ہم گمشدہ قوم
کوئی ہے جو گمشدہ ہوتی پاکستانی قوم کی گمشدہ اشیاء، جان و مال کے بارے میں کچھ بتا سکے۔۔۔۔کوئی ہے؟
سنا ہے الیکشن قریب ہیں گو کہ اسے دور کرنے کی کوششیں مضبوط ہیں، لیکن پھر بھی سننے میں یہی آیا ہے ان پچھلے پانچ برسوں میں پاکستانی قوم نے کیا کھویا کیا پایا؟ بہت کچھ کھویا، بہت سے گمشدہ لوگ، بہت سے گمشدہ قتل جن کا معاملہ اب تک حل نہ ہو سکا، بہت سی گمشدہ فائلیں جن کا تعلق ہمارے ملک کے اہم مسائل سے منسلک تھا، بہت سی گمشدہ جائیداد خدا جانے کس کے کھاتے میں چپکے سے چلی گئی، بہت سے گمشدہ ووٹرز جن میںسے بہت سے شاید اب قبروں میں سو رہے ہیں، بہت سے گمشدہ بم، جو اب بھی اپنے پھٹنے کے منتظر ہیں، بہت سے گمشدہ مقدمات، مجموعی طور پر ہم ایک گمشدہ قوم بن چکے ہیں، خدا کرے کہ ہم جلد ہی بازیاب ہو جائیں۔
گمشدہ بچوں کی بے شمار مائیں اپنے بیٹوں کے لیے تڑپ رہی ہیں جن کے بیٹوں کو ہمارے اپنے ملک میں، کشمیر میں اور نجانے کون کون سی ریاستوں میں خاموشی سے اٹھا لیا گیا ہو گا، ان گمشدہ لوگوں سے وابستہ لوگوں کے دلوں پر کیا بیتی ہو گی، یہ کوئی ان سے ہی پوچھے۔ نجانے کتنے ہی صحافیوں کے گھر والوں سے کوئی پوچھے، اپنے پیاروں کے قاتلوں کو وہ کہاں دیکھنا چاہیں گے، کیا وہ ان کے ہی درمیان کہیں مزے سے گھوم پھر رہے ہیں، کیا ان کے قتل کے کیس گمشدہ نہیں ہو گئے، کراچی میں آئے دن جوان جانیں سفر آخرت پر نکل رہی ہیں، ان کے خون کہاں گمشدہ ہیں ان کا کوئی اتا پتا کوئی ٹھکانہ ہے؟ حال ہی میں سندھ میں پانچ برس سے سولہ برس تک کے بچوں کے لیے تعلیمی میدان میں جو کارنامے منظور کرائے گئے ہیں اس کے لیے وزیر صاحب کو شاباش! لیکن جناب! اس سے پہلے جو کچھ اندرون سندھ اور کراچی کے اسکولوں میں ہو رہا ہے اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، کراچی کے ایک پرانے سرکاری اسکول منیبہ کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ اسی طرح قدیم کراچی کے معروف علاقوں میں سرکاری اسکولوں کی کیا حالت ہے، کتنے اسکولوں میں اساتذہ باقاعدگی سے آتے ہیں؟ بہت سے اسکولوں میں اساتذہ کی تعداد بڑھتی اور طالب علموں کی تعداد گھٹتی جا رہی ہے، ان گمشدہ ہونے والے سرکاری اسکولوں اور سرکاری اساتذہ کا بھی پتہ چلائیے جو باقاعدگی سے اپنی تنخواہ تو وصول کر رہے ہیں لیکن ان کے طالب علم اپنے اساتذہ کی شکلیں دیکھنے کو ترستے ہیں، اس لیے کہ وہ گمشدہ ہو چکے ہیں اور تو اور اندرون سندھ میں ایسے بہت سے اساتذہ بھی کام کر رہے ہیں جو کاغذی کارروائیوں میں تو پوری طرح سے نظر آتے ہیں لیکن طبعی طور پر ان کا وجود غائب ہے، ان میں سے بہت سے کراچی میں مختلف روزگار میں مصروف عمل ہیں تو کچھ اپنی جگہ اپنے بھائی بندوں کو بھیج کر کام چلا رہے ہیں، تنخواہیں آدھی آدھی کی صورت میں تقسیم کر لی جاتی ہیں۔ مجھے یاد ہے ابھی پچھلے برس کی بات ہے ہمارے ایک اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے نے بتایا کہ ان کا دودھ والا جو اپنا نام لکھنا جانتا ہے انتہائی مستعدی سے کسی طرح سے کوئی تعلیمی سند حاصل کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے وہ بڑی رقم دینے پر بھی تیار ہے، دراصل اس کے کسی بھائی بند نے اسے سرکاری ٹیچر کی اسامی کا بتایا ہے بس اس کے لیے سند کی ضرورت ہے اور آج کل سرکاری اساتذہ کی تنخواہوں سے تو سب ہی واقف ہیں اب ایسی بڑی اسامی کون ہاتھ سے جانے دے، بہر حال جو کچھ ہوا چلیے اچھا ہی ہوا لیکن نجی اسکولوں پر جو قینچی چلائی گئی ہے اس پر یقیناً ان کے تحفظات شامل ہیں، آپ نے تو انھیں بلبلا ہی دیا۔ چلیے میٹرو بس کی طرح آپ نے بھی عوام کو چونکا دیا گمشدہ الیکشن سے پہلے...
