نامے مرے نام

یہ واپس آکر گھنٹوں روتی رہتی ہیں، لیکن ان کے شوہر اس رویے سے بالکل پریشان نہیں ہوتے

گھر تبدیل کرنے کی وجہ سے بہت سی ڈاک ادھر ادھر ہوگئی، حالانکہ تمام جاننے والوں کو نیا پتہ ارسال کردیا تھا، پھر بھی کافی ڈاک پرانے پتے پر آئی، جسے پوسٹ مین نے سنبھال کے رکھ لیا تھا، اور دس بارہ دن پہلے ہی وہ مجھ تک پہنچی۔ اسی طرح ایکسپریس کے توسط سے ملنے والی ڈاک جو مجھے چودہ فروری کو موصول ہوئی، جن میں کچھ خطوط شامل تھے، ان خطوط میں بہاولپور کے ڈاکٹر سہیل اسلم کے طویل اور تفصیلی خط کے علاوہ اور بھی خطوط تھے، جنھیں میں پڑھتی گئی۔ پھر ایک نیا لفافہ کھولا تو اس میں سے سینئر اور بزرگ کالم نگار محمد سعید صدیقی (علیگ) کا بھی ایک تفصیلی خط تھا جوکہ سرسید انجینئرنگ یونیورسٹی کے ایگزیکٹیو کمیٹی کے ممبر ہونے کے علاوہ تحریک پاکستان کے ایک سرگرم کارکن اور ہمدرد مجلس شوریٰ کے رکن بھی ہیں۔ یہ تفصیلی خط جو ان کے ہلکے نیلے لیٹر پیڈ پر تھا جو 2 دسمبر 2012 کو ''لازوال گیتوں کا خالق فیاض ہاشمی'' کے عنوان سے لکھے گئے کالم کے بارے میں تھا۔ سعید صدیقی نے لکھا تھا کہ میرے کالم کو پڑھ کر انھیں ماضی کے اور بھی بہت سے گیت اور غزلیں یاد آگئیں۔

انھوں نے اپنی مرحومہ اہلیہ کا بھی تذکرہ کیا تھا جن کے ساتھ انھوں نے نرگس، دلیپ کمار کی متعدد فلمیں دیکھیں، کیونکہ ان کی بیگم کو اداکارہ نرگس بہت زیادہ پسند تھی۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ دونوں میاں بیوی نے ''انداز''ریگل سینما میں دیکھی ، ''برسات'' پیلس میں، ''چتر لیکھا'' کیپیٹل میں اور ''میلہ'' ناز سینما میں جو اب شاپنگ سینٹر بن گیا ہے، دیگر سینماؤں کا وجود مٹ چکا ہے۔ یہ خط انھوں نے3 دسمبر کو لکھا تھا یعنی کالم چھپنے کے اگلے ہی دن، لیکن بدقسمتی سے یہ مجھے 14 فروری کو ملا۔ میں نے خط پڑھتے ہی ان کے دیے ہوئے PTCL نمبر پر اسی دن شام کو فون کیا تاکہ معذرت کرسکوں کہ خط ڈھائی ماہ بعد ملا ہے اس لیے رسید نہ دے سکی، فون کرنے پر کسی خاتون نے اٹھایا، میں نے اپنا تعارف کروانے کے بعد جب سعید صدیقی سے بات کرنے کی خواہش ظاہر کی تو وہ کچھ دیر چپ رہنے کے بعد بولیں ''ان کا تو انتقال ہوگیا'' کب۔۔۔۔؟ میں نے پوچھا، جواب ملا ''30 دسمبر کو، کچھ دن بیمار رہنے کے بعد''۔ مجھے سن کر بے حد افسوس ہوا۔ اتنے سینئر قلم کار نجانے کیا سوچتے ہوں گے کہ انھی کی برادری والوں نے سرد مہری دکھائی۔ لیکن انھیں کیا معلوم کہ ان کا خط ان کی وفات کے بعد مجھے ملے گا۔ خدا ان کے درجات بلند کرے اور انھیں جنت الفردوس میں جگہ دے آمین۔

