پاکستان میں کسی کو سیاست داں نہیں مانتا سب امریکی آلۂ کار ہیں رسول بخش پلیجو

افغان صدر ڈاکٹر نجیب اللہ نے کہا ہم جنگ سے بے زار ہوچکے ہیں، جنگ بندی کراکے ہمیں باعزت طریقے سے نکالو

سندھی عوام قوم پرست نہیں، ملاؤں، پیروں اور وڈیروں کے پیچھے چلتے ہیں

عوامی تحریک کے سربراہ رسول بخش پلیجو کا شمار سندھ کے ایسے قوم پرست سیاست دانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے کبھی بھی علیحدگی کا نعرہ لگانے کے بجائے ہمیشہ ملک کے آئین کے تحت اپنے حقوق کی بات کی۔ اُنہوں نے ہمیشہ صف اول کی سیاست کی۔

رسول بخش پلیجو نے ٹھٹھہ کے ایک گائوں منگر خان پلیجو میں 21 فروری 1930کو جنم لیا۔ انہوں نے سندھ مدرستہ الاسلام اور سندھ لا کالج سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ مطالعے کے شوق نے انہیں مختلف زبانیں سیکھنے کے لیے مہمیز کیا۔ ہندی، عربی، بلوچی، بنگالی، سرائیکی، پنجابی اور فارسی پر عبور رکھنے والے رسول بخش پلیجو سیاست داں ہونے کے ساتھ اعلیٰ پائے کے وکیل، دانش ور، ادیب اور شاعر بھی ہیں۔ وہ عوامی نیشنل پارٹی کے بانی رکن رہے، بعدازاں عبدالولی خان سے اختلاف کے بعد قومی عوامی تحریک کے نام سے اپنی جماعت قائم کی۔ ضیا کے سیاہ دور میں ایم آرڈی، بھٹو بچاؤ تحریک چلائی، اور اخبارات پر قدغن لگانے کے خلاف بھرپور جدوجہد کی، جس کے نتیجے میں گیارہ سال سے زائد عرصے پابند سلاسل رہے۔ 1981میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انہیں 'ضمیر کا قیدی' قرار دیا۔ وہ چالیس سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔ رسول بخش پلیجو سے گذشتہ دنوں ا یک ملاقات کا اہتمام کیا گیا جس کا احوال نذرِقارئین ہے۔

ایکسپریس: آپ نے لانگ مارچ کے ذریعے سندھ میں جمہوری انداز میں جدوجہد کا رجحان متعارف کروایا، لیکن اب جمہوریت کو سب سے زیادہ نقصان بھی سیاست داں پہنچا رہے ہیں، اس بارے میں کیا کہیں گے؟
رسول بخش پلیجو: میں تو پاکستان میں کسی کو سیاست دان مانتا ہی نہیں ہوں۔ یہ سیاست دان نہیں، بلکہ امریکی ایجنٹ ہیں جو اس خطے میں امریکی تسلط قائم کرنا چاہتے ہیں، یہ سب کے سب محض امریکی آلہ کار ہیں۔ اور امریکا اسرائیل کا ایجنٹ ہے۔ آپ خود دیکھ لیں کہ سارے امریکی وسائل پر یہودی قابض ہیں۔ وہ دور الگ تھا جب جمہوریت کی باتیں کی جاتی تھیں۔ اب یہ سب جمہوریت نہیں بس مفادات کی جنگ ہے جو ہر سیاست داں اپنی اپنی بساط کے مطابق لڑ رہا ہے۔ جب آپ ملک کے بجائے اپنے بارے میں سوچیں تو پھر کس بات کی جمہوریت؟

ایکسپریس: آپ اور آپ کی جماعت نے مشرقی پاکستان اور بلوچستان میں غیرقانونی فوجی آپریشن کے خلاف، بحالی جمہوریت، صحافیوں کی تحریک اور بھٹو بچائو تحریک چلائی، گیارہ سال سے زائد عرصے پابند سلاسل رہے، اس کے بعد بھی جمہوریت کو پامال کیا گیا لیکن آپ نے ان کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھائی اس کی وجہ؟
رسول بخش پلیجو: ایسا نہیں ہے کہ ہم نے کبھی جمہوریت کو پامال کرنے والوں کے خلاف آواز نہ اٹھائی ہو۔ ہم نے ہر دور میں غیرجمہوری عمل کی مخالفت کی، میرا کوئی ایک بھی لفظ بتائیں جو میں نے کسی آمر، کسی بدعنوان شخص کے حق میں کہا ہو۔ سابق آمر پرویز مشرف کو بھی پہلی بار میں نے چیلینج کیا، اس کے دور میں چار مرتبہ گرفتار ہوا، لانگ مارچ کی۔ ہم نے ہمیشہ حق کی جنگ لڑی اور اپنے وسائل کے لحاظ سے اس کے خلاف آواز بھی اٹھائی۔

