قائد اعظم کا تصور پاکستان
قائداعظم کے افکار میں قومی بحرانوں کا حل موجود ہے۔
قائداعظم محمدعلی جناح کے تصورِ پاکستان کے بارے میں جب بھی اظہارِ خیال کا کوئی موقع آتا ہے تو فوراً ہی ندامت اور تأسف وحسرت کا ایک تاثر بھی ابھرتا ہے۔
اگر پاکستان اپنے بانی کے تصورات کا آئینہ دار ہوتا تو ان تصورات کا زبانی تذکرہ کرنے کی چنداں ضرورت پیش نہ آتی۔ اس کے بہ جائے ہم اپنے ملک کے سیاسی احوال سے براہِ راست طورپر استنباط کرتے، اپنے گردوپیش پر نظر دوڑاتے اور بڑے فخر کے ساتھ کہتے کہ یہی بانیٔ پاکستان کے تصورات کی تصویر اور ان کی عملی تعبیر ہے۔ مگر دن رات قائداعظم کے نام کی مالا جپنے کے باوجود ان کے افکار اور خیالات اوران کے طرزِفکر و احساس سے ہماری قومی زندگی کو کوئی علاقہ نہیں۔ قائداعظم کی رحلت کے برسوں بعد تک ان کی بیش تر تقاریر اشاعت تک سے محروم رہیں۔
قائداعظم کے بعض بیانات اربابِ اختیار نے قوم کے سامنے نہیں آنے دیے۔ یہ بات اب ریکارڈ پر آچکی ہے کہ ان کی 11اگست 1947 کی فکرانگیز تقریر کو اس وقت کی افسرشاہی نے سنسر کرنے کی کوشش کی۔ اب بھی صورتِ حال یہ ہے کہ ملک میں بولی جانے والی بیش ترزبانوں میں قائداعظم کے خطبات ناپید ہیں۔ ماضی میں قائداعظم کی سوانح حیات کے صرف وہی پہلو منظرِعام پر آسکے جن کا منظرِعام پر آنا حکومتوں کو منظور تھا۔ حیاتِ قائداعظم کے وہ درخشاں پہلو جو ہماری ریاستی پالیسیوں سے میل نہیں کھاتے تھے بڑی ہوشیاری کے ساتھ تلف کردیے گئے یا انھیں دبیز پردوں کے پیچھے چھپا دیا گیا۔
بدقسمتی سے ہم نے نہ صرف قائداعظم کے تصورات و افکار اور ان کے طرزِفکر کو سمجھنے میں ٹھوکر کھائی ہے بلکہ جوں جوں وقت گزرتا گیا ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی تعداد میںبھی اضافہ ہوتا چلا گیا ہے' جنھوں نے پہلے تو قائداعظم کے نظریات کی نت نئی تاویلیں پیش کیں اور پھر اپنے نسخہ ہائے کیمیا کو قائد اعظم کے تصورات بناکر پیش کرنا شروع کردیا۔ یہ سلسلہ اس قدر دراز ہوچکا ہے اور اس کے اثرات اتنے دور تک پہنچ چکے ہیں کہ اب دانشِ حاضر کی پہلی ذمے داری ہی یہ قرار پاتی ہے کہ فی الفور قائداعظم کے ان تصورات کا کھوج لگائیں جن پر امتدادِ زمانہ کی گرد اور تحریف پسندوں کی ضرب پڑ چکی ہے۔
قائداعظم کے تصورات کے تذکرے اور ان کی تشریح سے قبل دو بنیادی باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ قائداعظم بجا طورپر ایسے راہ نماؤں میں شمار ہوتے ہیں جو اپنے غیرمعمولی شخصی اوصاف، اپنی تاریخ فہمی اور تدبر کے حوالے سے اپنے زمانے پر اثرانداز ہوئے اور حالات کا رخ موڑنے میںاہم کردار ادا کیا۔ ان کی کام یابی کا بڑا راز معروضی حالات کے ان کے فہم میں پوشیدہ تھا۔ قائداعظم کے تصورات کی اہمیت بھی اسی حقیقت میں مضمر ہے کہ یہ تصورات ذاتی ہوتے ہوئے بھی روحِ عصر کے بہترین عکاس تھے۔
قائداعظم کے تصورات کی تفہیم کے ضمن میں دوسری قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ مختلف امور کے حوالے سے ان کے طرزِعمل یا ان کے ردِعمل میں تبدیلیوں کے باوجود اہم ترین امور پر ان کے یہاں استقلالِ فکروعمل کی کارفرمائی کو دریافت کرنا کوئی زیادہ مشکل نہیں۔ بعض لوگوں نے ہندو مسلم تعلقات، ہندوستان کے اتحاد یا ایسے ہی دیگر موضوعات کے حوالے سے قائداعظم کی جانب سے مختلف ادوار میں اختیار کردہ مؤقف میں تضاد کی نشان دہی کی ہے۔ یہ قائداعظم کی دلیل اور ان کے مدعا کے فرق کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔
قائداعظم کی حیثیت مسلمانوں کے مقدمے کے ایک مستعد اور صاحبِ نظر وکیل کی تھی۔ وہ بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں ہندوستانی سیاست میں وارد ہوئے اور انھوں نے مسلمانوں کی نمائندگی اور ان کے کاز کی بہترین عملی تعبیر کی تلاش کے کام کو اپنا مطمعٔ نظر بنایا۔ یہ دور ہندوستان کی سیاست میں ہمہ جہتی تبدیلیوں، سیاسی تحریکوں، آئینی اصلاحات اور تصادم و تعاون کے مختلف النوع رجحانات کا دور تھا۔ ہمہ وقت بدلتی سیاسی صورتِ حال کے علاوہ یہ بات بھی واضح تھی کہ ہندوستان کے مستقبل کا حتمی فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کے مقدمے کے وکیل کی حیثیت سے قائداعظم کے دلائل، ان کے الفاظ اور ان کی لغت میں بھی تبدیلیاں آتی چلی گئیں۔
