عبداللہ شاہ غازی سندھ میں اسلام کے پہلے مبلغ
حضرت عبداللہ شاہ غازی کا سب سے بڑا کارنامہ، سندھ میں دین ِ اسلام کی آبیاری ہے۔
KARACHI:
شہر کراچی کی قدامت سے کسی کو انکار نہیں۔ اِس کے بارے میں مورخین کا دعویٰ ہے کہ اِس شہر نے پتھر، تانبے اور کانسی سمیت تمام ادوار دیکھے جب کہ اِس شہر کو مختلف وقتوں میں 32 ناموں سے جانا پہچانا گیا۔ کسی نے اِس شہر کو کرو کالا کہا تو کسی نے اسے سکندری جنت، مورون ٹو بارا، دربو، خور علی، قلاچی جو گوٹھ، کلاچی جوکن، کراچر، کراشی، کراچے ٹاؤن، کوراچی و دوسرے ناموں سے بھی پکارا۔
یوں تو گزری، بندر روڈ، منوڑہ اور کیماڑی سمیت مختلف علاقے آج بھی اِس شہر کی قدامت بیان کر تے ہیں مگر اِس شہر کی قدامت کے حوالے سے ایک انگریز مصنف الیگزینڈر ایف بیلی رقم طراز ہے کہ کراچی یا کلاچی ایک قدیم بستی ہے جو کہ زیادہ پھیلی ہوئی تو نہیں مگر اِس کے باوجود یہاں ہندو، عیسائی ، پارسی، یہودی، مسلمان و دیگر مذاہب کے لوگ آپس میں بھائی چارے سے رہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے تہواروں میں شرکت کرتے ہیں اور ان ہی تہواروں کی بدولت شہر کراچی میں کم از کم 50 دن کی چھٹیاں ہوتی ہیں جس کی بنیاد پر اگر اسے سب سے زیادہ تعطیلات والا شہر کہا جائے تو بھی قطعی طور پر بےجا نہ ہوگا۔
الیگزینڈر جان ایف بیلی اپنی کتاب ''کراچی: پاسٹ، پریزنٹ اینڈ فیوچر'' میں اِس بات کا بھی ذکر کرتا ہے کہ شہر میں مسلمانوں کے تین بزرگوں منگھوپیر، منوڑہ اور لیاری ندی کے کنارے واقع میراں پیر کے مزارات پر ہر سال پابندی کے ساتھ عرس منعقد ہوتے ہیں مگر اِن میں سب سے بڑا عرس مبارک کلفٹن میں حضرت عبداللہ شاہ غازی کا ہوتا ہے جس میں ہندو، مسلمان اور عیسائیوں سمیت تمام مذاہب کے لوگ شرکت کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت عبداللہ شاہ غازی کا مزار ماضی میں صرف ایک ٹیلے پر موجود تھا اور اِس کے چہار اطراف سمندر کی بپھری موجیں ہوتی تھیں۔ اور اِسی مزار سے چند فرلانگ کے فاصلے پر ہندو برادری کا سب سے بڑا رتنیشور مہادیو مندر بھی عین سمندر کے سامنے ایک سرنگ میں وا قع ہے، جہاں پوجا پاٹ بھی کی جاتی ہے۔
رواں برس بھی حضرت عبداللہ شاہ غازی کا عرس مبارک شروع ہوگیا ہے جو 12 ستمبر سے 14 ستمبر تک جاری رہے گا۔ نمازِ فجر کے بعد مزار اقدس پر قرآن خوانی اور فاتحہ خوانی کے بعد تقریبات کا آغاز کردیا گیا۔
حضرت عبداللہ شاہ غازی کے بارے میں تاریخ کے اوراق کو پلٹا جائے کہ وہ کب اور کہاں سے آئے اور اُن کی شہادت کس طرح ہوئی تو اِس بارے میں محققین لکھتے ہیں کہ حضرت کا اسم گرامی سید عبداللہ، کنیت ابو محمد اور لقب الاشتر ہے۔ آپ سید محمد نفس ذکیہ کے صاحبزادے اور حضرت حسن مثنیٰ کے پڑپوتے تھے اور پانچویں پشت پر آپ کا سلسلہ نسب حضرت علی مرتضیٰ سے جاملتا ہے۔ آپ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین کی اولاد میں سے ہیں اس لیے حسنی و حسینی کہلاتے ہیں۔