ایکسپریس: آپ کالا باغ ڈیم کے خلاف آواز اٹھانے والے پہلے سندھی سیاست داں ہیں، آپ کی نظر میں قومی نوعیت کے اس حساس معاملے کا حل کیا ہے؟
رسول بخش پلیجو: کالا باغ ڈیم کسی بھی طرح سندھ کے مفاد میں نہیں ہے۔ پہلے بھی کئی معاہدے کیے گئے، اس کے باوجود سندھ کو پانی کے لیے ترسایا جا رہا ہے، تو پھر ہم اس بات کو کیسے مان لیں کے وہ کالاباغ ڈیم بننے کے پانی سندھ کا پانی نہیں روکیں گے؟ سندھ کو پہلے ہی اس کی ضرورت کے مطابق پانی نہیں دیا جارہا۔ پنجاب ڈیموں کے نام پر پانی اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے، اب وہ کالا باغ ڈیم بناکر ہمارے پانی پر قابض ہونا چاہتا ہے۔ سندھ کے پانی پر سندھ واسیوں کا حق ہے اور یہ ہمیں ہی ملنا چاہیے۔ کالا باغ ڈیم بننے کے بعد تو سندھ دھرتی سوکھ جائے گی۔ یہ ڈیم نہیں سندھ کی تباہی ہے، جسے ہم کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ اس ڈیم کے بننے کے بعد کوئی معجزہ ہی سندھ کو پانی دلا سکتا ہے۔

ایکسپریس: آپ نے بانیان پاکستان خصوصاً لیاقت علی خان پر بھی تنقید کی۔ آپ کی نظر میں بٹوارا کس طرح غلط تھا اور آج اس تقسیم کی وجہ سے دونوں ریاستیں انڈیا اور پاکستان کن مسائل سے دوچار ہیں؟ بٹوارے کے بعد ہندوستان سے سندھ میں مستقل آباد ہونے والوں کو سندھ کا باسی تسلیم کیوں نہیں کیا جاتا؟ جب کہ سب جانتے ہیں کہ ثقافتی تبدیلی دھیرے دھیرے آتی ہے۔ اور یہ کیوں ضروری ہے کہ انڈیا سے آنے والے اپنا رہن سہن اور طور اطوار کی جداگانہ شناخت ترک کردیں؟
رسول بخش پلیجو: میں نے آج تک ایک لفظ بھی بٹوارے کے خلاف نہیں کہا، اور نہ ہی میں نے برصغیر کی تقسیم پر کوئی تنقید کی۔ میں نے ہر غلط کام پر ضرور تنقید کی لیکن کبھی بٹوارے پر نہیں کہا کہ یہ کیوں ہوا یا یہ غلط ہوا۔ اور ایک بات یہ بھی بتادوں کہ تقسیم نہیں ہوئی تھی، سندھ پر حملہ ہوا تھا۔ امریکا اور بھارت نے مل کر دہشت گرد تیار کیے جنہوں نے خود کو مہاجر کہا، 'مقدس مہاجرین'۔ جنہوں نے یہاں آتے ہی لوٹ مار شروع کی۔ میں اس لوٹ مار کے خلاف بات کرنے جناح کے پاس گیا اور اُن سے کہا کہ آئی جی سے کہیں کہ ان لٹیروں کو روکیں یہ ہماری لڑکیاں اٹھا کر لے جارہے ہیں، ہماری املاک لوٹ رہے ہیں۔ لیکن آئی جی بھی ان کے ساتھ ملا ہوا تھا اس نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ جناح بھی بے بس تھے، کیوں کہ ان لوگوں نے جناح کو غیرفعال کرکے ایک طرف بٹھا دیا تھا۔ سندھ میں لوٹ مار اور قبضہ کرنے والوں کا سرغنہ لیاقت علی خان تھا۔ سندھ آزاد نہیں ہوا اس پر دہشت گردوں نے قبضہ کیا، کسی نے لینن کا وارث بن کر، کسی نے مارکس ازم کا وارث بن کر تو کسی نے مذہب کے نام پر قبضہ کیا۔ بعد میں، میں مجسٹریٹ کے پاس گیا اور اسے کہا کہ 'سائیں! یہ جو زمین آپ انہیں (مہاجروں) کو دے رہے ہیں ان پر ہاریوں کا حق ہے، وہ مہاجر تھا اس نے میری درخواست پڑھنے کے بجائے اس پر لکھا 'یور ایپلی کیشن ریجیکٹڈ'۔ اس کے بعد میں وہ درخواست لے گیا اور عدالت میں اپیل دائر کی، چار گھنٹے کے طویل دلائل کے بعد جج نے مجھ سے کہا کہ 'یور ایپلی کیشن ریجیکٹڈ' تمہیں مبارک ہو کہ تمہیں گرفتار نہیں کیا گیا۔ سندھ پر تو قبضہ ہوا ہے۔ ہمیں تو قیدی بنایا گیا، ہم تو اس وقت بھی یتیم تھے۔ جناح کو بھی ایک طرف کرکے امریکا، برطانیہ نے ان غنڈوں کے ساتھ مل کر پورے پاکستان پر قبضہ کرلیا۔