دوسرا خط آمنہ خواجہ نے فیصل آباد سے لکھا ہے۔آمنہ خواجہ ایک پختہ عمر کی خاتون ہیں، دو بیٹوں اور تین بیٹیوں کی ماں ہیں، چار بچوں کی شادیاں ہوچکی ہیں، ایک بیٹی باقی ہے، دونوں بیٹیاں اسی شہر میں رہتی ہیں اور بیٹے بھی۔ لیکن بیٹے اپنی اپنی بیویوں کے ساتھ الگ رہتے ہیں، یہ اپنے میاں اور بیٹی کے ساتھ ہیں۔ ان کے دونوں بیٹے شادی کے دو تین ماہ بعد ہی والدین سے الگ ہوگئے۔ ایک بہو ان کی سگی بھانجی ہے اور دوسری ان کی سہیلی کی بیٹی۔ یہ دادی بھی بن چکی ہیں، لیکن اپنے پوتوں اور پوتیوں کے برعکس نواسے نواسیوں سے زیادہ قریب ہیں۔ کیونکہ بیٹے اور ان کی بیویاں نہ خود والدین سے ملتے ہیں اور نہ ہی اپنے بچوں کو ان سے ملنے کی اجازت دیتے ہیں۔ یہ میاں بیوی جب بھی پوتا پوتی کی محبت سے مجبور ہوکر بیٹے کے گھر جاتے ہیں تو دونوں بیٹوں اور ان کی بیویوں کا رویہ بہت سرد ہوتا ہے۔

یہ واپس آکر گھنٹوں روتی رہتی ہیں، لیکن ان کے شوہر اس رویے سے بالکل پریشان نہیں ہوتے، اور پھر ایک دن آمنہ خواجہ کا ضمیر جاگا اور انھوں نے تجزیہ کیا کہ جو کچھ ان کے بیٹے اور بہوئیں ان کے ساتھ کر رہے ہیں وہ تو مکافات عمل ہے، جی ہاں! انھوں نے خود یہ لکھا ہے، چلیے مختصراً میں آپ کو بتاتی ہوں۔ آمنہ خواجہ کو آج یہ احساس مارے ڈال رہا ہے کہ ان کے فرشتہ صفت ساس اور سسر کا دل دکھانے کا خمیازہ انھیں اسی جنم میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ چالیس سال پہلے جب ان کی ساس اور نند انھیں بیاہ کر لائیں تو دونوں نے انھیں ہتھیلی کا چھالہ بناکر رکھا، خوب ناز برداریاں کیں، ان کی ساس انھیں ''دلہن'' کہتی تھیں اور نند ''بھابی دلہن''۔ وہ بہت خوش تھیں، میاں بھی واری صدقے جاتے تھے اور بیوی کا منہ دیکھ دیکھ کر جیتے تھے کہ شادی کے دو ماہ بعد ہی آمنہ کے والدین نے ان کے کانوں میں یہ بات ڈالنی شروع کردی کہ وہ میاں سے کہہ کر الگ گھر لے لیں تاکہ علیحدہ گھر میں وہ راج کرسکیں۔


انھوں نے والدین خصوصاً اماں جان کے مشورے کو گرہ میں باندھ لیا اور اٹھتے بیٹھتے میاں سے الگ گھر کا مطالبہ کرنا شروع کردیا جب کہ ان کے شوہر اپنا آبائی گھر اور والدین کو چھوڑ کر نہ جانا چاہتے تھے، لیکن جب روز روز آمنہ روٹھ کر میکے جاکر جانے لگیں اور واپسی کے لیے الگ گھر کی شرط رکھنے لگیں تو ان کی ساس نے خود بیٹے کو سمجھا بجھا کر الگ رہنے پر راضی کرلیا تاکہ ہر روز کی دانتا کل کل ختم ہو۔ انھوں نے دل پر پتھر رکھ کر بیٹے کو الگ کردیا۔ پھر بھی آمنہ کو چین نہ آیا۔ اب ان کے میکے والے دن بھر ان کے گھر دندناتے جب کہ میاں کو اپنے والدین سے ملنے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ کبھی کبھار فون پر بات کرلیتے تھے، لیکن بیوی کے ڈر کے مارے والدین کے گھر نہیں جاتے تھے۔