ظاہر بیں نظروں نے قائداعظم کی استعمال کردہ اصطلاحات اور ان کی ڈکشنری ہی کو ان کی منزل تصور کرلیا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ ان کی سیاست میں تضاد دیکھنے پر مجبور ہیں۔ سوال یہ ہے کہ قائداعظم کی اصل منزل کیا تھی یا ان کا حقیقی مدعا کیا تھا۔ اس سوال کا جواب یوں بھی اہم ہے کہ اگر قائداعظم کے مقصد کو سمجھ لیا جائے تو ان کے نظریات و افکار کی گرہیں بھی کھلنے لگتی ہیں۔
بنیادی طورپر قائداعظم برصغیر کے مسلمانوں کے لیے سماجی انصاف اور ان کے سیاسی و جمہوری حقوق کو یقینی بنانا چاہتے تھے۔ ابتدا میں انھوں نے یہ مقصد متحدہ ہندوستان کے پس منظر میں حاصل کرنا چاہا اور جب انھیں متحدہ ہندوستان کے اندر اس مقصد کا حصول ممکن نہیں نظر آیا تو پھر اسی مقصد کے لیے انھوں نے علیحدہ مملکت کی تجویز پیش کی۔ ایک علیحدہ مملکت کا تصور قائداعظم کے نزدیک دین کے بنیادی اراکین میں شامل نہیں تھا کہ جس پر زندگی کے ایک خاص مرحلے میں وہ ایمان لے آئے تھے بلکہ یہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے سماجی اور سیاسی حقوق کے حصول کے دیگر مجوزہ راستوں کے بند ہو جانے کے بعد بچ جانے والا واحد اور ناگزیر راستہ تھا۔ ایک بار جب انھوں نے اس راستے کو اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا تو ان کے دلائل کا رخ بھی اسی جانب مڑ گیا۔ انھوں نے مسلم قومیت کو اپنے مطالبے کی اساس بنایا مگر ایسا کرتے وقت وہ ایک دلیل ہی کا سامان کر رہے تھے۔ مسلم قومیت ان کا ہدف نہیں بلکہ ان کے ہدف کے حصول کی سیاسی دلیل تھی۔
جہاں تک سماجی انصاف کے مسئلے کا تعلق ہے تو اس ضمن میں قائداعظم کے خیالات میں اشکال کی ذرا سی بھی گنجائش موجود نہیں ہے۔
تحریکِ پاکستان کی مختلف تعبیرات میں ایک تعبیر یہ بھی ہے کہ اس کی پشت پر مسلمان سرمایہ دار یا مسلم بورژوا طبقے کے مفادات کارفرما تھے۔ Hanna Papanek نے ایک تحقیقی مقالے میں بمبئی، گجرات اور کلکتہ کے مسلم بورژوا طبقے کے حقیقی عزائم پر سے پردہ اٹھایا ہے جس کا خیال تھا کہ قیامِ پاکستان کے بعد وہ ہندوستان میں اپنے تجارتی و صنعتی مراکز بدستور قائم رکھے گا، جب کہ پاکستان تو تمام تر اس کے لیے فرشِ راہ ہوگا۔ قائداعظم مسلم سرمایہ داروں کو ساتھ لے کر چلنے پر مجبور تھے کہ مسلم لیگ کو فنڈز کی ضرورت تھی مگر وہ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی ہوسِ زر سے بھی ناواقف نہیں تھے۔ چنانچہ 1943 ہی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ دہلی میں انھوں نے تنبیہ کردی تھی کہ:
''پاکستان میں عوامی حکومت ہوگی اور یہاں میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو متنبہ کردوں جو ایک ظالمانہ اور قبیح نظام کے وسیلے سے پھل پھول رہے ہیں اور اس بات نے انھیں اتنا خود غرض بنا دیا ہے کہ ان کے ساتھ عقل کی کوئی بات کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ عوام کی لوٹ کھسوٹ ان کے خون میں شامل ہوگئی ہے۔ انھوں نے اسلام کے سبق بھلا دیے ہیں۔ حرص اور خودغرضی نے ان لوگوں کو اس بات پر قائل کر رکھا ہے کہ دوسروں کے مفادات کو اپنے مفادات کے تابع بنا کر موٹے ہوتے جائیں۔ میں گاؤں میں گیا ہوں' وہاں لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں ہمارے عوام ہیں جن کو دن میں ایک وقت کی روٹی نصیب نہیں۔ کیا یہی تہذیب ہے؟ کیا یہی پاکستان کا مقصود ہے؟ ... اگر پاکستان کا یہی تصور ہے تو میں اس کے حق میں نہیں ہوں۔۔۔''
عدل عمرانی اور ایک عام مسلمان کی اقتصادی بہبود کے بارے میں قائداعظم کے یہ خیالات اپنی تشریح آپ ہیں۔ آج بھی یہ اتنے ہی برمحل ہیں جتنے اب سے نصف صدی قبل تھے۔
قائداعظم کی زندگی کے مشن میں جو دوسرا اہم ترین مقصد کارفرما تھا وہ برصغیر کے مسلمانوں کے سیاسی و جمہوری حقوق کی پاس داری تھی۔ ایک وسیع حلقے کے نزدیک قائداعظم کی جمہوریت پسندی ہی محلِ نظر ہے۔ مثلاً کانگریسی مصنّفین کی یہ عمومی رائے ہے کہ جناح جمہوریت کے ساتھ خود کو ہم آہنگ نہیں کرسکے۔ اور جب ہندوستان کی آزادی کا مرحلہ آیا تو انھوں نے اس خیال کے پیشِ نظر کہ اب ہندو اکثریت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اقتدار میں آجائے گی، مسلمانوں کے لیے علیحدہ مملکت کا مطالبہ کردیا۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ 1940 اور 1947 کے درمیان بظاہر خود قائداعظم نے غیر منقسم ہندوستان کے پس منظر میں جمہوریت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ قائداعظم کے اس دور کے موقف کی تشریح اور ان کے جمہوریت کے بارے میں مکمل طرزِ فکر کا جائزہ لینے سے پہلے ایک مرتبہ پھر اس بات کو دہرانے کی ضرورت ہے کہ ایک خاص وقت میں دیے گئے جناح کے دلائل کو ان کا آخری مدعا تصور کرنا ایک زبردست خلط مبحث کو جنم دے سکتا ہے۔
