ہم کیا جواب دیں
ہمارا یہی وہ رویہ ہے جس نے ہماری اقلیتوں کو دل برداشتہ کردیا ہے
اخباروں میں کارٹون اور کیری کیچر شائع ہونے کا سلسلہ اٹھارویں صدی سے شروع ہوا تھا۔ ہندوستان میں انگریزی صحافت کے ابتدائی زمانے میں کارٹون بنانے والوں کا ہدف ایسٹ انڈیا کمپنی کے بڑے افسران ہوتے تھے جب کہ بعد میں براہ راست برطانوی راج، کارٹون بنانے والوں کے قلم کی زد میں آگیا۔ ہمیں انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے آغاز میں ایسے متعدد کارٹون ملتے ہیں جو برطانوی حکومت کے ظلم اور ناانصافی کا مذاق اڑاتے ہیں۔
40ء کی دہائی میں ہندوستان ٹائمز کے متعدد کارٹون ہمیں چند لکیروں سے اس عہد کی ناانصافیوں کی کہانی سنا دیتے ہیں۔ کارٹونوں نے سیاسی میدان میں لوگوں کا شعور بیدار کرنے میں بہت مؤثر کردار ادا کیا۔ ہندوستان کے مقامی اخباروں میں یہ روایت سب سے پہلے منشی نول کشور کے اخبار ''اودھ اخبار'' نے اختیار کی جس کی پیروی بعد میں سجاد حسین کے ''اودھ پنچ'' نے کی۔اسی کے فوراً بعد انگریزی اخبار 'ہندوستان ٹائمز' میں بڑے کٹیلے کارٹون شائع ہونے لگے۔
بہ طور خاص 40ء سے 45ء کے دوران قحط بنگال جس میں محتاط اندازے کے مطابق 30 لاکھ سے زیادہ انسان فاقوں کے سبب ہلاک ہوگئے تھے، دوسری جنگ عظیم کے اخراجات پورے کرنے کے لیے عوام پر لگائے جانے والے کمر توڑ ٹیکس اور دوسری جنگ عظیم کے دوران ہندوستانی نوجوانوں کی فوج میں بھرتی ایسے معاملات پر شائع ہونے والے کارٹون آج بھی برصغیر کی مختلف لائبریریوں میں موجود ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد یہ سلسلہ چلتا رہا اور اب بھی چل رہا ہے۔
روزنامہ 'ایکسپریس ٹریبیون' کے کارٹونسٹ صابر نذر خوش رہیں، ان کے قلم کی طاقت میں اضافہ ہو، روزانہ حکمرانوں کو اور ہمیں آئینہ دکھاتے رہتے ہیں۔ اب سے پہلے وائی ایل اور فیکا نے ضیاء الحق کی جمہوریت دشمنی اور دہشتگردی کے خلاف اپنی لکیروں سے کیسی جنگ لڑی تھی۔ چند ٹیڑھی میڑھی لکیریں جو خنجر بن کر سینے میں اتر جاتی تھیں۔
اس وقت ہمارے یہاں بیشتر سیاسی جماعتیں بہ طور خاص وہ جماعتیں جو مذہب کے نام پر سیاست کرتی ہیں، انھوں نے روہنگیاؤں پر ہونیوالے ظلم و ستم کے بارے میں جلسے، جلوس اور دھرنوں کا ایک پُرشور سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ یہ ایک اچھی بات ہے کہ وہ دنیا میں ہونیوالے مظلوموں کے بارے میں اپنی آواز بلند کرتی ہیں۔ اس بارے میں 13 ستمبر کے ''ایکسپریس ٹریبیون'' میں صابر نذر کا ایک کاٹ دار کارٹون شائع ہوا ہے۔
