تھر میں بارشوں کے بعد کا حسنپہلاحصہ
ٹھٹھہ کے علاقے میں چاروں طرف مجھے پانی کے چھوٹے چھوٹے کھڈے بہت نظر آئے
KARACHI:
طویل عرصے سے میری یہ خواہش تھی کہ تھر کی سیر کروں مگر سندھی میں کہتے ہیں جب تک جانے والی جگہ پر رزق نہ پہنچ جائے کوئی بھی کہیں نہیں جاسکتا۔ یہی میرے ساتھ ہوا۔ جب میرا رزق وہاں پہنچادیا گیا تو مجھے بھی دعوت ملی جس کا مجھے کوئی علم نہیں تھا۔ ایک دن صبح مجھے میرے دوست شاہد شاہ نے، جو ایک انگریزی اخبار میں کام کرتے ہیں، کہا کہ آپ تھر چلنا چاہیں گے تو میری آنکھوں میں چمک اور چہرے پر دمک پیدا ہوگئی اور میں نے فوراً حامی بھرلی۔
ہفتے کا دن تھا، ہم 11 بجے پریس کلب سے ایک کوسٹر میں بیٹھ کر نکل گئے۔ ہم جیسے ہی روانہ ہوئے تو ہلکی ہلکی پھوار نے بھی ہمارے ساتھ سفرکرنا شروع کیا۔ راستے میں معلوم ہوا کہ یہ صحافیوں کا اسٹڈی ٹوئر ہے جس کی میزبانی سندھ اینگرو والوں نے کی ہے۔ موسم اچھا اور خوشگوار تھا اس لیے کوسٹر کے شیشوں سے پردے ہٹا کر باہر کا نظارا کرنے لگا۔
چلتی ہوئی کوسٹر میں ایک دوسرے کے تعارف کا سلسلہ بھی جاری رہا، مختلف اخبارات سے تعلق رکھنے والے دوستوں میں کافی ہم آہنگی اور اپنائیت محسوس ہوئی۔ کبھی سیاست پر، کبھی چلنے والے ترقیاتی کاموں پر اور کبھی ثقافت اور موسیقی بھی زیر بحث آتے رہے۔ سجاول پر پہنچے تو لنچ کا فیصلہ ہوا، مسلسل پھوار ہمارا ساتھ دے رہی تھی اس ماحول میں میری یادیں ماضی کی طرف چل پڑیں اور میں سوچ رہا تھا کہ جب میں بارش کے موسم میں لاڑکانہ شہر سے کچے کے علاقے میں اپنے دوستوں کے ساتھ پیدل 25 سے 30 کلومیٹر فاصلہ طے کرکے گاؤں چلے جاتے تھے اور ہمیں کوئی ڈر یا خوف نہیں ہوتا تھا اور ہم بارش کی وجہ سے بھیگے ہوئے فاختہ، طوطے اور دوسرے پرندوں کو ہاتھ سے پکڑ کر ان کے پر سکھا کرکسی محفوظ جگہ پر چھوڑ دیتے تھے۔ بہرحال ماضی سے واپس آکر روڈ پر دوڑتی ہوئی گاڑی کے ساتھ چلتے ہوئے درختوں، کھیتوں، پانی کے کھڈوں کو تکتے ہوئے یہ سوچ رہا تھا کہ کہیں کوسٹر رکے تو چائے پی جائے۔ جب ہم ٹھٹھہ کراس کرکے بدین شہر کے بائی پاس پہنچے تو وہاں پر ایک ریسٹورنٹ تھا وہاں چائے پی۔
ٹھٹھہ کے علاقے میں چاروں طرف مجھے پانی کے چھوٹے چھوٹے کھڈے بہت نظر آئے اور وہاں پر درخت اتنے نہیں تھے اور ہریالی کبھی کہیں کہیں تھوڑی نظر آئی جب کہ بدین ضلع میں داخل ہوتے ہی چاروں طرف ہریالی تھی، گھاس، گنا، دھان اور جانوروں کو کھلانے والی ہری ہری گھاس چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی اور درخت بھی نظر آئے۔ پانی بھی نظر آیا۔ مگر سیم اور تھور وہاں کی زمینوں کی زرخیزی کو نقصان دے رہی ہے۔ بدین میں بھینس اور دوسرے جانور بھی نظر آئے مگر پرندے بہت ہی کم نہ ہونے کے برابر دیکھے اور خاص طور پر بگلہ یعنی Crane تو پانی میں نظر آتا ہے۔
