درختوں کے قتل پر ماں کا بَین
ان درختوں کو مغربی کنارے کے ایک گاؤں سالم میں اسرائیلی فوجیوں نے کاٹ ڈالا ہے۔
تصویر لکھنا کتنا مشکل اور دشوار ہوتا ہے۔ یہ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ میں تصویر لکھنے کو آسان کام سمجھتا تھا لیکن ایسا کرنے میں جان لب پر آجاتی ہے۔ ہوسکتا ہے آپ کے لیے تصویر لکھنا مشکل نہ ہو، پچپن میں بھی تو تصویر کہانی بچے لکھتے ہی تھے، خیر۔ لیکن میں نے کئی تصاویر کو لکھنے کی کوشش کی ہے۔
کیا تصویر بھی لکھی جاسکتی ہے؟ مجھے نہیں معلوم مگر میں نے یہ کوشش کی تھی۔ دراصل، یہ 28 نومبر 2003 کے اخبارات میں شایع ہونے والی ایک تصویر تھی، جسے میں نے پہلی مرتبہ لکھنے کی کوشش کی تھی۔
ایک ساٹھ سالہ فلسطینی خاتون ''محفوظہ عودے'' زیتون کے درخت کے تنے سے لپٹی زار و قطار رو رہی ہے۔ ان درختوں کو مغربی کنارے کے ایک گاؤں سالم میں اسرائیلی فوجیوں نے کاٹ ڈالا ہے۔ بس اتنی سی تو بات ہے اور کیا، اس میں ایسی کیا بات ہے جو لکھی جائے! جس پر پریشان ہوا جائے! درخت تھے کاٹ دیے گئے، بس اتنی سی بات! لیکن اس خاتون کا کیا کروں۔ اس کے سینے میں یقیناً ایک دھڑکتا ہوا دل ہے، احساس ہے، محبت اور پیار ہے، ایثار ہے، نہ جانے کیا کچھ ہے۔ ہاں ہمارے سینے کے پنجرے میں بھی ایک دل ہے۔ ہر ایک کے سینے میں ہوتا ہے۔ پَر ہوتا بھی ہے۔۔۔ ؟ پتا نہیں۔ کبھی آپ نے کوئی درخت لگایا ہے؟ نہیں ناں۔۔۔۔ ۔ بس اسی لیے اس درد کو آپ محسوس کرنے سے قاصر ہیں۔ میں کیا کرسکتا ہوں!
میں ایک دیہاتی ہوں۔ آبا و اجداد بھی دیہاتی تھے۔ پہاڑوں کا سینہ چیر کر اپنا راستہ بنانے والے۔ میں نے بہت درخت اگتے ہوئے دیکھے ہیں۔ مجھے یاد ہے میری رضاعی ماں نے گاؤں میں کچھ اخروٹ کے درخت لگائے تھے۔ کبھی کبھی یوں لگتا تھا، وہ ہم سب سے زیادہ ان اخروٹ کے درختوں سے پیار کرتی تھیں۔ میں کئی مرتبہ ان کے ساتھ ان درختوں سے ملنے گیا ہوں۔ صبح سویرے اس وقت بھی جب پہاڑوں نے برف کی چادر اوڑھی ہوئی ہوتی تھی، جسم میں لہو کو جما دینے والی سردی میں بھی وہ درختوں سے ملنے جاتی تھیں۔ ان کا دن درختوں سے ملاقات سے شروع ہوکر رات کو الوداع پر ختم ہوتا تھا۔ میں دیکھتا تھا، وہ کس محبت سے ان کے تنوں پر ہاتھ پھیرتی تھیں۔ انھیں پانی دیتی تھیں، اور تو اور میں نے انھیں ان بے زبان درختوں سے باتیں کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ وہ جب پشتو میں ان سے کہا کرتیں : ''میں آگئی ہوں۔ رات کیسی گزری؟ اوہو، بہت سردی تھی ناں۔ ہاں ہاں پھر کیا کِیا تم نے۔ اچھا! چلو بہت اچھا کیا۔ ابھی تم چھوٹے ہو۔ جب بڑے ہوجاؤ گے تب یہ سردی تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکے گی۔ میں ہوں نا۔ میرے ہوتے ہوئے تمہارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔''
