خبر دیتی تھیں جن کو بجلیاں وه بےخبر نکلے
ضرورت اِس امر کی ہے کہ لوگوں کو جدید ٹیکنالوجی کے صحیح استعمال سے روشناس کروایا جائے
وقت کا پہیہ تیزی سے گردش کررہا ہے، لمحوں میں گزرتے حالات و واقعات فوری طور پر میڈیا کی توجہ کا مرکز بن جایا کرتے ہیں۔ ایک بالکل نئی خبر، پهر یک لخت دوسری اُس سے بڑی خبر کا آجانا عمومی رجحان ہے۔ زیادہ سے زیادہ باخبری، بے حسی میں تبدیل ہوتی جارہی ہے۔ یہ وہ تلخ حقیقت ہے جو ہم ٹیکنالوجی کے اِس دور میں محسوس کرتے ہیں۔
وقت اور حالات میں فردِ واحد کی مصروفیات کا گراف تیزی سے اوپر کی جانب بڑهتا جارہا ہے۔ ایک وقت میں ایک کام کا نظریہ تقریباً ختم ہوگیا ہے۔ ایک شخص جو پروفیسر ہے وہی ایک اچها لکهنے والا بهی ہے، وہ شاعری بهی کرلیتا ہے، ہر سال سیاحت بهی کرتا رہتا ہے اور ان سب باتوں سے وہ اپنے کئی میل دور اور سات سمندر پار تمام دوست احباب کو بذریعہ فیس بک، انسٹا گرام اور ٹویٹر مطلع بهی کرتا رہتا ہے۔ آج کے دور میں یہ سب ایک عام سی بات ہے کہ انسان اپنی ہر بات بذریعہ ٹیکنالوجی بہ آسانی دوسروں تک پہنچا دیتا ہے۔
ٹیکنالوجی نے دنیا میں انقلاب برپا کردیا ہے۔ جینیاتی علوم کے ذریعے پیدائش سے قبل ہی نومولود کی بیماریوں کی تشخیص کرلی جاتی ہے، پیدائش سے پہلے ہی علاج ممکن ہوتا ہے۔ کینسر، ٹی بی، گردے کی پتهری وغیرہ کا بذریعہ لیزر ٹیکنالوجی علاج ممکن ہوگیا ہے۔ ایک پتلی سی پٹی (بینڈ) کے ذریعے انسانی جسم کی کیلوریز کی مقدار، دل کی دهڑکن، خون کی روانی اور وزن معلوم ہوجاتے ہیں۔ ایک مشین کے ذریعے انسانی جسم کا درجہ حرارت، جسم میں موجود کیلشم، فاسفورس، آکسیجن، کاربن اور تمام مادوں کی مقدار کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ جسم کے کسی بھی حصے میں ہونے والے انفیکشن کا پتا بهی چل جاتا ہے۔ سیلاب اور طوفان کی پیش گوئی، سٹیلائٹ کے ذریعے مہینوں پہلے کردی جاتی ہے۔ مریخ پر زندگی کے آثار تلاش کرنے کے لیے ناسا کی سرگرمیاں جاری ہیں۔
برسوں کا کام سِمٹ کر لمحوں میں ہوجاتا ہے اور اسی لیے جدید ٹیکنالوجی پر لوگوں کا انحصار بہت بڑھ گیا ہے۔ معلومات کی فراہمی آسان ہوگئی ہے، پلک جهپکتے میں سات سمندر پار ہونے والے واقعات، سانحات، سماجی روایات، ملبوسات، رجحانات کا گهر بیٹهے اندازہ ہوجاتا ہے۔ ایمو، میسنجر، وائبر، لائن، واٹس اپ ویڈیو کالنگ کے ذریعے نہ صرف آپ اپنے کئی میل دور بیٹهے عزیز سے بات کرسکتے ہیں بلکہ اُسے براہ راست دیکھ بهی سکتے ہیں۔ سوشل نیٹ ورکنگ کی بدولت عام انسان کی بهی رسائی ہر مقام پر ممکن ہے۔
اس سب کے باوجود آج کا انسان زمانہِ قدیم کے انسان کی بہ نسبت بہت سی الجهنوں، مایوسیوں، ناامیدیوں، بےچینی، انتشار اور معاشرتی ناہمواریوں کا شکار ہے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے ہماری دنیا پر قبضہ کرلیا ہے۔ تعلیم و تربیت اور تجربے میں واضح کمی دیکهنے میں آئی ہے۔ ہر خبر مصدقہ و غیرمصدقہ، بلاتحقیق و تصدیق بہ آسانی شہرت کےلیے میڈیا پر اپ لوڈ کردی جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں پھیلنے والی سوشل میڈیائی افواہوں میں مشہور سماجی کارکن و محسن عبدالستار ایدھی مرحوم کی قبل از وفات انتقال کی خبر، واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے پر چهاپہ و تلاشی، شاہد آفریدی کی بیٹی کی موت کی افواہ، روٹی پر اللہ کا نام؛ یہ تمام خبریں بلاتحقیق وتصدیق سوشل میڈیا کے ذریعے وائرل ہوکر ابلاغی اداروں تک پہنچ چکی ہیں، جہاں سے نئی بحث کا آغاز ہوجاتا ہے۔
