کوئی پاکستان کی فکر بھی کرے

کراچی شہر تو ہر روز ہی کسی ہزارہ قبیلے کا شہر بنا ہوا ہے مگر اصل حیرت اس بات پر ہے کہ ہمارے رہنما کہاں ہیں؟

Abdulqhasan@hotmail.com

میرے صحن میں کئی دنوں سے بیسیوں میتیں کفن دفن کے انتظار میں پڑی ہیں اور ان کے لواحقین گریہ و ماتم کر رہے ہیں۔ یہ بلوچستان کے قبیلہ ہزارہ کے مرحومین ہیں جن کو ایک منصوبے کے تحت قتل کر دیا گیا۔ میرے خیال میں اس کی واحد وجہ ان کا شیعہ ہونا ہے۔ اسی طرح گزشتہ روز لاہور میں ایک ڈاکٹر اور ان کے معصوم بیٹے کو گولی مار دی گئی' یہ بھی شیعہ تھے۔ اب شیعوں کے اس طرح مرنے کے واقعات عام ہوتے جا رہے ہیں۔ ان قاتلوں کو شاید پتہ نہیں کہ ہمارے صدر محترم بھی کسی حد تک شیعہ ہیں' اسی طرح بھٹو صاحب بھی ذوالفقار وغیرہ کی حد تک شیعہ تھے' خود قائد اعظم بھی خاندانی طور پر ایک شیعہ خاندان سے تعلق رکھتے تھے' گو وہ خود ان کے بقول بلا فرقہ مسلمان تھے۔

واقعہ یوں ہے کہ بنو امیہ اور بنو عباس کی سیاسی رقابت کے دور میں مسلمانوں میں یہ تفریق پیدا ہوئی یا پروان چڑھی ورنہ عہد نبوی میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جو مقام و مرتبہ تھا وہ یوں منفرد تھا کہ وہ حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی عزیز ترین متاع اور ہستی کے شوہر تھے اور حضرت علیؓ خود حضور ﷺ کے اپنے تھے لیکن برا ہو بے رحم سیاسی ضرورتوں کا کہ مسلمانوں میں ایک ایسا انتشار پیدا کر دیا جو بعد میں مفاد پرست اور فرقہ پرست لوگوں نے اپنا لیا اور اس کا سلسلہ جاری ہے۔ بڑے ہی بھیانک اور انتہائی غیر اسلامی انداز میں۔

مغربی دنیا کے جدید دور میں ان کے مفکرین اور دانشوروں نے اپنی تحریروں میں بار بار اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ مسلمانوں کو پریشان کرنے اور ان کو کمزور کرنے کے لیے شیعہ سنی سے بہتر مسئلہ اور کوئی نہیں ہے۔ اس پر کتابیں لکھی گئیں اور لا تعداد مضامین تحریر کیے گئے۔ جدید مغرب کے لیے سب سے بڑا اور مستقل دردِ سر اسلام ہے' وہ نہ اسے مٹا سکتے ہیں نہ اس پر حتمی غلبہ پا سکتے ہیں۔ انھیں ان کے مطابق اس اسلامی خطرے کے ساتھ جینا ہے لیکن آج کے دور میں جب مغربی طاقت اپنے عروج پر ہے اور سوویت یونین کے بعد اس کے لیے کوئی خطرہ باقی نہیں رہا ہے اور عالم اسلام پر اس کا غلبہ مسلم ہے لیکن پھر بھی اسلامی خطرہ اس کے دل سے نہیں جاتا۔


آج کے دور میں پورا عالم اسلام امریکا کی قیادت میں مغرب کا محکوم ہے۔ مسلمان حکمران اس کے اشاروں پر ناچتے ہیں۔ ان حکمرانوں اور مسلمان اشرافیہ کا مال اور اولاد مغربی دنیا کی گویا ملکیت بن چکی ہے۔ خود ہمارے پاکستانی لیڈر کسی مغربی ملک میں اپنی دنیا بسائے ہوئے ہیں۔ ہمارے صدر صاحب کا امریکا میں گھر بمع ان کے قدآور کتوں کے آباد اور سلامت ہے جس کی جھاڑ پھونک جاری رہتی ہے اور بستر کی چادریں اور تکیوں کے غلاف باقاعدگی کے ساتھ بدلے جاتے ہیں کہ کب کوئی آ جائے۔ ہمارے میاں صاحب کے شاندار اور انتہائی قیمتی فلیٹ لندن میں ہیں جو ان کے ہر وقت منتظر اور تیار رہتے ہیں۔ دوسرے چھوٹے موٹے پاکستانی رؤسا بھی دیارغیر میں کہیں نہ کہیں گھر بار رکھتے ہیں اور کاروبار بھی۔