پھر وہ مجھے آواز دیتیں: زمَا گُلا ( میرے پھول) جلدی کرو۔ پانی کی بالٹی لاؤ، انھیں پیاس لگی ہے۔
پھر وہ اپنے ہاتھوں کا پیالا بناکر انھیں پانی دیتیں۔ وہ انھیں ڈانٹتی بھی تھیں، تم بہت نکمّے ہو، دیکھو تمہارا بھائی کتنا صحت مند ہے اور تم! کیا کروگے آگے! اپنا خیال رکھا کرو، نہیں تو میں تمہیں ٹھیک کردوں گی۔
انھیں پانی دے کر ان کے گرے ہوئی سوکھے پتے جھاڑو سے صاف کرکے پھر وہ انھیں کہتیں : '' میں اب جارہی ہوں۔ اپنا خیال رکھنا۔ دوپہر میں آؤں گی۔ خدائے پہ امان، ''خدا کے حوالے''
ایک دن گھر لوٹتے ہوئے میں نے پوچھا : ماں، تم ان سے کیوں باتیں کرتی ہو، یہ سنتے ہیں کیا۔۔۔ ؟
وہ بہت ہنسیں اور پھر بولیں: کیوں، تمہیں ان کی آواز نہیں آتی؟
میں نے کہا: نہیں تو، مجھے تو کچھ سنائی نہیں دیتا۔
وہ پھر ہنسیں اور کہنے لگیں تمہارے دل کے کان بند ہیں ناں۔ اس لیے تمہیں ان کی آواز سنائی نہیں دیتی۔
کیا دل کے کان بھی ہوتے ہیں؟
وہ پھر ہنسیں اور بولیں: ہاں، کیوں نہیں ہوتے۔ دل کی تو آنکھیں بھی ہوتی ہیں۔ دل تو بات بھی کرتا ہے۔ مجھے ان کا غصہ یاد آگیا جب میں ان کی بات نہیں سنتا تھا تو وہ کہتیں، میری یہ بات دل کے کانوں سے سن لے۔
ماں دل کی بات کیسے سن سکتے ہیں؟
تب وہ بہت سنجیدہ ہوجاتیں اور پھر میں سنتا: ہاں یہ تعلق سے پیدا ہوتی ہے۔ وابستگی سے پیدا ہوتی ہے جس سے تمہارا تعلق جتنا گہرا ہوگا اس کی ہر بات بغیر کہے بھی تم تک پہنچے گی۔ اسے کہنے کی ضرورت نہیں ہوگی، بالکل اسی طرح میرا ان درختوں سے تعلق ہے۔ تجھے پتا ہے میں انھیں اپنے بچوں کی طرح چاہتی ہوں۔ میں ان کا خیال اسی طرح رکھتی ہوں جس طرح اپنے بچوں کا رکھتی ہوں بل کہ ان سے بھی زیادہ۔ اس لیے کہ بچے تو گھر میں ہوتے ہیں اور یہ بے چارے سردی میں، گرمی میں، دھوپ میں باہر کھڑے رہتے ہیں۔ تمہیں پتا ہے، میرے اختیار میں نہیں ہے، ورنہ میں انھیں کپڑے بھی بناکر دوں، یہ میرے بیٹے ہیں اور بیٹے کسے پیارے نہیں ہوتے۔ یہ بے زبان نہیں ہیں، یہ بے حس نہیں ہیں۔ یہ محسوس کرتے ہیں، بُرا مانتے ہیں۔ روٹھ جاتے ہیں۔ تُونے دیکھا نہیں، کتنے درخت ایسے ہوتے ہیں اگر آپ ان کی دیکھ بھال نہ کریں تو وہ سوکھ جاتے ہیں۔ درخت کا سوکھنا ان کا روٹھنا ہی تو ہوتا ہے۔ یہ بہت لاڈ پیار مانگتے ہیں۔ بہت زیادہ لاڈلے بچے کی طرح۔
میری ماں پاگل ہے۔ میں مسکرایا، ایسی عورت جس نے کبھی کسی مکتب کی شکل بھی نہیں دیکھی، کتاب کو چُھوا تک نہیں۔ ایک دیہاتی عورت۔ پتا نہیں کیا کیا باتیں کرتی تھیں۔
مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب مجھے اطلاع ملی، ماں بیمار ہوگئی ہے، بہت بیمار۔ میں گاؤں پہنچا اور سیدھا ماں کی چارپائی پر جاکر دم لیا۔ انھوں نے آنکھیں کھولیں: تُو آگیا، اتنی سردی میں!
