آخر کب تلک

ایک بااختیار مقامی حکومتی نظام کے ذریعے ہی شہری سہولیات تک رسائی ممکن ہے۔

muqtidakhan@hotmail.com

دو دن کی شدید بارشوں میں کراچی وینس بن گیا۔ تمام شاہراہیں اور ذیلی سڑکیں نہروں کی شکل اختیار کرگئیں۔ کراچی جو برصغیر میں اس جگہ واقع ہے، جہاں شاذ و نادر ہی بارشیں ہوا کرتی ہیں۔ لیکن اب موسمیاتی تغیر کی وجہ سے مون سون میں تیز بارشوں کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے، وقت گزرنے کے ساتھ اس میں مسلسل شدت آرہی ہے۔ لیکن انفرااسٹرکچر چونکہ انتہائی فرسودہ اور جدید ضروریات پورا کرنے کی استعداد نہیں رکھتا، اس لیے سڑکوں پر پانی کا کھڑا ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ معاملہ صرف کراچی تک محدود نہیں ہے، بلکہ لاہور اور فیصل آباد سمیت ملک کے چھوٹے بڑے تقریباً سبھی شہر ہر سال اسی عذاب کا شکار ہوتے ہیں۔

اس سلسلے میں معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ پورے ملک میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران شہری آبادی میں تیز رفتار اضافہ ہوا ہے۔ مگر ان شہروں کو شہر کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ کیونکہ کسی شہر میں اگر چار بنیادی سہولیات عوام کو میسر نہیں، تو اسے کسی طور بھی شہر نہیں کہا جاسکتا۔ ان میں 1۔ تعلیم و صحت کا جدید ڈھانچہ، 2۔ فراہمی و نکاسی آب کا موثر نظام، 3۔ روزانہ پیدا ہونے والے کچرے کو حفظان صحت کے مطابق اٹھانے اور ٹھکانے لگانے کا فعال میکنزم، 4۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا جدید اور سستا نظام۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک کے سبھی شہروں میں ان سہولیات کا فقدان ہے۔ پنجاب میں ایک دو سہولتوں کی فراہمی کو ضرور بہتر بنایا گیا ہے، مگر سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں صورتحال خاصی ابتر ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اس کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے مولد و مدفن شہر لاڑکانہ کی حالت مسلسل زبوں حالی کا شکار ہے۔

حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ لاڑکانہ اس موئن جو دڑو سے 15 کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے، جس نے پانچ ہزار برس قبل فراہمی ونکاسی آب کا بہترین نظام متعارف کرایا تھا۔ بغیر برقی موٹر وہ پانی اوپری منزل تک پہنچانے کی ٹیکنالوجی سے واقف تھے۔ سڑکیں اور گلیاں سیدھی تھیں، جب کہ نالیاں ڈھکی ہوئی تھیں۔ اس کے برعکس لاڑکانہ میں فراہمی و نکاسی آب کا نظام انتہائی فرسودہ ہے۔ سڑکیں آڑی ترچھی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ گٹر ہر وقت ابلتے رہتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ کی کوئی جدید سہولت عوام کو مہیا نہیں۔ یہ صورتحال صرف لاڑکانہ کی نہیں بلکہ دیگر چھوٹے بڑے شہر بھی ایسی ہی صورتحال کا شکار ہیں۔

کراچی کا معاملہ ملک کے دیگر شہروں سے مختلف ہے۔ اس کی آبادی میں قیام پاکستان کے بعد شتر بے مہار کی مانند بے تحاشا اضافہ ہوا اور مسلسل ہورہا ہے۔ اس پر ملک کے مختلف صوبوں سے آنے والوں کے علاوہ غیر ممالک (افغانستان، بنگلہ دیش اور برما) سے نقل مکانی کرکے آنے والے باشندوں کا بھی دباؤ رہا ہے۔ اس عمل میں حکمرانوں کی نااہلی اور کوتاہ بینی کا خصوصی دخل ہے۔ جنھوں نے اس شہر میں آبادی کے بے بہا دباؤ کو روکنے کے لیے جدید خطوط پر استوار کوئی منصوبہ بندی نہیں کی اور نہ ہی شہر کے لیے جدید انتظامی ڈھانچہ متعارف کرایا۔

