مردم شماری میں سندھ سے زیادتی ہوئی وفاق تحفظات دور کرے

سندھ کی اہم سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کی ایکسپریس فورم میں گفتگو

انصاف نہیں ملا تو پھر احتجاج ، لانگ مارچ اور دھرنے کے آپشنز موجود ہیں۔ فوٹو: فائل

ایک طویل انتظار کے بعد ملک میں مردم شماری ہوئی اور گذشتہ ماہ اُس کے ابتدائی نتائج جاری کردیے گئے ہیں۔

وفاقی ادارہ شماریات کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کی مجموعی آبادی 20 کروڑ 77 لاکھ ہے، مردوں کی تعداد خواتین کے مقابلے میں 51 لاکھ زیادہ ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل میں پیش کیے گئے مردم شماری کے ابتدائی نتائج کے مطابق پنجاب کی آبادی 11کروڑ، سندھ کی 4 کروڑ 78لاکھ، خیبرپختونخوا کی 3کروڑ 5 لاکھ، بلوچستان کی ایک کروڑ 23 لاکھ، فاٹا کی 50 لاکھ اور اسلام آباد کی آبادی 20 لاکھ ہے۔

ان نتائج میں آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے نتائج شامل نہیں کیے گئے۔بڑے شہروں میں آبادی کے لحاظ سے گوکہ کراچی پہلے نمبر پر ہے تاہم ان اعدادوشمار پر سندھ میں موجودہ تقریباً تمام سیاسی جماعتوں اور عام افراد وک بھی خاصی حیرت بھی ہے اور تحفظات بھی ہیں۔ کراچی کی آبادی ایک کروڑ 49 لاکھ بتائی گئی ہے جس کے مقابلے میں لاہور میں آبادی ایک کروڑ 11 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ اسی طرح دیگر شہروں کے بھی اعدادوشمار ہیں۔

سندھ کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں ایم کیو ایم پاکستان، پاکستان پیپلزپارٹی، تحریک انصاف، پاک سرزمین پارٹی اور دیگر نے مردم شماری کو ابتدائی نتائج میں ہی مسترد کردیا ہے اور اس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ سندھ حکومت کہتی ہے کہ وفاقی حکومت نے این ایف سی میں سندھ کا حصہ کم رکھنے کیلیے سندھ کی آبادی کم ظاہر کی ہے۔ آخراصل صورتحال کیا ہے، مردم شماری کے ابتدائی نتائج کے حوالے سے ہم نے کراچی میں ''ایکسپریس فورم'' کے ذریعے مختلف سیاسی جماعتوں کی رائے لی، انھوں نے اپنا جو موقف بیان کیا وہ نذر قارئین ہے٭

نثار کھوڑو (سینئر وزیر و صوبائی صدر پاکستان پیپلزپارٹی)

مردم شماری کے ابتدائی نتائج جو سندھ کے حوالے سے جاری کیے گئے ہیں ان نتائج کو پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت مکمل طور پر مستردکرتی ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مردم شماری سندھ کی آبادی کو کم ظاہر کرنا وفاق کی صوبے کے خلاف سازش ہے لیکن سازش کو کسی طو رپر کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ جب مردم شماری اور خانہ شماری کا عمل ہو رہا تھا اس وقت بھی سندھ حکومت نے مطالبہ کیاتھاکہ مردم شماری کے کوائف کے فارم کی ایک کاپی سندھ حکومت کو فراہم کی جائے لیکن ہمارا یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا گیا۔ اب جو صورتحال سامنے آرہی ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے پیپلز پارٹی کی قیادت نے ان نتائج کو مسترد کر دیا ہے اور نتائج کے حوالے سے لائحہ عمل کو طے کرنے کے لیے پیپلزپارٹی کی جانب سے جلد آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد زیر غور ہے۔ سندھ اپنے حق سے کسی صورت دست بردار نہیں ہو گا اور ہم اپنا حق لے کر رہیں گے۔ ہم وفاق اور ادارہ شماریات سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ سندھ کی آبادی کو کس فارمولے کی بنیاد پر طے کیا گیا ہے اس کا فوری جواب دیا جائے۔

سید ناصر حسین شاہ (وزیر طلاعات سندھ)