اس خلط مبحث کے ابطال سے قبل ہم اس امر پر زور دینا چاہیں گے کہ قائداعظم اول تا آخر جمہوریت کے قائل تھے۔ قائداعظم کی تعلیم برطانیہ میں ہوئی تھی جہاں انھوں نے گلیڈ اسٹون (Gladstone) اور جان مارلے (John Morley) جیسے لبرل راہ نماؤں کے خیالات سے غیرمعمولی اثرات قبول کیے تھے۔ قائداعظم اپنی سیاسی زندگی میں تقریباً 35 سال تک ہندوستان کی امپیریل لیجسلیٹیو کونسل کے رکن رہے۔ اس دوران انھوں نے بارہا شہری آزادیوں اور قانون کی بالادستی کے لیے آواز اٹھائی۔ انھوں نے پریس سے متعلق اس مسودۂ قانون (Press Bill) کی سخت مذمت کی جس کے ذریعے حکومت نے آزادیٔ اظہار پر پابندی لگانے کے اختیارات حاصل کرلیے تھے۔ 1919میں رولٹ ایکٹ کی آمد پر انھوں نے امپیریل لیجسلیٹو اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔
ایسا کرتے وقت انھوں نے جمہوریت سے نہیں بلکہ برطانوی حکومت سے اپنی مایوسی کا اظہار کیا۔ سِول لبرٹیز پر ان کے ایمان کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ وہ غدر پارٹی کے انقلابی بھگت سنگھ کے لیے بھی انہی حقوق کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں جو انگریزوں کو حاصل تھے۔ وہ فوج کے سیاست میں ملوث ہونے کے اس درجہ مخالف تھے کہ جب سبھاش چندربوس نے جاپان کی مدد سے انڈین نیشنل آرمی قائم کی تو قائداعظم نے یہ کہہ کر اس کی مذمت کی کہ فوج کو سویلین اتھارٹی کی حکم عدولی کا اختیار حاصل نہیں ہے۔] قیام پاکستان کے بعد جون 1948 میں اسٹاف کالج کوئٹہ میں خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ فوج پر لازم ہے کہ وہ دستور کا احترام کرے۔ جس پاکستان کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا اس میں عوام مقتدر اعلیٰ کی حیثیت رکھتے تھے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر قائداعظم جمہوریت کے فلسفے کے اس درجہ قائل تھے تو قیامِ پاکستان سے قبل کے مختلف ادوار کی ان کی سیاست اور نقطہ ہائے نظر میں نظر آنے والے اختلاف کی کیا توجیہہ پیش کی جاسکتی ہے۔
جمہوریت امکانی طور پر تین میدانوں میں اکثریت کے ہاتھوں کج روی کا شکار ہوسکتی ہے، یا مسخ ہوسکتی ہے۔ اول، حکومتی امور میں اکثریتی جماعت جمہوریت کے نام پر آمرانہ اختیارات حاصل کرسکتی ہے۔ اس کا توڑ انسان نے یہ دریافت کیا ہے کہ جمہوریت کے ساتھ ساتھ اختیارات کو ایک سے زیادہ اداروں میں تقسیم کردیا جائے اور حکومت کی پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہی کو ضروری قرار دے دیا جائے۔ اکثریت کی آمریت علاقائی تقسیم کے میدان میں بھی قائم ہوسکتی ہے اور اکثریتی آبادی کا علاقہ، اقلیتی آبادی کے علاقے پر جمہوریت کے نام پر اپنا استبداد قائم کرسکتا ہے۔
اس امکان کو رد کرنے کے لیے جو بہترین Mechanism استعمال کیا جاسکتا ہے وہ وفاقیت یا Federalism کا اصول ہے جس کے تحت وحدتوں کے اختیارات ازروئے آئین طے کردیے جاتے ہیں، نیز قانون سازی کے لیے دو ایوانی مقننہ قائم کی جاتی ہے جس کا ایوانِ زیریں آبادی کی بنیاد پر اور ایوانِ بالا وحدتوں کی برابری کی بنیاد پر وجود میں آتے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر ایک اکثریت اقلیت پر ایک اور میدان میں بھی اپنی آمریت قائم کرسکتی ہے اور یہ عقائد کا میدان ہے۔
ایک مذہبی کمیونٹی یا فرقہ اپنی اکثریت کو بنیاد بنا کر اقلیتی کمیونٹی کے اوپر تسلط کا دعوے دار ہوسکتا ہے۔ سیاسی و اقتصادی مفادات کے حوالے سے ظہور میں آنے والے گروہ مذہب اور عقائد کو اپنی شناخت کا ذریعہ قرار دے کر اپنے گروہی استحقاق یا Legitimacy کا دعویٰ کرسکتے ہیں اور یوں مذہب سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہوسکتا ہے اس کا تدارک جس Mechanism سے کیا جاسکتا ہے وہ Secularism ہے، جس کی رو سے ریاست مذہبی معاملات میں غیر جانب دار بن جاتی ہے۔
قائداعظم ان تینوں Mechanisms کو ناگزیر سمجھتے تھے اور ہندوستان کے مخصوص پس منظر میں ان کا پختہ یقین تھا کہ اگر یہاں جمہوریت ان تینوں انتظامات کے بغیر نافذ ہوتی ہے تو یہ مسلمانوں کو مستقل طور پر ہندو اکثریت کے سامنے بے بس بنادے گی۔ قائداعظم کا پورا سیاسی کیرئیر ان تینوں نظاموں کی وکالت یا ان کے تقاضوں کی تکمیل میں گزرا۔