نہیں ماں، کوئی سردی نہیں ہے۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ آپ کو کیا ہوا۔۔۔ ؟
کچھ بھی نہیں، بس ذرا ٹھنڈ لگ گئی ہے۔
میرے دودھ شریک بھائی اکا خان نے مداخلت کی: اتنی برف باری میں بھی یہ اتنی دور اخروٹ کے درختوں کے پاس جاتی ہیں۔ لاکھ سمجھایا پر نہیں سمجھتیں، تم ہی انھیں سمجھاؤ۔ تم سے بہت محبت کرتی ہیں، ہم سب سے زیادہ۔ تم ضد کروگے تو مان جائیں گی۔
میں نے ماں کو دیکھا۔ میری آنکھیں برس پڑیں تو وہ اٹھ بیٹھیں: کیا ہوا تجھے مجھے بتا۔ کچھ نہیں ماں! کچھ بھی نہیں، بس ویسے ہی۔
پتا نہیں کیوں مجھے ایسا لگا ماں کی روانگی ہے۔ میں خاموش تھا۔ مجھے اس دن تجربہ ہوا آدمی چُپ بھی رہے تو آنکھیں بول پڑتی ہیں۔
گاؤں آئے ہوئے وہ میرا پانچواں دن تھا۔ اتنی بیماری میں بھی میں انھیں درختوں کے پاس لے کر جاتا رہا۔ میں نے انھیں منع نہیں کیا۔ ایک دن اکاخان پھر بولا: پہلے اکیلی تھیں، اب دونوں ہیں۔ کوئی انھیں نہیں سمجھا سکتا، بالکل پاگل ہیں یہ۔ سنو خانے تم اپنا خیال بھی رکھنا، یہ شہر نہیں ہے، برف باری میں بیمار ہوجاؤ گے۔
آخر وہ الم ناک کڑی آپہنچی۔ علی الصباح جب میں اور ماں درختوں سے مل کر واپس آرہے تھے، میں ماں کو سہارا دے کر لارہا تھا، ان کا ہاتھ میرے کاندھے پر تھا۔ نقاہت سے ان کا چلنا دُوبھر ہوگیا تو وہ بولیں: گُلا تھوڑی دیر آرام کرلیں پھر چلتے ہیں۔
میں نے کہا: ہاں، ہاں، کیوں نہیں ماں، بالکل۔
ہم دونوں ایک بڑی سی چٹان پر بیٹھ گئے۔ میں نے دیکھا ان کی نگاہیں انہی اخروٹ کے درختوں کی سمت لگی ہوئی تھیں۔
ایک بات کہوں، وہ بولیں۔
ہاں ماں! بالکل کہو، کیا بات ہے۔
دیکھ، لگتا ہے وقتِ آخر آگیا ہے۔
ماں، یہ کیا کہہ رہی ہو۔۔۔ ؟ میں تڑپ اٹھا، کیوں کیا ہوا۔۔۔۔ ؟
کچھ نہیں گُلا۔ بس دانہ پانی پورا ہوگیا۔ لیکن سُن، میں مر جاؤں تو ان درختوں کے درمیان مجھے دفن کردینا۔
میری چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ میں گم صم بیٹھا رہا۔ میں اپنی کیفیت بیان نہیں کرسکتا۔ مجھ سے تو یہ ساری بات لکھی بھی نہیں جاتی۔
دوپہر تک ان کی طبیعت خراب ہوگئی تھی پھر آخری بات انھوں نے کی: میرے بے زبان بچوں کا خیال رکھنا، ورنہ قیامت میں گریبان پکڑلوں گی، سمجھے۔
ایک پٹھان عورت کی آخری دھمکی۔ ہاں ماں، ضرور رکھیں گے۔
اور مجھے ان درختوں کے درمیان قبر چاہیے۔