وزیر اعلیٰ سندھ نے مردم شماری کا عمل شروع ہونے کے دوران ہی اپنے خدشات اور تحفظات سے وزیر اعظم کو آگاہ کیا تھا لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ یہ مسئلہ مشترکہ مفادات کونسل میں بھی اٹھایا گیا تھا۔ 19 سال کی تاخیر کے بعد مردم شماری ہوئی ہے اس پر اربوں روپے خرچ ہوئے ہیں۔ سندھ کی آبادی کو کم ظاہر کرنے سے صوبے کے عوام میں احساس محرومی پیدا ہو گا جبکہ نتائج کا این ایف سی ایوارڈ پر براہ راست اثر ہو گا ۔ حیران کن بات ہے کہ کراچی جو بہت تیزی سے مسلسل پھیل رہا ہے اس کی آبادی بھی تمام اندازوں کے برعکس دکھائی گئی جبکہ کراچی کی آبادی زیادہ آنی چاہیے تھی۔ سندھ حکومت پاک فوج کو درخواست بھیجے گی کہ ادارہ شماریات میں سندھ کی آبادی کے جو نتائج ظاہر کیے ہیں پاک فوج ان نتائج کا اپنے ڈیٹا سے موازنہ کرکے رپورٹ صوبائی حکومت دے۔ پاک فوج ایک بااعتماد ادارہ ہے اور ہمیں پاک فوج پر مکمل بھروسہ ہے۔ سندھ حکومت مردم شماری کے نتائج کے خلاف ہر آئینی اور قانونی راستہ اختیار کرے گی اور اس حوالے سے یہ معاملہ دوبارہ وزیر اعظم اور مشترکہ مفادات کی کونسل میں اٹھایا جائے گا۔

شاہ محمد شاہ (مرکزی رہنما پاکستان مسلم لیگ ن)

ریاست اُس وقت چلتی ہے جب اس کے پاس آبادی کے اعدادو شمار موجود ہوتے ہیں ۔ خانہ و مردم شماری کے نتائج کی روشنی میں ہی وسائل کی تقسیم ہوتی ہے، ترقیاتی کام ہوتے ہیں، پاکستان میں اب تک 6 مردم شماریاں ہوچکی ہیں جس میں سے دو1998 اور2017 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں نے کروائیں اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے دونوں ادوار میں ہی ملک میں شفاف طریقے سے مردم شماری ہوئی۔ نواز شریف جب بھی کام کرتے ہیں انھیں وزیراعظم کے عہدے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ موجودہ مردم شماری میں سندھ کے ساتھ کوئی سازش کی گئی ہے نہ ہی کراچی کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے۔ مردم شماری فوج کی نگرانی میں ہوئی تو اس پر سوالیہ نشان کیوں لگایا جارہا ہے؟۔ ان نتائج پر اگر کسی کو تحفظات ہیںتو اسکے لیے عدالت کا دروازہ کھلا ہے ، وہ اس کو چیلنج کرے۔ عام انتخابات قریب ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے پاس اب کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے ۔اس لیے سندھ میں اپنی حکومت کی نااہلی کو چھپانے کیلیے انھوں نے مردم شماری کو سازش کہہ کر اس کو اپنا انتخابی ایجنڈا بنالیا ہے۔ متحدہ پاکستان ہو، یا پی ایس پی یا مہاجر قومی موومنٹ یہ سب ایک ہی ہیں ۔ کراچی کی آبادی کو3کروڑ بتانے والے اس سوال کا جواب دیں کہ ان کے پاس کیا پیمانہ تھاکہ شہر کی آبادی انھوں نے انگلیوں پر گن لی۔ پیپلز پارٹی نے مرکز میں2008 سے 2013 تک حکومت کی، انھوں نے مردم شماری کیوں نہیں کرائی۔ اب دھرنا سیاست نہیں چلے گی ۔کراچی میں آبادی میں کمی کے بہت سارے اسباب ہوسکتے ہیں ۔ مردم شماری میں انہی لوگوں کو شامل کیا گیا ہے جن کے پاس قومی شناختی کارڈ موجودہے یا وہ پاکستان کے شہری ہیں۔