وفاقیت قائداعظم کی کاوشوں کا ایک اہم محور تھی۔ برصغیر میں نمائندہ اداروں کا قیام مرحلہ وار اصلاحات کے ذریعے ہوا۔ مطالبۂ پاکستان پیش کیے جانے کے بعد قائداعظم نے مختلف مواقع پر مجوزہ مملکت کے لیے وفاقی نظام کی وکالت کی۔ 8 نومبر 1945 کو ایسوسی ایٹ پریس آف امریکا کے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا: ''نظریہ پاکستان اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ قومی حکومت کو وہ پوری خودمختاری حاصل ہوگی جو ممالک متحدہ امریکا، کینیڈا اور آسٹریلیا کے دساتیر میں ملتی ہے۔ البتہ بعض نہایت اہم اختیارات مرکز کے پاس ہوں گے۔''
قائداعظم کے تصورِ جمہوریت کا ایک اور لازمی اور ناگزیر جزو سیکولرازم تھا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں سیکولرازم کے بارے میں طرح طرح کی غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہیں۔ یہاں تک کہ اس کا ترجمہ بعض لوگوں نے لادینیت کر کے سیکولرازم کے نظام سے لوگوں کو متنفر کرنے کی کوشش کی ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ سیکولرازم کا لادینیت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ اصطلاح تھیوکریسی کے الٹ کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔
تھیوکریسی ایک ایسے نظام کو کہتے ہیں، جس میں حکومت کلیسا کے احکام کے تابع ہوتی ہے جب کہ سیکولرازم میں حکومت کلیسا کی مداخلت سے آزاد ہوتی ہے۔ سیکولر نظام میں ریاست خود کو مذہبی مناقشات اور مسلکی اختلافات سے آزاد رکھتی ہے اور غیر جانب دارانہ طرزِ عمل اختیار کرتی ہے۔ قائداعظم کے ذہن میں بھی پاکستان کا جو تصور تھا وہ ایک ایسی مملکت ہی کا تصور تھا جس میں ریاست مذہبی اختلافات سے خود کو دور رکھتی اور ایک غیر جانب دار ادارے کی حیثیت سے کام کرتی ہے۔
قائداعظم کا پورا سیاسی کیرئیر مسلم اقلیت کے حقوق کی وکالت کی نذر ہوا۔ آئینی اصلاحات کے ہر موقعے پر انھوں نے مسلمانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ سیاسی تحفظات کے حصول کی بھرپور کوشش کی مگر ایک اقلیت کے حقوق کی حمایت اور مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرنے میں جو فرق تھا وہ قائداعظم کی سیاست میں نمایاں تھا۔ چنانچہ عین اس زمانے میں جب کہ وہ مسلم اقلیت کے سیاسی حقوق اور اس کے خلاف کسی قسم کے امتیاز کے امکان کے خلاف برسرپیکار تھے، انھوں نے تحریک خلافت سے خود کو الگ رکھا۔
جو شخص اقلیتوں کے حقوق کے لیے تمام عمر برسرپیکار رہا ہو وہ قیام پاکستان کے بعد نئی مملکت کی اقلیتوں کو بے یارومدد گار کیسے چھوڑ سکتا تھا۔ چناں چہ 11 اگست 1947 کی اپنی تقریر میں انھوں نے ریاست اور مذہب کے تعلق کے حوالے سے جو چشم کشا گفتگو کی وہ تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ اس تاریخی تقریر میں آپ نے فرمایا:
'بایں ہمہ اس تقسیم میں کسی ایک مملکت میں یا دوسری مملکت میں اقلیتوں کا وجود ناگزیر تھا۔ اس سے مفر نہیں تھا۔ اس کا بھی کوئی اور حل نہیں تھا۔ اب ہمیں کیا کرنا ہے؟ اگر آپ اپنا رویہ تبدیل کرلیں اور مل جل کر اس جذبے سے کام کریں کہ آپ میں سے ہر شخص خواہ وہ اس ملک کا پہلا شہری ہے یا دوسرا یا آخری سب کے حقوق و مراعات اور فرائض مساوی ہیں۔
قطع نظر اس سے کہ کس کا کس فرقے سے تعلق ہے اور ماضی میں اس کے آپ کے ساتھ کس نوعیت کے تعلقات تھے اور اس کا رنگ و نسل یا عقیدہ کیا ہے تو آپ جس قدر ترقی کریں گے اس کی کوئی انتہا نہ ہوگی۔۔۔، اب آپ آزاد ہیں۔ اس مملکت پاکستان میں آپ آزاد ہیں۔ اپنے مندروں میں جائیں، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں۔ آپ کا کسی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو، کاروبار مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔''
پاکستان کی تاریخ میں ہم جن سیاسی بحرانوں سے گزرے ہیں ان کی پشت پر بنیادی طور پر تین مسائل ہی کارفرما رہے ہیں۔ جمہوریت کا مسئلہ، ایک قابل عمل وفاقی نظام کا مسئلہ، اور ریاست اور مذہب کے تعلق کا مسئلہ۔ کیا یہ دل چسپ اتفاق نہیں ہے کہ یہی تین امور قیام پاکستان سے قبل بھی قائداعظم کی سیاست میں مرکزی کردار ادا کرتے رہے اور ان کے حوالے سے ان کا طرز فکر بڑے واضح طور پر تاریخ میں محفوظ ہے۔ آج بھی ہمیں انہی مسائل سے سابقہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ آج جب کہ ہم تہ در تہ بحرانوں کی زد میں ہیں، کیا ہم بانیٔ پاکستان کے ارشادات سے روشنی اخذ کرنے کی زحمت گوارا کریں گے؟