آپ 98 ہجری میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کی تعلیم و تربیت آپ کے والد حضرت سید محمد نفس ذکیہ کے زیرِ سایہ انجام پائی۔ حضرت نفس ذکیہ کا شمار محدثین میں ہوتا ہے۔ ابھی حضرت عبداللہ شاہ غازی تعلیم حاصل کر ہی رہے تھے کہ اِس وقت بنوامیہ کی حکومت آخری ہچکیاں لینے لگیں اور پورا ملک انتشار کا شکار ہوگیا۔ پھر خلافت عباسی کا دور شروع ہوا۔ حضرت نفس ذکیہ نے 138ھ میں عباسیوں کیخلاف علم بغاوت بلند کیا اور اپنی دعوتِ خلافت تحریک مدینہ منورہ سے شروع کی۔
امام ابو حنیفہ اور امام مالک نے بھی آپ کی تحریک کا بھرپور ساتھ دیا، جس کی پاداش میں عباسی گورنر نے امام مالک کو کوڑے لگوائے جس کے بعد حضرت سید محمد نفس ذکیہ نے اپنے بھائی ابراہیم کو بصرہ روانہ کیا جب کہ حضرت عبداللہ شاہ غازی کو سندھ جانے کا حکم دیا۔ حضرت عبداللہ شاہ غازی عراق سے ہوتے ہوئے سندھ کی جانب روانہ ہوئے اور بجائے جنگ و جدل کے سندھ میں تبلیغِ اسلام شروع کردی۔ آپ لگ بھگ 12 سال تک تبلیغ اسلام میں مصروفِ عمل رہے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو مشرف بہ اسلام کیا۔
آپ سندھ میں گھوڑوں کے تاجر کی حیثیت سے داخل ہوئے تھے اور اسلام کو پھیلانے کا کام انجام دے رہے تھے۔ لہذا سندھ کےعوام میں آپ کو بڑی تعظیم کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور آپ کو بےپناہ مقبولیت حاصل تھی۔ حضرت عبداللہ شاہ غازی سندھ میں داخل ہونے والے پہلے سادات بزرگ و مبلغ تھے۔ آپ کی مقبولیت اور مریدین کی بڑھتی ہوئی تعداد دیکھ کر لوگ اِن سے حسد کرنے لگے۔
اِن کی سندھ میں موجودگی کے حوالے سے سندھ کے اُس وقت کے عباسی گورنر عمر بن حفض کو آگاہ کردیا مگر کیونکہ گورنر سادات کا بےحد احترام کرتا تھا، لہذا اُس نے لوگوں کی بات سُنی ان سُنی کردی اور باقاعدہ طور پر حضرت عبداللہ شاہ غازی سے ملاقات کرکے اُن کے ہاتھوں پر بیعت کرلی۔ اسی دوران حجاز میں محمد نفس ذکیہ کو عباسی فوجوں نے شہید کردیا، جس کے بعد عباسی خلیفہ المنصور نے عمر بن حفض کو حضرت عبداللہ شاہ غازی کو گرفتار کرکے فوراً دربار خلافت میں حاضر کرنے کا حکم جاری کردیا۔
لیکن گورنر سندھ نے آپ کو گرفتار کرنے کے بجائے سندھ کی ایک ساحلی ریاست میں بھیج دیا، جہاں آپ 4 سال تک ہندو راجہ کے مہمان رہے۔ خلیفہ المنصور حضرت عبداللہ شاہ غازی کے بڑھتے ہوئے مریدین کی تعداد کے سبب انہیں خلافت عباسیہ کے لئے ایک خطرہ سمجھ رہا تھا۔ لہذا اُس نے 151ھ میں عمر بن حفض کو سندھ کی گورنری سے ہٹا کر اُن کی جگہ ہشام بن عمر کو گورنر مقرر کردیا اور نئے گورنر کو حکم دیا کہ حضرت عبداللہ شاہ غازی کو گرفتار کرکے بغداد بھیجے۔
