
دنیا کی طرح ہم بھی بہت ترقی کرچکے ہیں اور ہم جس قدر ذہین قوم ہیں اس کا کوئی ثانی بھی نہیں ہے۔ گزشتہ ہفتے کراچی میں بارش کے بعد شہر کی جو حالت ہوئی ہے اس کی تہہ تک پہنچنے میں یا شہریوں کی حالت زار سمجھنے کے لیے شہر کے کسی باسی نے اپنی ذہانت اور 'واٹس ایپ' کی سہولت سے یہ مشکل آسان کردی۔
بارش کے بعد کسی شہری نے واٹس ایپ پر 'کراچی کی فریاد' کے نام سے پونے دو منٹ کی ایک پوسٹ بھیجی جس میں کراچی کے شہر میں بارش کی تباہی کے مختلف مناظر شامل تھے، اس پوسٹ کی شاندار بات یہ تھی کہ پس منظر میں معروف گلوکار سجاد علی کا ایک نغمہ سنائی دے رہا ہے اور اس کا ہر بول (لفظ) نظر آنے والی تصاویر کو بہت اچھی طرح بیان کر رہا ہے اور سمجھا رہا ہے کہ اصل قصہ کیا ہے۔ نغمہ کے ابتدائی بول ہیں :
ساحل پہ کھڑے ہو تمھیں کیا غم، چلے جانا
میں ڈوب رہا ہوں، ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں
نغمے کے پہلے مصرعے ''ساحل پہ کھڑے ہو تمھیں کیا غم، چلے جانا'' کے ساتھ جو تصاویر پیش کیں گئیں ان میں وفاقی حکومت اور سندھ سے پیپلز پارٹی کی اہم شخصیات کے خوشی سے بھرپور پوز تھے، ان شخصیات میں نواز شریف، آصف علی زرداری، سابق اور موجودہ وزرائے اعلیٰ سندھ اور وزیر بلدیات سندھ وغیرہ شامل تھے۔ اس کے بعد نغمے کے دوسرے بول ''میں ڈوب رہا ہوں، ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں'' کے ساتھ ساتھ کراچی کے شہریوں کے ڈوبتے ہوئے مختلف مناظر تھے، جن میں ایک منظر میں کوئی خاتون باورچی خانے میں کھانا پکا رہی ہے اور پانی اس خاتون کے گھٹنوں سے بھی اوپر ہے، کہیں کوئی اپنی موٹر سائیکل کو کھنچ رہا ہے مگر وہ پوری کی پوری پانی میں ڈوبی ہوئی ہے، سڑکیں دریائے سندھ کا سا منظر پیش کر رہی ہیں۔ کسی تصویر میں گاڑیاں پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں اور دور تک گاڑیوں کی صرف چھتیں نظر آرہی ہیں، کسی جگہ ٹرک اور کرین بھی ڈوبی ہوئی نظر آرہی ہے، کہیں دور دور تک مکانات ڈوبے ہوئے نظر آرہے ہیں اور شہری چار چار فٹ پانی سے سامان لے کر محفوظ جگہ جا رہے ہیں۔
ایک تصویر میں وزیر بلدیات کی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے تصویر ہے، جس میں اسکرین پر لکھا ہوا ہے کہ ''کراچی میں بارش کا پانی خود ہی نکل جائے گا: وزیر بلدیات سندھ''۔ میں جس وقت یہ پوسٹ دیکھ رہا تھا، دل میں یہ سوچ رہا تھا کہ اس تمام میں ابھی تک کراچی کے منتخب نمایندوں اور سب سے بڑی جماعت کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے، ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ مجھے اگلا مصرعہ سنائی دیا ''اے وعدہ فراموش میں تجھ سا تو نہیں ہوں'' اور ساتھ ہی ایک بڑے عوامی جلسے کی تصویر دکھائی دی جس میں ہر طرف ایم کیوایم کے جھنڈے ہی جھنڈے نظر آرہے تھے۔ دل نے بے اختیار اس شخص کو داد دی کہ کس طرح ایک پوسٹ بنانے والے نے کراچی کی پوری کہانی کو ''کراچی کی فریاد'' کے نام سے ڈیڑھ منٹ میں فلم بند کرکے بیان کردیا۔
