شکریہ ورلڈ الیون
اب آغاز ہو گیا لیکن تین میچز سے یہ نہ سمجھیں کہ ملک میں بس انٹرنیشنل کرکٹ واپس آ گئی
''پاکستان زندہ باد، دل دل پاکستان، جیتے گا بھئی جیتے گا پاکستان جیتے گا'' طویل عرصے بعد قذافی اسٹیڈیم لاہور ان نعروں سے گونج اٹھا، شائقین ورلڈ الیون کے ساتھ میچز سے بھرپور لطف اندوز ہوئے، تینوں میچز کا کامیابی سے انعقاد ہوا، بورڈ حکام کی محنت اپنی جگہ مگر اس میں سیکیورٹی ایجنسیز کو بھرپور کریڈٹ دینا ہوگا جنھوں نے غیرمعمولی انتظامات کرکے کھلاڑیوں اور شائقین کو محفوظ ماحول فراہم کیا، ہمیں ورلڈ الیون میں شامل ڈوپلیسی، آملا، بیلی، کولنگ ووڈ، ایلوئٹ، ملر، تمیم، سیمی، عمران و دیگر تمام کرکٹرز کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ وہ پاکستان آئے، یہ بات درست ہے کہ انھیں بھاری رقم دی گئی مگر پھر بھی اتنی منفی باتوں کے باوجود دورہ کرنا بڑی بات ہے۔
سونے میدان آباد کرنے پر شکریہ ورلڈ الیون
شائقین کے چہروں کی مسکراہٹ واپس لانے پر شکریہ ورلڈ الیون
پاکستان کا روشن چہرہ پیش کرنے پر شکریہ ورلڈ الیون
اب آغاز ہو گیا لیکن تین میچز سے یہ نہ سمجھیں کہ ملک میں بس انٹرنیشنل کرکٹ واپس آ گئی، ہمیں بڑی ٹیموں کا اعتماد جیتنے میں وقت لگے گا، جیسا آسٹریلوی چیف نے مستقبل قریب میں دورے کو خارج از امکان قرار دیا بعض دیگر ٹیموں کی بھی ایسی ہی سوچ ہو گی، سری لنکا نے ایک میچ کیلیے ٹور کا وعدہ کیا ہے، اسی ٹیم پر حملے نے ملک میں کرکٹ کے دروازے بند کیے، اب اگر وہ آ کر کھیلے تو اس کا ملکی کرکٹ کو خاصا فائدہ ہوگا، پھر ویسٹ انڈیز کی ٹیم بھی آ سکتی ہے، بس ضرورت اس امر کی ہے کہ سہل پسندی کا شکار نہ ہوا جائے، بہترین سیکیورٹی ہر میچ میں برقرار رکھیں تاکہ پھر کوئی معمولی سا بھی ناخوشگوار واقعہ نہ ہو۔
سیریز کا اچھے انداز میں انعقاد ہوا البتہ ابھی بعض معاملات میں بہتری کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، سیکیورٹی کے نام پر شائقین کو خاصی تکلیف اٹھانا پڑی،انھیں بار بار تلاشی کے مراحل سے گذرنا پڑا، اس کا کوئی حل تلاش کرنا ہوگا،6 جگہ کے بجائے 3 بار ہی ایسی تلاشی لیں کہ کسی مسئلے کا احتمال باقی نہ رہے، بورڈ چیف اعتراف کر چکے کہ ٹکٹوں کے نرخ زیادہ تھے اسی لیے پہلے میچ میں اسٹیڈیم مکمل نہ بھر سکا، یہ غلطی بھی سدھارنا ہو گی۔
میچز کے دوران لاہور کی بڑی جگہ پر دکانیں وغیرہ بند رہیں جس سے بھاری مالی نقصان ہوا یہ بھی ایک غور طلب مسئلہ ہے، روڈز بند کرنے سے عوام کو بھی دشواری ہوئی، یہ تمام باتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں حکام کو سوچنا چاہیے، اسی کے ساتھ اب دیگر شہروں میں بھی میچز رکھیں، کراچی میں کسی میچ کا انعقاد نہ کرنے سے احساس محرومی پھیلا، بورڈ کووہاں بھی مقابلوں کا انعقاد کرنا چاہیے۔