اگر پاکستان اپنے بانی کے تصورات کا آئینہ دار ہوتا تو ان تصورات کا زبانی تذکرہ کرنے کی چنداں ضرورت پیش نہ آتی۔ اس کے بہ جائے ہم اپنے ملک کے سیاسی احوال سے براہِ راست طورپر استنباط کرتے، اپنے گردوپیش پر نظر دوڑاتے اور بڑے فخر کے ساتھ کہتے کہ یہی بانیٔ پاکستان کے تصورات کی تصویر اور ان کی عملی تعبیر ہے۔ مگر دن رات قائداعظم کے نام کی مالا جپنے کے باوجود ان کے افکار اور خیالات اوران کے طرزِفکر و احساس سے ہماری قومی زندگی کو کوئی علاقہ نہیں۔ قائداعظم کی رحلت کے برسوں بعد تک ان کی بیش تر تقاریر اشاعت تک سے محروم رہیں۔
قائداعظم کے بعض بیانات اربابِ اختیار نے قوم کے سامنے نہیں آنے دیے۔ یہ بات اب ریکارڈ پر آچکی ہے کہ ان کی 11اگست 1947 کی فکرانگیز تقریر کو اس وقت کی افسرشاہی نے سنسر کرنے کی کوشش کی۔ اب بھی صورتِ حال یہ ہے کہ ملک میں بولی جانے والی بیش ترزبانوں میں قائداعظم کے خطبات ناپید ہیں۔ ماضی میں قائداعظم کی سوانح حیات کے صرف وہی پہلو منظرِعام پر آسکے جن کا منظرِعام پر آنا حکومتوں کو منظور تھا۔ حیاتِ قائداعظم کے وہ درخشاں پہلو جو ہماری ریاستی پالیسیوں سے میل نہیں کھاتے تھے بڑی ہوشیاری کے ساتھ تلف کردیے گئے یا انھیں دبیز پردوں کے پیچھے چھپا دیا گیا۔
بدقسمتی سے ہم نے نہ صرف قائداعظم کے تصورات و افکار اور ان کے طرزِفکر کو سمجھنے میں ٹھوکر کھائی ہے بلکہ جوں جوں وقت گزرتا گیا ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی تعداد میںبھی اضافہ ہوتا چلا گیا ہے' جنھوں نے پہلے تو قائداعظم کے نظریات کی نت نئی تاویلیں پیش کیں اور پھر اپنے نسخہ ہائے کیمیا کو قائد اعظم کے تصورات بناکر پیش کرنا شروع کردیا۔ یہ سلسلہ اس قدر دراز ہوچکا ہے اور اس کے اثرات اتنے دور تک پہنچ چکے ہیں کہ اب دانشِ حاضر کی پہلی ذمے داری ہی یہ قرار پاتی ہے کہ فی الفور قائداعظم کے ان تصورات کا کھوج لگائیں جن پر امتدادِ زمانہ کی گرد اور تحریف پسندوں کی ضرب پڑ چکی ہے۔
قائداعظم کے تصورات کے تذکرے اور ان کی تشریح سے قبل دو بنیادی باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ قائداعظم بجا طورپر ایسے راہ نماؤں میں شمار ہوتے ہیں جو اپنے غیرمعمولی شخصی اوصاف، اپنی تاریخ فہمی اور تدبر کے حوالے سے اپنے زمانے پر اثرانداز ہوئے اور حالات کا رخ موڑنے میںاہم کردار ادا کیا۔ ان کی کام یابی کا بڑا راز معروضی حالات کے ان کے فہم میں پوشیدہ تھا۔ قائداعظم کے تصورات کی اہمیت بھی اسی حقیقت میں مضمر ہے کہ یہ تصورات ذاتی ہوتے ہوئے بھی روحِ عصر کے بہترین عکاس تھے۔
قائداعظم کے تصورات کی تفہیم کے ضمن میں دوسری قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ مختلف امور کے حوالے سے ان کے طرزِعمل یا ان کے ردِعمل میں تبدیلیوں کے باوجود اہم ترین امور پر ان کے یہاں استقلالِ فکروعمل کی کارفرمائی کو دریافت کرنا کوئی زیادہ مشکل نہیں۔ بعض لوگوں نے ہندو مسلم تعلقات، ہندوستان کے اتحاد یا ایسے ہی دیگر موضوعات کے حوالے سے قائداعظم کی جانب سے مختلف ادوار میں اختیار کردہ مؤقف میں تضاد کی نشان دہی کی ہے۔ یہ قائداعظم کی دلیل اور ان کے مدعا کے فرق کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔
قائداعظم کی حیثیت مسلمانوں کے مقدمے کے ایک مستعد اور صاحبِ نظر وکیل کی تھی۔ وہ بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں ہندوستانی سیاست میں وارد ہوئے اور انھوں نے مسلمانوں کی نمائندگی اور ان کے کاز کی بہترین عملی تعبیر کی تلاش کے کام کو اپنا مطمعٔ نظر بنایا۔ یہ دور ہندوستان کی سیاست میں ہمہ جہتی تبدیلیوں، سیاسی تحریکوں، آئینی اصلاحات اور تصادم و تعاون کے مختلف النوع رجحانات کا دور تھا۔ ہمہ وقت بدلتی سیاسی صورتِ حال کے علاوہ یہ بات بھی واضح تھی کہ ہندوستان کے مستقبل کا حتمی فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کے مقدمے کے وکیل کی حیثیت سے قائداعظم کے دلائل، ان کے الفاظ اور ان کی لغت میں بھی تبدیلیاں آتی چلی گئیں۔
ظاہر بیں نظروں نے قائداعظم کی استعمال کردہ اصطلاحات اور ان کی ڈکشنری ہی کو ان کی منزل تصور کرلیا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ ان کی سیاست میں تضاد دیکھنے پر مجبور ہیں۔ سوال یہ ہے کہ قائداعظم کی اصل منزل کیا تھی یا ان کا حقیقی مدعا کیا تھا۔ اس سوال کا جواب یوں بھی اہم ہے کہ اگر قائداعظم کے مقصد کو سمجھ لیا جائے تو ان کے نظریات و افکار کی گرہیں بھی کھلنے لگتی ہیں۔