اکا خان بولا: ماں کیوں۔۔۔۔ ؟
اس لیے کہ بیٹوں کے درمیان ماں محفوظ ہوتی ہے۔
اخروٹ کے وہ درخت ان کی زندگی ہی میں پھل دینے لگے تھے۔ میرے حصے کے پھل کراچی پہنچتے تھے، اب بھی پہنچتے ہیں۔ میں جب بھی گاؤں جاتا ہوں، سب سے پہلے وہیں جاتا ہوں۔ یوں لگتا ہے جب تک درخت زندہ ہیں میری ماں زندہ رہے گی۔ میں نے کئی مرتبہ ان کی آواز سنی ہے جیسے کہہ رہی ہوں، دیکھو زندگی میں تم نے خدمت کی۔ یہ مرنے کے بعد بھی میری خدمت کررہے ہیں۔ کبھی اکیلا نہیں رہنے دیتے۔
مجھے اس فلسطینی خاتون میں اپنی ماں نظر آتی ہے جو درختوں سے لپٹ کر رو رہی ہے۔ میں کیا کروں مجھے بتائیے، ہمیشہ فضول سی باتیں لے کر بیٹھ جاتا ہوں۔ آپ کو تو اور بھی بہت سے کام ہوتے ہیں۔ مجھے کوئی کام نہیں۔ میں بس یہی سوچتا رہتا ہوں۔
سوچتا ہوں دنیا کے اتنے بڑے بڑے دانش ور بھی خاموشی کی چادر میں لپٹ گئے ہیں۔ کوئی نہیں بولتا۔ نہ گرین پیس والے، نہ ماحولیات والے، نہ انسانیت کے علم بردار، وہ تو انسانوں کے قتل عام پر خاموش ہیں، درختوں کے قتل پر کون بولے! یہ سب بڑے زیرک اور دانش مند ہیں جب ہی تو خاموش ہیں۔ میری ماں دیہاتی تھی۔ وہ بولتی تھی۔ اس نے جو سبق بچپن میں پڑھایا وہ دنیا کی کسی درس گاہ میں نہیں پڑھایا جاتا۔
میرا قلم جواب دے رہا ہے، میں آگے نہیں چل سکتا۔ حالات نہیں بدلے، ہاں جگہیں ضرور بدل جاتی ہیں۔ کبھی بوسنیا، فلسطین، شام، عراق، کردستان، یمن، بحرین اور کبھی برما۔ کبھی ویت نام۔ کبھی ناگاساکی اور ہیروشیما۔ کبھی کیوبا، چلی، نکاراگوا اور ارجنٹائن، کبھی کانگو، جنوبی افریقا، روانڈا اور صومالیہ، کبھی چیکوسلواکیا اور پولینڈ، درختوں کے ساتھ، فصلوں کے ساتھ ان کے پالنے والے بھی فنا کردیے جاتے ہیں۔
اجازت چاہتا ہوں بس آخری بات کے ساتھ اس پُرانی تصویر کو بہ غور دیکھیے، محسوس کیجیے، آپ کو زیتون کے درختوں اور انھیں بیٹوں کی طرح پالنے، پوسنے اور پیار کرنے والی مظلوم ماں کی چیخیں سنائی نہیں دے رہیں! اگر سنائی دے رہی ہیں تو پھر آپ کی آواز کہاں گم ہوگئی ہے۔۔۔۔۔۔ ؟
کیا تصویر بھی لکھی جاسکتی ہے؟ مجھے نہیں معلوم مگر میں نے یہ کوشش کی تھی۔ دراصل، یہ 28 نومبر 2003 کے اخبارات میں شایع ہونے والی ایک تصویر تھی، جسے میں نے پہلی مرتبہ لکھنے کی کوشش کی تھی۔
