کچھ توجہ صحت کی جانب بھی

مشینوں کے بے جا استعمال نے جہاں آسانیاں پیدا کردی ہیں وہیں صحت کے حوالے سے مسائل ابھر کر سامنے آئے ہیں۔

shehla_ajaz@yahoo.com

ہماری والدہ کی چچی کے انتقال کو تیس برس بیت چکے۔ ایک بار وہ ہماری گھر آئیں تو کہنے لگیں ''تم لوگ باورچی خانے میں سارے کام کھڑے ہوکر کرتی ہو، آٹا گوندھو توکھڑے ہوکر، مصالحہ بھونو توکھڑے ہوکر اس طرح تم لوگ گھنٹوں کھڑے ہوکر کام کرتی ہو، جب کہ ہم باورچی خانے میں پٹڑے یا پیڑھی پر بیٹھ کر کام کرتے ہیں۔ مصالحہ اٹھانا ہو تو اٹھ کر لیتے، کوئی چیز لینی تو بیٹھے بیٹھے اٹھنا پڑتا ہے اس طرح ہمیں بار بار اٹھک بیٹھک کرنا پڑتی ہے اور ہمارے گھٹنوں کی ورزش ہوتی رہتی ہے۔ پرانے وقتوں کی خواتین کی گھٹنوں میں اسی لیے درد نہیں ہوا کرتا تھا اور آج کل دیکھو تو ہر دوسری عورت گھٹنوں کے درد کی شکایت کرتی ہے۔

یہ کہنا تھا ایک خاتون خانہ کا جن کے اپنے گھٹنوں میں شدید درد رہتا ہے وہ زمین پر بیٹھ نہیں سکتی یہاں تک کہ وہ اپنے ساتھ کرسی لیے پھرتی ہیں، ان کی اس بات میں کسی حد تک وزن ہے۔ پہلے جو عادات ہمارے گھروں میں خواتین اختیار کرتی تھیں وہ ان کے لیے کچھ پریشانیوں کو تو پیدا کرتی تھیں، لیکن اس طرح وہ بہت سے مسائل اور بیماریوں سے دور رہتی تھیں۔ کچھ عرصہ قبل اسی طرح کے خیالات کا اظہار ایک بزرگ کو بھی کرتے سنا تھا جن کو آج کل کے انداز زندگی سے گلہ تھا۔

''آج کل ہر کوئی مشینوں کا ہی استعمال کرتا ہے، چٹنی دیکھو تو گرائنڈر میں،کباب بناؤ تو چوپر میں، یہاںتک کہ لیموں کا رس نچوڑنے تک کی مشین گھر میں ہوتی ہے اور پھر بھی عورتوں کو کام کی زیادتی کا گلہ رہتا ہے وہ کباب جو ہماری اماں سل بٹے پر پیس کر بنایا کرتی تھیں کیسے ذائقے دار ہوتے تھے اور آج ان مشینوں نے بجلی کے بلوں کو بھی بڑھا دیا اور کھانے کے ذائقے کو بھی تباہ کردیا ہے۔

بات کچھ غلط بھی نہیں ہے۔ مشینوں کے بے جا استعمال نے جہاں آسانیاں پیدا کردی ہیں وہیں صحت کے حوالے سے مسائل ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ البتہ انھیں الزام دیتے ہم سب کتراتے ہیں اس لیے کہ سل بٹے پر مصالحے پیسنے اور کباب کا قیمہ کچلتے سخت دقت محسوس ہوتی ہے کہ مشین یہ کام با آسانی انجام دے دیتی ہیں حالانکہ سل بٹے پر پیسنے کے باعث بازوؤں کا درد کم ہونے کے ساتھ سینے کی بھی ورزش ہوجاتی ہے۔

پرانے زمانے میں لوگ مٹی کے برتنوں کے علاوہ تانبے اور پیتل کے برتنوں میں کھانے پکاتے تھے وقت کے ساتھ ساتھ یہ برتن نان اسٹیک میں تبدیل ہوگئے حالانکہ تانبے، پیتل اور لوہے کے برتنوں میں پکانے سے کھانے کے اندر ان دھاتی عناصر سے ایسے (اجزا شامل ہوجاتے تھے جو ہماری صحت کو برقرار رکھنے میں مدد دیتے تھے یا دوسرے الفاظ میں ہماری انرجی ری چارج ہوتی رہتی تھی اس قدرتی ری چارجنگ کے نظام کو ہماری اپنی پیدا کردہ ترقی کے نظام نے خراب کر ڈالا لیکن نئی تحقیقات کے مطابق قدرتی دھاتوں سے بنے برتن انسانی صحت پر اچھے اثرات ڈالتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ تانبے اور پیتل کے برتنوں سے پانی پینے اور پانی محفوظ رکھنے میں بھی صحت کے لیے مفید ثابت ہوا ہے رات کو دیر سے کھانا کھانا اور بہت سارا کھانا، گوشت کی زیادہ مقدار کو اپنی غذا کا حصہ بنانا احمقانہ عمل ہے، کھانے میں دیر تیزابیت معدے میں تبخیر اور دوسرے مسائل کو جنم دیتی ہے جب کہ زیادہ کھانا ذیابیطس اور گوشت کی مقدار کو زیادہ شامل کرنا کولیسٹرول پیدا کرنے کے مترادف ہے۔


