نظریاتی جنگ

بلاشبہ پاکستان کی مسلح افواج نے اپنی جانوں کی قربانیاں دے کر پاکستان میں دہشتگردی کو بڑی حد تک ختم کردیا ہے

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

KARACHI:
امریکا کے صدر ٹرمپ نے پاکستان کو خبردار کیا تھا کہ وہ اپنے ملک میں دہشتگردوں اور ان کے ٹھکانوں کے خلاف سخت اقدامات کرے، ٹرمپ نے یہ دھمکی بھی دی تھی کہ امریکا دہشتگردوں کے اڈے ختم کرنے کے لیے خود اقدامات کر سکتا ہے۔ امریکا کے موجودہ صدر کے بارے میں یہ تصور عام ہے کہ وہ ایک غیر محتاط اور لا ابالی طبیعت کے انسان ہیں۔

اسی حوالے سے پاکستان کے ایک غیر محتاط حلقے نے ٹرمپ کے جواب میں سخت رویہ اپنانے کا مشورہ دیا لیکن عالمی حالات پر نظر رکھنے والے محتاط حلقوں نے پاکستان کے حکمران طبقے کو اعتدال پسندی کا مشورہ دیا اس حلقے کا خیال یہ ہے کہ ٹرمپ بے شک منہ پھٹ اور غیر محتاط صدر ہے لیکن امریکا کی خارجہ پالیسی صرف ٹرمپ نہیں بناتا بلکہ خارجہ امور کے ماہرین مل جل کر خارجہ پالیسی تشکیل دیتے ہیں، اس حقیقت کے پیش نظر امریکا کے حوالے سے ہماری خارجہ پارلیسی میں اعتدال ہونا چاہیے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ٹرمپ جیسے لا ابالی صدر کے پاس بھی ایک ذمے دار وزیر خارجہ موجود ہے لیکن جمہوریت کا شیدائی ملک پاکستان چار سال تک وزیر خارجہ کے بغیر کام چلاتا رہا، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ناکامیوں کا مجموعہ بن کر رہ گئی ہے اور ٹرمپ برملا کہہ رہا ہے کہ وہ بھارت کو افغانستان میں اہم کردار دینا چاہتا ہے۔

پاکستان افغانستان کا فرسٹ پڑوسی ہی نہیں بلکہ ہم مذہب ملک بھی ہے لیکن ہماری خارجہ پالیسی کا عالم یہ ہے کہ افغانستان ہی نہیں مشرق وسطیٰ اور ایران کے بھارت سے تعلقات ہم سے زیادہ دوستانہ ہیں اور بھارت افغانستان میں بھی عرصہ دراز سے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ بھارت ایک کافر ملک ہے لیکن مسلم ملکوں سے اس کے انتہائی دوستانہ تعلقات اس کی خارجہ پالیسی کی کامیابی کی دلیل ہیں۔

دہشتگردی کے حوالے سے ابھی امریکی صدر کی وارننگ پرانی نہیں ہوئی تھی کہ چین کے دارالحکومت بیجنگ میں برکس کے پانچ بڑے ملکوں روس، چین، بھارت، برازیل اور جنوبی افریقا کی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی جس کے اعلامیے میں پاکستان کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ دہشتگردوں کی تنظیموں، طالبان، لشکر طیبہ، جیش محمد، داعش اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ ان ملکوں کا الزام ہے کہ یہ تنظیمیں پاکستان میں کام کر رہی ہیں اور اس کے ٹھکانے پاکستان میں ہیں۔ بیجنگ کانفرنس میں شامل ان پانچ ملکوں کی آبادی دنیا کی کل آبادی کے لگ بھگ نصف ہے۔

بھارت ہمارا حریف ملک ہے لیکن چار دوسرے ملک جن میں ہمارا قریب ترین دوست ملک چین جس کی دوستی کو ہم پہاڑوں سے بلند اور سمندروں سے گہری کہتے ہیں ان پانچ ملکوں میں شامل ہے جنھوں نے ہمیں خبردار کیا ہے کہ ہم ان دہشتگرد تنظیموں کے خلاف سخت اقدامات کریں جن کے نام اوپر دیے گئے ہیں۔ پاکستان کی وزارت خارجہ نے برکس ممالک کے مشترکہ اعلامیے کو مسترد کر دیا ہے۔ بلاشبہ یہ نہ صرف جرأت مندانہ موقف ہے بلکہ ہماری خارجہ پالیسی میں آزادی کی جھلک کا مظہر بھی ہے لیکن کیا دنیا کی کل آبادی کے نصف پر مشتمل ان پانچ ملکوں کی رائے یا انتباہ کو جن میں چین اور روس بھی شامل ہیں مسترد کر کے عقل مندی کا مظاہرہ کر رہے ہیں؟

دہشتگردی اور دہشتگرد تنظیمیں خواہ وہ کسی نام سے کام کر رہی ہوں پاکستان ہی نہیں پوری دنیا اور صدیوں میں تشکیل پانے والی تہذیب کی دشمن ہیں اور ان کی یہ دشمنی اس قدر اندھی بہری اور گونگی ہے کہ نہ وہ اپنوں کو دیکھتی ہے نہ پرائیوں کو۔ 70 ہزار پاکستانیوں کے قتل کے ذمے دار چین روس بھارت برازیل اور جنوبی افریقا ہیں یا دہشتگرد تنظیمیں ہیں؟