ایکسپریس: آپ کی نظر میں مہاجروں کو سندھ میں برابری کے حقوق حاصل ہیں؟
رسول بخش پلیجو: میں تو کہتا ہوں کہ مہاجر کا لفظ ہی غلط ہے۔ مہاجر کے معنی ہیں کہ مہاجر وہ ہے جو اسلام کی سربلندی کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرے، یہ ہجرت کر نے نہیں بل کہ یہاں لوٹ مار کرنے آئے تھے، انہوں نے یہاں لڑکیوں کو اٹھایا، قبضے کیے، قتل و غارت کیا، یہ کہاں سے مہاجر ہوگئے۔ پھر کس بات کی برابری ؟ اس طرح تو افغانستان سے آنے والے بھی مہاجر ہیں۔

ایکسپریس: کیا کوٹا سسٹم یہاں کے باسیوں میں تفریق کا باعث اور اردو بولنے والوں کے ساتھ ناانصافی کی ایک شکل نہیں ہے؟
رسول بخش پلیجو: اس بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتا، کیوں کہ مجھے اس کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں۔

ایکسپریس: آپ بائیں بازو کے نظریات رکھتے ہیں، جن میں ظالم اور مظلوم کے سوا کوئی تفریق نہیں رکھی جاتی، ایسے میں آپ قوم پرستی کی سیاست کو بھی ساتھ رکھے ہوئے ہیں، جو سرخ نظریات سے متصادم معلوم ہوتی ہے۔
رسول بخش پلیجو: یہ جھوٹا نظریہ ہے کہ صرف ظالم اور مظلوم دیکھا جاتا ہے، انسانی حقوق نہیں دیکھے جاتے کہ یہ گھر اس کا ہے کہ نہیں، مجھے کسی نے بتایا کہ مظلوم جس چیز پر ہاتھ رکھے وہ چیز اس کی ہے۔ تو یہ بائیں بازو کا ایک بودا اور جھوٹا نظریہ ہے، میں نے ساری دنیا میں اس کو چیلینج کیا ہے۔ یہ نظریہ امریکا، برطانیہ میں بھی پیش ہوا تھا۔ یہ جاہل تھے، انھیں لیٖفٹ کا کوئی نظریہ نہیں پتا تھا۔ خود روس میں، میں نے یہ بات کہی کہ انہیں (بائیں بازو) والوں کو کچھ نہیں آتا، یہ جھوٹے نظریات ہیں۔

ایکسپریس: گذشتہ سال آپ نے اپنے بیٹے ایاز لطیف پلیجو کی جماعت قومی عوامی تحریک سے علیحدگی اور اپنی قائم کی گئی جماعت عوامی تحریک کی بحالی کا اعلان کیا، اس کا پس منظر کیا ہے؟ کن عوامل نے آپ کو بیٹے سے راہیں جدا کرنے پر مجبور کیا؟ آپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایاز لطیف پلیجو کو پارٹی قیادت دینا مجبور ی تھی، ایسی کون سی مجبوری تھی جس نے آپ کو اس فیصلے پر مجبور کیا تھا؟
رسول بخش پلیجو: میں نے نہ اپنے بیٹے کو صدر مقرر کیا اور نہ نکالا۔ اس وقت مجھے جو سب سے بہتر آدمی نظر آیا اسے رکھ لیا جب دیکھا کہ یہ غلط کر رہا ہے تو نکال دیا۔ ایاز پلیجو کو قیادت سونپنے کی مجبوری صرف یہ تھی کہ ہماری پاس انگریزی لکھنے، پڑھنے والے لوگ نہیں تھے۔ یہ تھوڑی بہت انگریزی جانتا تھا۔ ہم سمجھتے تھے کہ مزید تھوڑا بہت پڑھ کر سمجھ داری سے پارٹی چلا لے گا، لیکن میری یہ سوچ غلط تھی۔ پاکستان میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ سب جگہ ایجنسیاں چھائی ہوئی ہیں۔ سیاست میں بھی ان کا عمل دخل بہت زیادہ ہے، ہماری جماعت میں بھی دس ہزار ایجنٹ آتے ہیں چلے جاتے ہیں، آج بھی روزانہ ہمارے خلاف مضامین لکھے جاتے ہیں۔ ہماری پارٹی میں بھی انہوں نے آدمی داخل کیے۔ انہی لوگوں نے ایاز پلیجو کا دماغ بھی خراب کردیا۔ نوجوانی میں ہی ایجنسیوں نے اس کو پٹی پڑھا دی کہ سوشلزم خراب ہے، چھوٹا بچہ تھا جب اس نے مجھ سے کہا کہ ' ابا میں سوشلزم کے خلاف ہوں، سرمایہ دارنہ نظام اچھا ہے، کھائو پیو موج منائو۔'