ہمیں دنیا کے سامنے پاکستان کو محفوظ ثابت کرنا ہے صرف لاہور کو نہیں، نجم سیٹھی نے ملک میں کرکٹ کی واپسی کا ٹاسک پورا کیا اب وہ کراچی میں بھی میچ کرانے کا اعلان کریں۔ ورلڈ الیون سے سیریز کارکردگی کے لحاظ سے بھی پاکستان کیلیے بہترین رہی، نوجوان کھلاڑیوں نے اپنے سے کہیں زیادہ تجربہ کار حریفوں کو مات دی،اچھی بات یہ ہے کہ چیمپئنز ٹرافی کی جیت کے تسلسل کو برقرار رکھا گیا، امید ہے کہ ٹیم آئندہ بھی مایوس نہیں کرے گی۔
آخر میں کچھ پی سی بی ایوارڈز تقریب کی بات کر لیں جو چوں چوں کا مربہ بن گئی، شاہد آفریدی، مصباح الحق اور یونس خان کو کافی عرصے سے الوداعی تقریب کی آس دلائی جا رہی تھی مگر بعد میں اس میں مزید کھلاڑی شامل ہو گئے، پھر اسے ایوارڈز تقریب میں بدل دیا گیا، نجم سیٹھی جس نجی چینل کے ساتھ وابستہ رہے اسے حقوق دے کر دیگر تمام میڈیا کو نظر انداز کر دیا گیا، اس ناروا سلوک پر صحافیوں کو پی سی بی کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہونا چاہیے، قذافی اسٹیڈیم میں انھیں ویسے ہی سائیڈ لائن کر دیا گیا ہے، اب تقریبات میں بھی نہیں بلایا جا رہا۔
میں تو خیر پہلے میچ کے بعد بدھ کی صبح کراچی واپس آ گیا تھا لیکن میں نے جب ایکسپریس کے رپورٹرز عباس رضا اور میاں اصغر سلیمی سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ کسی صحافی کو مدعو نہیں کیا گیا تھا، میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل ایوارڈز کی ووٹنگ اکیڈمی میں کئی برس پاکستان کی نمائندگی کرتا رہا، ماضی میں جب کبھی تقریبات سجائی گئیں آئی سی سی نے مقامی میڈیاکو ضرور مدعو کیا، ان کیلیے ایک الگ کمرہ مختص ہوتا تھا،لمحہ بہ لمحہ پریس ریلیز بھی جاری کی جاتیں مگر پاکستانی بورڈ نے اس کی زحمت گوارا نہ کی۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ نجم سیٹھی خود میڈیا کے آدمی ہیں مگر اس کی اہمیت نہیں سمجھ رہے، پہلے ٹی ٹوئنٹی کے موقع پر صحافیوں کے کھانے کی جگہ پر دوسرے لوگوں کا راج تھا، پریس کانفرنس کے موقع پرکئی بچے بھی بیٹھے تھے جو اختتام کے فوراً بعد سیلفیز کیلیے کھلاڑیوں تک پہنچ گئے، میڈیا کا ایریا صرف اسی کیلیے محدود ہونا چاہیے وہاں کسی اور کو آنے کی اجازت نہ دیں،اسی طرح سابق کرکٹرز کی ملک کیلیے بڑی خدمات ہیں ان سے اچھا سلوک کریں،آفریدی کے معاملے کو صحیح انداز سے نہیں سنبھالا گیا، وہ تو ٹھیک وقت پر بورڈ کو غلطی کا احساس ہو گیا ورنہ آخری میچ میں اگر وہ نہ آتے توبڑا تنازع کھڑا ہوتا۔
