تھوڑی سی روشنی
بے پناہ اعلیٰ تعلیم کے دماغ بھی اگر اندھیروں کے راستے پر چل پڑے تو ہمیں اس کی وجوہات ڈھونڈنی چاہیے۔
اللہ پاک نے نجانے کتنے خزانے ہمارے ملک کو دیے کہ مختلف شکل میں لٹیرے اس ملک کو لوٹے جا رہے ہیں، تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں مگر اس ملک کے خزانے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے ہیں اور اللہ پاک ہمیں ایسے ہی شاد و آباد رکھے۔
اب دنیا کی باری ہے کہ Do Moreکریں، یہ کہنا ہے آرمی چیف کا، پاکستان کتنا کرے، کتنے جوان سرحدوں پر جانوں کو نثار کریں، کتنے والدین دروازوں پر دستک ہو اوراپنے جوان بچوں کی شہادت کی خبر وصول کریں، ان تمام والدین کو سلام اور ان جوانوں کو سلام جو جاگ رہے ہوتے ہیں جب پورا ملک چین کی نیند سوتا ہے۔ ہماری حفاظت کر رہے ہوتے ہیں سرحدوں پر، برفیلی چٹانوں پر اپنے سینے تانے دشمن کو کھٹک رہے ہوتے ہیں، بات صرف سمجھنے کی ہے چونکہ پاکستان چاروں طرف دشمنوں کو کھٹک رہا ہے، اس لیے یہاں NGO's کے نام پر مختلف شعبوں میں غیر ملکی فنڈنگ بھی ہو رہی ہے اور جب یہ ادارے روپے پیسے میں خودکفیل ہوجاتے ہیں تو پھر وہی بولتے وہی گاتے ہیں جو ان کو اشارے دیے جاتے ہیں۔
لگژری اور وافر مقدار میں مالی فراوانی ان کو وہ سب کچھ کروا دیتی ہے جو فنڈنگ کرنے والے چاہتے ہیں ان کی زبان، ان کے لہجے ان کے الفاظ کبھی کبھی تو اپنے ہی ملک کے لیے اپنے ہی ملک کے اداروں کے لیے زہر اگلنے لگتے ہیں اور جو زہر یہ اگلتے ہیں انھیں اچھی طرح پتا ہوتا ہے کہ اس کے Side Effects کیا ہوں گے۔ مگر چھٹتی کہاں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔
تاریخ بھی مسلمانوں کی یہی کہتی ہے کہ میر جعفر اور میرصادق ہمیشہ ہر دور کا حصہ رہے ہیں سو ہمارے دور میں بھی ایسا ہی ہے، مگر یہ لوگ رسوا ہوکر ہی اٹھتے ہیں۔ ہمیں انتظار ہے تو اس وقت کا جب ہم اپنے لیے نہیں اپنے لوگوں کے لیے اپنے ملک کے لیے سوئیں گے اور وہی سب کچھ کریں گے جو عوام کے لیے بہتر ہوگا، جو لوگ اس قوم میں مردار بن گئے ہیں مردے کھانے والے بن گئے ہیں گدھ بن گئے ہیں تو کبھی تو یہ گدھ بھی جہنم رسید ہوں گے اور وہ دن ضرور آئے گا ۔ خوش بخت ہے یہ زمین جو سونا اگلے جا رہی ہے اور اگلتی رہے گی، بس ضرورت ہے ان ہاتھوں کی جن کو یہ زمین پارس بنادے۔
ابھی ہماری افواج اور ادارے، ان پر کوئی ناجائز انگلیاں اٹھائے یہ ٹھیک نہیں، ہاں کرپشن اور برائی جہاں بھی ہو اس کو ختم ہونا ہی ان سب اداروں کی مضبوطی کی نشانی ہے۔ ورنہ بندہ تو ہر ایک اکیلا ہی جائے گا 7 فٹ کی گہری قبر کی اس کی آرام گاہ ہے جہاں صرف اس کے اعمال ہی اس کے ساتھ ہوں گے نہ باپ نہ بیٹا اور نہ روپیہ۔ سمجھے کوئی جانے کوئی۔