یہ کراچی کے شہریوں کا ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ انھوں نے تمام جماعتوں کو آزمانے کے بعد ایم کیو ایم کو بھی آزمایا مگر ان کے مسائل تو کیا حل ہوتے وہ دن بہ دن مزید دلدل میں گھرتے چلے گئے۔ آج یہ حال ہے کہ ملک کے سب سے بڑے، سب سے زیادہ کما کر دینے والے اور سب سے زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کے اس شہر سے نہ کوئی کوڑا کرکٹ اٹھانے والا دکھائی دیتا ہے، نہ ہی یہاں کے رہائشیوں کو پانی اور بجلی جیسے بنیادی سہولت ہی دستیاب ہوتی ہے۔ بچوں کے کھیلنے کے لیے میدان تک ناپید ہیں، سب 'چائنا کٹنگ' کی نذر ہوگئے۔ دو نمبر پیسہ کماکر اس شہر کو بری طرح لوٹ لیا گیا مگر اس عمل کو روکنے کوئی میدان میں نہیں آیا، کسی کے پاس فرصت نہ تھی کہ وہ شہریوں کے لیے ایک آدھ ہڑتال یا احتجاج کی کال ہی دے دیتا۔
چنانچہ آج یہ حال ہے شہریوں کے گھروں میں بارش ہی نہیں، گٹروں کا پانی کئی کئی فٹ تک بھر آیا اور پینے کے ٹینک بھی ان گٹروں کے پانی سے بھر گئے اور اب شہری بازار سے وہ پانی خرید کر پی رہے ہیں جو زمین کا نمکین پانی ہے، مگر اسے پروسس کرکے ذائقہ تبدیل کردیا جاتا ہے، مگر صحت کے لیے پھر بھی نقصان دہ ہے۔ بعض محلے اور گلیاں تو ایسی ہیں کہ وہاں جمع ہونے والا پانی دھوپ سے ہی خشک ہوگا کیونکہ وہاں اسی طرح پانی خشک ہوتا ہے کسی کو پانی نکالنے کا خیال نہیں آتا۔
یہ حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں، گزشتہ ہفتے کی ایک خبر کے مطابق صوبہ سندھ کی ایک عدالت نے یہ ریمارکس دیے کہ سندھ میں 90 فیصد پانی پینے کے قابل نہیں، عوام کا پیسہ عوام پر خرچ ہونا چاہیے، عدالت نے 'نساسک' کے منصوبے کی رپورٹ مستردکردی، ایک جج نے کہا کہ ایسی آڈٹ رپورٹ کا کیا فائدہ جب ثمرات عوام تک نہ پہنچیں؟
خبر کے مطابق فراہمی نکاسی آب کمیشن کی ٹاسک فورس نے اپنی رپورٹ سندھ ہائیکورٹ میں جمع کرائی جس میں سندھ کے 14 اضلاع میں 83 فیصد پانی کے نمونوں کو انسانی جان کے لیے خطرناک قرار دیا گیا تھا جب کہ پانی میں انسانی فضلہ بھی پایا گیا تھا۔بات یہ ہے اس شہر کا باقاعدہ کوئی ماسٹر پلان ہی نہیں ہے، شہری اور سندھ حکومت کے اختلافات کے باعث کراچی شہر بری طرح نظر انداز ہوتا آرہا ہے۔
1958 میں حکومت نے ایک فرم کے ذریعے گریٹر کراچی ری سیٹلمنٹ پلان بنوایا تھا جسکے تحت مزید بستیاں مرکزی شہر سے دور آباد کرنا تھیں۔ پھر 2000 میں کراچی ڈیولپمنٹ پلان اور اس کے بعد ایک اور پلان کراچی اسٹرٹیجک ڈیولپمنٹ کے نام سے آیا۔ لیکن کراچی کی حالت بد سے بدتر ہی ہوتی جارہی ہے۔ یہ بات بھی کی جاتی ہے کہ کراچی کا صرف تیس فیصد کے قریب رقبہ بلدیہ کے زیر اختیار میں ہے جب کہ بقیہ سول ایوی ایشن اتھارٹی، ریلوے، اسٹیل ملز وغیرہ کے زیر انتظام ہے۔