ایکسپریس: آپ کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اے این پی سے لے کر اب تک جو بھی اتحاد ٹوٹے ان کی وجہ آپ کی صف اول میں رہنے کی خواہش ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر آپ کو کسی بھی جماعت یا اتحاد کی صدارت نہیں دی جائے تو آپ اس اتحاد کو پارہ پارہ کردیتے ہیں، اور ایاز پلیجو کے ساتھ ہونے والی کشیدگی بھی آپ کی اسی انا کا مظہر ہے، اس بارے میں کیا کہیں گے؟
رسول بخش پلیجو: میں بچپن ہی سے چیزوں کو اس طرح دیکھنے والا ہوں جیسے چیزیں قوانین، دستور ہیں، جو مقدس اور صحیح نہیں ہے خراب ہے اسے ٹھیک کرنا چاہیے۔ میں بچپن سے یہ سوچنے کا عادی ہوں جو میں کہہ رہا ہوں وہ ٹھیک ہے۔ اس میں سے کچھ چیزیں اچھی ہیں کچھ نہیں، جو غلط ہے اسے غلط کہنا چاہیے۔ ہمارا گائوں سارے سندھ میں شاید واحد گائوں ہے جس میں گائوں کا سربراہ، وڈیرہ مرجائے اور اس کا بیٹا جانشینی کا اہل نہ ہو یا بیمار ہو تو بیٹی باپ کی جگہ لے سکتی ہے۔ عورت کو یہ حق پورے سندھ میں کہیں اور حاصل نہیں ہے۔ میری ماں کا تعلق اس خاندان سے ہے جس میں سے ایسی خواتین نکلیں جنہوں نے حکم رانی کی۔ آج بھی ہمارے گائوں میں کئی خواتین مَردوں پر فضیلت رکھتی ہیں، ان سے زیادہ جانتی ہیں، مردوں سے زیادہ دانا ہے۔

ہمارا کوئی آدمی کسی وڈیرے کا ذاتی ملازم نہیں بنتا۔ وہ وڈیرے کی غلامی کرنے کے بجائے گائے خرید کر، اس کا دودھ اور مکھن فروخت کرکے اپنا گھر چلاتا ہے، لیکن کسی کی ملازمت نہیں کرتا۔ کسی وڈیرے کی نوکری کرنا ہمارے یہاں آج بھی عیب سمجھا جاتا ہے۔ میری تربیت یہ رہی کہ اگر کوئی کم ذات یا فقیر بھی آئے تو اس سے عزت سے بات کرنی ہے، اسے اپنے ساتھ عزت سے بٹھائو۔ میرے دادا کے لوئر سندھ کے تمام قبائل سے بہت اچھے تعلقات تھے، میں وہاں جاکر رہتا تھا۔ میرے والد نے سارے قوانین توڑ کر میری ماں کے ساتھ پورے سندھ میں سفر کیا۔ گھر میں پڑھنے لکھنے کا رجحان شروع سے تھا۔ چوتھی کلاس میں میں نے چارلس ڈکنز کے ناول پڑھنا شروع کیے۔ ساری رات پڑھتا رہا پوری رات ترجمہ کرکے ایک ہی صفحہ پڑھ پاتا لیکن پورا ناول مکمل کیا۔ کتابیں پڑھنے سے کی وجہ سے ہی میں آنکھ بند کر کے ہر کسی کی بات نہیں مان لیتا، کسی کے کہنے پر صحیح یا غلط کا فیصلہ نہیں کرتا، میں نے ہمیشہ کتابوں سے راہ نمائی لی۔ بچپن سے ہی ہر وہ کام کیا جو مجھے اچھا لگا، کبھی کسی کے قاعدے قوانین کو نہیں مانا، قاعدے میں نے اپنے بنائے ہیں۔