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی (مرکزی رہنما ایم کیو ایم پاکستان)

مردم شماری میں بدترین دھاندلی کی گئی ہے اور کراچی کی آبادی کو کم کرکے اس کے وسائل پر شب خون مارا گیا ہے۔کراچی سمیت سندھ بھر میں خانہ شماری اور مردم شماری کے نام پر عوام کو بیوقوف بنایا گیا ہے۔ سندھ کے شہری علاقوں کی آبادی کو جان بوجھ کر کم دکھایا گیا ہے، اس سے سندھ کی شہری آبادی میں احساس محرومی پایا جاتا ہے۔ ماضی میں جتنی دفعہ مردم شماری کی گئی اس میں کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں کے ساتھ سازش ہوئی اور اب دوبارہ اردو بولنے والوں کی آبادی کو کم ظاہر کیا گیا ہے ۔ ادارۂ شماریات کے مطابق کراچی کی آبادی کو 1کروڑ 60 لاکھ 51 ہزار 521 پر ظاہر کیا گیا ہے ، لیکن اگر نادرا کے حساب سے دیکھا جائے تو کراچی کی آبادی ڈھائی کروڑ بنتی ہے ۔ ایم کیو ایم پاکستان اس مرتبہ کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں کے ساتھ زیادتی نہیں ہونے دے گی۔کراچی کے وسائل کو پہلے ہی لوٹا جارہا ہے سندھ کی تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اس معاملے پر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوجائیں تو اس مسئلے پر قانونی اور عوامی جنگ مشترکہ طور پر لڑی جائے۔ ایم کیو ایم اس معاملے پر پہلے ہی سپریم کورٹ سے رجوع کرچکی ہے اور ہمیں یقین ہے کہ سپریم کورٹ ہمیں انصاف دے گی۔ اگر اس اعداد و شمار پر وسائل کی تقسیم ہوئی تو پھر کراچی کیسے چلے گا ؟ ۔ اگر ضرورت پڑی تو اس معاملے پر آل پارٹیز کانفرنس بلائیں گے اور مشترکہ لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ کراچی کے لوگ لاوارث نہیں ہیں، ہم محب وطن ہیں ، ہمیں حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں۔ ادارۂ شماریات یہ بتائے کہ اس نے کس فارمولے کی بناپر کراچی سمیت صوبے بھر کی آبادی کا تعین کیاہے۔صرف10 سال میں کراچی کی آبادی میں62لاکھ کا اضافہ ہوا ، یہ ایک سوالیہ نشان ہے ؟ ۔ متحدہ قومی موومنٹ (پاکستان) اس معاملے پر اپنے قانونی موقف اور دلائل کے ساتھ اپنا مقدمہ سپریم کورٹ اور عوام کی عدالت میں لے کر جائے گی۔ اگر اس معاملے پر ہمارا موقف نہ سنا گیا تو پھر اس کے سنگین نتائج کی ذمے دار حکومت وقت ہوگی۔

انیس احمد ایڈووکیٹ (سینئر وائس چیئرمین پاک سرزمین پارٹی )


