21 ویں صدی کے نوجوان
نوجوان پر الزام ہے کہ وہ کتابوں کی جانب کم مائل ہوتے ہیں یا جدید آلات نے انھیں اس ’’رفیق‘‘ سے دور کر دیا ہے۔
آج یہ کالم ان نوجوانوں سے مخاطب ہے جن کی کم تعداد اس صفحے تک آتی ہے، جو لڑکے بالے اس صفحے تک آتے ہیں وہ واقعی سمجھدار، ذہین اور سلجھے ہوئے کہلانے کے مستحق ہیں۔ اس کی ایک وجہ ان کی کم عمری ہے تو دوسرا سبب ٹیکنالوجی ہے۔ موبائل، نیٹ، ٹویٹر، ایس ایم ایس، چیٹنگ ایسے کام ہیں جن کے سبب کتابوں کی جانب رحجان اتنا کم کم رہتا ہے۔ اس کے باوجود بھی کہا جا سکتا ہے کہ آج کا نوجوان حالات حاضرہ، ادب اور سیاست سے واقفیت میں پچھلی نسل سے کم تر نہیں۔ اس نو عمر کی سمجھداری اور ذہانت کو خراج تحسین پیش کرتا ہے یہ کالم، اپنے قارئین سے کچھ تقاضا کرتا ہے، اگر آپ آج کے نوجوان ہیں تو آنے والے پانچ چھ منٹ میں آپ اپنی تعریفیں پڑھ کر خوش ہو جائیں گے۔ اگر آپ گزرے کل کے نوجوان ہیں تو دو کام کریں۔ ایک تو یہ کالم اپنے آس پاس کے کسی پر شباب شخص کو پڑھنے کو دیں اور دوسرا یہ کوشش کریں کہ دونوں نسلوں کے درمیان فاصلہ کم سے کم رہے۔ شاید یہ کالم دونوں پیڑھیوں کے کام آئے۔
نوجوان پر الزام ہے کہ وہ کتابوں کی جانب کم مائل ہوتے ہیں یا جدید آلات نے انھیں اس ''رفیق'' سے دور کر دیا ہے۔ اب یہ بات کچھ غلط ثابت ہو رہی ہے، جس انداز میں کتابیں فروخت ہو رہی ہیں اور جس طرح ''بک فیئرز'' کامیاب ہو رہے ہیں وہ اس اندازے کو غلط ثابت کر رہا ہے۔ ادھیڑ عمر کے لوگوں اور بزرگوں کو یہ غلط فہمی بھی دور کر لینی چاہیے کہ کتابوں سے دوری نے نوجوان کو حالات حاضرہ سے بے خبر کر دیا ہے۔ ایس ایم ایس اور ای میل پر پیغامات علم کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ جس طرح کی مذہبی باتیں، سیاسی لطیفے، چٹکلے، اشعار موصول ہوتے ہیں وہ ثابت کرتا ہے کہ نوجوانوں کا شعور اور حس مزاح کسی طرح بھی ہم سے کم نہیں۔ اگر میرے ہم عمر اور بڑے بزرگ برا نہ مانیں تو کہا جا سکتا ہے کہ آج کے نو عمروں کی سمجھ ہم سے بڑھ کر ہے۔ آنے والے لمحوں میں کھیل، فلم اور سیاست سے دی گئی مثالیں ثابت کریں گی کہ ہمیں نوجوان نسل سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔
فلمی اداکارائیں شادی کے بعد بھی فلموں میں کامیاب ہو رہی ہیں، ہمارے دور میں اکثر شادی شدہ ہیروئنیں ناکام ہو جاتی تھیں۔ شبنم اور زیبا کو چھوڑ کر زیادہ تر اداکارائیں اپنی شادی چھپایا کرتی تھیں۔ آئیے برصغیر کی فلمی دنیا پر نظر دوڑاتے ہیں اور ہیروئنز کی ازدواجی زندگی کو دیکھتے ہیں۔ ریما، ثنا اور نرگس نے اس وقت شادی کی جب وہ عروج دیکھ چکی تھیں۔ بھارت میں کرینہ، کاجول، مادھوری، ایشوریا کی شادیوں کے باوجود ان کی پسندیدگی آج کے نوجوان کا بڑھتا ہوا شعور ہے۔ پہلی بات یہ کہ وہ پردے پر نظر آنے والی ہیروئن کو اپنی ہیروئن فلم دیکھنے کے تین گھنٹے کے دوران ہی سمجھتے ہیں۔ ''دی اینڈ'' ہو جانے کے بعد وہ اپنے گھر میں بیگم یا منگیتر کو اپنی ہیروئن سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ دوسری بات آج کے نوجوانوں کی قابل تعریف یہ ہے کہ وہ فلمی اداکارہ کی ایکٹنگ کی پختگی کو سمجھتے ہیں۔ ہم بھی سمجھتے تھے لیکن آج کے نوجوانوں کی سمجھ کچھ زیادہ ہے۔