ایک دراز ریش بزرگ ہیں جو نعرہ لگا رہے ہیں کہ ''فلسطین اور کشمیر میں قتل عام بند کرو'' وہی بزرگ پھر کف در دہن نظر آتے ہیں اور دونوں مٹھیاں بھینچ کر نعرہ بلند کررہے ہیں کہ ''روہنگیا کا ذبح عظیم بند کرو۔'' ان ہی بزرگ کے تیسرے کارٹون میں دکھایا گیا ہے کہ ان کے ہونٹوں پر اسکاچ ٹیپ لگا ہوا ہے اور ان کے قدموں میں ایک اخبار کا صفحہ پڑا ہوا ہے جس پر جلی الفاظ میں لکھا ہے کہ ''4 ہزارہ شیعہ کوئٹہ میں گولیوں سے چھلنی کر دیے گئے۔'' صابر نذر کا یہ کارٹون ہم سب کی بے حسی اور اپنے گھر کے المناک معاملات سے لا تعلقی کا کھلا اظہار ہے۔ ان بیگناہ مقتولین میں سے ایک بارہ برس کا بچہ بھی تھا۔
یہ لوگ پاکستان کے شہری تھے اور کوئٹہ سے 30 میل کی دوری پر ایک قصبے کچلاک میں اندھا دھند فائرنگ کر کے قتل کر دیے گئے۔ یہ خاندان سفر کررہا تھا اور پیٹرول پمپ پر رکا تھا، اس مختصر قیام کا مقصد ایندھن لینا اور قدرے آرام کرنا تھا۔ اس قافلے میں دو عورتیں بھی سفر کررہی تھیں۔ گاڑی رکی ہوئی تھی جب موٹر سائیکل پر سوار دو شکاری آئے اور آٹو میٹک اسلحے سے ہونے والی اندھا دھند فائرنگ کرکے وہاں سے نکل گئے، ہلاک شدگان اسی روز افغانستان سے براستہ چمن پہنچے تھے۔ منزل ان کی عدم آباد تھی اور وہیں وہ پہنچا دیے گئے۔
اس وحشیانہ قتل پر ان لوگوں نے کوئی احتجاج نہیں کیا جو صبح و شام ہزاروں میل دور ہونے والی ہلاکتوں پر ہنگامہ کرتے رہتے ہیں۔ کوئی برما سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا نسخہ تجویزکرتا ہے اور کوئی حکومتِ پاکستان سے طنزاً یہ پوچھتا ہے کہ ایٹم بم کیا ہم نے اسلحہ خانے میں رکھنے کے لیے بنایا تھا؟ اس طنز و استہزا کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ صاحب ایٹم بم نکالیے، ہندوستان پر گرا دیجیے تاکہ ہم اپنے دینی فرض سے سبکدوش ہوں اور ہندوستان کا تیا پانچہ کردیں۔
ان لوگوں سے جان کی امان مانگتے ہوئے پوچھا جائے کہ یہ چار ہزار جو صرف اپنے مسلک کی بناء پر دنیا سے رخصت کیے گئے، کیا انسان نہ تھے کہ جن کی جان لینے پر آپ کی زبان سے ایک لفظ بھی نہ نکلا۔ مانا کہ وہ افغانستان سے آئے تھے لیکن افغانستان کے 30 لاکھ افغانوں کو آج سے نہیں گزشتہ 35 برس سے آپ نے پناہ دے رکھی ہے۔ مسلک کی بناء پر اس نوع کے قتل اب ہمارے یہاں معمول بن چکے ہیں۔
محسوس یوں ہوتا ہے کہ کچھ لوگ اگر زبان سے نہ کہیں، تو دل میں اس نوعیت کی ہلاکتوں پر خوش ہوتے ہیں۔ ایک طرف یہ اقوال دہرائے جاتے ہیں کہ ایک بے گناہ اور معصوم انسان کا قتل، ساری انسانیت کا قتل ہے اور دوسری طرف مسلک یا فرقے کی بنیاد پر لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دینا، ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ ان رویوں کو اختیار کرتے ہوئے، ہم ان انتہا پسند بدھسٹوں کو کیوں ہدف ملامت بناتے ہیں جو مہاتما بدھ کے پیروکار اور عدم تشدد کا پرچارک ہونے کے باوجود بے گناہ روہنگیاؤں پر ستم توڑتے ہیں۔
