فلسطینی بھوک ہڑتالی قیدی کی آواز
حقوق انسانی کا دم بھرنیوالی تنظیمیں کہاں ہوتی ہیں جب میرے گھر والوں کے ساتھ یہ سلوک روا رکھا جا رہا ہو تا ہے؟
BAGHDAD:
دو پر عزم فلسطینی ایمن الشروانہ اور سمیر العساوی اسرائیلی جیلوں میں قید و بند کی سختیاں جھیل رہے ہیں اور بالترتیب 232 روز اور 200 روز سے لگاتار بھوک ہڑتال پر ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس عالم میں کہ شدید سرد موسم کی شدت ان کی تکالیف کو مزید بڑھا رہی ہے لیکن کوئی بھی سختی اور تکلیف ان کے عزم شہادت یا آزادی کی تمنا کو ختم یا کم کرنے کا باعث نہیں بن سکی ہے۔ ایمن الشروانہ اور سمیر العساوی یہ دو فلسطینی جوان ہیں جو غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے قبضے میں ہیں اور ان کی جیلوں میں قید ہیں۔ ان کا قصور کیا؟ آخر ان کو اور ان جیسے ہزاروں فلسطینی بچوں اور خواتین سمیت بزرگوں کو کس جرم میں آزادی جیسی نعمت سے محروم کر دیا گیا ہے؟ کیا دنیا میں انسانیت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی ہے؟ کیا دنیا بھر میں حقوق انسانی کی بین بجانیوالے سامری جادوگر فلسطینی انسانوں کے حقوق کو انسانی حقوق سے علیحدہ رکھتے ہیں؟ کیا فلسطین میں انسانی حقوق کی پامالی پر دنیا کی نام نہاد غیرت مند اور انسانی حقوق کی علمبردار ریاستوں بالخصوص امریکا اور یورپ پر کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے؟ یا پھر پوری دنیا کے لوگوں نے یہ سوچ لیا ہے کہ فلسطین میں انسان نہیں بلکہ کوئی ایسی مخلوق پائی جاتی ہے جو انسانوں کے لیے نقصان دہ ہے؟
ایمن الشروانہ اور سمیر العساوی کی بھوک ہڑتال کو گزرے بالترتیب 232 اور 200 روز ہو چکے ہیں اور یہ بھوک ہڑتال تا حال جاری ہے۔ افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ دنیا کے ذرایع ابلاغ جو اپنی نمائش اور شہرت کی خاطر کسی جانور کے ساتھ ہوئی زیادتی یا ظلم کی خبر شایع کرنے سے گریز نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے تگ و دو بھی کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ سب سے پہلے ان کی خبر دنیا کو ملے۔ لیکن کیا ہی شرم کا مقام ہے کہ دو انسان جو بغیر کسی جرم اور گناہ کے ایک ایسی غیر قانونی ریاست کی جیل میں قید ہیں کہ جو قیدیوں پر انسانیت سوز ظلم روا رکھے ہوئے ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ قیدی مسلسل بھوک ہڑتال پر ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ فلسطینی قیدیوں کو اسرائیلی جیلوں سے آزاد کیا جائے لیکن یہ دنیا کے ذرایع ابلاغ ہیں کہ کانوں میں روئی اور آنکھوں پر کالی عینک چڑھائے تماش بینی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایمن الشروانہ اور سمیر العساوی نے پوری مسلم امہ کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے کیونکہ انھوں نے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا ہے۔