نواز شریف کے نااہل ہونے کے بعد حلقہ NA-120 بھی نگاہ مرکز بنا ہوا ہے، پی ٹی آئی کی یاسمین راشد ایک پڑھی لکھی خاتون، اور ان کے مدمقابل ہے کلثوم نواز جوکہ اس وقت تک لندن میں اپنے علاج و معالجے کے لیے موجود ہے، یہاں پر ان کی صاحبزادی مریم نواز ان کی الیکشن کمپین چلا رہی ہیں بڑے زور و شور سے۔ وزیر اعظم مسلم لیگ (ن) کا ہے، تو پھر کیسے ممکن ہو کہ حلقہ NA-120 سونا سونا رہے۔
بڑے زور شور کے ساتھ مسلم لیگی کارکن بیگم کلثوم نواز کی انتخابی مہم میں حصہ لے رہے ہیں، مریم نواز عوام سے وعدے لے رہی ہے کہ وہ سابق وزیر اعظم کو پھر لائیں گے جن کو نااہل قرار دے دیا گیا ہے۔ اور بے چارے سادہ عوام ہاں میں گردنیں بھی ہلا رہے ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی اتنی ترقی نظر نہیں آتی جوکہ ایک وزیر اعظم کے حلقے میں ہونی چاہیے۔ لیکن ہم عوام جذباتی سوچ رکھتے ہیں، ہمدردیاں جلدی کر لیتے ہیں، اپنے دکھوں کو بھول جاتے ہیں کہ کبھی سکھ دیکھے ہی نہیں، وہی گندا پانی، وہی ابلتے گٹر، وہی بارشوں میں شہروں کا الٹا ہوجانا، بجلی کی تاروں سے لوگوں کا مر جانا، نہ طبی امداد نہ اسپتال، نہ تعلیم۔
شروع سے ایسی بدحواسی کی زندگی گزارنے والے عوام جب سنتے ہیں کہ کوئی ان سے کہے کہ میری ماں بیمار ہے، کینسر جیسے مرض سے لڑ رہی ہے مجھے ووٹ دو، تو جناب! ہماری عوام اتنی ہمدرد ہے کہ اپنے گھر کا آٹا بھی لاکر دے دیں ووٹ کیا چیز ہے۔ تو دیکھیے بے چاری عوام کب تک اپنے سچے جذباتوں کو ایسے لٹاتی رہے گی ، بے شک علم بڑی دولت ہے اور اسی لیے حکم دیا گیا ''پڑھ''۔ کہ علم ہی دل و دماغ میں بتی روشن کرتا ہے علم ہی بھٹکے ہوئے جذبات کو صحیح راستہ دیتا ہے، علم ہی تمام امراض میں شفا دیتا ہے مگر ان ظالم لوگوں نے، علم کے خزانوں پر منوں وزنی سلیبیں رکھ دی ہے۔ علم کے خزانوں کی پہنچ ایک عام آدمی سے دور کیے جا رہے ہیں، اندھیروں میں بھٹکتی ہوئی قوم دیر سے سہی مگر امید ہے کہ اجالوں میں ضرور آئے گی۔
آج مدرسوں سے لے کر کالج و یونیورسٹی تک کو اب تنقید کا سامنا ہے۔ بے پناہ اعلیٰ تعلیم کے دماغ بھی اگر اندھیروں کے راستے پر چل پڑے تو ہمیں اس کی وجوہات ڈھونڈنی چاہیے۔ ریاست کو فوراً سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ یہ دیکھے کہ آیا وہ کون سی وجوہات ہیں، وہ کون سی سیاسی و معاشی وجوہات ہیں، وہ کون سا پریشر ہے جو ان پڑھے لکھے اعلیٰ دماغوں کو اندھیروں کی طرف راغب کر رہا ہے، ہمارے اس لبرل ہوتے ہوئے معاشرے میں جہاں مغربی لباس، مغربی انداز زندگی تیزی سے پھیل رہا ہو، مرد اور عورت برابری کا دعویٰ کرے، O اور A لیول تعلیم انداز بزنس بن جائے، فیشن شوز کے نام پر فوٹو شوٹ بنائے جائیں اور بڑے بڑے سائن بورڈز پر لگائے جائیں ، اوئے اور ابے کا کلچر زیادہ یاری دوستی کو ظاہر کرے، بازاروں میں تختہ بچھا کر کھانا کھانے اور حقے کے کش لگانے کو آؤٹنگ کہا جائے، آوارہ گردی، لڑکے لڑکیوں کی دوستی کو ماں باپ ترقی تصور کریں، خالی کاغذ کی ڈگریوں کو تعلیم سمجھا جائے، انھیں خریدا جائے، تو کیا یہ اندھیرے راستے کافی نہیں کھائی میں گرنے کے لیے، اور ہم کھائی میں گرتے جا رہے ہیں، خدا کے واسطے کچھ تھوڑی روشنی کچھ تھوڑا علم دیجیے، جینے دیجیے، جینے کا حق تو اللہ نے دیا ہے۔