ہوا یوں کہ نیا گورنر بھی سادات کا شیدائی نکلا، لہذا اُس نے بھی حضرت عبداللہ شاہ غازی کی گرفتاری سے اجتناب برتا۔ پھر ایک دن حضرت عبداللہ شاہ غازی شکار کی غرض سے جنگلوں میں جارہے تھے تو فوجوں نے اُن سے لڑائی شروع کی۔ اچانک کسی ظالم کی تلوار آپ کے سرِمبارک پر پڑی اور آپ شدید زخمی ہوکر زمین پر گر پڑے۔ دشمن فوجیں حواس باختہ ہو کر بھاگ چکی تھیں۔ آپ کے ساتھیوں نے جب آپ کے جسم مبارک کو ہاتھ لگا کر دیکھا تو آپ شہید ہوچکے تھے جس پر آپ کے ساتھی آپ کے جسدِ مبارک کو لے کر جنگلوں اور وادیوں سے ہوتے ہوئے کلفٹن کے سمندر کے نزدیک اسی پہاڑی پر پہنچے جہاں آج آپ کا مزار واقع ہے۔
حضرت عبداللہ شاہ غازی کے ساتھیوں نے پہاڑی چوٹی کو اپنا مسکن بنایا اور اسی پہاڑی پر سکونت پذیر ہوگئے۔ بھوک اور پیاس کے عالم میں آپ کے مریدین انتہائی پریشان تھے۔ دور دور تک میٹھے پانی کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔ ایسے میں حضرت عبداللہ شاہ غازی کے ایک ساتھی کو خواب میں بشارت ہوئی کہ اللہ تبارک تعالیٰ نے تمہاری مشکل حل فرما دی ہے اور تمہارے لئے پہاڑی سے پینے کے پانی کا چشمہ جاری کردیا ہے۔
مریدین جب فجر کی نماز کے بعد پہاڑی سے نیچے اترے تو نیچے پانی کا ایک چشمہ اُبل رہا تھا۔ مریدین نے سیر ہوکر کھارے پانی کے درمیان معجزاتی طور پر ابلنے والے میٹھے چشمے سے سیر ہوکر پانی پیا اور بہت عرصے تک اسی چوٹی پر مقیم رہے۔ پھر ان ہی مریدین اور زائرین نے اسی ٹیلے پر عبداللہ شاہ غازی کا مزار تعمیر کروایا۔
اِس وقت سے کر آج تک ہزاروں کی تعداد میں زائرین اُن کے عرس مبارک میں شرکت کے لئے جوق در جوق آتے ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ انہیں عبداللہ شاہ غازی کے مزارِ اقدس پر آکر دلی سکون ملتا ہے۔ یقیناً سالہا سال سے آنے والے ان زائرین کی باتیں سچ ہوں گی لیکن حضرت عبداللہ شاہ غازی کا جو سب سے بڑا کارنامہ ہے وہ سندھ میں دین اسلام کی آبیاری کرنا ہے کیونکہ اگر وہ سندھ نہ آتے تو شاید سندھ میں اسلام بھی دیر سے پہنچتا۔
جہاں تک حضرت عبداللہ شاہ غازی سے لوگوں کی چاہت کی بات ہے تو لوگ انہیں دیوانہ وار چاہتے ہیں اور اسی وجہ کر اُن کے مزار مبارک کے باہر روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں آنے والے زائرین کی جانب سے بانٹے جا نے والے لنگر سے وہ غریب غربا تین وقت کی روٹی اپنے پورے خاندان کے ساتھ کھاتے ہیں کہ جو ایک وقت روٹی کھانے کی استطاعت بھی نہیں رکھتے؛ جبکہ یہ سلسلہ سینکڑوں سال سے اب تک جاری ہے۔
اِن کے چاہنے والوں میں حکمراں طبقے کے علاوہ بڑے بڑے صنعت کار، سیاستداں اور تاجر شامل ہیں۔ ایسے ہی چاہنے والوں میں بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض بھی شامل ہیں جنہوں نے اِس مزار مبارک کو جدید طرز تعمیر سے ہم آہنگ کیا۔ اس تعمیر سے جہاں مزار کی خوبصورتی میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے وہیں زائرین کی سہولت کے لئے مزار کو مزید کشادہ بھی کیا گیا ہے، جس سے زائرین مستفید ہوسکیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