ہم نے منافقت کی روش اختیار کر رکھی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم جب دنیا سے مسلمانوں کے خلاف روا رکھے جانے والے سلوک پر غم و اندوہ کا اظہار کرتے ہیں تو یہ دراصل مگر مچھ کے آنسو ہیں جو ہم بہاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اسطرح ہمارے سیاسی مقاصد بھی حاصل ہوجاتے ہیں، ہمارا ووٹر ہمارے بارے میں بہت اچھی رائے رکھتا ہے اور آسمانوں میں ہمارا جو حساب کتاب لکھا جارہا ہے، وہ بھی بہت عمدہ ہوجاتا ہے۔
ہمارا یہی وہ رویہ ہے جس نے ہماری اقلیتوں کو دل برداشتہ کردیا ہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ پاکستان جب وجود میں آرہا تھا اس وقت بانی پاکستان نے ان سے مساوی حقوق کے جو وعدے کیے تھے وہ محض دل فریب وعدے تھے۔ پاکستانی پرچم میں جس سفید پٹی کو ملکی اقلیتوں کی علامت قرار دیا گیا ہے وہ دنیا دکھا وے سے زیادہ نہیں۔
اس بچے کو بھی یاد کیجیے جس کا نام شیرون مسیح تھا اور جو اپنے علاقے کے بچوں کے ساتھ بوریوالا ہائی اسکول میں پڑھتا تھا، وہ جس وحشت و بربریت کا شکار ہوا وہ ناقابل یقین ہے۔یہ ایک معصوم بچہ تھا لیکن اسے پڑھانے والوں اور اس کے ساتھ پڑھنے والوں کے سینے میں تعصب اور نفرت کی آگ بھڑکتی تھی جو شیرون کو جلا کر راکھ کر گئی۔ اس کے ساتھیوں کا کہنا تھا کہ وہ چُوڑا ہے اسے ان کے واٹر کولر اور گلاس سے پانی پینے کا حق نہیں۔ اس نے اگر ان کے گلاس سے پانی پیا تو وہ نجس ہوجائے گا۔
شیرون کی ہلاکت کے بعد اس کی ماں رضیہ بی بی نے بلند آواز سے واویلا بھی نہیں کیا۔ کیسے کرتی کہ چُوڑوں کو اپنے بچوں کے قتل پر رونے کا حق بھی نہیں۔ رضیہ بی بی نے بتایا کہ وہ اسکول ختم ہونے اور بچوں کے کلاس سے چلے جانے کا انتظار کرتا تھا۔ اس روز شاید اسے زیادہ زور کی پیاس لگی تھی۔ تب ہی اس نے دن کے 11 بجے ہی پانی پینا چاہا تو اس کے ہم جماعتوں نے اسے روکا اور پھر ایک لڑکے احمد نے وحشیانہ انداز میں اسے مارا، شیرون جب بیہوش ہوگیا تو لڑکے گھبرا گئے اور اسے رکشے میں ڈال کر بوریوالا تحصیل اسپتال لے گئے لیکن وہ بچایا نہ جاسکا۔
ایک اسکول ٹیچر نے کہا کہ اگر بچے 1122کو فون کردیتے تو شیرون کو بچایا جا سکتا تھا۔ کلاس ٹیچر اور ہیڈ ماسٹر کے بارے میں کسی نے نہیں کہا کہ یہ ذمے داری ان کی تھی۔ اگر کسی کلاس میں مار پیٹ ہورہی تھی تو وہ بیچ بچاؤ کراتے اور 12 برس کا ایک بچہ صرف اس لیے جان سے نہ جاتا کہ پیاس اس کے لیے نا قابل برداشت ہو گئی تھی۔
اس المناک سانحے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے۔ احمد جس نے شیرون کو بہیمانہ انداز میں مارا تھا اس کو گرفتار بھی کرلیا گیا ہے۔ شیرون کو جس حد تک انصاف ملے گا اس کے بارے میں ہم پہلے سے جانتے ہیں۔ ہمیں نظر آرہا ہے کہ انصاف فراہم کرنے والوں کی ترجیحات کیا ہیں۔