آخر وہ گھڑی آگئی جہاں سے تھر کا علاقہ شروع ہوتا ہے اور اس کی نشانی ایک گیٹ بنا ہوا تھا۔ کراچی سے لے کر تھر کے کچھ علاقے تک کافی جگہوں پر روڈ اکھاڑ کر دوبارہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ سمجھ سے باہر ہے کہ جو روڈ اکھاڑا جا رہا ہے وہ تو بہت اچھا ہے پھر اسے دوبارہ بنانے والا ماجرا ہم لوگوں کی سمجھ سے باہر ہے۔ اب تھر کی حدود میں ریت کے ٹیلے نظر آنے لگے جو ہری گھاس سے چادر کی طرح ڈھانپے ہوئے تھے۔ تھر میں پہنچتے ہی بارش میں تیزی آگئی، اب دوستوں نے اپنے اپنے موبائل نکالے اور اس منظر کو قید کرنے لگے۔ روڈ کے دونوں طرف کچھ بچے ہاتھوں میں Mushroom لے کر کھڑے تھے کیونکہ جب یہ سانپ کی چھتری کی طرح تھر میں بارش میں پیدا ہوتی ہے تو اسے سبزی کے طور پر پکا کر کھایا جاتا ہے جس کا ذائقہ گوشت کی طرح ہوتا ہے۔ کئی لوگ یہ خرید رہے تھے۔
جب کافی آگے چلتے چلتے گئے تو بارش کچھ دیر کے لیے تھم گئی اور دوستوں نے کوسٹر سے اتر کر اپنے اپنے موبائل سے سیلفیاں بنائیں۔ ہمیں یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ اس موسم کو دیکھنے کے لیے نہ صرف سندھ کے کئی حصوں سے بلکہ ملک کے دور دراز علاقوں سے لوگ گاڑیوں پر گھومنے آرہے تھے۔ ہمیں بڑی احتیاط کے ساتھ روڈ پرکھڑا ہونا پڑ رہا تھا کیونکہ ہر منٹ کے بعد دو تین گاڑیاں تیزی کے ساتھ گزر رہی تھیں۔ کافی لوگ موٹر سائیکل پر بھی آرہے تھے۔ اب دھیرے دھیرے اندھیرا چھا رہا تھا۔ اندھیرا ہونے سے پہلے میں نے کئی اور نظارے دیکھے جس میں تھر کے رہنے والے کچھ لوگ جو بارشوں سے پہلے اپنا علاقہ پانی نہ ہونے کی وجہ سے چھوڑ گئے تھے وہ پیدل اپنے مویشیوں کے ساتھ کچھ گاتے ہوئے آرہے تھے۔
تھر میں مال مویشی بہت ہوتے ہیں لیکن جب کافی عرصہ بارشیں نہ ہوں تو یہ لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر مویشیوں کو اپنے ساتھ ان علاقوں میں نکل جاتے ہیں جہاں پر بیراجز (Barages) ہوتے ہیں جن کی وجہ سے انھیں پانی اور گھاس اور اپنے لیے کھانا مل جاتا ہے، کیونکہ جب تھر میں گھاس نہ ہو، پانی نہ ہو تو پھر قحط ہوجاتا ہے، وہاں پر پانی کے کنوئیں سوکھ جاتے ہیں، کوئی فصل نہیں ہوتی۔ اگر پانی میسر ہو تو تھری لوگوں جیسا پاکستان میں اور کوئی بھی علاقہ اتنا خوشحال نہ ہو۔ ہر کچھ فاصلے پر میں نے دیکھا کہ کھڈے کُھدے ہوئے تھے جہاں پر بارش کا پانی جمع ہوگیا تھا جہاں سے تھری اپنے مویشیوں کو پانی پلا رہے تھے۔