اور وہ کیسے بنائے؟ روئے زمین کا جو علم کتابوں کی شکل میں ہے اسے پڑھ کر، میں آج بھی وہ باتیں نہیں کرتا کہ فلاں نے لکھی ہیں، فلاں نے نہیں لکھی ہیں، ساری دنیا کے جو علوم میں نے حاصل کیے ان کی روشنی میں جو تجربے ہیں اس میں بہتر کیا ہے، اگر فلاں شخص اسے میری انا یا صف اول رہنے کی خواہش کہتا ہے تو اس کے خیال کو تو میں مانتا ہی نہیں ہو۔ مجھے پتا ہے یہ جاہل ہیں۔ آج بھی مجھے جو صحیح نظر آتا ہے وہی کرتا ہوں، ایسا نہیں کہ میں لوگوں کے اچھے خیالات کو قبول نہیں کرتا، شاہ لطیفؒ بہت اچھے شاعر ہیں لیکن مجھے اختلاف اس بات پر ہے کہ انہوں نے ہیرو مرد کو بنایا ہے عورت کو نہیں، میرے نزدیک یہ غلط ہے تو میں اس سے متفق نہیں ہوں۔ میں نے ساری زندگی نظریاتی لڑائی کی ہے۔ نظریاتی طور پر یہ جو نام نہاد مہاجر ہندوستان سے آئے تھے، ان پر کتاب لکھی۔ میں نے انہیں بوگس کہا۔ جیل میں تھا تو وہاں کمیونزم کا پرچار کرنے والوں کی کلاس لی کہ بتائو جو تم اپنی تقریروں میں، اپنے بیانات میں کہتے ہو کہ لینن نے یہ کہا، کارل مارکس نے وہ کہا تو یہ کتابوں میں کہاں لکھا ہے؟ تمہارا لینن سے کیا واسطہ تم ایجنسیوں کے آدمی ہو، تم لوگ کچھ نہیں جانتے۔

ایکسپریس: آپ عوامی نیشنل پارٹی کے بانی رکن تھے، اس سے علیحدگی اور عوامی تحریک کا قیام کن وجوہات کی بنا پر ہوا؟ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اگر آپ اے این پی سے جڑے رہتے تو وفاق میں اہم کردار ادا کر رہے ہوتے؟

رسول بخش پلیجو: میں کئی تنظیموں میں تھا، کئی بنائیں، کئی چھوڑ دیں۔ پہلی تنظیم جی ایم سید کی 'بزم صوفیائے سندھ' تھی، میں صوفی بن گیا۔ پیپلائی (پیپلزپارٹی والے) لوگ مجھ سے کہتے تھے کہ جی ایم سید سے دور رہو یہ تمہیں تباہ کردے گا۔ عوامی نیشنل پارٹی چھوڑنے کا سبب کچھ یوں تھا کہ افغان جنگ کے دوران میں اے این پی کا جنرل سیکریٹری تھا۔ انہی دنوں میرا افغانستان جانا ہوا۔ وہاں میری ملاقات افغان صدر ڈاکٹر نجیب اللہ سے ہوئی وہ مجھ سے بہت پُرتپاک انداز میں ملے اور رسمی گفت گو کے بعد انہوں نے مجھ سے کہا کہ 'اب ہم جنگ سے بے زار ہوگئے ہیں تم جاکر اپنی پارٹی سے کہو کہ کوئی ایسا طریقہ نکالے جس سے ہمیں لڑائی ترک کرنے کا بہانہ ملے، ہم خود سے ترک کریں گے تو خوار ہوں گے تو اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ تم ملائوں اور اپنی قیادت سے کہو کہ وہ پاکستان اور افغانستان میں جمہوریت قائم کرنے کا مطالبہ کریں۔ جمہوریت کے لیے انتخابات ہونا ضروری ہیں، اور عوام ہم سے اتنا بے زار ہوگئے ہیں کہ ہمیں ووٹ نہیں دیں گے اور ہمیں بھاگنے کا باعزت راستہ مل جائے گا۔' میں نے واپس آکر یہ بات ولی خان کو بتائی تو وہ بہت خوش ہوا۔ اس کے بعد وہ پانچ، دس دن ایک آدمی کے ساتھ گھومتا رہا لیکن میری بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ کہنے لگا کیا تم اسے نہیں جانتے ؟ میں نے کہا کہ نہیں مجھے نہیں پتا، کہنے لگا چھوڑو جھوٹ بولتے ہو یہ امریکی سفیر ہے۔ دوسری مرتبہ میں روس میں لیکچر دینے گیا تو وہاں ڈاکٹر نجیب نے مجھ سے ایک بار پھر کہا کہ 'دیکھو لڑائی چل رہی ہے تم بھی بے زار ہو ہم بھی بے زار ہیں اگر ہم جنگ بندی کے لیے تمہارے پاس آئیں تو یہ ہماری بدنامی ہے اور تم آئے تو تمہاری بدنامی۔ تم اپنی حکومت سے کہوں کہ ہم مغربی یورپ کے کسی چھوٹے ملک میں بیٹھ کر بات کرتے ہیں، جنگ بند کردیتے ہیں۔' میں نے دوبارہ ولی خان سے یہ بات کہی، لیکن اس بار پھر انہوں نے اس بات کو کوئی توجہ نہیں دی۔ میں سمجھ گیا کہ انہیں اس جنگ کو تاقیامت چلانے کا حکم ہے، انہیں پاکستان یا اسلام سے کوئی غرض نہیں ہے۔ یہ سب امریکی ایجنٹ ہیں۔ میں نے سب کو دیکھا ، سب کو اچھی طرح دیکھا، یہ سب سیاست، اسلام، کمیونزم کے نام پر فراڈ کر رہے ہیں۔