تاہم، سوچنے کی بات ہے کہ آخر ہمارے سینوں میں دوسروں کے خلاف اتنی نفرت اور تعصب کیوں ہے؟ شیرون کو انصاف کون دے گا۔ یہ ایک سوالیہ نشان ہے لیکن ان دنوں غمگسارانِ برادرانِ اِسلام کے جو ہجوم سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں اور جن کے گلے ہندوؤں، بدھسٹوں اور یہودیوں کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے بیٹھ گئے ہیں ان سے اگر ہمارے غیر مسلم پاکستانی اور اقلیتوں کے لوگ یہ سوال کریں کہ آپ ہمارے حق میں کیوں احتجاج نہیں کرتے تو اس کا کیا جواب ہوگا؟
40ء کی دہائی میں ہندوستان ٹائمز کے متعدد کارٹون ہمیں چند لکیروں سے اس عہد کی ناانصافیوں کی کہانی سنا دیتے ہیں۔ کارٹونوں نے سیاسی میدان میں لوگوں کا شعور بیدار کرنے میں بہت مؤثر کردار ادا کیا۔ ہندوستان کے مقامی اخباروں میں یہ روایت سب سے پہلے منشی نول کشور کے اخبار ''اودھ اخبار'' نے اختیار کی جس کی پیروی بعد میں سجاد حسین کے ''اودھ پنچ'' نے کی۔اسی کے فوراً بعد انگریزی اخبار 'ہندوستان ٹائمز' میں بڑے کٹیلے کارٹون شائع ہونے لگے۔
بہ طور خاص 40ء سے 45ء کے دوران قحط بنگال جس میں محتاط اندازے کے مطابق 30 لاکھ سے زیادہ انسان فاقوں کے سبب ہلاک ہوگئے تھے، دوسری جنگ عظیم کے اخراجات پورے کرنے کے لیے عوام پر لگائے جانے والے کمر توڑ ٹیکس اور دوسری جنگ عظیم کے دوران ہندوستانی نوجوانوں کی فوج میں بھرتی ایسے معاملات پر شائع ہونے والے کارٹون آج بھی برصغیر کی مختلف لائبریریوں میں موجود ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد یہ سلسلہ چلتا رہا اور اب بھی چل رہا ہے۔
روزنامہ 'ایکسپریس ٹریبیون' کے کارٹونسٹ صابر نذر خوش رہیں، ان کے قلم کی طاقت میں اضافہ ہو، روزانہ حکمرانوں کو اور ہمیں آئینہ دکھاتے رہتے ہیں۔ اب سے پہلے وائی ایل اور فیکا نے ضیاء الحق کی جمہوریت دشمنی اور دہشتگردی کے خلاف اپنی لکیروں سے کیسی جنگ لڑی تھی۔ چند ٹیڑھی میڑھی لکیریں جو خنجر بن کر سینے میں اتر جاتی تھیں۔
اس وقت ہمارے یہاں بیشتر سیاسی جماعتیں بہ طور خاص وہ جماعتیں جو مذہب کے نام پر سیاست کرتی ہیں، انھوں نے روہنگیاؤں پر ہونیوالے ظلم و ستم کے بارے میں جلسے، جلوس اور دھرنوں کا ایک پُرشور سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ یہ ایک اچھی بات ہے کہ وہ دنیا میں ہونیوالے مظلوموں کے بارے میں اپنی آواز بلند کرتی ہیں۔ اس بارے میں 13 ستمبر کے ''ایکسپریس ٹریبیون'' میں صابر نذر کا ایک کاٹ دار کارٹون شائع ہوا ہے۔
ایک دراز ریش بزرگ ہیں جو نعرہ لگا رہے ہیں کہ ''فلسطین اور کشمیر میں قتل عام بند کرو'' وہی بزرگ پھر کف در دہن نظر آتے ہیں اور دونوں مٹھیاں بھینچ کر نعرہ بلند کررہے ہیں کہ ''روہنگیا کا ذبح عظیم بند کرو۔'' ان ہی بزرگ کے تیسرے کارٹون میں دکھایا گیا ہے کہ ان کے ہونٹوں پر اسکاچ ٹیپ لگا ہوا ہے اور ان کے قدموں میں ایک اخبار کا صفحہ پڑا ہوا ہے جس پر جلی الفاظ میں لکھا ہے کہ ''4 ہزارہ شیعہ کوئٹہ میں گولیوں سے چھلنی کر دیے گئے۔'' صابر نذر کا یہ کارٹون ہم سب کی بے حسی اور اپنے گھر کے المناک معاملات سے لا تعلقی کا کھلا اظہار ہے۔ ان بیگناہ مقتولین میں سے ایک بارہ برس کا بچہ بھی تھا۔