واپسی پر بھی میں نے دیکھا کہ بکریوں، گائے، اونٹ کے بڑے بڑے ریوڑ گھاس چر رہے تھے۔ بکریاں اور اونٹ تو بیل، کھبڑ کے درختوں کی لٹکتی ہوئی شاخوں سے سنگریاں اور پیروں جو ان درختوں کے میوے ہیں توڑ کر کھا رہے تھے۔ یہ پھل تھر کے رہنے والوں کے لیے بہت اہم فروٹ ہوتے ہیں جس کی لذت بہت اچھی ہوتی ہے اور یہ پھل کراچی اور دوسرے شہروں میں دوستوں کے لیے تحفے کے طور پر بھیجے جاتے ہیں۔ بارش کے بعد تھری لوگ گوار، تل، باجرا، مونگ، جنتر کی فصل کا بیج ڈال رہے تھے کئی جگہ پر تو جن لوگوں نے پہلے ہی یہ بیج ڈالا تھا وہ اگ بھی چکا تھا جس سے علاقہ اور بھی سرسبز ہوچکا تھا۔ میرے لیے ایک حیرانی کی بات یہ بھی تھی کہ کئی جگہ پر میں نے اکیلی تھری جھگی بنی ہوئی دیکھی جس میں ایک مختصر فیملی رہ رہی تھی اور ایک اکیلی عورت چھوٹے بچوں کے ساتھ رہ رہی ہیں۔ اکثر ان کے گھر بڑے ٹیلوں پر بنے ہوئے تھے۔
اب اسلام کوٹ تک اچھے روڈ بن گئے ہیں مگر یہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس کے باوجود بھی بارش کی وجہ سے ان کے کونوں سے ریت کھسک رہی تھی جس سے روڈ ٹوٹنے یا دھنس جانے کا خطرہ ہے۔ ہم لوگ اس وقت سارے بڑے خاموش ہوجاتے اور اپنے اپنے موبائل تیارکرلیتے جب اچانک روڈ کے برابر مور نظر آتا سب اس کی تصویر بنانے لگتے اور جب تک وہ چلتی گاڑی سے ہماری نظروں سے اوجھل نہ ہوجاتا گردن اسی طرف ہوتی۔ مور کبھی زمین پر اور کبھی اڑ کر درخت پر بیٹھ جاتا اور یہ منظر میرے لیے شہر کی گوناگوں زندگی سے ہزار گنا اچھا تھا۔ کئی جگہوں پر عورتیں کنوئیں سے پانی نکالتی ہوئی نظر آئیں۔ ایک دو مقامات تو ایسے تھے جہاں پر بارش کا پانی دریا کی طرح بہہ رہا تھا جسے دیکھ کر مجھے بڑی خوشی ہوئی کیونکہ اب کچھ عرصہ ان تھریوں کے لیے خوشی سے گزر جائے گا۔
رات کے آٹھ بجے ہم اسلام کوٹ سے 20 سے 25 کلومیٹر چیک پوسٹ پر پہنچے جہاں سے ہمیں سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کی طرف سے ان کے آفس میں بریفنگ کے لیے جانا تھا۔ کراچی سے اس جگہ تک کا فاصلہ تقریباً 450 یا پھر 500 کلومیٹر ہوگا۔ بہرحال یہاں پر تین چیک پوسٹیں تھیں جہاں سے ہم کلیئر ہوکر بریفنگ والی جگہ پہنچ گئے جہاں پر ہمارا استقبال محسن ببر نے کیا جو میڈیا کو ڈیل کرتے ہیں۔ جب اندر داخل ہوئے تو وہاں پر ہمیں خوش آمدید کہنے والے آپریشن ڈائریکٹر ریٹائرڈ بریگیڈیئر طارق قادر لاکھیر تھے۔