ایکسپریس: پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو پاکستان کی معاشی ترقی کا ضامن سمجھا جارہا ہے، سی پیک چین کے ون بیلٹ، ون روڈ منصوبے کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے، جب کہ چین چند روز قبل ہی بھارت کو ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں شمولیت کی دعوت دے چکا ہے۔ کیا ہماری سیاسی قیادت کو اس منصوبے سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کرنی چاہییں؟
رسول بخش پلیجو: پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ اس خطے کے لیے بہت اچھا ہے۔ لیکن تھر میں زہریلا پانی نکالنے کے لیے جو بڑا ڈیم بنا یا جا رہا ہے، اس سے نکلنے والا پانی سمندر میں چھوڑنے کے بجائے ریت پر ڈالا جارہا ہے جو تھر کی زمین کو تباہ کردے گا۔ اس ڈیم کو بنانے کا مقصد پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو ناکامی سے دوچار کرنا ہے۔ اس منصوبے میں یہاں بیٹھے امریکی ایجنٹ شامل ہیں۔ ہمیں تھر میں ڈیم بنانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے، ہمارا کہنا تو صرف اتنا ہے کہ وہ اس زہریلے پانی کو تھر کی ریت میں چھوڑنے کے بجائے سمندر میں بہائیں۔ یہ منصوبہ چین اور پاکستان کی دوستی کو تارپیڈو کرنے کے مترادف ہے۔

ایکسپریس: سپریم کورٹ کی جانب سے نوازشریف کی نااہلی پر آپ کی کیا رائے ہے؟
رسول بخش پلیجو: آپ صرف ایک نوازشریف کی نا اہلی بات کر رہے ہیں، مجھے صرف اتنا بتائیں کہ پاکستان میں کوئی شخص ایسا ہے جو اہل ہو؟ کیا پاکستان میں کبھی کوئی قانون تھا؟ کوئی جمہوریت تھی؟ یہاں امریکا بہادر بادشاہ ہے، کسی جرنیل کو لائے یا کسی سیاست داں کو، سب اس کی مرضی سے ہی ہوتا ہے۔ بھٹو صاحب کو سپریم کورٹ نے قتل کردیا۔ کتابوں میں لکھا ہے کہ ان کی پھانسی غیرقانونی تھی، لیکن امریکا بہادر نے جو چاہا وہی ہوا۔

ایکسپریس: آپ پاکستان پیپلزپارٹی کو تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ پیپلزپارٹی بھی سندھ کی وحدت اور صوبائی خودمختاری کی بات کرتی ہے اور عوامی تحریک بھی، پھر دونوں جماعتوں میں کن باتوں پر اختلافات ہیں؟
رسول بخش پلیجو: ہم نے پاکستان پیپلزپارٹی پر کبھی تنقید نہیں کی۔ یہ صرف پروپیگنڈا ہے۔ ہم ہر اس بات پر تنقید کرتے ہیں جو غلط ہو۔ ہم پیپلزپارٹی کے خلاف نہیں ہیں، ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ غلط کام جو بھی کرے اس کی مذمت کرنی چاہیے، چاہے وہ میں یا میری جماعت ہی کیوں نہ کرے۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ ہم نے کئی بار اتحاد بھی کیا ہے کیوں کہ اتحاد تو ہم سب سے کرتے ہیں۔ ہمارا اختلاف تو اس بات پر ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اچھی زمینیں خرید کر انہیں دشمنوں کو دے رہی ہے۔ پیپلزپارٹی اس دور میں سندھیوں کو سندھ میں سب سے زیادہ نقصان پہنچا رہی ہے۔ سندھ میں ان کی حکومت ہے انہیں جھوٹی مردم شماری کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے تھی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ سندھ میں بلوچ ہیں، افغانی ہیں، نام نہاد مہاجر ہیں۔ سندھیوں کو ختم کیا جا رہا ہے، سندھ کو نیست و نابود کرنے میں یہ حکومت بھی شامل ہے۔