ان دونوں جوانوں کے جسم بھوک اور پیاس کی شدت سے لاغر ضرور ہو چکے ہیں لیکن ان کی اس بھوک ہڑتال اور ان کے لاغر اجسام نے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے مظالم کو آشکار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے جسے تاریخ کبھی جھٹلا نہیں سکتی۔ماہ فروری میں فلسطین کا موسم شدید سرد ہوتا ہے اور ایسے وقت میں یہ دونوں بھوک ہڑتالی اسیران رام اللہ شہر کی جیل میں قید ہیں اور سخت ترین مصائب کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسرائیلی جیلوں کی قید سے آزاد ہونیوالے اسیر بتاتے ہیں کہ اسرائیلی جیلوں میں لوہے کے تخت موجود ہیں جن پر رات کو استراحت کی جاتی ہے۔ فلسطینی قیدی ایمن الشروانہ اور سمیر العساوی دونوںکے ہاتھوں اور پائوں کو لوہے کی بھاری زنجیروں سے باندھا گیا ہے جب کہ ایک لوہے کے تخت پر لٹایا جاتا ہے جس کی وجہ سے انھیں کس قدر تکلیف کا سامنا ہے۔
موسم سرما کی سخت ترین سرد راتوں میں ان قیدیوں پر جو ظلم و ستم روا رکھا جا رہا ہے اس میں ان قیدیوں کو رات میں کمبل نہیں دیا جاتا جب کہ ان کو پینے کے لیے سخت ٹھنڈا پانی دیا جاتا ہے۔ اسرائیلی جیل میں قید ان بھوک ہڑتالی اسیروں میں سے ایک اسیر سمیر العساوی نے جیل کے اندر سے پیغام دیا ہے کہ میرے گھر والے جہنم میں زندگی گزار رہے ہیں، کیونکہ میں ان کے درمیان موجود نہیں ہوں۔ بیت المقدس کے شہر میں برفباری کا موسم ہے جب کہ ہر شے برف سے ڈھکی ہوئی ہے۔ سمیر العساوی کی بہن شیریں افسردگی کے ساتھ کہتی ہیں کہ اس سخت سردی کے موسم میں اگر کسی کو ایک معمولی سی چوٹ بھی لگ جائے تو تکلیف کئی گنا بڑھ جاتی ہے لیکن سمیر العساوی کے بارے میں سوچیں کہ ان کے پاس نہ تو گرم کپڑے اور نہ ہی اوڑھنے کو کمبل ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ آپ تصور کریں کہ اس عالم میں ان پر اسرائیلی ٹارچر کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے جسم کی ہڈیاں ٹوٹ چکی ہیں۔ یہ وہ تکالیف ہیں جو ناقابل برداشت ہیں لیکن یہ دونوں مجاہدین یہ مظا لم ہر لمحہ اور ہر وقت برداشت کر رہے ہیں اور اس صورتحال سے دو چار ہیں۔
حال ہی میں اسرائیلی وحشی درندوں نے سمیر العساوی کے بھائی کا گھر جو کہ پہلے سے ہی تعمیر کے مراحل میں تھا ایک مرتبہ دوبارہ مسمار کر دیا ہے، البتہ سمیر العساوی کے بھائی کی خوش قسمتی ہے کہ وہ دوسرے فلسطینیوں کی طرح گھر میں زندہ دفن نہیں ہوا۔ اسی طرح بعض اوقات یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اسرائیلی فوجی سمیر العساوی کی والدہ کو اذیت پہنچاتے ہیں۔ اسرائیلیوں نے سمیر العساوی کی والدہ کو پریشان اور ہراساں کرنے کے لیے متعدد مرتبہ ان کے دیگر بچوں میں سے بیٹے اور ان کی بیٹی شیریں کو گرفتار کیا ہے اور کئی مرتبہ انویسٹی گیشن کے لیے تحقیقاتی مراکز پر طلب بھی کیا ہے۔ سمیر العساوی کا جرم یہ ہے کہ اس نے اسرائیل کی نسل پرستانہ اقداما ت کو دنیا تک پہنچانے کا کام کیا ہے تا کہ دنیا جان سکے کہ اسرائیلی نسل پرستی کا عتاب کس طرح فلسطینیوں پر ہوتا ہے۔ صیہونی فوجیوں نے سمیر العساوی کے گھر پر متعدد مرتبہ چھاپے بھی مارے ہیں اور اس بات کا خیال نہیں رکھا گیا کہ دن ہے یا رات۔ اس کا مقصد صرف سمیر العسای کے گھر والوں کو تنگ کرنا اور پریشان کرنا ہے۔ مزید یہ کہ اسرائیلیوں نے سمیر کے گھر سے پانی سپلائی کی لائن کو بھی منقطع کر دیا ہے۔ اس طرح کے اقدامات سے صیہونی فوجی لطف اندوز ہو رہے ہیں اور سمیر کے گھر والوں کو پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے۔