طویل عرصے سے میری یہ خواہش تھی کہ تھر کی سیر کروں مگر سندھی میں کہتے ہیں جب تک جانے والی جگہ پر رزق نہ پہنچ جائے کوئی بھی کہیں نہیں جاسکتا۔ یہی میرے ساتھ ہوا۔ جب میرا رزق وہاں پہنچادیا گیا تو مجھے بھی دعوت ملی جس کا مجھے کوئی علم نہیں تھا۔ ایک دن صبح مجھے میرے دوست شاہد شاہ نے، جو ایک انگریزی اخبار میں کام کرتے ہیں، کہا کہ آپ تھر چلنا چاہیں گے تو میری آنکھوں میں چمک اور چہرے پر دمک پیدا ہوگئی اور میں نے فوراً حامی بھرلی۔
ہفتے کا دن تھا، ہم 11 بجے پریس کلب سے ایک کوسٹر میں بیٹھ کر نکل گئے۔ ہم جیسے ہی روانہ ہوئے تو ہلکی ہلکی پھوار نے بھی ہمارے ساتھ سفرکرنا شروع کیا۔ راستے میں معلوم ہوا کہ یہ صحافیوں کا اسٹڈی ٹوئر ہے جس کی میزبانی سندھ اینگرو والوں نے کی ہے۔ موسم اچھا اور خوشگوار تھا اس لیے کوسٹر کے شیشوں سے پردے ہٹا کر باہر کا نظارا کرنے لگا۔
چلتی ہوئی کوسٹر میں ایک دوسرے کے تعارف کا سلسلہ بھی جاری رہا، مختلف اخبارات سے تعلق رکھنے والے دوستوں میں کافی ہم آہنگی اور اپنائیت محسوس ہوئی۔ کبھی سیاست پر، کبھی چلنے والے ترقیاتی کاموں پر اور کبھی ثقافت اور موسیقی بھی زیر بحث آتے رہے۔ سجاول پر پہنچے تو لنچ کا فیصلہ ہوا، مسلسل پھوار ہمارا ساتھ دے رہی تھی اس ماحول میں میری یادیں ماضی کی طرف چل پڑیں اور میں سوچ رہا تھا کہ جب میں بارش کے موسم میں لاڑکانہ شہر سے کچے کے علاقے میں اپنے دوستوں کے ساتھ پیدل 25 سے 30 کلومیٹر فاصلہ طے کرکے گاؤں چلے جاتے تھے اور ہمیں کوئی ڈر یا خوف نہیں ہوتا تھا اور ہم بارش کی وجہ سے بھیگے ہوئے فاختہ، طوطے اور دوسرے پرندوں کو ہاتھ سے پکڑ کر ان کے پر سکھا کرکسی محفوظ جگہ پر چھوڑ دیتے تھے۔ بہرحال ماضی سے واپس آکر روڈ پر دوڑتی ہوئی گاڑی کے ساتھ چلتے ہوئے درختوں، کھیتوں، پانی کے کھڈوں کو تکتے ہوئے یہ سوچ رہا تھا کہ کہیں کوسٹر رکے تو چائے پی جائے۔ جب ہم ٹھٹھہ کراس کرکے بدین شہر کے بائی پاس پہنچے تو وہاں پر ایک ریسٹورنٹ تھا وہاں چائے پی۔
ٹھٹھہ کے علاقے میں چاروں طرف مجھے پانی کے چھوٹے چھوٹے کھڈے بہت نظر آئے اور وہاں پر درخت اتنے نہیں تھے اور ہریالی کبھی کہیں کہیں تھوڑی نظر آئی جب کہ بدین ضلع میں داخل ہوتے ہی چاروں طرف ہریالی تھی، گھاس، گنا، دھان اور جانوروں کو کھلانے والی ہری ہری گھاس چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی اور درخت بھی نظر آئے۔ پانی بھی نظر آیا۔ مگر سیم اور تھور وہاں کی زمینوں کی زرخیزی کو نقصان دے رہی ہے۔ بدین میں بھینس اور دوسرے جانور بھی نظر آئے مگر پرندے بہت ہی کم نہ ہونے کے برابر دیکھے اور خاص طور پر بگلہ یعنی Crane تو پانی میں نظر آتا ہے۔