ایکسپریس: آپ نے پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی) چلائی، لیکن بعد میں آپ نے سیاست میں کرپشن کی ابتدا کرنے کا الزام بھی پیپلز پارٹی پر ہی لگایا۔ آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟
رسول بخش پلیجو: میں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔ میری بات کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔ رہی بات کی کرپشن کی تو یہ ہر جگہ ہے، یہاں تو سب ہی کرپٹ ہیں۔ یہ صرف پاکستان کا نہیں پورے ایشیا کا مسئلہ ہے۔ دوسری جماعتوں کی طرح پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی کرپشن کی اس دوڑ میں اپنا کردار شان دار طریقے سے ادا کیا ہے۔

ایکسپریس: سندھ اسمبلی میں نیب قوانین کے خاتمے پر آپ کا کیا کہنا ہے؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس سے سندھ میں کرپشن کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا؟
رسول بخش پلیجو: حکومت سندھ کو چاہیے کہ وہ اپنے قانون بنانے کے لیے وفاق پر انحصار نہ کرے۔ نیب کا کردار بھی مشکوک رہا ہے کیوں کہ نیب نے سندھ میں تو بہت سارے لوگوں کے خلاف کارروائی کی لیکن پنجاب میں ایک گرفتاری تک نہیں ہوئی۔ جہاں تک بات ہے کرپشن کے نئے دور کی تو یہ تو شروع سے جاری ہے۔ نیب کے خلاف بل پاس ہونے سے پہلے بھی سندھ میں کرپشن کون سی بند تھی، یہ تو چوبیس گھنٹے ہورہی ہے۔

ایکسپریس: آپ متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ پنجاب ہمیشہ سندھ کے لیڈروں کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو استعمال کیا، الطاف حسین کو استعمال کیا، اس بات سے آپ کی مراد کیا ہے؟
رسول بخش پلیجو: میں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ پنجاب نے ذوالفقار علی بھٹو کو استعمال کیا، ہاں البتہ الطاف حسین نے پنجاب کو اپنے مفاد میں ضرور استعمال کیا۔ الطاف حسین تو خود امریکی، ہندوستانی دہشت گرد ہے، اس نے پنجاب کو، سندھ کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔

ایکسپریس: سندھ کے عوام بظاہر قوم پرستی کو بہت اہمیت دیتے ہیں، لیکن اس کے برعکس انتخابات میں قوم پرست جماعتوں کو زیادہ نشستیں نہیں ملتیں، اس کے اسباب کیا ہیں؟
رسول بخش پلیجو: میں نے کبھی ایسا نہیں سنا یا دیکھا کہ سندھ کے عوام نے قوم پرستی کو اہمیت دی ہو، یہ تو ملائوں، پیروں، وڈیروں کے پیچھے چلتے ہیں، یہ صرف ایک افسانہ ہے کہ سندھی بڑے قوم پرست ہیں۔ میرے جیسے دوچار آدمی قوم پرستی کی بات کرتے ہیں۔ یہاں علم و شعور کی کمی ہے۔ تعلیم کو تباہ کردیا گیا ہے، اسی لیے انہیں نہ اچھے برے کی تمیز ہے نہ کسی بات کا شعور کیوں کہ یہ سب چیزیں تعلیم سے ملتی ہیں۔ امریکا ہر ملک میں اپنے آدمیوں کو پلانٹ کرتا ہے کہ وہ تباہی مچا دیں۔ پاکستان بنا ہے تو پاکستان کو تباہ کرنے کے لیے انہیں کچھ تو چاہیے۔ آپ کو اسلام پرست بنادیں گے مجھے قوم پرست بنادیں گے، یہ کس بات کے اسلام پرست، قوم پرست؟ یہ سب بوگس ہیں۔ پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرو، چین کو ٹکڑے ٹکڑے کرو۔ امریکا کے پاس تو ہر جگہ ہر طرح کے ایجنٹ ہیں۔ عوام کو بے وقوف بنایا جارہا ہے۔