خود عمران خان کے صاحبزادے لندن میں ہیں جو ظاہر ہے ان کی عزیز ترین متاع ہیں۔ شاید ہی کوئی قابل ذکر پاکستانی ایسا ہو جو اپنا 'دوسرا گھر' نہ رکھتا ہو اور دیارغیر میں اس کا دل نہ اٹکا ہوا ہو۔ عرض یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی قیادت مغربی دنیا کی سرپرستی کے بغیر زندگی کا تصور نہیں کر سکتی۔ یہی حال دوسرے مسلمان حکمرانوں کا ہے اور کوئی حکمران نہ بھی چاہے تو مغرب اس پر کوئی بھی جال پھینک سکتا ہے۔ پاکستان اس وقت مغربی دنیا کا پہلا نشانہ ہے۔ افغانستان سے پہلے پاکستان کو امریکی جارحیت کا نشانہ بننا تھا لیکن اس کے ایٹم بم اور ایک باقاعدہ منظم اور جاندار فوج نے اسے باز رکھا جو اسرائیل کے لیے کسی بھی وقت حقیقی خطرہ بن سکتے ہیں لیکن اس خطرے کا ایک دوسرا جواب امریکا کے پاس موجود تھا اور ہے' وہ ہے شیعہ سنی مسئلہ۔ ان دنوں مغرب نے پاکستان کو قابو کرنے اور اسے کمزور کرنے کے لیے فرقہ بازی شروع کرا دی ہے۔ فرقہ بازی کے اس مخصوص میدان میں ذاتی طور پر میں جانتا ہوں کہ کسی نے اپنے اقتصادی مسئلے کو حل کرنے ا ور نام و نمود کے لیے فرقہ واریت کو پسند کیا جس نے اب اس ملک کی جان خطرے میں ڈال دی ہے۔ یوں مغرب جو چاہتا تھا وہ ہم خود کرنے لگے ہیں۔

کوئٹہ میں ہزارہ قبیلے کے لیڈر کہتے ہیں کہ پیر کی شام تک کسی لیڈر نے انھیں پوچھا نہیں تھا البتہ جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ ان کے دھرنوں میں شامل ہوتے رہے لیکن حکمرانوں نے اس طرف کوئی توجہ نہ دی۔ بلوچستان میں تو ان دنوں سرے سے کوئی حکومت ہی نہیں' سابقہ وزیر اعلیٰ کے بقول میں بھی نواب اور گورنر بھی نواب' ہم عوام کی فکر کیوں کریں۔ حیرت انگیز طور پر جس صوبے کی اسمبلی کا ہر رکن وزیر ہو یا مشیر بدرجہ وزیر' اس میں عوام کی فکر کون کرے۔ اب یہی لوگ گورنر راج کے بعد اسمبلی کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن کسی کو لاشیں دکھائی نہیں دیتیں۔ ماؤں' بہنوں' بیٹیوں کے بین سنائی نہیں دیتے اور ان میتوں کا دھیان نہیں آتا جو ان سب پر ایک ایسا قرض ہے جسے نہ جانے وہ کیسے اتار سکتے ہیں۔ جناب صدر اپنے کسی محفوظ بینکر میں بند ہیں اور اپوزیشن لیڈر آنے والے الیکشن کے لیے امیدواروں کو پھنسا رہے ہیں اور اس میں بہت ہی مصروف ہیں۔

ہزارہ قبیلے کا واقعہ تو اپنی جگہ منفرد ہے لیکن پورا ملک خونریزی کا شکار ہے۔ پشاور' لاہور میں بھی ہر روز ایسا کوئی واقعہ ہو جاتا ہے اور کراچی شہر تو ہر روز ہی کسی ہزارہ قبیلے کا شہر بنا ہوا ہے مگر اصل حیرت اس بات پر ہے کہ ہمارے رہنما کہاں ہیں؟ کیا وہ اندھے اور بہرے ہیں کہ نہ کچھ دیکھ سکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں۔ کئی بار عرض کیا ہے کہ ہماری اشرافیہ اس قدر متعفن اور مکروہ ہو چکی ہے کہ کوئی ایسا آئے جو اس کو ٹھکانے لگا دے۔ ساٹھ برسوں سے یہ بڑی ہی بے رحمی اور بے حسی کے ساتھ اس ملک پر مسلط ہے۔ کیا برصغیر کے مسلمانوں نے یہ ملک ان کے لیے بنایا تھا یا اپنے دکھوں سے نجات پانے کے لیے جو پہلے انگریزوں اور پھر ہندوؤں سے ان کو مل رہے تھے۔ 1947 کے قیام پاکستان کا وہ غلغلہ اگر کسی کو یاد ہو تو اسے نئی پاکستانی نسل کو بیان کرے کہ پوری اسلامی دنیا میں قیام پاکستان کی خوشی کا کیا عالم تھا لیکن پاکستان کے بڑے لوگ نہ جانے کس غلیظ مٹی کے بنے ہوئے تھے کہ انھیں نہ تو اپنے دین و مذہب کی کوئی فکر تھی نہ اپنے مسلمان بھائیوں کی۔ آج جب یہ پاکستان مغربی دنیا کا ایک نشانہ بن چکا ہے تو یہ بینکروں میں چھپے ہوئے ہیں یا اپنے محلوں میں دربار لگا کر بیٹھے ہیں۔ ایک عام پاکستانی دکھ اور حیرت کے عالم میں یہ بھی دیکھ رہا ہے مگر وہ بے کس اور بے بس اپنا گریبان تو پہلے ہی چاک کر چکا ہے۔
Load Next Story