مردم شماری میں کراچی سمیت صوبے بھر کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے۔ چھٹی مردم شماری کے ابتدائی نتائج انتہائی مایوس کن ہے۔ کراچی سے فاٹا تک عوام اور سیاسی جماعتوں نے مردم شماری کے ابتدائی نتائج کو یکسر مسترد کردیاہے۔ یہ مردم شماری صوبوں اور عوام کو آپس میں لڑانے کی سازش ہے ۔ورلڈ بینک اورWHO کے اندازوں کے مطابق پاکستان کی آبادی 23 کروڑ بنتی ہے ۔کراچی کے 18 ٹاؤنز کی آبادی بالترتیب اورنگی ٹاؤن 25 لاکھ، کورنگی 18 لاکھ، لیاری 14 لاکھ ، لانڈھی 16 لاکھ، گلشن اقبال 14 لاکھ ، ملیر 13 لاکھ، شاہ فیصل 14لاکھ، لیاقت آباد 16لاکھ، گلبرگ 15 لاکھ، ناظم آباد 15 لاکھ، نیو کراچی 14 لاکھ، گڈاپ 8 لاکھ، کیماڑی 11 لاکھ، بلدیہ 15 لاکھ، سائٹ 11 لاکھ، بن قاسم 7 لاکھ، صدر 12 لاکھ اور جمشید ٹاؤن 13 لاکھ کی آبادی پر مشتمل ہے۔ اگر ان ٹاؤنز کی ابادی کو شمار کیا جائے تو یہ ٹوٹل 2 کروڑ51 لاکھ بنتی ہے۔ کراچی سے ایک کروڑ سے زائد آبادی کو حالیہ مردم شماری میں شمار نہیں کیا گیا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ کراچی کی آبادی میں 52 فیصد اور لاہور کی آبادی میں116 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ہم ادارہ شماریات سے سوال کرتے ہیں کہ کراچی کی ابادی میں اضافے شرح کس طرح کم ہوگئی؟ ، اس کا فارمولا بھی عوام کے سامنے لایا جائے اور یہ بتایا جائے کہ کراچی کی آبادی کو کس فارمولے بنیاد پر طے کیے گئے ہیں۔ حالیہ آبادی کے اعدادو شمار سے صاف سازش کی بُو نظر آرہی ہے ، ہم اس معاملے پر چپ نہیں بیٹھیں گے۔ چیف جسٹس آف پاکستان اس معاملے کا از خود نوٹس لیں۔ کراچی کے عوام آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اب وفاقی حکومت ان اعدادو شمار کراچی کے وسائل میں مزید کٹوتی کرے گی ۔ پاک سرزمین پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ مردم شماری کی ابتدائی رپورٹ پر تمام سیاسی جماعتیں اکٹھی ہوں۔ اس معاملے میں ایم کیو ایم پاکستان، مہاجر قومی موومنٹ یا پیپلز پارٹی سمیت کسی بھی جماعت نے رجوع کیا یا اے پی سی بلائی تو ہماری کوشش ہوگی کہ ہم مشترکہ طور پر مردم شماری کے معاملے پر احتجاج یا قانونی جنگ کا لائحہ عمل طے کریں۔ اگر کراچی کے عوام کو انصاف نہیں ملا تو پھر احتجاجی مظاہرے ، لانگ مارچ اور دھرنے کے آپشنز موجود ہیں۔

آفاق احمد (چیئرمین مہاجر قومی موومنٹ،)

خانہ و مردم شماری کسی بھی ریاست کی ترقی کیلیے انتہائی صروری ہوتی ہے کیونکہ انھی اعدادو شمار کی بنیاد پر ریاست انفرااسٹرکچر اور دیگر بنیادی سہولتوں کی فراہمی کیلیے اقدامات کرتی ہے۔ چھٹی مردم شماری کے ابتدائی نتائج پر اتنے تحفظات آچکے ہیں کہ اس کی مثالیں ماضی میں کم ملتی ہیں۔ کراچی ملک کا کاسموپولیٹن سٹی ہے ، مختلف حلقوں کی جانب سے گذشتہ2 سے3 سال میں کراچی کی آبادی کو 2 کروڑ سے زائد ہی بتایا گیا ہے۔ اب مردم شماری کے نتائج کے مطابق کراچی کی آبادی 1کروڑ 60 لاکھ سے زائد بتائی گئی ہے۔کراچی کی آبادی کا تعین کس فارمولے کی بنیاد پر کیا گیا ہے یہ فارمولا سامنے لایا جائے۔ کراچی میں اردو بولنے والوں کی اکثریت ہے ۔ اگر یہی نتائج حتمی تصور کیے گئے تو پھر اس کے اثرات اچھے نہیں ہوں گے۔ کراچی کو ماضی میں بھی نظر انداز کیا گیا ہے ۔کبھی کوٹا سسٹم کے نام پر اور کبھی وسائل کی تقسیم کے نام پر۔ جبکہ کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے اور اس کو منی پاکستان کا درجہ دیا جاتاہے اور یہی شہر پورے پاکستان کے بیروزگاروں کیلیے روزگار فراہم کرتا ہے۔ابتدائی نتائج کا ہم جائزہ لے رہے ہیں ، حتمی نتائج کے بعد مہاجر قومی موومنٹ اپنے حتمی لائحہ عمل کا اعلان کرے گی لیکن ہم اس معاملے پر خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ کراچی کو مردم شماری میں اگر نظرانداز کیا گیا تو یہ سازش کے مترادف ہوگا، اس سے کراچی کی عوام میں احساس محرومی بڑھے گا۔ وفاقی حکومت اس معاملے پر ہوش کے ناخن لے اور اگر اس معاملے پر تحفظات کو دور نہ کیا گیا تو پھر حکومت وقت کو شدید عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا اور حکومت کو ایک نئے سیاسی محاذ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہم کراچی کے ساتھ کسی بھی صورت میں زیادتی برداشت نہیں کریں گے۔ اگر کسی جماعت نے ہم سے اس معاملے پر احتجاج کیلیے رابطہ کیا تو پھر ہم مشاورت کے ساتھ اس کا جواب دیں گے۔