سمیر العساوی کو اپنے گھر والوں کے بارے میں اپنے وکیل سے تازہ ترین اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ سمیر کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے تمام اقدامات شرم انگیز ہیں اور ان کی شکست کا منہ بولتا ثبوت ہیں کیونکہ اسرائیلی تا حال مجھے اپنے ظلم و ستم کے سامنے خم نہیں کر سکے ہیں۔ سمیر کا کہنا ہے کہ صیہونی درندے انسانیت سے گری ہوئی حرکتوں کے ذریعے میرے گھر والوں کو ہراساں کر رہے ہیں اور جب میں نے اپنے کمزور اور لاغر جسم کے ساتھ ان کو عدالت میں بھرپور جواب دیا تو انھوں نے میرے بھائی کے گھر کو مسمار کر دیا۔ ایسا کیوں؟ اسرائیلی بدحواس ہو چکے ہیں اور میری بھوک ہڑتال کو ختم کرنے کے لیے میرے گھر والوں پر ظلم و ستم ڈھائے جا رہے ہیں جب کہ میرے گھر سے پانی کی لائن کو منقطع کر دیا گیا ہے جو کہ میرے لیے ایک اور دھمکی کی طرح ہے کہ میں اپنی بھوک ہڑتال ختم کر دوں۔ سمیر نے سوال کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا بھر میں حقوق انسانی کا دم بھرنیوالی تنظیمیں کہاں ہوتی ہیں جب میرے گھر والوں کے ساتھ یہ سلوک روا رکھا جا رہا ہو تا ہے؟ کیا فلسطینی عوام بین الاقوامی قوانین کے زمرے میں نہیں آتے؟ یا یہ کہ ہم انسان نہیں ہیں؟ جس کی وجہ سے یہ قوانین ہم پر لاگو نہیں ہوتے؟
مارٹن لوتھر کنگ کا ایک قول ہے کہ نا انصافی اور ظلم جہاں کہیں بھی ہو گا وہ انصاف اور مظلوم کے لیے ایک خطرہ ہے۔ شاید کنگ کے یہی الفاظ کسی کے دل میں اتر جائیں اور وہ ان فلسطینی اسیروں کی حمایت کا دم بھر لے۔ ان قیدیوں کی موت صرف فلسطینیوں کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا میں امن اور انصاف کے لیے اور انسانیت کے لیے عظیم نقصان دہ ہو گی۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے فلسطینی اسیر ایمن الشروانہ اور سمیر العساوی ہمارے درمیان زند ہ رہیں اور اپنی زندگی کو آزادی اور عزت و افتخار کے ساتھ بسر کریں۔
دو پر عزم فلسطینی ایمن الشروانہ اور سمیر العساوی اسرائیلی جیلوں میں قید و بند کی سختیاں جھیل رہے ہیں اور بالترتیب 232 روز اور 200 روز سے لگاتار بھوک ہڑتال پر ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس عالم میں کہ شدید سرد موسم کی شدت ان کی تکالیف کو مزید بڑھا رہی ہے لیکن کوئی بھی سختی اور تکلیف ان کے عزم شہادت یا آزادی کی تمنا کو ختم یا کم کرنے کا باعث نہیں بن سکی ہے۔ ایمن الشروانہ اور سمیر العساوی یہ دو فلسطینی جوان ہیں جو غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے قبضے میں ہیں اور ان کی جیلوں میں قید ہیں۔ ان کا قصور کیا؟ آخر ان کو اور ان جیسے ہزاروں فلسطینی بچوں اور خواتین سمیت بزرگوں کو کس جرم میں آزادی جیسی نعمت سے محروم کر دیا گیا ہے؟ کیا دنیا میں انسانیت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی ہے؟ کیا دنیا بھر میں حقوق انسانی کی بین بجانیوالے سامری جادوگر فلسطینی انسانوں کے حقوق کو انسانی حقوق سے علیحدہ رکھتے ہیں؟ کیا فلسطین میں انسانی حقوق کی پامالی پر دنیا کی نام نہاد غیرت مند اور انسانی حقوق کی علمبردار ریاستوں بالخصوص امریکا اور یورپ پر کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے؟ یا پھر پوری دنیا کے لوگوں نے یہ سوچ لیا ہے کہ فلسطین میں انسان نہیں بلکہ کوئی ایسی مخلوق پائی جاتی ہے جو انسانوں کے لیے نقصان دہ ہے؟