یہ قومی نہیں بلکہ بین الاقوامی مسئلہ بن چکا ہے۔ لوگ اب کئی سال کی ریاضت کے بعد لکهی گئی کتابوں سے زیادہ انٹرنیٹ پر وقت گزارنا پسند کرتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ لوگ چاند پر پہنچ گئے لیکن انہیں اپنے اطراف کی خبر نہیں۔ مشینی غلامی کے اِس دور کو ہم گلوبل ولیج کا نام دیتے ہیں۔ ملکی صورتحال کا جائزہ لیجیے یا بین الاقوامی منظر نامہ پر نظردوڑائیے، انسانیت ہر جگہ ہی پِس رہی ہے۔ دنیا جس قدر سِمٹ رہی ہے اسی قدر انسان کے اکیلے پن، بے حسی و انتشار میں اضافہ ہورہا ہے۔ انسانیت کی تذلیل کا مشاہدہ آئے روز میری اور آپ کی آنکھوں سے کیا جاتا ہے، وہ انسان جس کے لیے شاعر نے کہا
اسی حضرتِ انسان نے اپنے ہی جیسے انسانوں کو ختم کرنے کےلیے انٹرنیٹ کا سہارا لیا ہوا ہے۔ کبھی دشمن ممالک کی ویب سائٹس ہیک کرلی جاتی ہیں اور سائبر حملوں کے ذریعے اکاؤنٹ ہیک کرلیے جاتے ہیں۔ ذاتی بینک اکاؤنٹ ہیک کرکے سارا روپیہ اپنے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کرنا، سارا ڈیٹا ہیک کرکے دشمن ممالک کو بیچ کر پیسے کمانا اب عام سی بات ہے۔
کہیں اپنی تہذیبی یلغار کے ذریعے دشمنوں کو زیر کیا جارہا ہے، کہیں جدید لیزر ٹیکنالوجی کے ذریعے صحت کے شعبوں میں جدید اصلاحات نافذ کی جارہی ہیں تو کہیں جدید ترقی یافتہ ممالک نے اِس ٹیکنالوجی کی مدد سے مہلک ترین ہتھیار بناکر بستیوں کی بستیاں تاراج کرنے کی ٹھانی ہوئی ہے؛ اور اپنے ہی جیسے انسانوں کو صفحہِ ہستی سے مٹایا جارہا ہے۔
ضرورت اِس امر کی ہے کہ لوگوں کو جدید ٹیکنالوجی کے صحیح استعمال سے روشناس کروایا جائے، طلباء وطالبات کو انٹرنیٹ کے درست استعمال کی جانب راغب کیا جائے۔ بچوں کے ساتھ ساتھ والدین کو انٹرنیٹ سے متعلق آگہی دی جائے۔ اِس مقصد کےلیے اسکول و کالج اور جامعات کی سطح پر پروگرام منعقد کرنے کی منصوبہ بندی کی جائے. اب بحیثیت فرد ہماری کیا ذمہ داری ہونی چاہیے؟
ہم سب جانتے ہیں کہ ہم اشرف المخلوقات بناکر بهیجے گئے ہیں۔ یہ اللہ کی وہ تخلیق ہے کہ جسے فرشتوں نے حکم پروردگار پر سجدہ تعظیمی کیا۔ انسان کے بارے میں ہی کہا گیا ناں کہ،
آج اِس انسان کو سمیٹنے اور اِس کا دکھ دور کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے کیونکہ،
اگر ہم دردِ دل محسوس کرتے ہیں، لوگوں سے پیار کرتے ہیں، معاشرے کو بے حسی سے نکال کر ایک ذمہ دار معاشرہ بنانا چاہتے ہیں تو دوسروں تک اپنی درست بات بذریعہ انٹرنیٹ، کمپیوٹر، موبائل، ٹیلی فون پہنچاسکتے ہیں۔ معاشرے کے عام فرد کی براہِ راست رہنمائی کرسکتے ہیں۔ کسی کو تکلیف دینے کے بجائے لوگوں سے محبت کیجئے، اپنے ساتھ ملایئے، انہیں اچهی باتوں میں اپنا ہمنوا بنایئے۔ بقول اقبال،
پہلا قدم ہمیں اٹهانا ہوگا، پهر فرد سے افراد اور افراد سے گروہ اور گروہ سے معاشرہ اور بہترین معاشرہ بنے گا اور اِس کیلئے پہلا قدم شرط ہے:
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
وقت اور حالات میں فردِ واحد کی مصروفیات کا گراف تیزی سے اوپر کی جانب بڑهتا جارہا ہے۔ ایک وقت میں ایک کام کا نظریہ تقریباً ختم ہوگیا ہے۔ ایک شخص جو پروفیسر ہے وہی ایک اچها لکهنے والا بهی ہے، وہ شاعری بهی کرلیتا ہے، ہر سال سیاحت بهی کرتا رہتا ہے اور ان سب باتوں سے وہ اپنے کئی میل دور اور سات سمندر پار تمام دوست احباب کو بذریعہ فیس بک، انسٹا گرام اور ٹویٹر مطلع بهی کرتا رہتا ہے۔ آج کے دور میں یہ سب ایک عام سی بات ہے کہ انسان اپنی ہر بات بذریعہ ٹیکنالوجی بہ آسانی دوسروں تک پہنچا دیتا ہے۔
ٹیکنالوجی نے دنیا میں انقلاب برپا کردیا ہے۔ جینیاتی علوم کے ذریعے پیدائش سے قبل ہی نومولود کی بیماریوں کی تشخیص کرلی جاتی ہے، پیدائش سے پہلے ہی علاج ممکن ہوتا ہے۔ کینسر، ٹی بی، گردے کی پتهری وغیرہ کا بذریعہ لیزر ٹیکنالوجی علاج ممکن ہوگیا ہے۔ ایک پتلی سی پٹی (بینڈ) کے ذریعے انسانی جسم کی کیلوریز کی مقدار، دل کی دهڑکن، خون کی روانی اور وزن معلوم ہوجاتے ہیں۔ ایک مشین کے ذریعے انسانی جسم کا درجہ حرارت، جسم میں موجود کیلشم، فاسفورس، آکسیجن، کاربن اور تمام مادوں کی مقدار کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ جسم کے کسی بھی حصے میں ہونے والے انفیکشن کا پتا بهی چل جاتا ہے۔ سیلاب اور طوفان کی پیش گوئی، سٹیلائٹ کے ذریعے مہینوں پہلے کردی جاتی ہے۔ مریخ پر زندگی کے آثار تلاش کرنے کے لیے ناسا کی سرگرمیاں جاری ہیں۔
برسوں کا کام سِمٹ کر لمحوں میں ہوجاتا ہے اور اسی لیے جدید ٹیکنالوجی پر لوگوں کا انحصار بہت بڑھ گیا ہے۔ معلومات کی فراہمی آسان ہوگئی ہے، پلک جهپکتے میں سات سمندر پار ہونے والے واقعات، سانحات، سماجی روایات، ملبوسات، رجحانات کا گهر بیٹهے اندازہ ہوجاتا ہے۔ ایمو، میسنجر، وائبر، لائن، واٹس اپ ویڈیو کالنگ کے ذریعے نہ صرف آپ اپنے کئی میل دور بیٹهے عزیز سے بات کرسکتے ہیں بلکہ اُسے براہ راست دیکھ بهی سکتے ہیں۔ سوشل نیٹ ورکنگ کی بدولت عام انسان کی بهی رسائی ہر مقام پر ممکن ہے۔
اس سب کے باوجود آج کا انسان زمانہِ قدیم کے انسان کی بہ نسبت بہت سی الجهنوں، مایوسیوں، ناامیدیوں، بےچینی، انتشار اور معاشرتی ناہمواریوں کا شکار ہے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے ہماری دنیا پر قبضہ کرلیا ہے۔ تعلیم و تربیت اور تجربے میں واضح کمی دیکهنے میں آئی ہے۔ ہر خبر مصدقہ و غیرمصدقہ، بلاتحقیق و تصدیق بہ آسانی شہرت کےلیے میڈیا پر اپ لوڈ کردی جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں پھیلنے والی سوشل میڈیائی افواہوں میں مشہور سماجی کارکن و محسن عبدالستار ایدھی مرحوم کی قبل از وفات انتقال کی خبر، واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے پر چهاپہ و تلاشی، شاہد آفریدی کی بیٹی کی موت کی افواہ، روٹی پر اللہ کا نام؛ یہ تمام خبریں بلاتحقیق وتصدیق سوشل میڈیا کے ذریعے وائرل ہوکر ابلاغی اداروں تک پہنچ چکی ہیں، جہاں سے نئی بحث کا آغاز ہوجاتا ہے۔