عمران اسماعیل (مرکزی رہنما پاکستان تحریک انصاف )

مردم شماری کے ابتدائی نتائج کو پی ٹی آئی کی قیادت مسترد کرتی ہے، ان نتائج میں کراچی سمیت سندھ بھر کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے۔ حکومت کچھ دنوں پہلے تک خوب کہتی تھی کہ کراچی کی آبادی 2 کروڑ سے زائد ہوگئی ہے اب کراچی کی آبادی 1 کروڑ 60 لاکھ کیسے ہوگئی ؟ ۔کیا کراچی کی عوام نے بچے پیدا کرنا بند کردیے ہیں یا کراچی میں پیدائش کی شرح کم یا اموات کی شرح بڑھ گئی ہے؟ اس کا جواب حکومت وقت دے ۔کراچی کے ساتھ تو پہلے ہی زیادتی کی جارہی ہے ، کراچی کے وسائل کو ماضی اور اب کی تمام حکومتوں نے بیدردی سے لوٹا ہے۔ ہم اس معاملے پر خاموش نہیں بیٹھیں گے اور یہ معاملہ پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ سندھ اسمبلی میں اٹھایا جائے گا۔ کراچی کے عوام لاوارث نہیں، کراچی کی آبادی میں اضافے کے تناسب کو انتہائی کم دکھایا گیا ہے جو ایک سوالیہ نشان ہے۔ 1998 کی مردم شماری کے مطابق کراچی کی آبادی98 لاکھ 56 ہزار 318 تھی ، اب ابتدائی نتائج میں1 کروڑ 60 لاکھ 51ہزار 521 بتائی گئی ہے ۔ یہ آبادی کا تناسب کس فارمولے کے تحت طے کیا گیا ہے؟۔ یہ وقت سیاست کا نہیں اس پر سندھ کی تمام جماعتوں کو باہمی مشاورت سے پالیسی طے کرنا ہوگی اور مل کر احتجاج کیلیے کوئی فارمولا طے کرنا ہوگا۔ پی ٹی آئی کی صوبائی قیادت اس معاملے پر تمام جماعتوں سے رابطہ کرے گی اور مشترکہ لائحہ عمل جلد طے کریں گے ۔ حکمرانوں کی نااہلی کے سبب کراچی کا شمار آج دنیا کے بدترین شہروں میں ہوتا ہے۔ کراچی میں سیوریج، پانی اور انفرااسٹرکچر کا نظام تباہ ہوچکا ہے ۔ کراچی میں بلدیاتی نمائندوں کو احتیارات نہیں ہیں، تمام اختیارات و وسائل پر مرکز اور صوبائی حکومت قابض ہے ۔ اگر اسی آبادی کی رپورٹ پر وسائل کی تقسیم ہوئی تو پھر احساس محرومی جنم لے گا ۔حکومت وقت کو چاہیے کہ وہ مردم شماری کے ابتدائی نتائج پر سیاسی جماعتوں کی جانب سے اٹھائے گئے تحفظات اور اعتراضات کو دور کرے تاکہ عوام کی بے چینی دور ہوسکے۔

حافظ نعیم الرحمن ( امیرجماعت اسلامی کراچی )