ایک ساٹھ سالہ فلسطینی خاتون ''محفوظہ عودے'' زیتون کے درخت کے تنے سے لپٹی زار و قطار رو رہی ہے۔ ان درختوں کو مغربی کنارے کے ایک گاؤں سالم میں اسرائیلی فوجیوں نے کاٹ ڈالا ہے۔ بس اتنی سی تو بات ہے اور کیا، اس میں ایسی کیا بات ہے جو لکھی جائے! جس پر پریشان ہوا جائے! درخت تھے کاٹ دیے گئے، بس اتنی سی بات! لیکن اس خاتون کا کیا کروں۔ اس کے سینے میں یقیناً ایک دھڑکتا ہوا دل ہے، احساس ہے، محبت اور پیار ہے، ایثار ہے، نہ جانے کیا کچھ ہے۔ ہاں ہمارے سینے کے پنجرے میں بھی ایک دل ہے۔ ہر ایک کے سینے میں ہوتا ہے۔ پَر ہوتا بھی ہے۔۔۔ ؟ پتا نہیں۔ کبھی آپ نے کوئی درخت لگایا ہے؟ نہیں ناں۔۔۔۔ ۔ بس اسی لیے اس درد کو آپ محسوس کرنے سے قاصر ہیں۔ میں کیا کرسکتا ہوں!
میں ایک دیہاتی ہوں۔ آبا و اجداد بھی دیہاتی تھے۔ پہاڑوں کا سینہ چیر کر اپنا راستہ بنانے والے۔ میں نے بہت درخت اگتے ہوئے دیکھے ہیں۔ مجھے یاد ہے میری رضاعی ماں نے گاؤں میں کچھ اخروٹ کے درخت لگائے تھے۔ کبھی کبھی یوں لگتا تھا، وہ ہم سب سے زیادہ ان اخروٹ کے درختوں سے پیار کرتی تھیں۔ میں کئی مرتبہ ان کے ساتھ ان درختوں سے ملنے گیا ہوں۔ صبح سویرے اس وقت بھی جب پہاڑوں نے برف کی چادر اوڑھی ہوئی ہوتی تھی، جسم میں لہو کو جما دینے والی سردی میں بھی وہ درختوں سے ملنے جاتی تھیں۔ ان کا دن درختوں سے ملاقات سے شروع ہوکر رات کو الوداع پر ختم ہوتا تھا۔ میں دیکھتا تھا، وہ کس محبت سے ان کے تنوں پر ہاتھ پھیرتی تھیں۔ انھیں پانی دیتی تھیں، اور تو اور میں نے انھیں ان بے زبان درختوں سے باتیں کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ وہ جب پشتو میں ان سے کہا کرتیں : ''میں آگئی ہوں۔ رات کیسی گزری؟ اوہو، بہت سردی تھی ناں۔ ہاں ہاں پھر کیا کِیا تم نے۔ اچھا! چلو بہت اچھا کیا۔ ابھی تم چھوٹے ہو۔ جب بڑے ہوجاؤ گے تب یہ سردی تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکے گی۔ میں ہوں نا۔ میرے ہوتے ہوئے تمہارا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔''
پھر وہ مجھے آواز دیتیں: زمَا گُلا ( میرے پھول) جلدی کرو۔ پانی کی بالٹی لاؤ، انھیں پیاس لگی ہے۔
پھر وہ اپنے ہاتھوں کا پیالا بناکر انھیں پانی دیتیں۔ وہ انھیں ڈانٹتی بھی تھیں، تم بہت نکمّے ہو، دیکھو تمہارا بھائی کتنا صحت مند ہے اور تم! کیا کروگے آگے! اپنا خیال رکھا کرو، نہیں تو میں تمہیں ٹھیک کردوں گی۔