آخر وہ گھڑی آگئی جہاں سے تھر کا علاقہ شروع ہوتا ہے اور اس کی نشانی ایک گیٹ بنا ہوا تھا۔ کراچی سے لے کر تھر کے کچھ علاقے تک کافی جگہوں پر روڈ اکھاڑ کر دوبارہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ سمجھ سے باہر ہے کہ جو روڈ اکھاڑا جا رہا ہے وہ تو بہت اچھا ہے پھر اسے دوبارہ بنانے والا ماجرا ہم لوگوں کی سمجھ سے باہر ہے۔ اب تھر کی حدود میں ریت کے ٹیلے نظر آنے لگے جو ہری گھاس سے چادر کی طرح ڈھانپے ہوئے تھے۔ تھر میں پہنچتے ہی بارش میں تیزی آگئی، اب دوستوں نے اپنے اپنے موبائل نکالے اور اس منظر کو قید کرنے لگے۔ روڈ کے دونوں طرف کچھ بچے ہاتھوں میں Mushroom لے کر کھڑے تھے کیونکہ جب یہ سانپ کی چھتری کی طرح تھر میں بارش میں پیدا ہوتی ہے تو اسے سبزی کے طور پر پکا کر کھایا جاتا ہے جس کا ذائقہ گوشت کی طرح ہوتا ہے۔ کئی لوگ یہ خرید رہے تھے۔
جب کافی آگے چلتے چلتے گئے تو بارش کچھ دیر کے لیے تھم گئی اور دوستوں نے کوسٹر سے اتر کر اپنے اپنے موبائل سے سیلفیاں بنائیں۔ ہمیں یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ اس موسم کو دیکھنے کے لیے نہ صرف سندھ کے کئی حصوں سے بلکہ ملک کے دور دراز علاقوں سے لوگ گاڑیوں پر گھومنے آرہے تھے۔ ہمیں بڑی احتیاط کے ساتھ روڈ پرکھڑا ہونا پڑ رہا تھا کیونکہ ہر منٹ کے بعد دو تین گاڑیاں تیزی کے ساتھ گزر رہی تھیں۔ کافی لوگ موٹر سائیکل پر بھی آرہے تھے۔ اب دھیرے دھیرے اندھیرا چھا رہا تھا۔ اندھیرا ہونے سے پہلے میں نے کئی اور نظارے دیکھے جس میں تھر کے رہنے والے کچھ لوگ جو بارشوں سے پہلے اپنا علاقہ پانی نہ ہونے کی وجہ سے چھوڑ گئے تھے وہ پیدل اپنے مویشیوں کے ساتھ کچھ گاتے ہوئے آرہے تھے۔
تھر میں مال مویشی بہت ہوتے ہیں لیکن جب کافی عرصہ بارشیں نہ ہوں تو یہ لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر مویشیوں کو اپنے ساتھ ان علاقوں میں نکل جاتے ہیں جہاں پر بیراجز (Barages) ہوتے ہیں جن کی وجہ سے انھیں پانی اور گھاس اور اپنے لیے کھانا مل جاتا ہے، کیونکہ جب تھر میں گھاس نہ ہو، پانی نہ ہو تو پھر قحط ہوجاتا ہے، وہاں پر پانی کے کنوئیں سوکھ جاتے ہیں، کوئی فصل نہیں ہوتی۔ اگر پانی میسر ہو تو تھری لوگوں جیسا پاکستان میں اور کوئی بھی علاقہ اتنا خوشحال نہ ہو۔ ہر کچھ فاصلے پر میں نے دیکھا کہ کھڈے کُھدے ہوئے تھے جہاں پر بارش کا پانی جمع ہوگیا تھا جہاں سے تھری اپنے مویشیوں کو پانی پلا رہے تھے۔
