تعلیم ہی خواتین کو ظلم کے دلدل سے نکال سکتی ہے مختاراں مائی
زیادتی کا نشانہ بننےکےبعدسوچا خود کشی کرلوں لیکن کچھ پڑھے لکھوں نےمشورہ دیا کہ اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑی ہو،مختاراں مائی
11 سال قبل اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنائی گئی مختاراں مائی کا کہنا ہے کہ تعلیم کے زریعے ہی پاکستان کی خواتین کو ظلم کے دلدل سے نکالا جا سکتا ہےاور اس حوالے سے وہ جنوبی پنجاب میں 2 پرائمری اسکولز اور خواتین کے لئے دارالعلوم بھی قائم کر چکی ہیں۔
جنیوا میں غیر ملکی خبر رساں ایجنسی سے بات کرتے ہوئے مختاراں مائی نے کہا کہ میں اس بات پر فخر محسوس کرتی ہوں کہ میری وجہ سے ظلم کا شکار بنائی گئی کئی خواتین اور لڑکیاں فرار کا یہ خودکشی کا راستہ اپنانے کے بجائے قانون کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 11 سال قبل جب انہیں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تو انہوں نے بھی دلبرداشتہ ہو کر یہی سوچا کہ وہ اپنی جان لے لیں اوراس واقعے کے بعد پولیس سے رجوع کرنے پر انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں اور ان کا ارادہ تھا کہ اسی طرح ظالموں کی جانب سے قتل ہونے کے بعد وہ اس ذ لت آمیز زندگی سے چھٹکارا حاصل کر لیں گی لیکن یہ سب کرنے سے پہلے انہیں کچھ تعلیم یافتہ لوگوں نے صحیح راستہ دکھایا اور بتایا کہ وہ زندہ رہ کر دوسرے لوگوں کے کام آ سکتی ہیں تاکہ آئندہ کے لئے دوسری کئی لڑکیوں کو ایسے ظلم اور زیادتی سے بچایا جا سکے۔
مختارا مائی نے ملالہ یوسف زئی پر طالبان کی جانب سے جان لیوا حملے کی مذمت کی اور کہا کہ ایسے واقعات سے ڈر کر ہمیں رکنا نہیں چاہئے بلکہ اس امید کے ساتھ ہمیں اپنے مشن پر ڈٹے رہنا ہو گا کہ ایک دن پاکستان کے حالات ضرور بدلیں گے۔ انہوں نے پاکستان اور بھارت میں خواتین پر ڈھائے جانے والے مظالم سے متعلق کہا کہ دونوں ممالک میں اس حوالے سے بنائے گئے قوانین پر صحیح معنوں میں عملدرآمد نہیں ہو رہا جس کے باعث خواتین کو انصاف کے حصول میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جنیوا میں غیر ملکی خبر رساں ایجنسی سے بات کرتے ہوئے مختاراں مائی نے کہا کہ میں اس بات پر فخر محسوس کرتی ہوں کہ میری وجہ سے ظلم کا شکار بنائی گئی کئی خواتین اور لڑکیاں فرار کا یہ خودکشی کا راستہ اپنانے کے بجائے قانون کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 11 سال قبل جب انہیں اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تو انہوں نے بھی دلبرداشتہ ہو کر یہی سوچا کہ وہ اپنی جان لے لیں اوراس واقعے کے بعد پولیس سے رجوع کرنے پر انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں اور ان کا ارادہ تھا کہ اسی طرح ظالموں کی جانب سے قتل ہونے کے بعد وہ اس ذ لت آمیز زندگی سے چھٹکارا حاصل کر لیں گی لیکن یہ سب کرنے سے پہلے انہیں کچھ تعلیم یافتہ لوگوں نے صحیح راستہ دکھایا اور بتایا کہ وہ زندہ رہ کر دوسرے لوگوں کے کام آ سکتی ہیں تاکہ آئندہ کے لئے دوسری کئی لڑکیوں کو ایسے ظلم اور زیادتی سے بچایا جا سکے۔
مختارا مائی نے ملالہ یوسف زئی پر طالبان کی جانب سے جان لیوا حملے کی مذمت کی اور کہا کہ ایسے واقعات سے ڈر کر ہمیں رکنا نہیں چاہئے بلکہ اس امید کے ساتھ ہمیں اپنے مشن پر ڈٹے رہنا ہو گا کہ ایک دن پاکستان کے حالات ضرور بدلیں گے۔ انہوں نے پاکستان اور بھارت میں خواتین پر ڈھائے جانے والے مظالم سے متعلق کہا کہ دونوں ممالک میں اس حوالے سے بنائے گئے قوانین پر صحیح معنوں میں عملدرآمد نہیں ہو رہا جس کے باعث خواتین کو انصاف کے حصول میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