انھیں پانی دے کر ان کے گرے ہوئی سوکھے پتے جھاڑو سے صاف کرکے پھر وہ انھیں کہتیں : '' میں اب جارہی ہوں۔ اپنا خیال رکھنا۔ دوپہر میں آؤں گی۔ خدائے پہ امان، ''خدا کے حوالے''
ایک دن گھر لوٹتے ہوئے میں نے پوچھا : ماں، تم ان سے کیوں باتیں کرتی ہو، یہ سنتے ہیں کیا۔۔۔ ؟
وہ بہت ہنسیں اور پھر بولیں: کیوں، تمہیں ان کی آواز نہیں آتی؟
میں نے کہا: نہیں تو، مجھے تو کچھ سنائی نہیں دیتا۔
وہ پھر ہنسیں اور کہنے لگیں تمہارے دل کے کان بند ہیں ناں۔ اس لیے تمہیں ان کی آواز سنائی نہیں دیتی۔
کیا دل کے کان بھی ہوتے ہیں؟
وہ پھر ہنسیں اور بولیں: ہاں، کیوں نہیں ہوتے۔ دل کی تو آنکھیں بھی ہوتی ہیں۔ دل تو بات بھی کرتا ہے۔ مجھے ان کا غصہ یاد آگیا جب میں ان کی بات نہیں سنتا تھا تو وہ کہتیں، میری یہ بات دل کے کانوں سے سن لے۔
ماں دل کی بات کیسے سن سکتے ہیں؟
تب وہ بہت سنجیدہ ہوجاتیں اور پھر میں سنتا: ہاں یہ تعلق سے پیدا ہوتی ہے۔ وابستگی سے پیدا ہوتی ہے جس سے تمہارا تعلق جتنا گہرا ہوگا اس کی ہر بات بغیر کہے بھی تم تک پہنچے گی۔ اسے کہنے کی ضرورت نہیں ہوگی، بالکل اسی طرح میرا ان درختوں سے تعلق ہے۔ تجھے پتا ہے میں انھیں اپنے بچوں کی طرح چاہتی ہوں۔ میں ان کا خیال اسی طرح رکھتی ہوں جس طرح اپنے بچوں کا رکھتی ہوں بل کہ ان سے بھی زیادہ۔ اس لیے کہ بچے تو گھر میں ہوتے ہیں اور یہ بے چارے سردی میں، گرمی میں، دھوپ میں باہر کھڑے رہتے ہیں۔ تمہیں پتا ہے، میرے اختیار میں نہیں ہے، ورنہ میں انھیں کپڑے بھی بناکر دوں، یہ میرے بیٹے ہیں اور بیٹے کسے پیارے نہیں ہوتے۔ یہ بے زبان نہیں ہیں، یہ بے حس نہیں ہیں۔ یہ محسوس کرتے ہیں، بُرا مانتے ہیں۔ روٹھ جاتے ہیں۔ تُونے دیکھا نہیں، کتنے درخت ایسے ہوتے ہیں اگر آپ ان کی دیکھ بھال نہ کریں تو وہ سوکھ جاتے ہیں۔ درخت کا سوکھنا ان کا روٹھنا ہی تو ہوتا ہے۔ یہ بہت لاڈ پیار مانگتے ہیں۔ بہت زیادہ لاڈلے بچے کی طرح۔
میری ماں پاگل ہے۔ میں مسکرایا، ایسی عورت جس نے کبھی کسی مکتب کی شکل بھی نہیں دیکھی، کتاب کو چُھوا تک نہیں۔ ایک دیہاتی عورت۔ پتا نہیں کیا کیا باتیں کرتی تھیں۔
مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب مجھے اطلاع ملی، ماں بیمار ہوگئی ہے، بہت بیمار۔ میں گاؤں پہنچا اور سیدھا ماں کی چارپائی پر جاکر دم لیا۔ انھوں نے آنکھیں کھولیں: تُو آگیا، اتنی سردی میں!