یہ لوگ پاکستان کے شہری تھے اور کوئٹہ سے 30 میل کی دوری پر ایک قصبے کچلاک میں اندھا دھند فائرنگ کر کے قتل کر دیے گئے۔ یہ خاندان سفر کررہا تھا اور پیٹرول پمپ پر رکا تھا، اس مختصر قیام کا مقصد ایندھن لینا اور قدرے آرام کرنا تھا۔ اس قافلے میں دو عورتیں بھی سفر کررہی تھیں۔ گاڑی رکی ہوئی تھی جب موٹر سائیکل پر سوار دو شکاری آئے اور آٹو میٹک اسلحے سے ہونے والی اندھا دھند فائرنگ کرکے وہاں سے نکل گئے، ہلاک شدگان اسی روز افغانستان سے براستہ چمن پہنچے تھے۔ منزل ان کی عدم آباد تھی اور وہیں وہ پہنچا دیے گئے۔
اس وحشیانہ قتل پر ان لوگوں نے کوئی احتجاج نہیں کیا جو صبح و شام ہزاروں میل دور ہونے والی ہلاکتوں پر ہنگامہ کرتے رہتے ہیں۔ کوئی برما سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا نسخہ تجویزکرتا ہے اور کوئی حکومتِ پاکستان سے طنزاً یہ پوچھتا ہے کہ ایٹم بم کیا ہم نے اسلحہ خانے میں رکھنے کے لیے بنایا تھا؟ اس طنز و استہزا کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ صاحب ایٹم بم نکالیے، ہندوستان پر گرا دیجیے تاکہ ہم اپنے دینی فرض سے سبکدوش ہوں اور ہندوستان کا تیا پانچہ کردیں۔
ان لوگوں سے جان کی امان مانگتے ہوئے پوچھا جائے کہ یہ چار ہزار جو صرف اپنے مسلک کی بناء پر دنیا سے رخصت کیے گئے، کیا انسان نہ تھے کہ جن کی جان لینے پر آپ کی زبان سے ایک لفظ بھی نہ نکلا۔ مانا کہ وہ افغانستان سے آئے تھے لیکن افغانستان کے 30 لاکھ افغانوں کو آج سے نہیں گزشتہ 35 برس سے آپ نے پناہ دے رکھی ہے۔ مسلک کی بناء پر اس نوع کے قتل اب ہمارے یہاں معمول بن چکے ہیں۔
محسوس یوں ہوتا ہے کہ کچھ لوگ اگر زبان سے نہ کہیں، تو دل میں اس نوعیت کی ہلاکتوں پر خوش ہوتے ہیں۔ ایک طرف یہ اقوال دہرائے جاتے ہیں کہ ایک بے گناہ اور معصوم انسان کا قتل، ساری انسانیت کا قتل ہے اور دوسری طرف مسلک یا فرقے کی بنیاد پر لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دینا، ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ ان رویوں کو اختیار کرتے ہوئے، ہم ان انتہا پسند بدھسٹوں کو کیوں ہدف ملامت بناتے ہیں جو مہاتما بدھ کے پیروکار اور عدم تشدد کا پرچارک ہونے کے باوجود بے گناہ روہنگیاؤں پر ستم توڑتے ہیں۔
ہم نے منافقت کی روش اختیار کر رکھی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم جب دنیا سے مسلمانوں کے خلاف روا رکھے جانے والے سلوک پر غم و اندوہ کا اظہار کرتے ہیں تو یہ دراصل مگر مچھ کے آنسو ہیں جو ہم بہاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اسطرح ہمارے سیاسی مقاصد بھی حاصل ہوجاتے ہیں، ہمارا ووٹر ہمارے بارے میں بہت اچھی رائے رکھتا ہے اور آسمانوں میں ہمارا جو حساب کتاب لکھا جارہا ہے، وہ بھی بہت عمدہ ہوجاتا ہے۔