یہ قومی نہیں بلکہ بین الاقوامی مسئلہ بن چکا ہے۔ لوگ اب کئی سال کی ریاضت کے بعد لکهی گئی کتابوں سے زیادہ انٹرنیٹ پر وقت گزارنا پسند کرتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ لوگ چاند پر پہنچ گئے لیکن انہیں اپنے اطراف کی خبر نہیں۔ مشینی غلامی کے اِس دور کو ہم گلوبل ولیج کا نام دیتے ہیں۔ ملکی صورتحال کا جائزہ لیجیے یا بین الاقوامی منظر نامہ پر نظردوڑائیے، انسانیت ہر جگہ ہی پِس رہی ہے۔ دنیا جس قدر سِمٹ رہی ہے اسی قدر انسان کے اکیلے پن، بے حسی و انتشار میں اضافہ ہورہا ہے۔ انسانیت کی تذلیل کا مشاہدہ آئے روز میری اور آپ کی آنکھوں سے کیا جاتا ہے، وہ انسان جس کے لیے شاعر نے کہا
مت سہل ہمیں جانو، پهرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
اسی حضرتِ انسان نے اپنے ہی جیسے انسانوں کو ختم کرنے کےلیے انٹرنیٹ کا سہارا لیا ہوا ہے۔ کبھی دشمن ممالک کی ویب سائٹس ہیک کرلی جاتی ہیں اور سائبر حملوں کے ذریعے اکاؤنٹ ہیک کرلیے جاتے ہیں۔ ذاتی بینک اکاؤنٹ ہیک کرکے سارا روپیہ اپنے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کرنا، سارا ڈیٹا ہیک کرکے دشمن ممالک کو بیچ کر پیسے کمانا اب عام سی بات ہے۔
کہیں اپنی تہذیبی یلغار کے ذریعے دشمنوں کو زیر کیا جارہا ہے، کہیں جدید لیزر ٹیکنالوجی کے ذریعے صحت کے شعبوں میں جدید اصلاحات نافذ کی جارہی ہیں تو کہیں جدید ترقی یافتہ ممالک نے اِس ٹیکنالوجی کی مدد سے مہلک ترین ہتھیار بناکر بستیوں کی بستیاں تاراج کرنے کی ٹھانی ہوئی ہے؛ اور اپنے ہی جیسے انسانوں کو صفحہِ ہستی سے مٹایا جارہا ہے۔
ضرورت اِس امر کی ہے کہ لوگوں کو جدید ٹیکنالوجی کے صحیح استعمال سے روشناس کروایا جائے، طلباء وطالبات کو انٹرنیٹ کے درست استعمال کی جانب راغب کیا جائے۔ بچوں کے ساتھ ساتھ والدین کو انٹرنیٹ سے متعلق آگہی دی جائے۔ اِس مقصد کےلیے اسکول و کالج اور جامعات کی سطح پر پروگرام منعقد کرنے کی منصوبہ بندی کی جائے. اب بحیثیت فرد ہماری کیا ذمہ داری ہونی چاہیے؟
ہم سب جانتے ہیں کہ ہم اشرف المخلوقات بناکر بهیجے گئے ہیں۔ یہ اللہ کی وہ تخلیق ہے کہ جسے فرشتوں نے حکم پروردگار پر سجدہ تعظیمی کیا۔ انسان کے بارے میں ہی کہا گیا ناں کہ،
فرشتہ مجھ کو کہنے سے میری تحقیر ہوتی ہے
میں مسجودِ ملائک ہوں مجهے انسان رہنے دو
آج اِس انسان کو سمیٹنے اور اِس کا دکھ دور کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے کیونکہ،
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تهے کروبیاں
اگر ہم دردِ دل محسوس کرتے ہیں، لوگوں سے پیار کرتے ہیں، معاشرے کو بے حسی سے نکال کر ایک ذمہ دار معاشرہ بنانا چاہتے ہیں تو دوسروں تک اپنی درست بات بذریعہ انٹرنیٹ، کمپیوٹر، موبائل، ٹیلی فون پہنچاسکتے ہیں۔ معاشرے کے عام فرد کی براہِ راست رہنمائی کرسکتے ہیں۔ کسی کو تکلیف دینے کے بجائے لوگوں سے محبت کیجئے، اپنے ساتھ ملایئے، انہیں اچهی باتوں میں اپنا ہمنوا بنایئے۔ بقول اقبال،
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
پہلا قدم ہمیں اٹهانا ہوگا، پهر فرد سے افراد اور افراد سے گروہ اور گروہ سے معاشرہ اور بہترین معاشرہ بنے گا اور اِس کیلئے پہلا قدم شرط ہے:
شکوہ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تها
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