بلاشبہ پاکستان کی مسلح افواج نے اپنی جانوں کی قربانیاں دے کر پاکستان میں دہشتگردی کو بڑی حد تک ختم کردیا ہے لیکن آج بھی صورتحال یہ ہے کہ آئے دن ملک کے کسی نہ کسی حصے میں خاص طور پر قبائلی نظام رکھنے والے صوبوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں حتیٰ کہ کراچی میں بھی دہشتگردی کی وارداتیں ہو رہی ہیں اور ہماری سیکیورٹی فورسز کے مطابق دہشتگردوں نے جامعہ کراچی کو اپنا مرکز بنا لیا تھا، اسی مرکز کے منصوبے کے تحت متحدہ کے رہنما اور قومی اسمبلی کے ممبر خواجہ اظہارالحسن پر قاتلانہ حملہ کیا گیا، جس میں وہ بال بال بچ گئے لیکن ایک سپاہی اور ایک راہ چلتا معصوم بچہ ان دہشتگردوں کی اندھی گولیوں کی زد میں آ کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان حقائق سے اندازہ ہوتا ہے کہ دہشتگردوں کا نیٹ ورک ابھی موجود بھی ہے فعال بھی ہے۔

دہشتگردی ایک اندھی بہری طاقت ہے۔ بیجنگ میں ہونے والی پانچ ملکوں کی کانفرنس نے اس حوالے سے یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ ''عالمی انسداد دہشتگردی اتحاد قائم کیا جائے اور اس کے خاتمے کے لیے مربوط جد وجہد کی جائے۔ 43 صفحات پر مشتمل اعلامیے میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ دہشتگردی کے خلاف جدوجہد اقوام متحدہ کے قانون کے مطابق جاری رہے۔ اس پانچ رکنی کانفرنس میں چین کے صدر کے علاوہ روس کے صدر ولادی میر پوتن، بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی، برازیل کے صدر مائیکل ٹیمر، جنوبی افریقا کے صدر جیکب زوما نے شرکت کی۔

ہمارا اجتماعی مسئلہ یہ ہے کہ ہم عشرے گزرنے کے بعد بھی دہشتگردی کے محرکات دہشتگردی کی عقائدی بنیادوں اور دہشتگردی کے مقاصد کا ادراک نہ کر سکے۔ اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم اندھیرے میں کالی بلی سے لڑ رہے ہیں۔

ہر انسان کی سب سے زیادہ عزیز چیز اس کی جان ہوتی ہے اور دہشتگردی کی خصوصیت یہ ہے کہ دہشتگردوں کے نزدیک دوسروں کی جان کے ساتھ ساتھ اپنی جان کی بھی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ ایک خودکش حملہ آور یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ خودکش حملے میں سب سے پہلے اس کی جان جائے گی لیکن وہ اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر بے دھڑکے دھماکے کرتا ہے اور اپنے جسم کے چیتھٹرے اڑا لیتا ہے۔

امریکا اپنی ڈیڑھ لاکھ فوج کے علاوہ نیٹو اتحادیوں کی بھاری فوج کے ساتھ دہشتگردی کے خاتمے کے لیے افغانستان میں جنگ کرتا رہا۔ اس جنگ میں اپنے فوجیوں کے بھاری نقصان کے علاوہ کھربوں ڈالر بھی پھونک دیے لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ اسے بڑی رسوائی کے ساتھ افغانستان سے نکلنا پڑا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈیڑھ لاکھ امریکی فوج دس سال میں جو کام نہ کر سکی وہ کام امریکا کے چند ہزار فوجی کر سکیں گے؟

دہشتگردوں سے لڑائی F-17، F-16 ٹینکوں، میزائلوں سے تو نہ جیت سکے کیونکہ فریق مخالف یہ لڑائی نظریاتی ہتھیاروں کے ذریعے لڑ رہا ہے۔ بے شک آپ عالمی سطح پر دہشتگردی کے خلاف اتحاد بنائیں جدید ترین ہتھیار حتیٰ کہ ایٹمی ہتھیار استعمال کریں آپ یہ جنگیں ہتھیاروں اور فوجیوں کے ساتھ نہیں جیت سکتے، اس جنگ کو جیتنے کے لیے آپ کو نظریاتی جنگ لڑنا پڑے گی اور یہ جنگ میدانوں، پہاڑوں، جنگلوں میں نہیں بلکہ میڈیا کے میدان، مسجدوں، مندروں، گرجاؤں اور تمام عبادت گاہوں میں لڑی جائے گی اور اس جنگ میں مولویوں، مولاناؤں، پنڈتوں، پجاریوں، پوپوں کو مرکزی کردار ادا کرنا ہو گا۔ اور لاعلم خودکش حملہ آوروں کو یہ بتانا ہو گا کہ خودکش حملہ آور جنت میں نہیں جہنم میں جائے گا، اس کے لواحقین در در کی ٹھوکریں کھاتے رہیںگے، ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا۔
Load Next Story