ماں نے بیٹے کی خوشی اور سکون کی خاطر دل پر پتھر رکھ لیا تھا۔ آمنہ کی نند کراچی میں بیاہی گئی تھی، لہٰذا ماں باپ بالکل اکیلے تھے۔ تب ایک دن آمنہ کی ساس کا انتقال ہوگیا، لیکن انھیں چند دن بعد اطلاع ملی کیونکہ ساس نے بیٹے بہو کو اطلاع دینے سے منع کردیا تھا۔ نند کراچی سے آکر ماں کو دفنا کر چلی گئی۔ تین ماہ بعد باپ بھی مرگئے۔ ان کے مرنے کی اطلاع بھی بعد میں محلے والوں نے دی کہ ان کی وصیت یہی تھی۔ ماں باپ کی وصیت کے مطابق تمام زیور ساس نے اپنے پوتوں، پوتیوں اور نواسے نواسیوں میں تقسیم کردیا، جب کہ آبائی مکان دونوں پوتوں کے نام کردیا۔

اور پھر جب آمنہ خواجہ ساس بنیں، دادی بنیں تو نہ ان کے بیٹے ان کے پاس تھے نہ ان کے بچے۔ دونوں بیٹے دادا، دادی کے گھر میں اوپر اور نیچے کی منزل میں رہتے ہیں، لیکن اپنی ماں سے نہیں ملتے، کیونکہ دادا اور دادی کے ساتھ جو سلوک ان کی ماں نے کیا تھا وہ انھیں یاد تھا۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ ان کے باپ کو والدین سے الگ کروانے میں ان کی ننھیال والوں کا ہاتھ تھا۔ اسی لیے وہ ان لوگوں سے بھی نہیں ملتے۔ البتہ اپنی پھوپھی سے بہت محبت کرتے ہیں۔ آج آمنہ بالکل اکیلی ہیں، شوہر بھی ان سے ٹھیک سے پیش نہیں آتے اور برملا انھیں قصور وار ٹھہراتے ہیں، جن کی وجہ سے وہ اپنے والدین کی آخری وقت میں شکل بھی نہیں دیکھ سکے تھے۔ شاید وہ بہت شریف تھے اسی لیے بیوی سے خطرناک حد تک ڈرتے تھے۔

آمنہ اپنے رویوں کا یہ جواز پیش کرتی ہیں کہ ان کی والدہ کو چونکہ ان کی ساس نندوں نے بہت تنگ کر رکھا تھا، انھوں نے کئی سال جو ان کے ساتھ گزارے وہ خاصے خراب تھے، اس لیے انھوں نے بیٹی کے کان بھرنے شروع کردیے کہ وہ ساس سسر سے علیحدہ ہوجائے۔ افسوس کہ آمنہ خواجہ جو ایک پڑھی لکھی خاتون تھیں انھوں نے اپنی سمجھ سے کام لینے کے بجائے ماں کی باتوں کو آنکھ بند کرکے مان لیا جب کہ آمنہ کے شوہر، نند اور ساس سسر نہایت سیدھے، سلجھے ہوئے اور شریف لوگ تھے۔ لیکن آمنہ کے والدین نے جی بھر کے انھیں ناحق بدنام کیا اور اپنے لیے جہنم خریدا۔ آمنہ کے ساس سسر تو ماضی کی بات ہوگئے، لیکن ان کی آہوں نے آمنہ کو جیتے جی مار ڈالا۔ آج ندامت بھی ان کے لیے بے کار ہے۔ لیکن ماضی ان کے سامنے ایک بھوت کی طرح کھڑا ہے جس میں ہر سمت اور ہر وقت پچھتائووں کی آگ ہے۔ کاش! مائیں اپنے تجربات کی بھینٹ اپنی بیٹیوں کو نہ چڑھایا کریں۔

بس یہی لکھا ہے آمنہ نے اپنے خط میں۔ شاید یہ خط لڑکیوں کے لیے ایک سبق ہو جو ماؤں کے سکھائے پڑھائے میں آکر اپنے شوہروں کو ان کے والدین سے جدا کردیتی ہیں اور بھول جاتی ہیں کہ ان کے آگے بھی اولاد ہے؟
Load Next Story