اب دنیا کی باری ہے کہ Do Moreکریں، یہ کہنا ہے آرمی چیف کا، پاکستان کتنا کرے، کتنے جوان سرحدوں پر جانوں کو نثار کریں، کتنے والدین دروازوں پر دستک ہو اوراپنے جوان بچوں کی شہادت کی خبر وصول کریں، ان تمام والدین کو سلام اور ان جوانوں کو سلام جو جاگ رہے ہوتے ہیں جب پورا ملک چین کی نیند سوتا ہے۔ ہماری حفاظت کر رہے ہوتے ہیں سرحدوں پر، برفیلی چٹانوں پر اپنے سینے تانے دشمن کو کھٹک رہے ہوتے ہیں، بات صرف سمجھنے کی ہے چونکہ پاکستان چاروں طرف دشمنوں کو کھٹک رہا ہے، اس لیے یہاں NGO's کے نام پر مختلف شعبوں میں غیر ملکی فنڈنگ بھی ہو رہی ہے اور جب یہ ادارے روپے پیسے میں خودکفیل ہوجاتے ہیں تو پھر وہی بولتے وہی گاتے ہیں جو ان کو اشارے دیے جاتے ہیں۔
لگژری اور وافر مقدار میں مالی فراوانی ان کو وہ سب کچھ کروا دیتی ہے جو فنڈنگ کرنے والے چاہتے ہیں ان کی زبان، ان کے لہجے ان کے الفاظ کبھی کبھی تو اپنے ہی ملک کے لیے اپنے ہی ملک کے اداروں کے لیے زہر اگلنے لگتے ہیں اور جو زہر یہ اگلتے ہیں انھیں اچھی طرح پتا ہوتا ہے کہ اس کے Side Effects کیا ہوں گے۔ مگر چھٹتی کہاں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔
تاریخ بھی مسلمانوں کی یہی کہتی ہے کہ میر جعفر اور میرصادق ہمیشہ ہر دور کا حصہ رہے ہیں سو ہمارے دور میں بھی ایسا ہی ہے، مگر یہ لوگ رسوا ہوکر ہی اٹھتے ہیں۔ ہمیں انتظار ہے تو اس وقت کا جب ہم اپنے لیے نہیں اپنے لوگوں کے لیے اپنے ملک کے لیے سوئیں گے اور وہی سب کچھ کریں گے جو عوام کے لیے بہتر ہوگا، جو لوگ اس قوم میں مردار بن گئے ہیں مردے کھانے والے بن گئے ہیں گدھ بن گئے ہیں تو کبھی تو یہ گدھ بھی جہنم رسید ہوں گے اور وہ دن ضرور آئے گا ۔ خوش بخت ہے یہ زمین جو سونا اگلے جا رہی ہے اور اگلتی رہے گی، بس ضرورت ہے ان ہاتھوں کی جن کو یہ زمین پارس بنادے۔
ابھی ہماری افواج اور ادارے، ان پر کوئی ناجائز انگلیاں اٹھائے یہ ٹھیک نہیں، ہاں کرپشن اور برائی جہاں بھی ہو اس کو ختم ہونا ہی ان سب اداروں کی مضبوطی کی نشانی ہے۔ ورنہ بندہ تو ہر ایک اکیلا ہی جائے گا 7 فٹ کی گہری قبر کی اس کی آرام گاہ ہے جہاں صرف اس کے اعمال ہی اس کے ساتھ ہوں گے نہ باپ نہ بیٹا اور نہ روپیہ۔ سمجھے کوئی جانے کوئی۔
نواز شریف کے نااہل ہونے کے بعد حلقہ NA-120 بھی نگاہ مرکز بنا ہوا ہے، پی ٹی آئی کی یاسمین راشد ایک پڑھی لکھی خاتون، اور ان کے مدمقابل ہے کلثوم نواز جوکہ اس وقت تک لندن میں اپنے علاج و معالجے کے لیے موجود ہے، یہاں پر ان کی صاحبزادی مریم نواز ان کی الیکشن کمپین چلا رہی ہیں بڑے زور و شور سے۔ وزیر اعظم مسلم لیگ (ن) کا ہے، تو پھر کیسے ممکن ہو کہ حلقہ NA-120 سونا سونا رہے۔