اس صورتحال پر تین طریقوں سے قابو پایا جاسکتا ہے۔ اول، غیر ممالک سے آنے والوں کے لیے امیگریشن قوانین کو مزید سخت کرکے اور ان پر عملدرآمد کے میکنزم کو زیادہ فعال بنایا جائے۔ دوئم، ملک کے مختلف شہروں میں صنعتی اسٹیٹ قائم کرنے سے کراچی اور لاہور سمیت بڑے شہروں پر آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ کو کنٹرول کیا جائے۔ سوئم، 10 لاکھ سے زائد آبادی والے ہر شہر میں ایک بااختیار مقامی حکومتی نظام قائم کیا جائے، تاکہ عوام کو شہری سہولیات تک فوری رسائی ممکن ہوسکے۔ مگر ہماری حکمران اشرافیہ اس ویژن سے عاری ہے، جو ترقی کے لیے درکار ہے۔

اس سلسلے میں ان کا کہنا ہے کہ بحیثیت مشیر اقتصادیات حکومت سندھ انھوں نے اس وقت کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ کو ایک منصوبہ پیش کیا، جس میں شمالی سندھ کے پانچ اضلاع (لاڑکانہ، شکارپور، سکھر، خیرپور اور نواب شاہ) کو تیز رفتار شاہراہ (Fast Track Road) کے ذریعے ایک دوسرے سے جوڑنے اور سڑک کے اطراف صنعتیں قائم کرنے کے لیے زمین مختص کرنے کا منصوبہ پیش کیا تھا، تاکہ علاقے کے خام مال کو ان صنعتوں میں استعمال کیا جاسکے اور مقامی لوگوں کو اپنے گھروں کے قریب روزگار مل سکے۔ وزیراعلیٰ نے منصوبہ منظور کرلیا تھا۔ مگر علاقے کے وڈیرے اس منصوبے کی راہ میں حائل ہوگئے۔ ان میں سے بیشتر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین ہیں۔ انھیں خدشہ تھا کہ عوام میں معاشی خوداختیاری آنے کی وجہ سے علاقے پر ان کی اجارہ داری ختم ہوسکتی ہے۔


ڈاکٹر بنگالی کہتے ہیں کہ کوتاہ بینی پر مبنی یہ وہ موقع پرستانہ روش ہے، جو ملکی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ اسی طرح کراچی اور حیدرآباد کے درمیان سپر ہائی وے پر ضلع دادو (حالیہ جامشورو) میں نوری آباد میں ساڑھے چار ہزار صنعتی یونٹوں کی گنجائش کے ساتھ انڈسٹریل اسٹیٹ کا انفرااسٹرکچر تین دہائی قبل قائم کیا گیا تھا۔ مگر سیاسی مصلحتوں اور مداخلتوں کے باعث یہ منصوبہ ناکامی سے دوچار ہوگیا۔ جس کا نقصان سندھ کے عوام کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔

اب دوسری طرف آئیے۔ کراچی کے بیشتر علاقوں کا انفرااسٹرکچر انگریز کے دور کا بنایا ہوا ہے، جس وقت آبادی 4 لاکھ ہوا کرتی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد جب آبادی میں بے پناہ اضافہ ہوا، تو سیوریج نظام کو وسیع کرنے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ کراچی کے اطراف سے دو ندیاں ملیر اور لیاری گزرتی تھیں، جو اب شہر کے اندر آچکی ہیں، کیونکہ شہر ان کے اطراف پھیل چکا ہے۔ اس کے علاوہ سات قدرتی برساتی نالے تھے، جو شمال مغرب کے پہاڑی علاقوں سے برساتی پانی کو ان ندیوں میں ڈالتے تھے۔ آبادی میں بے تحاشا اضافے اور حکومتوں کی غفلت کے باعث یہ قدرتی نالے تقریباً بند ہوچکے ہیں۔