ان پچھلے چار پانچ برسوں میں بہت کچھ گم ہو گیا، پاکستانی روپے کی قدر بھی جو ذرا اندازہ لگائیے کم ہوتے ہوتے اب سو روپیہ برابر فی ڈالر تک پہنچ چکی ہے، اس قدر گراوٹ! ہم تو عالمی معیار سے اپنا مقام ہی کھوتے جا رہے ہیں، پچھلے چند برسوں میں ڈالر کی قیمت اتنی بلند نہ رہی تھی جب کہ ماضی کی تو بات ہی نہ کیجیے۔ اس وقت میرے سامنے ایک کتاب رکھی ہے "Rational Approach to Religion" ضیاء الدین کرمانی کا یہ کتابچہ میرے والد صاحب نے خریدا تھا، اس کے دیباچے پر جنوری 1980 تحریر ہے جب کہ قیمت پاکستانی پانچ روپے اور ڈالر صرف ایک کے برابر تحریر تھا، ذرا تصور کریں کہ ڈالر اور روپے میں صرف اتنی سی دوری، بڑھتے بڑھتے آج ہمیں کہاں سے کہاں لے آئی ہے، اس تمام عرصے میں ہم نے افغانستان کی جنگ، دہشت گردی کی آگ، طالبان کی پکار، ضیاء الحق مرحوم سے لے کر بے نظیر بھٹو تک پرویز مشرف کی لال مسجد کی واردات اور کوئٹہ کے بزرگ سیاستدان نواب بگٹی کا قتل کیا کچھ نہیں دیکھا، اس ملک کی سر زمین نے اور ان تمام حالات کے ثمرات میں ہمیں ایک ڈالر سو روپیہ پاکستانی کے برابر لے آیا، آخر گمشدگی کی بھی حد ہوتی ہے۔
ان پچھلے چند برسوں میں لینڈ مافیا نے جس طرح اپنا کام دکھایا ہے خدا کی پناہ۔ انتہائی دھڑلے سے اپنے لوگوں کو پرائی زمین پر بٹھانے والے ان کے اصل مالکان کو ایسے گمشدہ کر گئے کہ بے چارے کروڑوں کی جائیداد کوڑیوں کے مول بیچنے پر مجبور ہو گئے، زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، کراچی میں اسکیم تینتیس (33) ایسی ہی ایک مظلوم اسکیم ہے جس کے اصل مالکان اپنی جائیداد سے شرمندہ شرمندہ ہیں، امید ہے کہ الیکشن کے بعد کچھ تو زور ٹوٹے گا، ویسے یہ ہماری نہیں ان اصل مالکان کے دل کی آواز ہے جسے وہ گزشتہ پانچ برسوں سے اپنے دل میں پال رہے ہیں، اب کون کون اس کارروائی میں ملوث ہے؟ بھائی صاحب! یہ دنیا ہے یہاں سب دکھتا ہے۔ گمشدہ فائلوں کا کھیل تو پورے پاکستان میں جاری ہے، پچھلے چار برسوں میں اسلام آباد کے اہم ادارے کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی ان اہم فائلوں کی رکھوالی نہ کر سکی جس کا تعلق نہ صرف ملک کے اہم پروجیکٹس سے تھا بلکہ عوام کی جائیداد سے بھی متعلق تھا، مسئلہ ہے گمشدہ چھ سو فائلوں کا جو ان چار برسوں میں اسلام آباد کے اہم ادارے سے گم ہیں، ان اہم فائلوں میں ملک کے لیے نئے پلان اور اپروول کی فائلیں بھی شامل تھیں۔ اسلام آباد کے مہنگے سیکٹرز کی وہ فائلیں بھی جن کی زمینوں کے اب نئے دعویدار بھی سامنے آ رہے ہیں، اس کے علاوہ پچھلے دو سال میں ان اہم معاملات سے متعلق فائلیں بھی گم ہیں جن میں سیاسی بنیادوں پر جاری کردہ لائسنس جو مختلف امور سے متعلق ہیں جاری کیے گئے تھے، لیکن گمشدہ ہیں۔
ہم کس سے پوچھیں کس سے سوال کریں، کون بتائے گا، کون جواب دہ ہے، کوئی ہے جو گمشدہ ہوتی پاکستانی قوم کی گمشدہ اشیاء، جان و مال کے بارے میں کچھ بتا سکے۔۔۔۔کوئی ہے؟