بنیادی طورپر قائداعظم برصغیر کے مسلمانوں کے لیے سماجی انصاف اور ان کے سیاسی و جمہوری حقوق کو یقینی بنانا چاہتے تھے۔ ابتدا میں انھوں نے یہ مقصد متحدہ ہندوستان کے پس منظر میں حاصل کرنا چاہا اور جب انھیں متحدہ ہندوستان کے اندر اس مقصد کا حصول ممکن نہیں نظر آیا تو پھر اسی مقصد کے لیے انھوں نے علیحدہ مملکت کی تجویز پیش کی۔ ایک علیحدہ مملکت کا تصور قائداعظم کے نزدیک دین کے بنیادی اراکین میں شامل نہیں تھا کہ جس پر زندگی کے ایک خاص مرحلے میں وہ ایمان لے آئے تھے بلکہ یہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے سماجی اور سیاسی حقوق کے حصول کے دیگر مجوزہ راستوں کے بند ہو جانے کے بعد بچ جانے والا واحد اور ناگزیر راستہ تھا۔ ایک بار جب انھوں نے اس راستے کو اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا تو ان کے دلائل کا رخ بھی اسی جانب مڑ گیا۔ انھوں نے مسلم قومیت کو اپنے مطالبے کی اساس بنایا مگر ایسا کرتے وقت وہ ایک دلیل ہی کا سامان کر رہے تھے۔ مسلم قومیت ان کا ہدف نہیں بلکہ ان کے ہدف کے حصول کی سیاسی دلیل تھی۔
جہاں تک سماجی انصاف کے مسئلے کا تعلق ہے تو اس ضمن میں قائداعظم کے خیالات میں اشکال کی ذرا سی بھی گنجائش موجود نہیں ہے۔
تحریکِ پاکستان کی مختلف تعبیرات میں ایک تعبیر یہ بھی ہے کہ اس کی پشت پر مسلمان سرمایہ دار یا مسلم بورژوا طبقے کے مفادات کارفرما تھے۔ Hanna Papanek نے ایک تحقیقی مقالے میں بمبئی، گجرات اور کلکتہ کے مسلم بورژوا طبقے کے حقیقی عزائم پر سے پردہ اٹھایا ہے جس کا خیال تھا کہ قیامِ پاکستان کے بعد وہ ہندوستان میں اپنے تجارتی و صنعتی مراکز بدستور قائم رکھے گا، جب کہ پاکستان تو تمام تر اس کے لیے فرشِ راہ ہوگا۔ قائداعظم مسلم سرمایہ داروں کو ساتھ لے کر چلنے پر مجبور تھے کہ مسلم لیگ کو فنڈز کی ضرورت تھی مگر وہ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی ہوسِ زر سے بھی ناواقف نہیں تھے۔ چنانچہ 1943 ہی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ دہلی میں انھوں نے تنبیہ کردی تھی کہ:
''پاکستان میں عوامی حکومت ہوگی اور یہاں میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو متنبہ کردوں جو ایک ظالمانہ اور قبیح نظام کے وسیلے سے پھل پھول رہے ہیں اور اس بات نے انھیں اتنا خود غرض بنا دیا ہے کہ ان کے ساتھ عقل کی کوئی بات کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ عوام کی لوٹ کھسوٹ ان کے خون میں شامل ہوگئی ہے۔ انھوں نے اسلام کے سبق بھلا دیے ہیں۔ حرص اور خودغرضی نے ان لوگوں کو اس بات پر قائل کر رکھا ہے کہ دوسروں کے مفادات کو اپنے مفادات کے تابع بنا کر موٹے ہوتے جائیں۔ میں گاؤں میں گیا ہوں' وہاں لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں ہمارے عوام ہیں جن کو دن میں ایک وقت کی روٹی نصیب نہیں۔ کیا یہی تہذیب ہے؟ کیا یہی پاکستان کا مقصود ہے؟ ... اگر پاکستان کا یہی تصور ہے تو میں اس کے حق میں نہیں ہوں۔۔۔''
عدل عمرانی اور ایک عام مسلمان کی اقتصادی بہبود کے بارے میں قائداعظم کے یہ خیالات اپنی تشریح آپ ہیں۔ آج بھی یہ اتنے ہی برمحل ہیں جتنے اب سے نصف صدی قبل تھے۔
قائداعظم کی زندگی کے مشن میں جو دوسرا اہم ترین مقصد کارفرما تھا وہ برصغیر کے مسلمانوں کے سیاسی و جمہوری حقوق کی پاس داری تھی۔ ایک وسیع حلقے کے نزدیک قائداعظم کی جمہوریت پسندی ہی محلِ نظر ہے۔ مثلاً کانگریسی مصنّفین کی یہ عمومی رائے ہے کہ جناح جمہوریت کے ساتھ خود کو ہم آہنگ نہیں کرسکے۔ اور جب ہندوستان کی آزادی کا مرحلہ آیا تو انھوں نے اس خیال کے پیشِ نظر کہ اب ہندو اکثریت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اقتدار میں آجائے گی، مسلمانوں کے لیے علیحدہ مملکت کا مطالبہ کردیا۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ 1940 اور 1947 کے درمیان بظاہر خود قائداعظم نے غیر منقسم ہندوستان کے پس منظر میں جمہوریت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا۔ قائداعظم کے اس دور کے موقف کی تشریح اور ان کے جمہوریت کے بارے میں مکمل طرزِ فکر کا جائزہ لینے سے پہلے ایک مرتبہ پھر اس بات کو دہرانے کی ضرورت ہے کہ ایک خاص وقت میں دیے گئے جناح کے دلائل کو ان کا آخری مدعا تصور کرنا ایک زبردست خلط مبحث کو جنم دے سکتا ہے۔