نہیں ماں، کوئی سردی نہیں ہے۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ آپ کو کیا ہوا۔۔۔ ؟
کچھ بھی نہیں، بس ذرا ٹھنڈ لگ گئی ہے۔
میرے دودھ شریک بھائی اکا خان نے مداخلت کی: اتنی برف باری میں بھی یہ اتنی دور اخروٹ کے درختوں کے پاس جاتی ہیں۔ لاکھ سمجھایا پر نہیں سمجھتیں، تم ہی انھیں سمجھاؤ۔ تم سے بہت محبت کرتی ہیں، ہم سب سے زیادہ۔ تم ضد کروگے تو مان جائیں گی۔
میں نے ماں کو دیکھا۔ میری آنکھیں برس پڑیں تو وہ اٹھ بیٹھیں: کیا ہوا تجھے مجھے بتا۔ کچھ نہیں ماں! کچھ بھی نہیں، بس ویسے ہی۔
پتا نہیں کیوں مجھے ایسا لگا ماں کی روانگی ہے۔ میں خاموش تھا۔ مجھے اس دن تجربہ ہوا آدمی چُپ بھی رہے تو آنکھیں بول پڑتی ہیں۔
گاؤں آئے ہوئے وہ میرا پانچواں دن تھا۔ اتنی بیماری میں بھی میں انھیں درختوں کے پاس لے کر جاتا رہا۔ میں نے انھیں منع نہیں کیا۔ ایک دن اکاخان پھر بولا: پہلے اکیلی تھیں، اب دونوں ہیں۔ کوئی انھیں نہیں سمجھا سکتا، بالکل پاگل ہیں یہ۔ سنو خانے تم اپنا خیال بھی رکھنا، یہ شہر نہیں ہے، برف باری میں بیمار ہوجاؤ گے۔
آخر وہ الم ناک کڑی آپہنچی۔ علی الصباح جب میں اور ماں درختوں سے مل کر واپس آرہے تھے، میں ماں کو سہارا دے کر لارہا تھا، ان کا ہاتھ میرے کاندھے پر تھا۔ نقاہت سے ان کا چلنا دُوبھر ہوگیا تو وہ بولیں: گُلا تھوڑی دیر آرام کرلیں پھر چلتے ہیں۔
میں نے کہا: ہاں، ہاں، کیوں نہیں ماں، بالکل۔
ہم دونوں ایک بڑی سی چٹان پر بیٹھ گئے۔ میں نے دیکھا ان کی نگاہیں انہی اخروٹ کے درختوں کی سمت لگی ہوئی تھیں۔
ایک بات کہوں، وہ بولیں۔
ہاں ماں! بالکل کہو، کیا بات ہے۔
دیکھ، لگتا ہے وقتِ آخر آگیا ہے۔
ماں، یہ کیا کہہ رہی ہو۔۔۔ ؟ میں تڑپ اٹھا، کیوں کیا ہوا۔۔۔۔ ؟
کچھ نہیں گُلا۔ بس دانہ پانی پورا ہوگیا۔ لیکن سُن، میں مر جاؤں تو ان درختوں کے درمیان مجھے دفن کردینا۔
میری چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ میں گم صم بیٹھا رہا۔ میں اپنی کیفیت بیان نہیں کرسکتا۔ مجھ سے تو یہ ساری بات لکھی بھی نہیں جاتی۔
دوپہر تک ان کی طبیعت خراب ہوگئی تھی پھر آخری بات انھوں نے کی: میرے بے زبان بچوں کا خیال رکھنا، ورنہ قیامت میں گریبان پکڑلوں گی، سمجھے۔