گمشدہ بچوں کی بے شمار مائیں اپنے بیٹوں کے لیے تڑپ رہی ہیں جن کے بیٹوں کو ہمارے اپنے ملک میں، کشمیر میں اور نجانے کون کون سی ریاستوں میں خاموشی سے اٹھا لیا گیا ہو گا، ان گمشدہ لوگوں سے وابستہ لوگوں کے دلوں پر کیا بیتی ہو گی، یہ کوئی ان سے ہی پوچھے۔ نجانے کتنے ہی صحافیوں کے گھر والوں سے کوئی پوچھے، اپنے پیاروں کے قاتلوں کو وہ کہاں دیکھنا چاہیں گے، کیا وہ ان کے ہی درمیان کہیں مزے سے گھوم پھر رہے ہیں، کیا ان کے قتل کے کیس گمشدہ نہیں ہو گئے، کراچی میں آئے دن جوان جانیں سفر آخرت پر نکل رہی ہیں، ان کے خون کہاں گمشدہ ہیں ان کا کوئی اتا پتا کوئی ٹھکانہ ہے؟ حال ہی میں سندھ میں پانچ برس سے سولہ برس تک کے بچوں کے لیے تعلیمی میدان میں جو کارنامے منظور کرائے گئے ہیں اس کے لیے وزیر صاحب کو شاباش! لیکن جناب! اس سے پہلے جو کچھ اندرون سندھ اور کراچی کے اسکولوں میں ہو رہا ہے اس کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، کراچی کے ایک پرانے سرکاری اسکول منیبہ کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ اسی طرح قدیم کراچی کے معروف علاقوں میں سرکاری اسکولوں کی کیا حالت ہے، کتنے اسکولوں میں اساتذہ باقاعدگی سے آتے ہیں؟ بہت سے اسکولوں میں اساتذہ کی تعداد بڑھتی اور طالب علموں کی تعداد گھٹتی جا رہی ہے، ان گمشدہ ہونے والے سرکاری اسکولوں اور سرکاری اساتذہ کا بھی پتہ چلائیے جو باقاعدگی سے اپنی تنخواہ تو وصول کر رہے ہیں لیکن ان کے طالب علم اپنے اساتذہ کی شکلیں دیکھنے کو ترستے ہیں، اس لیے کہ وہ گمشدہ ہو چکے ہیں اور تو اور اندرون سندھ میں ایسے بہت سے اساتذہ بھی کام کر رہے ہیں جو کاغذی کارروائیوں میں تو پوری طرح سے نظر آتے ہیں لیکن طبعی طور پر ان کا وجود غائب ہے، ان میں سے بہت سے کراچی میں مختلف روزگار میں مصروف عمل ہیں تو کچھ اپنی جگہ اپنے بھائی بندوں کو بھیج کر کام چلا رہے ہیں، تنخواہیں آدھی آدھی کی صورت میں تقسیم کر لی جاتی ہیں۔ مجھے یاد ہے ابھی پچھلے برس کی بات ہے ہمارے ایک اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے نے بتایا کہ ان کا دودھ والا جو اپنا نام لکھنا جانتا ہے انتہائی مستعدی سے کسی طرح سے کوئی تعلیمی سند حاصل کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے وہ بڑی رقم دینے پر بھی تیار ہے، دراصل اس کے کسی بھائی بند نے اسے سرکاری ٹیچر کی اسامی کا بتایا ہے بس اس کے لیے سند کی ضرورت ہے اور آج کل سرکاری اساتذہ کی تنخواہوں سے تو سب ہی واقف ہیں اب ایسی بڑی اسامی کون ہاتھ سے جانے دے، بہر حال جو کچھ ہوا چلیے اچھا ہی ہوا لیکن نجی اسکولوں پر جو قینچی چلائی گئی ہے اس پر یقیناً ان کے تحفظات شامل ہیں، آپ نے تو انھیں بلبلا ہی دیا۔ چلیے میٹرو بس کی طرح آپ نے بھی عوام کو چونکا دیا گمشدہ الیکشن سے پہلے...