شہر کراچی کی قدامت سے کسی کو انکار نہیں۔ اِس کے بارے میں مورخین کا دعویٰ ہے کہ اِس شہر نے پتھر، تانبے اور کانسی سمیت تمام ادوار دیکھے جب کہ اِس شہر کو مختلف وقتوں میں 32 ناموں سے جانا پہچانا گیا۔ کسی نے اِس شہر کو کرو کالا کہا تو کسی نے اسے سکندری جنت، مورون ٹو بارا، دربو، خور علی، قلاچی جو گوٹھ، کلاچی جوکن، کراچر، کراشی، کراچے ٹاؤن، کوراچی و دوسرے ناموں سے بھی پکارا۔
یوں تو گزری، بندر روڈ، منوڑہ اور کیماڑی سمیت مختلف علاقے آج بھی اِس شہر کی قدامت بیان کر تے ہیں مگر اِس شہر کی قدامت کے حوالے سے ایک انگریز مصنف الیگزینڈر ایف بیلی رقم طراز ہے کہ کراچی یا کلاچی ایک قدیم بستی ہے جو کہ زیادہ پھیلی ہوئی تو نہیں مگر اِس کے باوجود یہاں ہندو، عیسائی ، پارسی، یہودی، مسلمان و دیگر مذاہب کے لوگ آپس میں بھائی چارے سے رہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے تہواروں میں شرکت کرتے ہیں اور ان ہی تہواروں کی بدولت شہر کراچی میں کم از کم 50 دن کی چھٹیاں ہوتی ہیں جس کی بنیاد پر اگر اسے سب سے زیادہ تعطیلات والا شہر کہا جائے تو بھی قطعی طور پر بےجا نہ ہوگا۔
الیگزینڈر جان ایف بیلی اپنی کتاب ''کراچی: پاسٹ، پریزنٹ اینڈ فیوچر'' میں اِس بات کا بھی ذکر کرتا ہے کہ شہر میں مسلمانوں کے تین بزرگوں منگھوپیر، منوڑہ اور لیاری ندی کے کنارے واقع میراں پیر کے مزارات پر ہر سال پابندی کے ساتھ عرس منعقد ہوتے ہیں مگر اِن میں سب سے بڑا عرس مبارک کلفٹن میں حضرت عبداللہ شاہ غازی کا ہوتا ہے جس میں ہندو، مسلمان اور عیسائیوں سمیت تمام مذاہب کے لوگ شرکت کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت عبداللہ شاہ غازی کا مزار ماضی میں صرف ایک ٹیلے پر موجود تھا اور اِس کے چہار اطراف سمندر کی بپھری موجیں ہوتی تھیں۔ اور اِسی مزار سے چند فرلانگ کے فاصلے پر ہندو برادری کا سب سے بڑا رتنیشور مہادیو مندر بھی عین سمندر کے سامنے ایک سرنگ میں وا قع ہے، جہاں پوجا پاٹ بھی کی جاتی ہے۔
رواں برس بھی حضرت عبداللہ شاہ غازی کا عرس مبارک شروع ہوگیا ہے جو 12 ستمبر سے 14 ستمبر تک جاری رہے گا۔ نمازِ فجر کے بعد مزار اقدس پر قرآن خوانی اور فاتحہ خوانی کے بعد تقریبات کا آغاز کردیا گیا۔
حضرت عبداللہ شاہ غازی کے بارے میں تاریخ کے اوراق کو پلٹا جائے کہ وہ کب اور کہاں سے آئے اور اُن کی شہادت کس طرح ہوئی تو اِس بارے میں محققین لکھتے ہیں کہ حضرت کا اسم گرامی سید عبداللہ، کنیت ابو محمد اور لقب الاشتر ہے۔ آپ سید محمد نفس ذکیہ کے صاحبزادے اور حضرت حسن مثنیٰ کے پڑپوتے تھے اور پانچویں پشت پر آپ کا سلسلہ نسب حضرت علی مرتضیٰ سے جاملتا ہے۔ آپ حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین کی اولاد میں سے ہیں اس لیے حسنی و حسینی کہلاتے ہیں۔