مردم شماری کے ابتدائی نتائج میں کراچی سمیت صوبے کی آبادی کو کم ظاہر کیا گیا ہے۔ کراچی کی آبادی کی ایک کروڑ 60لاکھ کیسے ہو سکتی ہے؟، ہم مردم شماری کے نتائج کو مسترد کر تے ہیں۔ جماعت اسلامی ان نتائج کے خلاف ہر فورم پر احتجاج کرے گی اور اگر تمام سیاسی جماعتیں مشترکہ طور پر کوئی قانونی اور احتجاجی لائحہ طے کرے گی جماعت اسلامی اس کا ساتھ دے گی۔ جماعت اسلامی کے سابق میئر عبدالستار افغانی اور سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان کے دور میں شہر قائد کی ترقی کے لیے اربوں روپے کے ترقیاتی کام کرائے گئے۔ مردم شماری کا عمل اچھی بات ہے۔وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ صوبائی حکومت اور سیاسی جماعتوں کے تحفظات اور خدشات کو دور کرے۔

یونس بونیری (جنرل سیکریٹری عوامی نیشنل پارٹی سندھ)

کراچی سمیت سندھ بھر کے حوالے سے مردم شماری کے ابتدائی نتائج پر صوبائی حکومت اور سیاسی جماعتوں نے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے، اس کی آبادی کس طرح کم ہو سکتی ہے؟۔ کراچی میں پختون آبادی لاکھوں میں ہے۔ سوات اور فاٹا میں آپریش کے باعث جو پختون نقل مکانی کرکے کراچی آئے تھے وہ آج بھی کراچی میں آباد ہیں۔ ادارہ شماریات نے مردم شماری میں پختونوں کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ لاکھوں پختونوں کو مردم شماری کا حصہ نہیں بنایا گیا ہے، ہم اس پر شدید احتجاج کرتے ہیں اور مردم شماری کے نتائج کے خلاف سیاسی جماعتیں جو لائحہ طے کریں گی۔ ہم مشاورت کے بعد ان کا ساتھ دیں گے اور یہ معاملہ ہر فورم پر اٹھایا جائے گا۔

سید جلال محمود شاہ (سربراہ سندھ یونائیٹڈ پارٹی)

19 سال کی تاخیر کے بعد مردم شماری ہوئی ہے جس کے ابتدائی نتائج پر ہمارے کچھ خدشات ہیں۔ مردم شماری کے عمل میں صوبے میں موجود غیر ملکی تارکین وطن کو شامل نہیں کیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتیں مردم شماری کے نتائج کو مسترد کر کے اس عمل کے خلا ف سازش کر رہی ہیں۔ ہم مردم شماری کے عمل کو کسی صورت ختم نہیں ہونے دیں گے۔ کسی شہر کی آبادی کے حوالے سے مردم شماری کے نتائج پر تحفظات ہیں تو ان خدشات کو دور کرنا وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے۔ اگر مردم شماری کے نتائج کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا تو یہ سندھ اور دیگر صوبوں کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ ہمارا وفاقی حکومت سے مطالبہ ہے کہ مردم شماری کے ابتدائی نتائج پر صوبائی حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کے تحفظات کو دور کیا جائے۔

سردار عبدالرحیم ( جنرل سیکریٹری مسلم لیگ (فنکشنل) سندھ)

ہم مردم شماری کے حوالے سے سندھ کی آبادی کے حتمی نتائج کاانتظار کررہے ہیں ۔ اگر حتمی نتائج میں بھی سندھ کی آبادی کم ہوئی تو یہ (ن) لیگ کی وفاقی حکومت کی سندھ کے خلاف سازش ہوگی ۔ان نتائج کا اثر آئندہ انتخابات پر ہوگا ۔اگلا الیکشن مشکوک ہوجائے گا اور لاکھوں لوگ ووٹ ڈالنے سے محروم ہوجائیں گے۔ مردم شماری کا معاملہ قومی ایشو ہے، اس پر سیاست نہ کی جائے اوروفاقی حکومت اس معاملے پر اعتراضات دور کرے ۔ مسلم لیگ (ف) اس معاملے پر مشاورت کے بعد اپنی پالیسی کاتعین کرے گی ۔اگر کسی جماعت نے اس معاملے ہم سے رابطہ کیا تو مشاورت کے بعد جواب دیں گے ۔
Load Next Story