ایمن الشروانہ اور سمیر العساوی کی بھوک ہڑتال کو گزرے بالترتیب 232 اور 200 روز ہو چکے ہیں اور یہ بھوک ہڑتال تا حال جاری ہے۔ افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ دنیا کے ذرایع ابلاغ جو اپنی نمائش اور شہرت کی خاطر کسی جانور کے ساتھ ہوئی زیادتی یا ظلم کی خبر شایع کرنے سے گریز نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لیے تگ و دو بھی کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ سب سے پہلے ان کی خبر دنیا کو ملے۔ لیکن کیا ہی شرم کا مقام ہے کہ دو انسان جو بغیر کسی جرم اور گناہ کے ایک ایسی غیر قانونی ریاست کی جیل میں قید ہیں کہ جو قیدیوں پر انسانیت سوز ظلم روا رکھے ہوئے ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ قیدی مسلسل بھوک ہڑتال پر ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ فلسطینی قیدیوں کو اسرائیلی جیلوں سے آزاد کیا جائے لیکن یہ دنیا کے ذرایع ابلاغ ہیں کہ کانوں میں روئی اور آنکھوں پر کالی عینک چڑھائے تماش بینی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایمن الشروانہ اور سمیر العساوی نے پوری مسلم امہ کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے کیونکہ انھوں نے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کیا ہے۔
ان دونوں جوانوں کے جسم بھوک اور پیاس کی شدت سے لاغر ضرور ہو چکے ہیں لیکن ان کی اس بھوک ہڑتال اور ان کے لاغر اجسام نے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے مظالم کو آشکار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے جسے تاریخ کبھی جھٹلا نہیں سکتی۔ماہ فروری میں فلسطین کا موسم شدید سرد ہوتا ہے اور ایسے وقت میں یہ دونوں بھوک ہڑتالی اسیران رام اللہ شہر کی جیل میں قید ہیں اور سخت ترین مصائب کا سامنا کر رہے ہیں۔ اسرائیلی جیلوں کی قید سے آزاد ہونیوالے اسیر بتاتے ہیں کہ اسرائیلی جیلوں میں لوہے کے تخت موجود ہیں جن پر رات کو استراحت کی جاتی ہے۔ فلسطینی قیدی ایمن الشروانہ اور سمیر العساوی دونوںکے ہاتھوں اور پائوں کو لوہے کی بھاری زنجیروں سے باندھا گیا ہے جب کہ ایک لوہے کے تخت پر لٹایا جاتا ہے جس کی وجہ سے انھیں کس قدر تکلیف کا سامنا ہے۔
موسم سرما کی سخت ترین سرد راتوں میں ان قیدیوں پر جو ظلم و ستم روا رکھا جا رہا ہے اس میں ان قیدیوں کو رات میں کمبل نہیں دیا جاتا جب کہ ان کو پینے کے لیے سخت ٹھنڈا پانی دیا جاتا ہے۔ اسرائیلی جیل میں قید ان بھوک ہڑتالی اسیروں میں سے ایک اسیر سمیر العساوی نے جیل کے اندر سے پیغام دیا ہے کہ میرے گھر والے جہنم میں زندگی گزار رہے ہیں، کیونکہ میں ان کے درمیان موجود نہیں ہوں۔ بیت المقدس کے شہر میں برفباری کا موسم ہے جب کہ ہر شے برف سے ڈھکی ہوئی ہے۔ سمیر العساوی کی بہن شیریں افسردگی کے ساتھ کہتی ہیں کہ اس سخت سردی کے موسم میں اگر کسی کو ایک معمولی سی چوٹ بھی لگ جائے تو تکلیف کئی گنا بڑھ جاتی ہے لیکن سمیر العساوی کے بارے میں سوچیں کہ ان کے پاس نہ تو گرم کپڑے اور نہ ہی اوڑھنے کو کمبل ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ آپ تصور کریں کہ اس عالم میں ان پر اسرائیلی ٹارچر کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے جسم کی ہڈیاں ٹوٹ چکی ہیں۔ یہ وہ تکالیف ہیں جو ناقابل برداشت ہیں لیکن یہ دونوں مجاہدین یہ مظا لم ہر لمحہ اور ہر وقت برداشت کر رہے ہیں اور اس صورتحال سے دو چار ہیں۔
