کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی خوش آیند
کراچی کی تباہ حالی کا ذمے دار کسی ایک کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا
ٹرانسپورٹ کے گنجلک مسائل میں گھرے کراچی کے شہریوں کے لیے یہ نوید بہار کے تازہ جھونکے کی مانند ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہدری میں شامل کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کا سنگ بنیاد 25 دسمبر کو رکھا جائے گا۔ اس سے پیشتر کئی بار سرکلر ریلوے کو فعال کرنے کی باتیں ہوتی رہی ہیں لیکن سی پیک کی بدولت شہری پرامید ہیں کہ اب یہ منصوبہ صرف باتیں بنانے کی حدود سے آگے نکل کر عملی طور پر ہوتا نظر آئے گا۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ سرکلر ریلوے کی تکمیل سے کراچی کے شہریوں کو سستی اور تیز رفتار ٹرانسپورٹ کی سہولت میسر آئے گی۔ اس وقت تو یہ حال ہے کہ دو کروڑ سے زائد آبادی رکھنے والے معاشی ہب میں جہاں لاکھوں شہری آمد و رفت کے لیے شاہراہوں پر نکلتے ہیں ان کی ضروریات کے مطابق ٹرانسپورٹ کی تعداد میسر نہیں، اور جو ناکافی ٹرانسپورٹ دستیاب ہے اس کی زبوں حالی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
یہ شہر قائد کا نوحہ ہے کہ یہاں مسائل در مسائل کا ایک انبار موجود ہے، ابھی پچھلے مسائل سے نمٹا نہیں جاتا کہ ایک اور مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ، انفرا سٹرکچر کی تباہی، صفائی ستھرائی کے مسائل، نکاسی آب کے سسٹم کی شکستہ حالی، قبضہ مافیا، وبائی امراض کے حملے، ڈینگی ختم ہوا تو چکن گونیا درپیش اور اب پولیو کی ویکسی نیشن شروع ہونے والی ہے، پولیو کی گزشتہ مہم میں دہشتگردی کے جو واقعات پیش آئے وہ بھی تشویشناک امر ہے، نیز آج ہی کراچی میں پولیو کا ایک نیا کیس رجسٹرڈ ہوا ہے، متاثرہ بچے کے والدین نے پولیو ویکسی نیشن کرانے سے انکار کردیا تھا۔
کراچی کی تباہ حالی کا ذمے دار کسی ایک کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا، یہاں کی اسٹیک ہولڈرز جماعتیں اور سندھ حکومت برابر کی ذمے دار ہیں، صوبائی اور بلدیاتی حکومت میں اختیارات کی رسہ کشی کے مضمرات شہری بھگت رہے ہیں جو کسی بھی قسم کی شہری سہولت میسر نہ ہونے کے باوجود ٹیکسوں کے انبار تلے دبے ہوئے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
سرکلرے ریلوے کا سنگ بنیاد رکھنے کی خبر کے حوالے سے یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ کراچی میں اس سے پیشتر بھی عوامی بھلائی کے کئی منصوبے شروع ہوئے اور ان کے سنگ بنیاد رکھے گئے، ٹرانسپورٹ کے لیے گرین بسیں چلائی گئیں لیکن پھر وہ نہ جانے کہاں غائب ہوگئیں، شروع ہونے والے منصوبے صرف کاغذوں تک محدود رہ گئے یا ان کے شکستہ سنگ بنیاد شہریوں کو حکومتی بے اعتناعی کا احوال سناتے ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ صرف سنگ بنیاد رکھنے تک بات نہیں رکے گی بلکہ عوامی بہبود کا کام عملی طور پر ہوتا نظر آئے گا۔
یہ شہر قائد کا نوحہ ہے کہ یہاں مسائل در مسائل کا ایک انبار موجود ہے، ابھی پچھلے مسائل سے نمٹا نہیں جاتا کہ ایک اور مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ، انفرا سٹرکچر کی تباہی، صفائی ستھرائی کے مسائل، نکاسی آب کے سسٹم کی شکستہ حالی، قبضہ مافیا، وبائی امراض کے حملے، ڈینگی ختم ہوا تو چکن گونیا درپیش اور اب پولیو کی ویکسی نیشن شروع ہونے والی ہے، پولیو کی گزشتہ مہم میں دہشتگردی کے جو واقعات پیش آئے وہ بھی تشویشناک امر ہے، نیز آج ہی کراچی میں پولیو کا ایک نیا کیس رجسٹرڈ ہوا ہے، متاثرہ بچے کے والدین نے پولیو ویکسی نیشن کرانے سے انکار کردیا تھا۔
کراچی کی تباہ حالی کا ذمے دار کسی ایک کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا، یہاں کی اسٹیک ہولڈرز جماعتیں اور سندھ حکومت برابر کی ذمے دار ہیں، صوبائی اور بلدیاتی حکومت میں اختیارات کی رسہ کشی کے مضمرات شہری بھگت رہے ہیں جو کسی بھی قسم کی شہری سہولت میسر نہ ہونے کے باوجود ٹیکسوں کے انبار تلے دبے ہوئے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
سرکلرے ریلوے کا سنگ بنیاد رکھنے کی خبر کے حوالے سے یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ کراچی میں اس سے پیشتر بھی عوامی بھلائی کے کئی منصوبے شروع ہوئے اور ان کے سنگ بنیاد رکھے گئے، ٹرانسپورٹ کے لیے گرین بسیں چلائی گئیں لیکن پھر وہ نہ جانے کہاں غائب ہوگئیں، شروع ہونے والے منصوبے صرف کاغذوں تک محدود رہ گئے یا ان کے شکستہ سنگ بنیاد شہریوں کو حکومتی بے اعتناعی کا احوال سناتے ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ صرف سنگ بنیاد رکھنے تک بات نہیں رکے گی بلکہ عوامی بہبود کا کام عملی طور پر ہوتا نظر آئے گا۔