یونس خان حکام سے کئی باتوں پر خفا تھے اس لیے میچ دیکھنے نہیں آئے،آفریدی اور یونس کے ایوارڈز تقریب میں نہ آنے کا بورڈ نے شدید بُرا منایا اور نجم سیٹھی نے ان کے ایک، ایک کروڑ روپے ایدھی سینٹر کو دینے کا اعلان کر دیا، کسی سے بغیر پوچھے اس کا انعام چیریٹی میں دینا کوئی مناسب عمل نہیں، اگر وہ دونوں خود ایسا کرتے تو اچھا رہتا، صاف ظاہر تھا کہ اعلیٰ بورڈآفیشلز کو اپنی توہین پسند نہیں آئی جس کا حساب برابر کیا گیا، کرکٹ حکام اب ورلڈ الیون سے سیریز کے بعد اونچی ہواؤں میں نہ اڑیں بلکہ قدم زمین پر ہی رکھیں، اسی صورت مزیدکامیابیاں حاصل ہوںگی۔
قارئین آپ ٹویٹر پر بھی مجھے فالو کر سکتے ہیں،میرا تصدیق شدہ اکاؤنٹ @saleemkhaliqہے۔
سونے میدان آباد کرنے پر شکریہ ورلڈ الیون
شائقین کے چہروں کی مسکراہٹ واپس لانے پر شکریہ ورلڈ الیون
پاکستان کا روشن چہرہ پیش کرنے پر شکریہ ورلڈ الیون
اب آغاز ہو گیا لیکن تین میچز سے یہ نہ سمجھیں کہ ملک میں بس انٹرنیشنل کرکٹ واپس آ گئی، ہمیں بڑی ٹیموں کا اعتماد جیتنے میں وقت لگے گا، جیسا آسٹریلوی چیف نے مستقبل قریب میں دورے کو خارج از امکان قرار دیا بعض دیگر ٹیموں کی بھی ایسی ہی سوچ ہو گی، سری لنکا نے ایک میچ کیلیے ٹور کا وعدہ کیا ہے، اسی ٹیم پر حملے نے ملک میں کرکٹ کے دروازے بند کیے، اب اگر وہ آ کر کھیلے تو اس کا ملکی کرکٹ کو خاصا فائدہ ہوگا، پھر ویسٹ انڈیز کی ٹیم بھی آ سکتی ہے، بس ضرورت اس امر کی ہے کہ سہل پسندی کا شکار نہ ہوا جائے، بہترین سیکیورٹی ہر میچ میں برقرار رکھیں تاکہ پھر کوئی معمولی سا بھی ناخوشگوار واقعہ نہ ہو۔
سیریز کا اچھے انداز میں انعقاد ہوا البتہ ابھی بعض معاملات میں بہتری کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، سیکیورٹی کے نام پر شائقین کو خاصی تکلیف اٹھانا پڑی،انھیں بار بار تلاشی کے مراحل سے گذرنا پڑا، اس کا کوئی حل تلاش کرنا ہوگا،6 جگہ کے بجائے 3 بار ہی ایسی تلاشی لیں کہ کسی مسئلے کا احتمال باقی نہ رہے، بورڈ چیف اعتراف کر چکے کہ ٹکٹوں کے نرخ زیادہ تھے اسی لیے پہلے میچ میں اسٹیڈیم مکمل نہ بھر سکا، یہ غلطی بھی سدھارنا ہو گی۔
میچز کے دوران لاہور کی بڑی جگہ پر دکانیں وغیرہ بند رہیں جس سے بھاری مالی نقصان ہوا یہ بھی ایک غور طلب مسئلہ ہے، روڈز بند کرنے سے عوام کو بھی دشواری ہوئی، یہ تمام باتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں حکام کو سوچنا چاہیے، اسی کے ساتھ اب دیگر شہروں میں بھی میچز رکھیں، کراچی میں کسی میچ کا انعقاد نہ کرنے سے احساس محرومی پھیلا، بورڈ کووہاں بھی مقابلوں کا انعقاد کرنا چاہیے۔
ہمیں دنیا کے سامنے پاکستان کو محفوظ ثابت کرنا ہے صرف لاہور کو نہیں، نجم سیٹھی نے ملک میں کرکٹ کی واپسی کا ٹاسک پورا کیا اب وہ کراچی میں بھی میچ کرانے کا اعلان کریں۔ ورلڈ الیون سے سیریز کارکردگی کے لحاظ سے بھی پاکستان کیلیے بہترین رہی، نوجوان کھلاڑیوں نے اپنے سے کہیں زیادہ تجربہ کار حریفوں کو مات دی،اچھی بات یہ ہے کہ چیمپئنز ٹرافی کی جیت کے تسلسل کو برقرار رکھا گیا، امید ہے کہ ٹیم آئندہ بھی مایوس نہیں کرے گی۔