اس خلط مبحث کے ابطال سے قبل ہم اس امر پر زور دینا چاہیں گے کہ قائداعظم اول تا آخر جمہوریت کے قائل تھے۔ قائداعظم کی تعلیم برطانیہ میں ہوئی تھی جہاں انھوں نے گلیڈ اسٹون (Gladstone) اور جان مارلے (John Morley) جیسے لبرل راہ نماؤں کے خیالات سے غیرمعمولی اثرات قبول کیے تھے۔ قائداعظم اپنی سیاسی زندگی میں تقریباً 35 سال تک ہندوستان کی امپیریل لیجسلیٹیو کونسل کے رکن رہے۔ اس دوران انھوں نے بارہا شہری آزادیوں اور قانون کی بالادستی کے لیے آواز اٹھائی۔ انھوں نے پریس سے متعلق اس مسودۂ قانون (Press Bill) کی سخت مذمت کی جس کے ذریعے حکومت نے آزادیٔ اظہار پر پابندی لگانے کے اختیارات حاصل کرلیے تھے۔ 1919میں رولٹ ایکٹ کی آمد پر انھوں نے امپیریل لیجسلیٹو اسمبلی سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔
ایسا کرتے وقت انھوں نے جمہوریت سے نہیں بلکہ برطانوی حکومت سے اپنی مایوسی کا اظہار کیا۔ سِول لبرٹیز پر ان کے ایمان کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ وہ غدر پارٹی کے انقلابی بھگت سنگھ کے لیے بھی انہی حقوق کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں جو انگریزوں کو حاصل تھے۔ وہ فوج کے سیاست میں ملوث ہونے کے اس درجہ مخالف تھے کہ جب سبھاش چندربوس نے جاپان کی مدد سے انڈین نیشنل آرمی قائم کی تو قائداعظم نے یہ کہہ کر اس کی مذمت کی کہ فوج کو سویلین اتھارٹی کی حکم عدولی کا اختیار حاصل نہیں ہے۔] قیام پاکستان کے بعد جون 1948 میں اسٹاف کالج کوئٹہ میں خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ فوج پر لازم ہے کہ وہ دستور کا احترام کرے۔ جس پاکستان کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا اس میں عوام مقتدر اعلیٰ کی حیثیت رکھتے تھے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر قائداعظم جمہوریت کے فلسفے کے اس درجہ قائل تھے تو قیامِ پاکستان سے قبل کے مختلف ادوار کی ان کی سیاست اور نقطہ ہائے نظر میں نظر آنے والے اختلاف کی کیا توجیہہ پیش کی جاسکتی ہے۔
جمہوریت امکانی طور پر تین میدانوں میں اکثریت کے ہاتھوں کج روی کا شکار ہوسکتی ہے، یا مسخ ہوسکتی ہے۔ اول، حکومتی امور میں اکثریتی جماعت جمہوریت کے نام پر آمرانہ اختیارات حاصل کرسکتی ہے۔ اس کا توڑ انسان نے یہ دریافت کیا ہے کہ جمہوریت کے ساتھ ساتھ اختیارات کو ایک سے زیادہ اداروں میں تقسیم کردیا جائے اور حکومت کی پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہی کو ضروری قرار دے دیا جائے۔ اکثریت کی آمریت علاقائی تقسیم کے میدان میں بھی قائم ہوسکتی ہے اور اکثریتی آبادی کا علاقہ، اقلیتی آبادی کے علاقے پر جمہوریت کے نام پر اپنا استبداد قائم کرسکتا ہے۔
اس امکان کو رد کرنے کے لیے جو بہترین Mechanism استعمال کیا جاسکتا ہے وہ وفاقیت یا Federalism کا اصول ہے جس کے تحت وحدتوں کے اختیارات ازروئے آئین طے کردیے جاتے ہیں، نیز قانون سازی کے لیے دو ایوانی مقننہ قائم کی جاتی ہے جس کا ایوانِ زیریں آبادی کی بنیاد پر اور ایوانِ بالا وحدتوں کی برابری کی بنیاد پر وجود میں آتے ہیں۔ جمہوریت کے نام پر ایک اکثریت اقلیت پر ایک اور میدان میں بھی اپنی آمریت قائم کرسکتی ہے اور یہ عقائد کا میدان ہے۔
ایک مذہبی کمیونٹی یا فرقہ اپنی اکثریت کو بنیاد بنا کر اقلیتی کمیونٹی کے اوپر تسلط کا دعوے دار ہوسکتا ہے۔ سیاسی و اقتصادی مفادات کے حوالے سے ظہور میں آنے والے گروہ مذہب اور عقائد کو اپنی شناخت کا ذریعہ قرار دے کر اپنے گروہی استحقاق یا Legitimacy کا دعویٰ کرسکتے ہیں اور یوں مذہب سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہوسکتا ہے اس کا تدارک جس Mechanism سے کیا جاسکتا ہے وہ Secularism ہے، جس کی رو سے ریاست مذہبی معاملات میں غیر جانب دار بن جاتی ہے۔
قائداعظم ان تینوں Mechanisms کو ناگزیر سمجھتے تھے اور ہندوستان کے مخصوص پس منظر میں ان کا پختہ یقین تھا کہ اگر یہاں جمہوریت ان تینوں انتظامات کے بغیر نافذ ہوتی ہے تو یہ مسلمانوں کو مستقل طور پر ہندو اکثریت کے سامنے بے بس بنادے گی۔ قائداعظم کا پورا سیاسی کیرئیر ان تینوں نظاموں کی وکالت یا ان کے تقاضوں کی تکمیل میں گزرا۔