ایک پٹھان عورت کی آخری دھمکی۔ ہاں ماں، ضرور رکھیں گے۔
اور مجھے ان درختوں کے درمیان قبر چاہیے۔
اکا خان بولا: ماں کیوں۔۔۔۔ ؟
اس لیے کہ بیٹوں کے درمیان ماں محفوظ ہوتی ہے۔
اخروٹ کے وہ درخت ان کی زندگی ہی میں پھل دینے لگے تھے۔ میرے حصے کے پھل کراچی پہنچتے تھے، اب بھی پہنچتے ہیں۔ میں جب بھی گاؤں جاتا ہوں، سب سے پہلے وہیں جاتا ہوں۔ یوں لگتا ہے جب تک درخت زندہ ہیں میری ماں زندہ رہے گی۔ میں نے کئی مرتبہ ان کی آواز سنی ہے جیسے کہہ رہی ہوں، دیکھو زندگی میں تم نے خدمت کی۔ یہ مرنے کے بعد بھی میری خدمت کررہے ہیں۔ کبھی اکیلا نہیں رہنے دیتے۔
مجھے اس فلسطینی خاتون میں اپنی ماں نظر آتی ہے جو درختوں سے لپٹ کر رو رہی ہے۔ میں کیا کروں مجھے بتائیے، ہمیشہ فضول سی باتیں لے کر بیٹھ جاتا ہوں۔ آپ کو تو اور بھی بہت سے کام ہوتے ہیں۔ مجھے کوئی کام نہیں۔ میں بس یہی سوچتا رہتا ہوں۔
سوچتا ہوں دنیا کے اتنے بڑے بڑے دانش ور بھی خاموشی کی چادر میں لپٹ گئے ہیں۔ کوئی نہیں بولتا۔ نہ گرین پیس والے، نہ ماحولیات والے، نہ انسانیت کے علم بردار، وہ تو انسانوں کے قتل عام پر خاموش ہیں، درختوں کے قتل پر کون بولے! یہ سب بڑے زیرک اور دانش مند ہیں جب ہی تو خاموش ہیں۔ میری ماں دیہاتی تھی۔ وہ بولتی تھی۔ اس نے جو سبق بچپن میں پڑھایا وہ دنیا کی کسی درس گاہ میں نہیں پڑھایا جاتا۔
میرا قلم جواب دے رہا ہے، میں آگے نہیں چل سکتا۔ حالات نہیں بدلے، ہاں جگہیں ضرور بدل جاتی ہیں۔ کبھی بوسنیا، فلسطین، شام، عراق، کردستان، یمن، بحرین اور کبھی برما۔ کبھی ویت نام۔ کبھی ناگاساکی اور ہیروشیما۔ کبھی کیوبا، چلی، نکاراگوا اور ارجنٹائن، کبھی کانگو، جنوبی افریقا، روانڈا اور صومالیہ، کبھی چیکوسلواکیا اور پولینڈ، درختوں کے ساتھ، فصلوں کے ساتھ ان کے پالنے والے بھی فنا کردیے جاتے ہیں۔
اجازت چاہتا ہوں بس آخری بات کے ساتھ اس پُرانی تصویر کو بہ غور دیکھیے، محسوس کیجیے، آپ کو زیتون کے درختوں اور انھیں بیٹوں کی طرح پالنے، پوسنے اور پیار کرنے والی مظلوم ماں کی چیخیں سنائی نہیں دے رہیں! اگر سنائی دے رہی ہیں تو پھر آپ کی آواز کہاں گم ہوگئی ہے۔۔۔۔۔۔ ؟