ایکسپریس: پاکستان کو اس وقت توانائی کے بحران، بدامنی اور انتہاپسندی کا سامنا ہے، آپ کی نظر میں ان ایشوز پر سیاسی جماعتوں کا کردار کیا ہوسکتا ہے۔ حکومتی سطح پر مزید کن اقدامات کی ضرورت ہے؟
رسول بخش پلیجو: یہ تو بے چاری سیاسی جماعتوں پر الزام ہے کہ ان کا کردار یہ ہے کہ وہ ملک کی خدمت کریں۔ امن و امان قائم کریں، معیشت بہتر بنائیں، پاکستان کا تحفظ کریں۔ ان کا کام تو پیسا کمانا، ملک کو لوٹنا، مزے کرنا، امریکا کی خوشامد کرنا ہے۔ یہ اُن پر الزام ہے کہ تمہیں (سیاست دانوں کو) پاکستان کو بچانا ہے۔ جس کو موقع ملتا ہے وہ اس ملک کو لوٹ کر کھاتا ہے۔ ایشیائی ملکوں میں سیاست دانوں کا یہی دھندا ہے۔ انہیں کیا ضرورت ہے کہ امن و امان، بدامنی اور انتہا پسندی کے لیے اقدامات کریں۔

ایکسپریس: آپ کی جماعت دیگر قوم پرست جماعتوں کے مقابلے میں کس طرح مختلف انداز میں سندھ کے عوام کی ترجمانی کر رہی ہے؟
رسول بخش پلیجو: ہم آپ کے پاس بیٹھے ہیں۔ ہم نے سب سے پہلے کالا باغ ڈیم کی بات کی، جیلوں میں گئے۔ ہماری جماعت کوئی بہت بڑی سیاسی جماعت نہیں ہے، لیکن ہم نے ہمیشہ سندھ کے حق کی بات کی، چاہے کالا باغ ڈیم ہو یا تھر میں بننے والا ڈیم، ہر اس اہم مسئلے پر سب سے پہلے ہم نے ہی آواز اٹھائی، جس پر سندھ کی دوسری جماعتیں آواز نہیں اٹھاتیں۔

ایکسپریس: آپ نے وکالت سے زیادہ سیاست کی، اس کی کیا وجہ تھی؟
رسول بخش پلیجو: وکالت میں پیسے ملتے، اچھی زندگی گزرتی، لیکن بات یہ ہے کہ اگر یہ ملک چلا گیا تو پھر؟ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ یہاں پانی ہونا چاہیے، تعلیم ہونی چاہیے، عوام کو حقوق ملنے چاہییں، پولیس کی غنڈاگردی اور دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے اس کے لیے صرف وکالت کافی نہیں تھی۔ اس لیے سیاست میں آکر عوام کے لیے جدوجہد کی۔

ایکسپریس: زیادہ تر کن موضوعات پر کتابیں پڑھنا پسند ہیں؟
رسول بخش پلیجو: میں کسی ایک موضوع کو اپنا پسندیدہ موضوع نہیں کہہ سکتا، کیوں کہ میں اب تک ہزاروں کتابیں پڑھ چکا ہوں۔ میری ماں ان پڑھ تھیں اور میں انہیں پڑھ کر سناتا تھا۔ پیسے جمع کرکے بھی کتابیں خریدیں، لوگوں کی منت سماجت کرکے بھی کتابیں لیں، کتابیں چوری بھی کیں، آج بھی میرے پاس ہزاروں کتابیں ہیں، چوتھی جماعت میں قرآن شریف کو معنی کے ساتھ پڑھنا شروع کیا۔ اسکول کے بچوں نے دوسری زبان کے طور پر فارسی منتخب کی اور میں نے عربی، کیوں کہ مجھے پتا تھا کہ اگر عربی نہیں سیکھی تو یہ ملا لوگ مجھے ہلنے نہیں دیں گے، میں نے اسلام، عیسائیت، ہندو مت، بدھ مت، یہودیت غرض کے ہر مذہب کے بارے میں پڑھا ہے۔

ایکسپریس: پسندیدہ شاعر، پسندیدہ ادیب کون ہے؟
رسول بخش پلیجو: شاہ عبدالطیف بھٹائیؒ، استاد بخاری، شیخ ایاز، مرزا غالب، جوش ملیح آبادی، مولانا رومی، اور پنجاب کے تمام پُرانے شعرا پسند ہیں۔ فارسی، عربی، روسی، انگریزی شاعری بھی بہت شوق سے پڑھتا ہوں، میں عالمی شاعری کا عاشق ہوں۔
Load Next Story