گوشت ضرور کھایئے ویسے بھی بقر عید کے بعد گوشت کا استعمال کچھ بڑھ جاتا ہے۔ گوشت کو آج کل کے زمانے میں محفوظ کرنے کے کئی طریقے نکل آئے ہیں۔ بڑے بڑے ڈیپ فریزر میں مہینوں قربانی کا گوشت محفوظ رکھاجاتا ہے کیا اس طریقے سے ہم قربانی کے مقصد کو ترک نہیں کررہے ہمارے ارد گرد ریڑھی والے، غبارے والے، آئس کریم بیچنے اور ایسے بہت سے لوگ گزرتے رہتے ہیں جو قربانی کے گوشت کے اصل حق دار ہیں لیکن ہم اپنی چھت پر اس کے باربی کیو کے مزے لیتے ہیں، رشتے دار و عزیز و اقارب کی دعوتیں کرتے ہیں۔

حالانکہ سرخ گوشت کا زیادہ استعمال انسانی صحت کے لیے مضر ہے خاص کر بڑا گوشت بلند فشار خون اور نظام ہضم کی بیماریوں کو جنم دیتا ہے اسی لیے ضروری ہے کہ بڑا گوشت خاص اعتدال سے کھایا جائے ایک دن میں چار سے چھ اونس گوشت ایک نارمل آدمی کے لیے کافی ہے لیکن ہمارے یہاں ایسا نہیں ہے۔

پہلے زمانے میں بڑے بڑے تھال بھر کر غریبوں، مسکینوں میں تقسیم کیے جاتے تھے۔ قربانی کے گوشت کو زیادہ گھروں میں رکھنے کا تصور بھی نہ تھا اسی طرح ہر گھر میں قربانی کے لیے دکھاوے کے طور پر جانور خریدنے کا بھی تصور نہ تھا جس کی جتنی اوقات پر آج کل تو چھوٹے چھوٹے کام کرنے والے بھی اپنی بساط سے بڑھ کر قربانی کرتے ہیں۔ سوال پوچھیے تو جواب ملتا ہے کہ بس جی بچوں کا شوق تھا۔ گویا خدا کی رضا نہیں تھی۔

خیر اب آتے ہیں کھانے پینے کے برتنوں کی جانب آج کل کھانے کے سائز کی پلیٹیں دیکھیے کچھ زیادہ ہی بڑی استعمال میں آنے لگی ہیں جن میں کھانوں کا ایک پہاڑ بلند ہوتا ہے اس پہاڑ کو ہڑپ کرنا ہر ایک کے بس میں نہیں ہوتا لہٰذا اس پہاڑ کو ادھورا چھوڑ کر کھانے کی میز پر سے یوں اٹھاجاتا ہے گویا احسان کیا جارہا ہو۔ اور دیکھنے میں محسوس یوں ہوتا ہے کہ جیسے تھالوں میں کھانا نوش فرمایا جارہاہو۔

پہلے زمانے میں سوڈے کی بوتل کو بہت بڑی ڈرنک سمجھاجاتا تھا اور آج کل مختلف رنگ اور ذائقے کی ٹھنڈی بوتلیں دستیاب ہیں جس میں فاسفورس اور کیفین کے علاوہ شکر کی مقدار اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ گویا ایک بوتل میں آپ نو سے دس چمچے چینی ڈکار رہے ہوں ہر بوتل سے اندازاً 250 حرارے توانائی ملتی ہے جس میں پروٹین اور وٹامن جیسے اہم توانائی بخش اجزا شامل نہیں ہوتے اور یوں موٹاپا، دانتوں کی کمزوری، مختلف قسم کے انفیکشن اور السر جیسی بیماریاں سر اٹھاتی ہیں۔ یقینا آج ہم نے بہت ترقی کرلی ہے اور اس ترقی کے پہیے تلے ہم اپنی ہی صحت کو کچلتے جارہے ہیں کتنا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنے ماضی کا بھی جائزہ لے لیں۔
Load Next Story