بڑے زور شور کے ساتھ مسلم لیگی کارکن بیگم کلثوم نواز کی انتخابی مہم میں حصہ لے رہے ہیں، مریم نواز عوام سے وعدے لے رہی ہے کہ وہ سابق وزیر اعظم کو پھر لائیں گے جن کو نااہل قرار دے دیا گیا ہے۔ اور بے چارے سادہ عوام ہاں میں گردنیں بھی ہلا رہے ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی اتنی ترقی نظر نہیں آتی جوکہ ایک وزیر اعظم کے حلقے میں ہونی چاہیے۔ لیکن ہم عوام جذباتی سوچ رکھتے ہیں، ہمدردیاں جلدی کر لیتے ہیں، اپنے دکھوں کو بھول جاتے ہیں کہ کبھی سکھ دیکھے ہی نہیں، وہی گندا پانی، وہی ابلتے گٹر، وہی بارشوں میں شہروں کا الٹا ہوجانا، بجلی کی تاروں سے لوگوں کا مر جانا، نہ طبی امداد نہ اسپتال، نہ تعلیم۔
شروع سے ایسی بدحواسی کی زندگی گزارنے والے عوام جب سنتے ہیں کہ کوئی ان سے کہے کہ میری ماں بیمار ہے، کینسر جیسے مرض سے لڑ رہی ہے مجھے ووٹ دو، تو جناب! ہماری عوام اتنی ہمدرد ہے کہ اپنے گھر کا آٹا بھی لاکر دے دیں ووٹ کیا چیز ہے۔ تو دیکھیے بے چاری عوام کب تک اپنے سچے جذباتوں کو ایسے لٹاتی رہے گی ، بے شک علم بڑی دولت ہے اور اسی لیے حکم دیا گیا ''پڑھ''۔ کہ علم ہی دل و دماغ میں بتی روشن کرتا ہے علم ہی بھٹکے ہوئے جذبات کو صحیح راستہ دیتا ہے، علم ہی تمام امراض میں شفا دیتا ہے مگر ان ظالم لوگوں نے، علم کے خزانوں پر منوں وزنی سلیبیں رکھ دی ہے۔ علم کے خزانوں کی پہنچ ایک عام آدمی سے دور کیے جا رہے ہیں، اندھیروں میں بھٹکتی ہوئی قوم دیر سے سہی مگر امید ہے کہ اجالوں میں ضرور آئے گی۔
آج مدرسوں سے لے کر کالج و یونیورسٹی تک کو اب تنقید کا سامنا ہے۔ بے پناہ اعلیٰ تعلیم کے دماغ بھی اگر اندھیروں کے راستے پر چل پڑے تو ہمیں اس کی وجوہات ڈھونڈنی چاہیے۔ ریاست کو فوراً سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ یہ دیکھے کہ آیا وہ کون سی وجوہات ہیں، وہ کون سی سیاسی و معاشی وجوہات ہیں، وہ کون سا پریشر ہے جو ان پڑھے لکھے اعلیٰ دماغوں کو اندھیروں کی طرف راغب کر رہا ہے، ہمارے اس لبرل ہوتے ہوئے معاشرے میں جہاں مغربی لباس، مغربی انداز زندگی تیزی سے پھیل رہا ہو، مرد اور عورت برابری کا دعویٰ کرے، O اور A لیول تعلیم انداز بزنس بن جائے، فیشن شوز کے نام پر فوٹو شوٹ بنائے جائیں اور بڑے بڑے سائن بورڈز پر لگائے جائیں ، اوئے اور ابے کا کلچر زیادہ یاری دوستی کو ظاہر کرے، بازاروں میں تختہ بچھا کر کھانا کھانے اور حقے کے کش لگانے کو آؤٹنگ کہا جائے، آوارہ گردی، لڑکے لڑکیوں کی دوستی کو ماں باپ ترقی تصور کریں، خالی کاغذ کی ڈگریوں کو تعلیم سمجھا جائے، انھیں خریدا جائے، تو کیا یہ اندھیرے راستے کافی نہیں کھائی میں گرنے کے لیے، اور ہم کھائی میں گرتے جا رہے ہیں، خدا کے واسطے کچھ تھوڑی روشنی کچھ تھوڑا علم دیجیے، جینے دیجیے، جینے کا حق تو اللہ نے دیا ہے۔