آخر میں کچھ پی سی بی ایوارڈز تقریب کی بات کر لیں جو چوں چوں کا مربہ بن گئی، شاہد آفریدی، مصباح الحق اور یونس خان کو کافی عرصے سے الوداعی تقریب کی آس دلائی جا رہی تھی مگر بعد میں اس میں مزید کھلاڑی شامل ہو گئے، پھر اسے ایوارڈز تقریب میں بدل دیا گیا، نجم سیٹھی جس نجی چینل کے ساتھ وابستہ رہے اسے حقوق دے کر دیگر تمام میڈیا کو نظر انداز کر دیا گیا، اس ناروا سلوک پر صحافیوں کو پی سی بی کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہونا چاہیے، قذافی اسٹیڈیم میں انھیں ویسے ہی سائیڈ لائن کر دیا گیا ہے، اب تقریبات میں بھی نہیں بلایا جا رہا۔
میں تو خیر پہلے میچ کے بعد بدھ کی صبح کراچی واپس آ گیا تھا لیکن میں نے جب ایکسپریس کے رپورٹرز عباس رضا اور میاں اصغر سلیمی سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ کسی صحافی کو مدعو نہیں کیا گیا تھا، میں انٹرنیشنل کرکٹ کونسل ایوارڈز کی ووٹنگ اکیڈمی میں کئی برس پاکستان کی نمائندگی کرتا رہا، ماضی میں جب کبھی تقریبات سجائی گئیں آئی سی سی نے مقامی میڈیاکو ضرور مدعو کیا، ان کیلیے ایک الگ کمرہ مختص ہوتا تھا،لمحہ بہ لمحہ پریس ریلیز بھی جاری کی جاتیں مگر پاکستانی بورڈ نے اس کی زحمت گوارا نہ کی۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ نجم سیٹھی خود میڈیا کے آدمی ہیں مگر اس کی اہمیت نہیں سمجھ رہے، پہلے ٹی ٹوئنٹی کے موقع پر صحافیوں کے کھانے کی جگہ پر دوسرے لوگوں کا راج تھا، پریس کانفرنس کے موقع پرکئی بچے بھی بیٹھے تھے جو اختتام کے فوراً بعد سیلفیز کیلیے کھلاڑیوں تک پہنچ گئے، میڈیا کا ایریا صرف اسی کیلیے محدود ہونا چاہیے وہاں کسی اور کو آنے کی اجازت نہ دیں،اسی طرح سابق کرکٹرز کی ملک کیلیے بڑی خدمات ہیں ان سے اچھا سلوک کریں،آفریدی کے معاملے کو صحیح انداز سے نہیں سنبھالا گیا، وہ تو ٹھیک وقت پر بورڈ کو غلطی کا احساس ہو گیا ورنہ آخری میچ میں اگر وہ نہ آتے توبڑا تنازع کھڑا ہوتا۔
یونس خان حکام سے کئی باتوں پر خفا تھے اس لیے میچ دیکھنے نہیں آئے،آفریدی اور یونس کے ایوارڈز تقریب میں نہ آنے کا بورڈ نے شدید بُرا منایا اور نجم سیٹھی نے ان کے ایک، ایک کروڑ روپے ایدھی سینٹر کو دینے کا اعلان کر دیا، کسی سے بغیر پوچھے اس کا انعام چیریٹی میں دینا کوئی مناسب عمل نہیں، اگر وہ دونوں خود ایسا کرتے تو اچھا رہتا، صاف ظاہر تھا کہ اعلیٰ بورڈآفیشلز کو اپنی توہین پسند نہیں آئی جس کا حساب برابر کیا گیا، کرکٹ حکام اب ورلڈ الیون سے سیریز کے بعد اونچی ہواؤں میں نہ اڑیں بلکہ قدم زمین پر ہی رکھیں، اسی صورت مزیدکامیابیاں حاصل ہوںگی۔
قارئین آپ ٹویٹر پر بھی مجھے فالو کر سکتے ہیں،میرا تصدیق شدہ اکاؤنٹ @saleemkhaliqہے۔