وفاقیت قائداعظم کی کاوشوں کا ایک اہم محور تھی۔ برصغیر میں نمائندہ اداروں کا قیام مرحلہ وار اصلاحات کے ذریعے ہوا۔ مطالبۂ پاکستان پیش کیے جانے کے بعد قائداعظم نے مختلف مواقع پر مجوزہ مملکت کے لیے وفاقی نظام کی وکالت کی۔ 8 نومبر 1945 کو ایسوسی ایٹ پریس آف امریکا کے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا: ''نظریہ پاکستان اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ قومی حکومت کو وہ پوری خودمختاری حاصل ہوگی جو ممالک متحدہ امریکا، کینیڈا اور آسٹریلیا کے دساتیر میں ملتی ہے۔ البتہ بعض نہایت اہم اختیارات مرکز کے پاس ہوں گے۔''
قائداعظم کے تصورِ جمہوریت کا ایک اور لازمی اور ناگزیر جزو سیکولرازم تھا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں سیکولرازم کے بارے میں طرح طرح کی غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہیں۔ یہاں تک کہ اس کا ترجمہ بعض لوگوں نے لادینیت کر کے سیکولرازم کے نظام سے لوگوں کو متنفر کرنے کی کوشش کی ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ سیکولرازم کا لادینیت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ اصطلاح تھیوکریسی کے الٹ کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔
تھیوکریسی ایک ایسے نظام کو کہتے ہیں، جس میں حکومت کلیسا کے احکام کے تابع ہوتی ہے جب کہ سیکولرازم میں حکومت کلیسا کی مداخلت سے آزاد ہوتی ہے۔ سیکولر نظام میں ریاست خود کو مذہبی مناقشات اور مسلکی اختلافات سے آزاد رکھتی ہے اور غیر جانب دارانہ طرزِ عمل اختیار کرتی ہے۔ قائداعظم کے ذہن میں بھی پاکستان کا جو تصور تھا وہ ایک ایسی مملکت ہی کا تصور تھا جس میں ریاست مذہبی اختلافات سے خود کو دور رکھتی اور ایک غیر جانب دار ادارے کی حیثیت سے کام کرتی ہے۔
قائداعظم کا پورا سیاسی کیرئیر مسلم اقلیت کے حقوق کی وکالت کی نذر ہوا۔ آئینی اصلاحات کے ہر موقعے پر انھوں نے مسلمانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ سیاسی تحفظات کے حصول کی بھرپور کوشش کی مگر ایک اقلیت کے حقوق کی حمایت اور مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرنے میں جو فرق تھا وہ قائداعظم کی سیاست میں نمایاں تھا۔ چنانچہ عین اس زمانے میں جب کہ وہ مسلم اقلیت کے سیاسی حقوق اور اس کے خلاف کسی قسم کے امتیاز کے امکان کے خلاف برسرپیکار تھے، انھوں نے تحریک خلافت سے خود کو الگ رکھا۔
جو شخص اقلیتوں کے حقوق کے لیے تمام عمر برسرپیکار رہا ہو وہ قیام پاکستان کے بعد نئی مملکت کی اقلیتوں کو بے یارومدد گار کیسے چھوڑ سکتا تھا۔ چناں چہ 11 اگست 1947 کی اپنی تقریر میں انھوں نے ریاست اور مذہب کے تعلق کے حوالے سے جو چشم کشا گفتگو کی وہ تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ اس تاریخی تقریر میں آپ نے فرمایا:
'بایں ہمہ اس تقسیم میں کسی ایک مملکت میں یا دوسری مملکت میں اقلیتوں کا وجود ناگزیر تھا۔ اس سے مفر نہیں تھا۔ اس کا بھی کوئی اور حل نہیں تھا۔ اب ہمیں کیا کرنا ہے؟ اگر آپ اپنا رویہ تبدیل کرلیں اور مل جل کر اس جذبے سے کام کریں کہ آپ میں سے ہر شخص خواہ وہ اس ملک کا پہلا شہری ہے یا دوسرا یا آخری سب کے حقوق و مراعات اور فرائض مساوی ہیں۔
قطع نظر اس سے کہ کس کا کس فرقے سے تعلق ہے اور ماضی میں اس کے آپ کے ساتھ کس نوعیت کے تعلقات تھے اور اس کا رنگ و نسل یا عقیدہ کیا ہے تو آپ جس قدر ترقی کریں گے اس کی کوئی انتہا نہ ہوگی۔۔۔، اب آپ آزاد ہیں۔ اس مملکت پاکستان میں آپ آزاد ہیں۔ اپنے مندروں میں جائیں، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں۔ آپ کا کسی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو، کاروبار مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔''
پاکستان کی تاریخ میں ہم جن سیاسی بحرانوں سے گزرے ہیں ان کی پشت پر بنیادی طور پر تین مسائل ہی کارفرما رہے ہیں۔ جمہوریت کا مسئلہ، ایک قابل عمل وفاقی نظام کا مسئلہ، اور ریاست اور مذہب کے تعلق کا مسئلہ۔ کیا یہ دل چسپ اتفاق نہیں ہے کہ یہی تین امور قیام پاکستان سے قبل بھی قائداعظم کی سیاست میں مرکزی کردار ادا کرتے رہے اور ان کے حوالے سے ان کا طرز فکر بڑے واضح طور پر تاریخ میں محفوظ ہے۔ آج بھی ہمیں انہی مسائل سے سابقہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ آج جب کہ ہم تہ در تہ بحرانوں کی زد میں ہیں، کیا ہم بانیٔ پاکستان کے ارشادات سے روشنی اخذ کرنے کی زحمت گوارا کریں گے؟