واپسی پر بھی میں نے دیکھا کہ بکریوں، گائے، اونٹ کے بڑے بڑے ریوڑ گھاس چر رہے تھے۔ بکریاں اور اونٹ تو بیل، کھبڑ کے درختوں کی لٹکتی ہوئی شاخوں سے سنگریاں اور پیروں جو ان درختوں کے میوے ہیں توڑ کر کھا رہے تھے۔ یہ پھل تھر کے رہنے والوں کے لیے بہت اہم فروٹ ہوتے ہیں جس کی لذت بہت اچھی ہوتی ہے اور یہ پھل کراچی اور دوسرے شہروں میں دوستوں کے لیے تحفے کے طور پر بھیجے جاتے ہیں۔ بارش کے بعد تھری لوگ گوار، تل، باجرا، مونگ، جنتر کی فصل کا بیج ڈال رہے تھے کئی جگہ پر تو جن لوگوں نے پہلے ہی یہ بیج ڈالا تھا وہ اگ بھی چکا تھا جس سے علاقہ اور بھی سرسبز ہوچکا تھا۔ میرے لیے ایک حیرانی کی بات یہ بھی تھی کہ کئی جگہ پر میں نے اکیلی تھری جھگی بنی ہوئی دیکھی جس میں ایک مختصر فیملی رہ رہی تھی اور ایک اکیلی عورت چھوٹے بچوں کے ساتھ رہ رہی ہیں۔ اکثر ان کے گھر بڑے ٹیلوں پر بنے ہوئے تھے۔
اب اسلام کوٹ تک اچھے روڈ بن گئے ہیں مگر یہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس کے باوجود بھی بارش کی وجہ سے ان کے کونوں سے ریت کھسک رہی تھی جس سے روڈ ٹوٹنے یا دھنس جانے کا خطرہ ہے۔ ہم لوگ اس وقت سارے بڑے خاموش ہوجاتے اور اپنے اپنے موبائل تیارکرلیتے جب اچانک روڈ کے برابر مور نظر آتا سب اس کی تصویر بنانے لگتے اور جب تک وہ چلتی گاڑی سے ہماری نظروں سے اوجھل نہ ہوجاتا گردن اسی طرف ہوتی۔ مور کبھی زمین پر اور کبھی اڑ کر درخت پر بیٹھ جاتا اور یہ منظر میرے لیے شہر کی گوناگوں زندگی سے ہزار گنا اچھا تھا۔ کئی جگہوں پر عورتیں کنوئیں سے پانی نکالتی ہوئی نظر آئیں۔ ایک دو مقامات تو ایسے تھے جہاں پر بارش کا پانی دریا کی طرح بہہ رہا تھا جسے دیکھ کر مجھے بڑی خوشی ہوئی کیونکہ اب کچھ عرصہ ان تھریوں کے لیے خوشی سے گزر جائے گا۔
رات کے آٹھ بجے ہم اسلام کوٹ سے 20 سے 25 کلومیٹر چیک پوسٹ پر پہنچے جہاں سے ہمیں سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی کی طرف سے ان کے آفس میں بریفنگ کے لیے جانا تھا۔ کراچی سے اس جگہ تک کا فاصلہ تقریباً 450 یا پھر 500 کلومیٹر ہوگا۔ بہرحال یہاں پر تین چیک پوسٹیں تھیں جہاں سے ہم کلیئر ہوکر بریفنگ والی جگہ پہنچ گئے جہاں پر ہمارا استقبال محسن ببر نے کیا جو میڈیا کو ڈیل کرتے ہیں۔ جب اندر داخل ہوئے تو وہاں پر ہمیں خوش آمدید کہنے والے آپریشن ڈائریکٹر ریٹائرڈ بریگیڈیئر طارق قادر لاکھیر تھے۔