ان پچھلے چار پانچ برسوں میں بہت کچھ گم ہو گیا، پاکستانی روپے کی قدر بھی جو ذرا اندازہ لگائیے کم ہوتے ہوتے اب سو روپیہ برابر فی ڈالر تک پہنچ چکی ہے، اس قدر گراوٹ! ہم تو عالمی معیار سے اپنا مقام ہی کھوتے جا رہے ہیں، پچھلے چند برسوں میں ڈالر کی قیمت اتنی بلند نہ رہی تھی جب کہ ماضی کی تو بات ہی نہ کیجیے۔ اس وقت میرے سامنے ایک کتاب رکھی ہے "Rational Approach to Religion" ضیاء الدین کرمانی کا یہ کتابچہ میرے والد صاحب نے خریدا تھا، اس کے دیباچے پر جنوری 1980 تحریر ہے جب کہ قیمت پاکستانی پانچ روپے اور ڈالر صرف ایک کے برابر تحریر تھا، ذرا تصور کریں کہ ڈالر اور روپے میں صرف اتنی سی دوری، بڑھتے بڑھتے آج ہمیں کہاں سے کہاں لے آئی ہے، اس تمام عرصے میں ہم نے افغانستان کی جنگ، دہشت گردی کی آگ، طالبان کی پکار، ضیاء الحق مرحوم سے لے کر بے نظیر بھٹو تک پرویز مشرف کی لال مسجد کی واردات اور کوئٹہ کے بزرگ سیاستدان نواب بگٹی کا قتل کیا کچھ نہیں دیکھا، اس ملک کی سر زمین نے اور ان تمام حالات کے ثمرات میں ہمیں ایک ڈالر سو روپیہ پاکستانی کے برابر لے آیا، آخر گمشدگی کی بھی حد ہوتی ہے۔
ان پچھلے چند برسوں میں لینڈ مافیا نے جس طرح اپنا کام دکھایا ہے خدا کی پناہ۔ انتہائی دھڑلے سے اپنے لوگوں کو پرائی زمین پر بٹھانے والے ان کے اصل مالکان کو ایسے گمشدہ کر گئے کہ بے چارے کروڑوں کی جائیداد کوڑیوں کے مول بیچنے پر مجبور ہو گئے، زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، کراچی میں اسکیم تینتیس (33) ایسی ہی ایک مظلوم اسکیم ہے جس کے اصل مالکان اپنی جائیداد سے شرمندہ شرمندہ ہیں، امید ہے کہ الیکشن کے بعد کچھ تو زور ٹوٹے گا، ویسے یہ ہماری نہیں ان اصل مالکان کے دل کی آواز ہے جسے وہ گزشتہ پانچ برسوں سے اپنے دل میں پال رہے ہیں، اب کون کون اس کارروائی میں ملوث ہے؟ بھائی صاحب! یہ دنیا ہے یہاں سب دکھتا ہے۔ گمشدہ فائلوں کا کھیل تو پورے پاکستان میں جاری ہے، پچھلے چار برسوں میں اسلام آباد کے اہم ادارے کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی ان اہم فائلوں کی رکھوالی نہ کر سکی جس کا تعلق نہ صرف ملک کے اہم پروجیکٹس سے تھا بلکہ عوام کی جائیداد سے بھی متعلق تھا، مسئلہ ہے گمشدہ چھ سو فائلوں کا جو ان چار برسوں میں اسلام آباد کے اہم ادارے سے گم ہیں، ان اہم فائلوں میں ملک کے لیے نئے پلان اور اپروول کی فائلیں بھی شامل تھیں۔ اسلام آباد کے مہنگے سیکٹرز کی وہ فائلیں بھی جن کی زمینوں کے اب نئے دعویدار بھی سامنے آ رہے ہیں، اس کے علاوہ پچھلے دو سال میں ان اہم معاملات سے متعلق فائلیں بھی گم ہیں جن میں سیاسی بنیادوں پر جاری کردہ لائسنس جو مختلف امور سے متعلق ہیں جاری کیے گئے تھے، لیکن گمشدہ ہیں۔
ہم کس سے پوچھیں کس سے سوال کریں، کون بتائے گا، کون جواب دہ ہے، کوئی ہے جو گمشدہ ہوتی پاکستانی قوم کی گمشدہ اشیاء، جان و مال کے بارے میں کچھ بتا سکے۔۔۔۔کوئی ہے؟