حال ہی میں اسرائیلی وحشی درندوں نے سمیر العساوی کے بھائی کا گھر جو کہ پہلے سے ہی تعمیر کے مراحل میں تھا ایک مرتبہ دوبارہ مسمار کر دیا ہے، البتہ سمیر العساوی کے بھائی کی خوش قسمتی ہے کہ وہ دوسرے فلسطینیوں کی طرح گھر میں زندہ دفن نہیں ہوا۔ اسی طرح بعض اوقات یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اسرائیلی فوجی سمیر العساوی کی والدہ کو اذیت پہنچاتے ہیں۔ اسرائیلیوں نے سمیر العساوی کی والدہ کو پریشان اور ہراساں کرنے کے لیے متعدد مرتبہ ان کے دیگر بچوں میں سے بیٹے اور ان کی بیٹی شیریں کو گرفتار کیا ہے اور کئی مرتبہ انویسٹی گیشن کے لیے تحقیقاتی مراکز پر طلب بھی کیا ہے۔ سمیر العساوی کا جرم یہ ہے کہ اس نے اسرائیل کی نسل پرستانہ اقداما ت کو دنیا تک پہنچانے کا کام کیا ہے تا کہ دنیا جان سکے کہ اسرائیلی نسل پرستی کا عتاب کس طرح فلسطینیوں پر ہوتا ہے۔ صیہونی فوجیوں نے سمیر العساوی کے گھر پر متعدد مرتبہ چھاپے بھی مارے ہیں اور اس بات کا خیال نہیں رکھا گیا کہ دن ہے یا رات۔ اس کا مقصد صرف سمیر العسای کے گھر والوں کو تنگ کرنا اور پریشان کرنا ہے۔ مزید یہ کہ اسرائیلیوں نے سمیر کے گھر سے پانی سپلائی کی لائن کو بھی منقطع کر دیا ہے۔ اس طرح کے اقدامات سے صیہونی فوجی لطف اندوز ہو رہے ہیں اور سمیر کے گھر والوں کو پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے۔
سمیر العساوی کو اپنے گھر والوں کے بارے میں اپنے وکیل سے تازہ ترین اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ سمیر کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے تمام اقدامات شرم انگیز ہیں اور ان کی شکست کا منہ بولتا ثبوت ہیں کیونکہ اسرائیلی تا حال مجھے اپنے ظلم و ستم کے سامنے خم نہیں کر سکے ہیں۔ سمیر کا کہنا ہے کہ صیہونی درندے انسانیت سے گری ہوئی حرکتوں کے ذریعے میرے گھر والوں کو ہراساں کر رہے ہیں اور جب میں نے اپنے کمزور اور لاغر جسم کے ساتھ ان کو عدالت میں بھرپور جواب دیا تو انھوں نے میرے بھائی کے گھر کو مسمار کر دیا۔ ایسا کیوں؟ اسرائیلی بدحواس ہو چکے ہیں اور میری بھوک ہڑتال کو ختم کرنے کے لیے میرے گھر والوں پر ظلم و ستم ڈھائے جا رہے ہیں جب کہ میرے گھر سے پانی کی لائن کو منقطع کر دیا گیا ہے جو کہ میرے لیے ایک اور دھمکی کی طرح ہے کہ میں اپنی بھوک ہڑتال ختم کر دوں۔ سمیر نے سوال کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا بھر میں حقوق انسانی کا دم بھرنیوالی تنظیمیں کہاں ہوتی ہیں جب میرے گھر والوں کے ساتھ یہ سلوک روا رکھا جا رہا ہو تا ہے؟ کیا فلسطینی عوام بین الاقوامی قوانین کے زمرے میں نہیں آتے؟ یا یہ کہ ہم انسان نہیں ہیں؟ جس کی وجہ سے یہ قوانین ہم پر لاگو نہیں ہوتے؟
مارٹن لوتھر کنگ کا ایک قول ہے کہ نا انصافی اور ظلم جہاں کہیں بھی ہو گا وہ انصاف اور مظلوم کے لیے ایک خطرہ ہے۔ شاید کنگ کے یہی الفاظ کسی کے دل میں اتر جائیں اور وہ ان فلسطینی اسیروں کی حمایت کا دم بھر لے۔ ان قیدیوں کی موت صرف فلسطینیوں کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا میں امن اور انصاف کے لیے اور انسانیت کے لیے عظیم نقصان دہ ہو گی۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے فلسطینی اسیر ایمن الشروانہ اور سمیر العساوی ہمارے درمیان زند ہ رہیں اور اپنی زندگی کو آزادی اور عزت و افتخار کے ساتھ بسر کریں۔