آپ 98 ہجری میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کی تعلیم و تربیت آپ کے والد حضرت سید محمد نفس ذکیہ کے زیرِ سایہ انجام پائی۔ حضرت نفس ذکیہ کا شمار محدثین میں ہوتا ہے۔ ابھی حضرت عبداللہ شاہ غازی تعلیم حاصل کر ہی رہے تھے کہ اِس وقت بنوامیہ کی حکومت آخری ہچکیاں لینے لگیں اور پورا ملک انتشار کا شکار ہوگیا۔ پھر خلافت عباسی کا دور شروع ہوا۔ حضرت نفس ذکیہ نے 138ھ میں عباسیوں کیخلاف علم بغاوت بلند کیا اور اپنی دعوتِ خلافت تحریک مدینہ منورہ سے شروع کی۔
امام ابو حنیفہ اور امام مالک نے بھی آپ کی تحریک کا بھرپور ساتھ دیا، جس کی پاداش میں عباسی گورنر نے امام مالک کو کوڑے لگوائے جس کے بعد حضرت سید محمد نفس ذکیہ نے اپنے بھائی ابراہیم کو بصرہ روانہ کیا جب کہ حضرت عبداللہ شاہ غازی کو سندھ جانے کا حکم دیا۔ حضرت عبداللہ شاہ غازی عراق سے ہوتے ہوئے سندھ کی جانب روانہ ہوئے اور بجائے جنگ و جدل کے سندھ میں تبلیغِ اسلام شروع کردی۔ آپ لگ بھگ 12 سال تک تبلیغ اسلام میں مصروفِ عمل رہے اور ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو مشرف بہ اسلام کیا۔
آپ سندھ میں گھوڑوں کے تاجر کی حیثیت سے داخل ہوئے تھے اور اسلام کو پھیلانے کا کام انجام دے رہے تھے۔ لہذا سندھ کےعوام میں آپ کو بڑی تعظیم کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور آپ کو بےپناہ مقبولیت حاصل تھی۔ حضرت عبداللہ شاہ غازی سندھ میں داخل ہونے والے پہلے سادات بزرگ و مبلغ تھے۔ آپ کی مقبولیت اور مریدین کی بڑھتی ہوئی تعداد دیکھ کر لوگ اِن سے حسد کرنے لگے۔
اِن کی سندھ میں موجودگی کے حوالے سے سندھ کے اُس وقت کے عباسی گورنر عمر بن حفض کو آگاہ کردیا مگر کیونکہ گورنر سادات کا بےحد احترام کرتا تھا، لہذا اُس نے لوگوں کی بات سُنی ان سُنی کردی اور باقاعدہ طور پر حضرت عبداللہ شاہ غازی سے ملاقات کرکے اُن کے ہاتھوں پر بیعت کرلی۔ اسی دوران حجاز میں محمد نفس ذکیہ کو عباسی فوجوں نے شہید کردیا، جس کے بعد عباسی خلیفہ المنصور نے عمر بن حفض کو حضرت عبداللہ شاہ غازی کو گرفتار کرکے فوراً دربار خلافت میں حاضر کرنے کا حکم جاری کردیا۔
لیکن گورنر سندھ نے آپ کو گرفتار کرنے کے بجائے سندھ کی ایک ساحلی ریاست میں بھیج دیا، جہاں آپ 4 سال تک ہندو راجہ کے مہمان رہے۔ خلیفہ المنصور حضرت عبداللہ شاہ غازی کے بڑھتے ہوئے مریدین کی تعداد کے سبب انہیں خلافت عباسیہ کے لئے ایک خطرہ سمجھ رہا تھا۔ لہذا اُس نے 151ھ میں عمر بن حفض کو سندھ کی گورنری سے ہٹا کر اُن کی جگہ ہشام بن عمر کو گورنر مقرر کردیا اور نئے گورنر کو حکم دیا کہ حضرت عبداللہ شاہ غازی کو گرفتار کرکے بغداد بھیجے۔