کھیل کی جانب نظر دوڑائیں تو دو خوبیاں یہاں بھی نظر آتی ہیں۔ پہلی خوبی اسپورٹس سے متعلق صحافیوں کی خوبی ہے، ماضی کے جرنلسٹ ٹیم کے انتخاب کے بعد درجن بھر کھلاڑیوں کی فہرست لکھ مارتے۔ ان اچھے کھلاڑیوں کے نام دیتے جنھیں ٹیم میں نہیں لیا گیا تھا۔ یہ نہ سوچا جاتا کہ سلیکٹرز کو پندرہ سولہ کھلاڑیوں کو چننا ہے، چالیس پچاس کو نہیں۔ آج کا نوجوان صحافی سمجھتا ہے کہ کرکٹ ٹیم اکثر میرٹ پر منتخب کی جاتی ہے۔ اس کا شکوہ صرف ایک دو کھلاڑیوں تک محدود ہوتا ہے۔ وہ ماضی کے صحافیوں کی طرح منتخب نہ ہو سکنے والے دس پندرہ کھلاڑیوں کے نام نہیں دیتا کہ انھیں کیوں منتخب نہیں کیا گیا۔ اسی طرح اب نئی نسل اس بات کو سمجھ چکی ہے کہ ہماری ٹیم ہر میچ نہیں جیت سکتی۔ دوسری ٹیم بھی برابری کی بنیاد پر سامنے آتی ہے اور مقابلہ کرتی ہے۔ آج کا نوجوان سمجھتا ہے کہ کبھی ہمارا دن ہو گا تو کبھی دوسرے کا۔ نئی نسل اچھا کھیل کر ہار جانے پر ٹیم کی تعریف کرتی ہے، وہ یہ کہہ کر اپنی ٹیم کا حوصلہ بڑھاتے ہیں کہ ''مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا۔''
ساٹھ اور ستّر کے عشرے میں کالجز میں انتخابات ہوا کرتے تھے، نوجوانوں کی تربیت ہوتی، انھیں انتخابی تجربہ ہوتا اور جیت ہار کا حوصلہ قائم رہتا۔ ان انتخابات کی بدولت اسپورٹس کے علاوہ قرأت، نعت، تقریری مقابلے، سیاسی مباحثے، ادبی عدالتیں سجائی جاتیں۔ نسل گزشتہ کا خیال ہے کہ اب چونکہ تعلیمی اداروں کا وہ ماحول نہیں لہٰذا آج کے نوجوانوں کی صلاحیتیں زنگ آلود ہو گئی ہیں، ایسا بالکل نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ کالج یونین کے انتخابات ہونا بند ہو گئے ہیں، لیکن اس کی کمی ایک اور جگہ پوری ہو گئی ہے۔ سن 77ء کے بعد سے تک سات قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اور پانچ بلدیاتی انتخابات ہو چکے ہیں۔ ان درجن بھر مقابلوں نے نوجوانوں کے شعور کو جلا بخشی ہے۔ دوسری غلط فہمی یہ رہی کہ چونکہ کالجز میں طلبہ سرگرمیاں ہوتی تھیں لہٰذا نوجوان باصلاحیت ہوتے تھے۔ نئی صدی میں میڈیا نے شعور میں پختگی عطا کی ہے۔ ٹی وی پر ایک مباحثہ سننے کا موقع ملا۔ نوجوانوں نے جس طرح حصہ لیا، جو دلائل دیے، جو انداز اپنایا تو دل خوش ہوا، خوش ہی نہیں باغ باغ ہوا۔ اسی طرح قرأت، نعت کے علاوہ آج کا نوجوان نثر اور نظم میں کسی سے کم نہیں، جس طرح نوجوان مباحثوں میں دلچسپی لیتے ہیں اور مشاعروں میں اچھے کلام پر داد دیتے ہیں وہ مایوسی نہیں بلکہ حوصلہ افزائی کا باعث بنتا ہے۔؎
ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخر شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے
سیاسی میدان میں بھی نوجوانوں کا شعور پختہ ہوا ہے۔ وہ سیاسی لیڈر کو براہ راست ٹی وی پر سنتے ہیں۔ ہمارے جوانی کے دور کی طرح صرف ان کے اخباری بیانات پر آج کی نئی نسل کا اکتفا نہیں۔ ہم اندھے مقلد ہوا کرتے تھے جب کہ آج کی نسل سمجھ اور پرکھ کر فیصلہ کرتی ہے۔ ہم اپنے دور میں کھمبوں کو بھی ووٹ دینے کی اصطلاحیں رکھتے ہیں۔ امید ہے کہ نئی نسل بالخصوص پڑھے لکھے اور شہروں میں رہنے والے آزادانہ فیصلے کریں گے۔ آج کی نسل اپنے بزرگوں سے ادب سے اختلاف کی جرأت رکھتی ہے جو شاید ہم میں نہ تھی۔ اگر ہم نوجوانوں کی صلاحیتوں کو سراہیں گے تو پھر وہ خود اپنی خامیوں اور ہماری خوبیوں کا اعتراف کریں گے۔ اس طرح جنریشن گیپ ختم ہو گا اور ہم نوجوانوں کے بزرگ نہیں ان کے دوست بنیں گے۔ حفظ مراتب کے لحاظ کے ساتھ بے تکلفی بھی ہو گی۔ بشرطیکہ ہم پہلے تسلیم کریں کہ ذہین، سمجھدار، با ادب اور با نصیب ہیں 21 ویں صدی کے نوجوان۔
نوجوان پر الزام ہے کہ وہ کتابوں کی جانب کم مائل ہوتے ہیں یا جدید آلات نے انھیں اس ''رفیق'' سے دور کر دیا ہے۔ اب یہ بات کچھ غلط ثابت ہو رہی ہے، جس انداز میں کتابیں فروخت ہو رہی ہیں اور جس طرح ''بک فیئرز'' کامیاب ہو رہے ہیں وہ اس اندازے کو غلط ثابت کر رہا ہے۔ ادھیڑ عمر کے لوگوں اور بزرگوں کو یہ غلط فہمی بھی دور کر لینی چاہیے کہ کتابوں سے دوری نے نوجوان کو حالات حاضرہ سے بے خبر کر دیا ہے۔ ایس ایم ایس اور ای میل پر پیغامات علم کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ جس طرح کی مذہبی باتیں، سیاسی لطیفے، چٹکلے، اشعار موصول ہوتے ہیں وہ ثابت کرتا ہے کہ نوجوانوں کا شعور اور حس مزاح کسی طرح بھی ہم سے کم نہیں۔ اگر میرے ہم عمر اور بڑے بزرگ برا نہ مانیں تو کہا جا سکتا ہے کہ آج کے نو عمروں کی سمجھ ہم سے بڑھ کر ہے۔ آنے والے لمحوں میں کھیل، فلم اور سیاست سے دی گئی مثالیں ثابت کریں گی کہ ہمیں نوجوان نسل سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔
فلمی اداکارائیں شادی کے بعد بھی فلموں میں کامیاب ہو رہی ہیں، ہمارے دور میں اکثر شادی شدہ ہیروئنیں ناکام ہو جاتی تھیں۔ شبنم اور زیبا کو چھوڑ کر زیادہ تر اداکارائیں اپنی شادی چھپایا کرتی تھیں۔ آئیے برصغیر کی فلمی دنیا پر نظر دوڑاتے ہیں اور ہیروئنز کی ازدواجی زندگی کو دیکھتے ہیں۔ ریما، ثنا اور نرگس نے اس وقت شادی کی جب وہ عروج دیکھ چکی تھیں۔ بھارت میں کرینہ، کاجول، مادھوری، ایشوریا کی شادیوں کے باوجود ان کی پسندیدگی آج کے نوجوان کا بڑھتا ہوا شعور ہے۔ پہلی بات یہ کہ وہ پردے پر نظر آنے والی ہیروئن کو اپنی ہیروئن فلم دیکھنے کے تین گھنٹے کے دوران ہی سمجھتے ہیں۔ ''دی اینڈ'' ہو جانے کے بعد وہ اپنے گھر میں بیگم یا منگیتر کو اپنی ہیروئن سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ دوسری بات آج کے نوجوانوں کی قابل تعریف یہ ہے کہ وہ فلمی اداکارہ کی ایکٹنگ کی پختگی کو سمجھتے ہیں۔ ہم بھی سمجھتے تھے لیکن آج کے نوجوانوں کی سمجھ کچھ زیادہ ہے۔
کھیل کی جانب نظر دوڑائیں تو دو خوبیاں یہاں بھی نظر آتی ہیں۔ پہلی خوبی اسپورٹس سے متعلق صحافیوں کی خوبی ہے، ماضی کے جرنلسٹ ٹیم کے انتخاب کے بعد درجن بھر کھلاڑیوں کی فہرست لکھ مارتے۔ ان اچھے کھلاڑیوں کے نام دیتے جنھیں ٹیم میں نہیں لیا گیا تھا۔ یہ نہ سوچا جاتا کہ سلیکٹرز کو پندرہ سولہ کھلاڑیوں کو چننا ہے، چالیس پچاس کو نہیں۔ آج کا نوجوان صحافی سمجھتا ہے کہ کرکٹ ٹیم اکثر میرٹ پر منتخب کی جاتی ہے۔ اس کا شکوہ صرف ایک دو کھلاڑیوں تک محدود ہوتا ہے۔ وہ ماضی کے صحافیوں کی طرح منتخب نہ ہو سکنے والے دس پندرہ کھلاڑیوں کے نام نہیں دیتا کہ انھیں کیوں منتخب نہیں کیا گیا۔ اسی طرح اب نئی نسل اس بات کو سمجھ چکی ہے کہ ہماری ٹیم ہر میچ نہیں جیت سکتی۔ دوسری ٹیم بھی برابری کی بنیاد پر سامنے آتی ہے اور مقابلہ کرتی ہے۔ آج کا نوجوان سمجھتا ہے کہ کبھی ہمارا دن ہو گا تو کبھی دوسرے کا۔ نئی نسل اچھا کھیل کر ہار جانے پر ٹیم کی تعریف کرتی ہے، وہ یہ کہہ کر اپنی ٹیم کا حوصلہ بڑھاتے ہیں کہ ''مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا۔''
ساٹھ اور ستّر کے عشرے میں کالجز میں انتخابات ہوا کرتے تھے، نوجوانوں کی تربیت ہوتی، انھیں انتخابی تجربہ ہوتا اور جیت ہار کا حوصلہ قائم رہتا۔ ان انتخابات کی بدولت اسپورٹس کے علاوہ قرأت، نعت، تقریری مقابلے، سیاسی مباحثے، ادبی عدالتیں سجائی جاتیں۔ نسل گزشتہ کا خیال ہے کہ اب چونکہ تعلیمی اداروں کا وہ ماحول نہیں لہٰذا آج کے نوجوانوں کی صلاحیتیں زنگ آلود ہو گئی ہیں، ایسا بالکل نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ کالج یونین کے انتخابات ہونا بند ہو گئے ہیں، لیکن اس کی کمی ایک اور جگہ پوری ہو گئی ہے۔ سن 77ء کے بعد سے تک سات قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اور پانچ بلدیاتی انتخابات ہو چکے ہیں۔ ان درجن بھر مقابلوں نے نوجوانوں کے شعور کو جلا بخشی ہے۔ دوسری غلط فہمی یہ رہی کہ چونکہ کالجز میں طلبہ سرگرمیاں ہوتی تھیں لہٰذا نوجوان باصلاحیت ہوتے تھے۔ نئی صدی میں میڈیا نے شعور میں پختگی عطا کی ہے۔ ٹی وی پر ایک مباحثہ سننے کا موقع ملا۔ نوجوانوں نے جس طرح حصہ لیا، جو دلائل دیے، جو انداز اپنایا تو دل خوش ہوا، خوش ہی نہیں باغ باغ ہوا۔ اسی طرح قرأت، نعت کے علاوہ آج کا نوجوان نثر اور نظم میں کسی سے کم نہیں، جس طرح نوجوان مباحثوں میں دلچسپی لیتے ہیں اور مشاعروں میں اچھے کلام پر داد دیتے ہیں وہ مایوسی نہیں بلکہ حوصلہ افزائی کا باعث بنتا ہے۔؎
ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخر شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے
سیاسی میدان میں بھی نوجوانوں کا شعور پختہ ہوا ہے۔ وہ سیاسی لیڈر کو براہ راست ٹی وی پر سنتے ہیں۔ ہمارے جوانی کے دور کی طرح صرف ان کے اخباری بیانات پر آج کی نئی نسل کا اکتفا نہیں۔ ہم اندھے مقلد ہوا کرتے تھے جب کہ آج کی نسل سمجھ اور پرکھ کر فیصلہ کرتی ہے۔ ہم اپنے دور میں کھمبوں کو بھی ووٹ دینے کی اصطلاحیں رکھتے ہیں۔ امید ہے کہ نئی نسل بالخصوص پڑھے لکھے اور شہروں میں رہنے والے آزادانہ فیصلے کریں گے۔ آج کی نسل اپنے بزرگوں سے ادب سے اختلاف کی جرأت رکھتی ہے جو شاید ہم میں نہ تھی۔ اگر ہم نوجوانوں کی صلاحیتوں کو سراہیں گے تو پھر وہ خود اپنی خامیوں اور ہماری خوبیوں کا اعتراف کریں گے۔ اس طرح جنریشن گیپ ختم ہو گا اور ہم نوجوانوں کے بزرگ نہیں ان کے دوست بنیں گے۔ حفظ مراتب کے لحاظ کے ساتھ بے تکلفی بھی ہو گی۔ بشرطیکہ ہم پہلے تسلیم کریں کہ ذہین، سمجھدار، با ادب اور با نصیب ہیں 21 ویں صدی کے نوجوان۔