سیاسی صورتحال کا جمود شکن تسلسل

عدالتی فعالیت کا تسلسل جمود شکن ثابت ہونے جارہا ہے

جمہوریت میں فیئر پلے جاری رہنا چاہیے۔ فوٹو: فائل

ملکی سیاست کی ہیجانی کیفیت میں افاقہ کے امکانات کا عوام کو ہنوز انتظار ہے مگر سیاسی اور سماجی صورتحال میں معروضی ٹھہراؤ لانے کے لیے حکومت کو ابھی ''ہمت دشوار پسند'' جیسے امتحان کا سامنا ہے۔ خوش آیند بات کی کئی جہتیں امید افزا ہیں، مثلاً جمہوری عمل جاری ہے، عدالتی فعالیت کا تسلسل جمود شکن ثابت ہونے جارہا ہے،ایک وزیراعظم کی معزولی سے پیداشدہ سیاست میں ارتعاش فطری ہے مگر اداروں کے مابین تصادم کے بجائے سیاسی وعسکری قیادت کے مابین خارجہ و داخلی پالیسیوں پر ہم آہنگی دو طرفہ بنیادوں پر سیاسی عملیت پسندی کی عکاسی کرتی ہے۔

دوسری جانب جمعرات کو سپریم کورٹ نے پاناما فیصلے کے خلاف نظرثانی درخواستوں کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں5رکنی لارجر بنچ نے کی جس کے دوران عدالت نے آبزرویشن دی ہے کہ عدلیہ کے خلاف ہرزہ سرائی مہم کی قیادت نواز شریف اور اسحاق ڈارکررہے ہیں، عدالت عظمیٰ نے قراردیا کہ نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ غیر متنازعہ ثبوت پرکیا گیا، ساتھ ہی فاضل بینچ نے ریمارکس دیے کہ عدالت پر اعتمادکیا جائے، سڑ کوں پر آکر ریفرنڈم نہ کیا جائے، نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل نمٹاتے ہوئے موقف اختیارکیا کہ نگران جج اور سپریم کورٹ کی آبزرویشن کی موجودگی میں ان کے موکل کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا۔

اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد نے بھی اپنے دلائل پیش کیے۔ ماہرین قانون اس کیس کے حوالہ سے اظہار خیال کرتے ہوئے بھی اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ احتسابی عمل کو سیاسی عمل کے شانہ بشانہ چلنا چاہیے تاکہ ملک جمہوری نقطہ نظر سے ان کمزوریوں اور نقائص سے پاک ہو جس سے عوام دل برداشتہ ہیں اور حقیقی جمہوری ثمرات سے محرومی کی شکایت کرتے ہیں۔

واقعتاً پہلی بار عدالت عظمیٰ میں ایک ایسا ہائی پروفائل مقدمہ زیر سماعت ہے جو دوررس ثابت ہوکر طرز حکمرانی کی قلب ماہیت کا سبب بن سکتا ہے ۔ اس کیس پر سواد اعظم کی نظریں اس لیے بھی مرکوز ہیں کہ جمہوریت کو اس کی منزل ملنی چاہیے، وہ جمہوریت جس کی حمایت عسکری قیادت کئی بار کرچکی ہے۔ لہٰذا ملکی حکمرانی ،انتظامی شفافیت،کرپشن اور ادارہ جاتی استحکام اور جمہوری اقدار وقانون کی حکمرانی کے لیے پاکستان بلاشبہ ایک غیرمعمولی دوراہے پر کھڑا ہے۔

جہاں تک سیاسی گہما گہمی ، تلخ بیانی، ریلیوں، جلسوں اور احتجاجی معاملات کا سوال ہے تواسے جمہوری عمل سے کاٹا نہیں جاسکتا، سیاسی اجتماعات قانون کے دائرہ میں رہیں تو کسی کو تعرض نہیں کرنا چاہیے، اس لیے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف لاہور نے اگلی شب چیئرنگ کراس سے داتا دربار تک ریلی نکالی، اس موقع پر عمران خان نے کہا کہ آج ایک میچ قذافی اسٹیڈیم میں ہوگا اور ایک میچ 17 ستمبر کو این اے 120 میں ہوگا جس کے بعد نیا پاکستان بنے گا، عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری نے این اے ایک سو بیس میں تحریک انصاف کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے عمران خان سے تجدید ملاقات بھی کی ہے۔


ادھر الیکشن کمیشن نے توہین عدالت کیس میں عمران خان کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے کیونکہ اسلام ہائیکورٹ سے انھیں ریلیف نہیں جب کہ سندھ میں نیب سے متعلق قانون سازی پر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے نظر ثانی کا عندیہ دیا ہے۔ڈیرہ بگٹی میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ بلوچستان کا مستقبل صوبے کے عوام کے ہاتھوں میں ہے، وہ وقت دور نہیں جب بلوچستان ملک کا امیر ترین صوبہ ہوگا، بلوچستان میں455 ارب روپے سڑکوں کے منصوبوں پر خرچ ہوں گے، وفاقی حکومت کی مدد سے صوبے میں 21 یونیورسٹیاں قائم ہو رہی ہیں، ناراض بلوچ بھائی گمراہ کن پروپیگنڈا کے بجائے صوبے اور عوام کی تعمیر و ترقی میں حصہ لیں، وہ ڈیرہ بگٹی میں کچھی کینال منصوبے کا افتتاح کرنے کے بعد اجتماع سے خطاب کررہے تھے۔

وزیر خارجہ خواجہ آصف نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا ہے کہ اپنا گھر ٹھیک کرنے کے بیان پر قائم ہوں، نیشنل ایکشن پلان میں جو ذمے داری سویلین اداروں کی تھی کیا ہم نے وہ پوری کیں، ٹرمپ کی تقریر کے بعد کی صورتحال ہمارے لیے مناسب نہ تھی، افغان معاملے کا امریکی فوجی آپشن ناکام ہو چکا، ایرانی قیادت نے بھی امریکا کی افغان پالیسی پر تحفظات کا اظہار کیا، ایران، ترکی اور چین کے دوروں کا محور افغانستان اور دوطرفہ تعلقات تھے، ہمارا مقصد دنیا کو باور کرانا ہے کہ پاکستان بھرپور طاقت سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔

ایم کیوایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے ملک میں مردم شماری دوبارہ کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر شہری کا حق ہے کہ اسے مردم شماری میں گنا جائے اسی سیاسی تناظر میں منتخب اراکین پارلیمنٹ کی قومی اسمبلی اور سینیٹ میں حاضری کم ہونے پر اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ نے شدید برہمی کا اظہار کیا، قومی اسمبلی میں حکومت مسلسل دوسرے روز بھی اطلاعات تک رسائی کا بل منظور کرانے میں ناکام رہی اور مسلسل تیسرے روزکورم پورا نہ کر سکی ، ادھر سینیٹ قائمہ کمیٹی کیبنٹ سیکریٹریٹ نے اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں منشیات کے بڑھتے ہوئے رجحان پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

یوں ملکی سیاسی منظرنامہ کی ہمہ جہتی صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ عدالتی عمل کے ساتھ ساتھ سیاستدان ملکی سالمیت اور جمہوری اقدار کی سربلندی کے لیے ایک پیج پر رہیں جو ملکی مفاد کا اولین تقاضہ ہے۔جمہوریت میں فیئر پلے جاری رہنا چاہیے۔

 
Load Next Story