ہمارا یہی وہ رویہ ہے جس نے ہماری اقلیتوں کو دل برداشتہ کردیا ہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ پاکستان جب وجود میں آرہا تھا اس وقت بانی پاکستان نے ان سے مساوی حقوق کے جو وعدے کیے تھے وہ محض دل فریب وعدے تھے۔ پاکستانی پرچم میں جس سفید پٹی کو ملکی اقلیتوں کی علامت قرار دیا گیا ہے وہ دنیا دکھا وے سے زیادہ نہیں۔
اس بچے کو بھی یاد کیجیے جس کا نام شیرون مسیح تھا اور جو اپنے علاقے کے بچوں کے ساتھ بوریوالا ہائی اسکول میں پڑھتا تھا، وہ جس وحشت و بربریت کا شکار ہوا وہ ناقابل یقین ہے۔یہ ایک معصوم بچہ تھا لیکن اسے پڑھانے والوں اور اس کے ساتھ پڑھنے والوں کے سینے میں تعصب اور نفرت کی آگ بھڑکتی تھی جو شیرون کو جلا کر راکھ کر گئی۔ اس کے ساتھیوں کا کہنا تھا کہ وہ چُوڑا ہے اسے ان کے واٹر کولر اور گلاس سے پانی پینے کا حق نہیں۔ اس نے اگر ان کے گلاس سے پانی پیا تو وہ نجس ہوجائے گا۔
شیرون کی ہلاکت کے بعد اس کی ماں رضیہ بی بی نے بلند آواز سے واویلا بھی نہیں کیا۔ کیسے کرتی کہ چُوڑوں کو اپنے بچوں کے قتل پر رونے کا حق بھی نہیں۔ رضیہ بی بی نے بتایا کہ وہ اسکول ختم ہونے اور بچوں کے کلاس سے چلے جانے کا انتظار کرتا تھا۔ اس روز شاید اسے زیادہ زور کی پیاس لگی تھی۔ تب ہی اس نے دن کے 11 بجے ہی پانی پینا چاہا تو اس کے ہم جماعتوں نے اسے روکا اور پھر ایک لڑکے احمد نے وحشیانہ انداز میں اسے مارا، شیرون جب بیہوش ہوگیا تو لڑکے گھبرا گئے اور اسے رکشے میں ڈال کر بوریوالا تحصیل اسپتال لے گئے لیکن وہ بچایا نہ جاسکا۔
ایک اسکول ٹیچر نے کہا کہ اگر بچے 1122کو فون کردیتے تو شیرون کو بچایا جا سکتا تھا۔ کلاس ٹیچر اور ہیڈ ماسٹر کے بارے میں کسی نے نہیں کہا کہ یہ ذمے داری ان کی تھی۔ اگر کسی کلاس میں مار پیٹ ہورہی تھی تو وہ بیچ بچاؤ کراتے اور 12 برس کا ایک بچہ صرف اس لیے جان سے نہ جاتا کہ پیاس اس کے لیے نا قابل برداشت ہو گئی تھی۔
اس المناک سانحے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے۔ احمد جس نے شیرون کو بہیمانہ انداز میں مارا تھا اس کو گرفتار بھی کرلیا گیا ہے۔ شیرون کو جس حد تک انصاف ملے گا اس کے بارے میں ہم پہلے سے جانتے ہیں۔ ہمیں نظر آرہا ہے کہ انصاف فراہم کرنے والوں کی ترجیحات کیا ہیں۔
تاہم، سوچنے کی بات ہے کہ آخر ہمارے سینوں میں دوسروں کے خلاف اتنی نفرت اور تعصب کیوں ہے؟ شیرون کو انصاف کون دے گا۔ یہ ایک سوالیہ نشان ہے لیکن ان دنوں غمگسارانِ برادرانِ اِسلام کے جو ہجوم سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں اور جن کے گلے ہندوؤں، بدھسٹوں اور یہودیوں کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے بیٹھ گئے ہیں ان سے اگر ہمارے غیر مسلم پاکستانی اور اقلیتوں کے لوگ یہ سوال کریں کہ آپ ہمارے حق میں کیوں احتجاج نہیں کرتے تو اس کا کیا جواب ہوگا؟