بات یہ ہے کہ یہ شہر تقریباً دو کروڑ آبادی رکھتا ہے اور اسی اعتبار سے یہ آبادی ٹیکس بھی دیتی ہے، پھر ان شہریوں کو کم از کم بنیادی سہولتیں کیوں نہیں دی جاتیں جن میں پینے کا پانی، نکاسی آب کا بہتر نظام، کچرے اٹھانے کا انتظام اور صحت وتعلیم اور سب سے بڑھ کر پبلک ٹرانسپورٹ کا مناسب انتظام شامل ہے۔ ان مسائل کے علاوہ مناسب رہائش کا مسئلہ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، جس پر راقم نے علیحدہ سے کئی کالم بھی لکھے ہیں۔
کراچی کی زمینوں کو مختلف مافیائیں ہڑپ کر رہی ہیں اور یہ اطلاعات بھی آئی ہیں کہ ان کو بعض سیاسی اور منتخب نمایندوں کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے، اس لوٹ مار کے باعث اب شہر میں کہیں کوئی خالی زمین یا میدان نظر نہیں آتا، حتیٰ کہ ندی نالوں پر بھی کاروبار کیا گیا۔ چنانچہ اب کراچی کے باہر جنگل میں بھی پلاٹ انتہائی مہنگے دستیاب ہیں جب کہ شہر کے مرکز میں اور پرانے علاقوں میں اب ان پلاٹوں پر جہاں صرف دو یا تین خاندان رہتے تھے، دوبارہ بلند عمارتیں بناکر کہیں بیس تو کہیں پچاس رہائشی یونٹس بنا کر فروخت کیے جا رہے ہیں، جس سے شہر کی گنجان آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور پانی، بجلی اور نکاسی آب کا مسئلہ بھی بڑھ رہا ہے۔ اب کراچی میں گٹر بند ہونے اور سیوریج کا پانی سڑکوں پر اس وجہ سے بھی جمع ہوتا ہے کہ سیوریج لائنوں پر بوجھ بڑھ گیا ہے۔
یہ کراچی کی مختصر سی کہانی ہے مگر کراچی کی فریاد سننے کی ضرورت ہے جو کہہ رہا ہے کہ 'میں ڈوب رہا ہوں'۔
بارش کے بعد کسی شہری نے واٹس ایپ پر 'کراچی کی فریاد' کے نام سے پونے دو منٹ کی ایک پوسٹ بھیجی جس میں کراچی کے شہر میں بارش کی تباہی کے مختلف مناظر شامل تھے، اس پوسٹ کی شاندار بات یہ تھی کہ پس منظر میں معروف گلوکار سجاد علی کا ایک نغمہ سنائی دے رہا ہے اور اس کا ہر بول (لفظ) نظر آنے والی تصاویر کو بہت اچھی طرح بیان کر رہا ہے اور سمجھا رہا ہے کہ اصل قصہ کیا ہے۔ نغمہ کے ابتدائی بول ہیں :
ساحل پہ کھڑے ہو تمھیں کیا غم، چلے جانا
میں ڈوب رہا ہوں، ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں
نغمے کے پہلے مصرعے ''ساحل پہ کھڑے ہو تمھیں کیا غم، چلے جانا'' کے ساتھ جو تصاویر پیش کیں گئیں ان میں وفاقی حکومت اور سندھ سے پیپلز پارٹی کی اہم شخصیات کے خوشی سے بھرپور پوز تھے، ان شخصیات میں نواز شریف، آصف علی زرداری، سابق اور موجودہ وزرائے اعلیٰ سندھ اور وزیر بلدیات سندھ وغیرہ شامل تھے۔ اس کے بعد نغمے کے دوسرے بول ''میں ڈوب رہا ہوں، ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں'' کے ساتھ ساتھ کراچی کے شہریوں کے ڈوبتے ہوئے مختلف مناظر تھے، جن میں ایک منظر میں کوئی خاتون باورچی خانے میں کھانا پکا رہی ہے اور پانی اس خاتون کے گھٹنوں سے بھی اوپر ہے، کہیں کوئی اپنی موٹر سائیکل کو کھنچ رہا ہے مگر وہ پوری کی پوری پانی میں ڈوبی ہوئی ہے، سڑکیں دریائے سندھ کا سا منظر پیش کر رہی ہیں۔ کسی تصویر میں گاڑیاں پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں اور دور تک گاڑیوں کی صرف چھتیں نظر آرہی ہیں، کسی جگہ ٹرک اور کرین بھی ڈوبی ہوئی نظر آرہی ہے، کہیں دور دور تک مکانات ڈوبے ہوئے نظر آرہے ہیں اور شہری چار چار فٹ پانی سے سامان لے کر محفوظ جگہ جا رہے ہیں۔
ایک تصویر میں وزیر بلدیات کی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے تصویر ہے، جس میں اسکرین پر لکھا ہوا ہے کہ ''کراچی میں بارش کا پانی خود ہی نکل جائے گا: وزیر بلدیات سندھ''۔ میں جس وقت یہ پوسٹ دیکھ رہا تھا، دل میں یہ سوچ رہا تھا کہ اس تمام میں ابھی تک کراچی کے منتخب نمایندوں اور سب سے بڑی جماعت کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے، ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ مجھے اگلا مصرعہ سنائی دیا ''اے وعدہ فراموش میں تجھ سا تو نہیں ہوں'' اور ساتھ ہی ایک بڑے عوامی جلسے کی تصویر دکھائی دی جس میں ہر طرف ایم کیوایم کے جھنڈے ہی جھنڈے نظر آرہے تھے۔ دل نے بے اختیار اس شخص کو داد دی کہ کس طرح ایک پوسٹ بنانے والے نے کراچی کی پوری کہانی کو ''کراچی کی فریاد'' کے نام سے ڈیڑھ منٹ میں فلم بند کرکے بیان کردیا۔
یہ کراچی کے شہریوں کا ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ انھوں نے تمام جماعتوں کو آزمانے کے بعد ایم کیو ایم کو بھی آزمایا مگر ان کے مسائل تو کیا حل ہوتے وہ دن بہ دن مزید دلدل میں گھرتے چلے گئے۔ آج یہ حال ہے کہ ملک کے سب سے بڑے، سب سے زیادہ کما کر دینے والے اور سب سے زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کے اس شہر سے نہ کوئی کوڑا کرکٹ اٹھانے والا دکھائی دیتا ہے، نہ ہی یہاں کے رہائشیوں کو پانی اور بجلی جیسے بنیادی سہولت ہی دستیاب ہوتی ہے۔ بچوں کے کھیلنے کے لیے میدان تک ناپید ہیں، سب 'چائنا کٹنگ' کی نذر ہوگئے۔ دو نمبر پیسہ کماکر اس شہر کو بری طرح لوٹ لیا گیا مگر اس عمل کو روکنے کوئی میدان میں نہیں آیا، کسی کے پاس فرصت نہ تھی کہ وہ شہریوں کے لیے ایک آدھ ہڑتال یا احتجاج کی کال ہی دے دیتا۔
چنانچہ آج یہ حال ہے شہریوں کے گھروں میں بارش ہی نہیں، گٹروں کا پانی کئی کئی فٹ تک بھر آیا اور پینے کے ٹینک بھی ان گٹروں کے پانی سے بھر گئے اور اب شہری بازار سے وہ پانی خرید کر پی رہے ہیں جو زمین کا نمکین پانی ہے، مگر اسے پروسس کرکے ذائقہ تبدیل کردیا جاتا ہے، مگر صحت کے لیے پھر بھی نقصان دہ ہے۔ بعض محلے اور گلیاں تو ایسی ہیں کہ وہاں جمع ہونے والا پانی دھوپ سے ہی خشک ہوگا کیونکہ وہاں اسی طرح پانی خشک ہوتا ہے کسی کو پانی نکالنے کا خیال نہیں آتا۔