ہوا یوں کہ نیا گورنر بھی سادات کا شیدائی نکلا، لہذا اُس نے بھی حضرت عبداللہ شاہ غازی کی گرفتاری سے اجتناب برتا۔ پھر ایک دن حضرت عبداللہ شاہ غازی شکار کی غرض سے جنگلوں میں جارہے تھے تو فوجوں نے اُن سے لڑائی شروع کی۔ اچانک کسی ظالم کی تلوار آپ کے سرِمبارک پر پڑی اور آپ شدید زخمی ہوکر زمین پر گر پڑے۔ دشمن فوجیں حواس باختہ ہو کر بھاگ چکی تھیں۔ آپ کے ساتھیوں نے جب آپ کے جسم مبارک کو ہاتھ لگا کر دیکھا تو آپ شہید ہوچکے تھے جس پر آپ کے ساتھی آپ کے جسدِ مبارک کو لے کر جنگلوں اور وادیوں سے ہوتے ہوئے کلفٹن کے سمندر کے نزدیک اسی پہاڑی پر پہنچے جہاں آج آپ کا مزار واقع ہے۔
حضرت عبداللہ شاہ غازی کے ساتھیوں نے پہاڑی چوٹی کو اپنا مسکن بنایا اور اسی پہاڑی پر سکونت پذیر ہوگئے۔ بھوک اور پیاس کے عالم میں آپ کے مریدین انتہائی پریشان تھے۔ دور دور تک میٹھے پانی کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔ ایسے میں حضرت عبداللہ شاہ غازی کے ایک ساتھی کو خواب میں بشارت ہوئی کہ اللہ تبارک تعالیٰ نے تمہاری مشکل حل فرما دی ہے اور تمہارے لئے پہاڑی سے پینے کے پانی کا چشمہ جاری کردیا ہے۔
مریدین جب فجر کی نماز کے بعد پہاڑی سے نیچے اترے تو نیچے پانی کا ایک چشمہ اُبل رہا تھا۔ مریدین نے سیر ہوکر کھارے پانی کے درمیان معجزاتی طور پر ابلنے والے میٹھے چشمے سے سیر ہوکر پانی پیا اور بہت عرصے تک اسی چوٹی پر مقیم رہے۔ پھر ان ہی مریدین اور زائرین نے اسی ٹیلے پر عبداللہ شاہ غازی کا مزار تعمیر کروایا۔
اِس وقت سے کر آج تک ہزاروں کی تعداد میں زائرین اُن کے عرس مبارک میں شرکت کے لئے جوق در جوق آتے ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ انہیں عبداللہ شاہ غازی کے مزارِ اقدس پر آکر دلی سکون ملتا ہے۔ یقیناً سالہا سال سے آنے والے ان زائرین کی باتیں سچ ہوں گی لیکن حضرت عبداللہ شاہ غازی کا جو سب سے بڑا کارنامہ ہے وہ سندھ میں دین اسلام کی آبیاری کرنا ہے کیونکہ اگر وہ سندھ نہ آتے تو شاید سندھ میں اسلام بھی دیر سے پہنچتا۔
جہاں تک حضرت عبداللہ شاہ غازی سے لوگوں کی چاہت کی بات ہے تو لوگ انہیں دیوانہ وار چاہتے ہیں اور اسی وجہ کر اُن کے مزار مبارک کے باہر روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں آنے والے زائرین کی جانب سے بانٹے جا نے والے لنگر سے وہ غریب غربا تین وقت کی روٹی اپنے پورے خاندان کے ساتھ کھاتے ہیں کہ جو ایک وقت روٹی کھانے کی استطاعت بھی نہیں رکھتے؛ جبکہ یہ سلسلہ سینکڑوں سال سے اب تک جاری ہے۔
اِن کے چاہنے والوں میں حکمراں طبقے کے علاوہ بڑے بڑے صنعت کار، سیاستداں اور تاجر شامل ہیں۔ ایسے ہی چاہنے والوں میں بحریہ ٹاؤن کے سربراہ ملک ریاض بھی شامل ہیں جنہوں نے اِس مزار مبارک کو جدید طرز تعمیر سے ہم آہنگ کیا۔ اس تعمیر سے جہاں مزار کی خوبصورتی میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے وہیں زائرین کی سہولت کے لئے مزار کو مزید کشادہ بھی کیا گیا ہے، جس سے زائرین مستفید ہوسکیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