ابھی حال ہی میں سندھ حکومت نے گجر نالے کے اندر بنے مکانات کو منہدم کرکے اس کی کسی حد تک صفائی کی ہے۔ لیکن یہ ناکافی عمل ہے۔ جب کہ انگریزوں نے تین نالے تعمیر کیے تھے، جو سمندر میں گرتے تھے، ان نالوں پر کاغذی بازار سمیت کئی بلند و بالا عمارتیں تعمیر ہوجانے سے مکمل طور پر بند ہوچکے ہیں۔

شہر کی نئی بستیوں میں سیوریج کا جو نظام بنایا گیا، وہ مکانوں کے لیے تھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ان پلاٹوں پر کئی منزلہ اپارٹمنٹس تعمیر ہوگئے۔ جس کی سب سے نمایاں مثال گلشن اقبال اور گلستان جوہر ہے۔ یونیورسٹی روڈ پر جو رہائشی پلاٹ الاٹ کیے گئے تھے، اب ان پر کئی منزلہ کمرشل پلازہ بن چکے ہیں۔ ایک پلاٹ پر دو یا تین گھرانوں کی جگہ درجنوں گھرانے آباد ہیں۔ جب کہ گلستان جوہر کا حال اس سے بھی برا ہے۔ یہ علاقہ فلیٹوں کا جنگل بن چکا ہے۔ ایسے میں سیوریج سسٹم سمیت دیگر انفرااسٹرکچر جو محض چند سو خاندانوں کے لیے بنایا گیا ہو، اس پر لاکھوں افراد کے آباد ہوجانے سے اس کا ناکام ہوجانا لازمی امر ہے۔

اس معاملے میں ٹاؤن پلانرز کے ویژن اور دور اندیشی کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔ ستر برسوں کے دوران کسی بھی ٹاؤن پلانر نے مستقبل بینی کے ساتھ شہری منصوبہ بندی نہیں کی۔ تعمیرات اور بلدیات کے جو وزرا اس دوران اقتدار میں آئے، وہ ٹاؤن پلاننگ کا سطحی سے بھی کم علم رکھتے رہے ہیں۔

انگریز نے برٹش انڈیا میں جو انفرااسٹرکچر آج سے 100 برس قبل تیار کیا تھا، اس کا بیشتر حصہ آج بھی کارآمد اور فعال ہے۔ جس کی سب سے نمایاں مثال دوسری عالمی جنگ کے دوران کراچی کے لائنزایریا میں بنائی گئی بیرکیں ہیں۔ جن کے لیے جو سیوریج نظام بنایا گیا، اسے قیام پاکستان کے بعد بننے والی PECHS سوسائٹی سے بھی منسلک کردیا گیا۔ لائنزایریا میں حد سے بڑھی ہوئی تجاوزات کے باعث یہ سیوریج سسٹم اب بیٹھ گیا ہے۔

ہم کئی برسوں سے اس موضوع پر مسلسل لکھ رہے ہیں اور اس وقت تک لکھتے رہیں گے جب تک کہ حکمران اشرافیہ اختیارات کی عدم مرکزیت قائم کرنے پر آمادہ نہیں ہوجاتی، جب تک ایک حقیقتاً بااختیار مقامی حکومتی نظام کو قبول کرتے ہوئے اسے پورے ملک میں نافذ نہیں کردیتی، جب تک اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اس قدر باشعور نہیں ہوجاتے کہ وہ رضاکارانہ طور پر جنرل ضیا کے دور سے مختص کردہ ترقیاتی فنڈسے دستبردار ہوکر اسے مقامی حکومتوں کو تفویض کرنے کی قانون سازی نہیں کردیتے۔ کیونکہ ایک بااختیار مقامی حکومتی نظام کے ذریعے ہی شہری سہولیات تک رسائی ممکن ہے۔
Load Next Story