یہ حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں، گزشتہ ہفتے کی ایک خبر کے مطابق صوبہ سندھ کی ایک عدالت نے یہ ریمارکس دیے کہ سندھ میں 90 فیصد پانی پینے کے قابل نہیں، عوام کا پیسہ عوام پر خرچ ہونا چاہیے، عدالت نے 'نساسک' کے منصوبے کی رپورٹ مستردکردی، ایک جج نے کہا کہ ایسی آڈٹ رپورٹ کا کیا فائدہ جب ثمرات عوام تک نہ پہنچیں؟
خبر کے مطابق فراہمی نکاسی آب کمیشن کی ٹاسک فورس نے اپنی رپورٹ سندھ ہائیکورٹ میں جمع کرائی جس میں سندھ کے 14 اضلاع میں 83 فیصد پانی کے نمونوں کو انسانی جان کے لیے خطرناک قرار دیا گیا تھا جب کہ پانی میں انسانی فضلہ بھی پایا گیا تھا۔بات یہ ہے اس شہر کا باقاعدہ کوئی ماسٹر پلان ہی نہیں ہے، شہری اور سندھ حکومت کے اختلافات کے باعث کراچی شہر بری طرح نظر انداز ہوتا آرہا ہے۔
1958 میں حکومت نے ایک فرم کے ذریعے گریٹر کراچی ری سیٹلمنٹ پلان بنوایا تھا جسکے تحت مزید بستیاں مرکزی شہر سے دور آباد کرنا تھیں۔ پھر 2000 میں کراچی ڈیولپمنٹ پلان اور اس کے بعد ایک اور پلان کراچی اسٹرٹیجک ڈیولپمنٹ کے نام سے آیا۔ لیکن کراچی کی حالت بد سے بدتر ہی ہوتی جارہی ہے۔ یہ بات بھی کی جاتی ہے کہ کراچی کا صرف تیس فیصد کے قریب رقبہ بلدیہ کے زیر اختیار میں ہے جب کہ بقیہ سول ایوی ایشن اتھارٹی، ریلوے، اسٹیل ملز وغیرہ کے زیر انتظام ہے۔
بات یہ ہے کہ یہ شہر تقریباً دو کروڑ آبادی رکھتا ہے اور اسی اعتبار سے یہ آبادی ٹیکس بھی دیتی ہے، پھر ان شہریوں کو کم از کم بنیادی سہولتیں کیوں نہیں دی جاتیں جن میں پینے کا پانی، نکاسی آب کا بہتر نظام، کچرے اٹھانے کا انتظام اور صحت وتعلیم اور سب سے بڑھ کر پبلک ٹرانسپورٹ کا مناسب انتظام شامل ہے۔ ان مسائل کے علاوہ مناسب رہائش کا مسئلہ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، جس پر راقم نے علیحدہ سے کئی کالم بھی لکھے ہیں۔
کراچی کی زمینوں کو مختلف مافیائیں ہڑپ کر رہی ہیں اور یہ اطلاعات بھی آئی ہیں کہ ان کو بعض سیاسی اور منتخب نمایندوں کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے، اس لوٹ مار کے باعث اب شہر میں کہیں کوئی خالی زمین یا میدان نظر نہیں آتا، حتیٰ کہ ندی نالوں پر بھی کاروبار کیا گیا۔ چنانچہ اب کراچی کے باہر جنگل میں بھی پلاٹ انتہائی مہنگے دستیاب ہیں جب کہ شہر کے مرکز میں اور پرانے علاقوں میں اب ان پلاٹوں پر جہاں صرف دو یا تین خاندان رہتے تھے، دوبارہ بلند عمارتیں بناکر کہیں بیس تو کہیں پچاس رہائشی یونٹس بنا کر فروخت کیے جا رہے ہیں، جس سے شہر کی گنجان آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور پانی، بجلی اور نکاسی آب کا مسئلہ بھی بڑھ رہا ہے۔ اب کراچی میں گٹر بند ہونے اور سیوریج کا پانی سڑکوں پر اس وجہ سے بھی جمع ہوتا ہے کہ سیوریج لائنوں پر بوجھ بڑھ گیا ہے۔
یہ کراچی کی مختصر سی کہانی ہے مگر کراچی کی فریاد سننے کی ضرورت ہے جو کہہ رہا ہے کہ 'میں ڈوب رہا ہوں'۔