اومان کے خلاف جونیئرز کی عمدہ کارکردگی
مستقبل میں بہتری کے آثار نمایاں ہونے لگے
1984ء کی اولمپکس گیمز کا انعقاد لاس اینجلس میں ہوا۔ یہ میگا ایونٹ پاکستان کے لئے خاصی اہمیت کا حامل اس لئے بھی ہے کہ اس میں قومی ہاکی ٹیم نے جرمنی کو فائنل میں ہرا کر اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتنے کی ہیٹ ٹرک مکمل کی۔ اس سے قبل گرین شرٹس نے 1960 کے روم اولمپکس اور 1968 کے میکسیکو اولمپکس کے ٹائٹلز اپنے نام کئے تھے۔
لاس اینجلس اولمپکس مقابلوں میں قومی ٹیم کی قیادت منظور حسین جونیئر کے ہاتھوں میں تھی جبکہ دوسرے کھلاڑیوں میںسید غلام معین الدین، قاسم ضیا، ناصر علی، رشید حسن، ایاز محمود، نعیم اختر، کلیم اللہ، حسن سردار، حنیف خان، خالد حمید، شاہد علی خان، توقیر ڈار، اشتیاق احمد، سلیم شیروانی اور مشتاق احمد شامل تھے۔ میگا ایونٹ کا معرکہ سر کرنے کے بعد قومی ٹیم نے 1986ء میں انگلینڈ کے شہر لندن میں شیڈول ورلڈ کپ میں شرکت کی اور سٹار کھلاڑیوں پر مشتمل گرین شرٹس کی کارکردگی اتنی مایوس کن رہی کہ اسے میگا ایونٹ میں 11 ویں نمبر پر آنا پڑا جبکہ روایتی حریف کا نمبر 12 واں رہا۔
اس نازک اور کڑے وقت میں اس وقت کی پی ایچ ایف انتظامیہ نے نتائج اور تنقید کی پرواہ کئے بغیر سخت فیصلے کئے اور قومی ٹیم میں وسیع پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ کرتے ہوئے بڑے ناموں کو باہر بٹھا کر 9 نئے کھلاڑیوں شہباز سینئر، رانا مجاہد، خالد بشیر، انجم سعید، فرحت خان، خواجہ محمد جنید، طاہر زمان، وسیم فیروز اور قمر ابراہیم کو قومی سکواڈ کا حصہ بنایا۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ اگلے 8 برس تک نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل اس ٹیم نے پھر واپس مڑ کر نہ دیکھا۔
پہلے مرحلے میں 1989ء کی ایشیئن گیمز میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ بعد ازاں 1990ء میں لاہور میں ہونے والے ورلڈ کپ میں شرکت کی اور حریف ٹیموں کے چھکے چھڑاتے ہوئے فائنل تک رسائی حاصل کی تاہم فیصلہ کن میچ میں ہالینڈ کے ہاتھوں شکست کے بعد چاندی کا تمغہ پاکستان کے حصہ میں آیا۔ بارسلونا (سپین) میں 1992 میں شیڈول اولمپکس میں گرین شرٹس تیسری پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ 1994ء میں لاہور میں چیمپئنز ٹرافی کھیلی گئی جس میں پاکستان ٹیم نے ایونٹ کا گولڈ میڈل اپنے نام کیا، اسی برس سڈنی آسٹریلیا میں ورلڈ کپ کا انعقاد ہوا جس میں گرین شرٹس نے چوتھی بار میگا ایونٹ میں سونے کا تمغہ حاصل کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے، فتح کے نشہ میں چور قومی کھیل کے کرتا دھرتا جیسے ہی ٹریک سے اترنا شروع ہوئے تو ہاکی کے کھیل کے زوال کا بھی آغاز ہو گیا، ملکی ہاکی ایک عرصہ تک مایوسیوں اور تاریکیوں کے گھپ اندھیروں میں کھو گئی، انتظامی امور میں اکھاڑ پچھاڑ ضرور جاری رہے لیکن مستقبل کے تقاضے پورے کرنے کے لئے گراس روٹ سطح پر قومی کھیل کے فروغ کو بری طرح نظر انداز کیا گیا۔
پاکستان کے سابق کھلاڑیوں سے گر سیکھنے والے کئی ملک میدانوں میں گرین شرٹس کو پچھاڑتے رہے ، 30کے قریب کھلاڑیوں کو ٹیم سے اندر باہر کر کے ہی انٹرنیشنل مقابلوں میں نتائج حاصل کرنے کی کوششوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ گرین شرٹس ورلڈ کپ2014ء کے بعد اولمپکس2016ء میں شرکت سے بھی محروم رہ گئے۔
کہا جاتا ہے کہ جونیئر ٹیمیں کسی بھی کھیل میں ملکوں کا مستقبل سمجھی جاتی ہیں۔نو عمر کھلاڑیوں کی صلاحیتیں ہی آنے والے وقتوں کی راہیں متعین کرتی ہیں۔ اسی لئے دنیا بھر میں گراس روٹ سے سکول اور کالج کی سطح پر ہی پلیئرز کی مناسب خوراک، تربیت اور ٹیلنٹ نکھارنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔پاکستان میں کھیل کسی دور میں بھی قومی ترجیحات میں شامل نہیں رہے۔زیادہ تر زبانی جمع خرچ سے ہی کام چلا کر بلند بانگ دعوے کئے جاتے ہیں۔
حوصلہ شکن ماحول میں کھلاڑیوں کی کارکردگی کا گراف بھی بلند ہونے کی بجائے گرتا رہا۔ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے مگر ماضی میں اس کو سکول ، کالج اور کلب کی سطح پر فروغ دینے کے لئے ٹھوس اقدامات نہ اٹھائے گئے، نتیجہ کے طور پر سینئر ٹیموں کو مناسب فیڈبیک حاصل نہ ہو سکا اور ہم چند گنے کھلاڑیوں ہر ہی انحصار کرتے اور شکستوں کا منہ دیکھتے تھے۔
پاکستان ہاکی فیڈریشن موجودہ انتظامیہ نے باگ دوڑ سنبھالتے ہی اپنی توجہ نوجوان کھلاڑیوں کی بڑی کھیپ تیار کرنے پر مرکوز رکھے ہوئے ہے، اس ضمن میں ڈائریکٹر ڈویلپمنٹ اینڈ ڈومیسٹک نوید عالم کی کوششوں کو کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، انہوں نے نوجوان کھلاڑیوں کی مختلف کیٹگریز بناکر ان کے درمیان ٹورنامنٹس کروانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کو بڑی تعداد میں باصلا حیت کھلاڑی میسر آ رہے ہیں جو مستقبل میں قومی جونیئر اور سینئر ٹیموں کا حصہ بن کر اپنے کھیل سے ملک وقوم کی نیک نامی کا باعث بن رہے ہیں، تازہ ترین مثال پی ایچ ایف ڈویلپمنٹ سکواڈ کی میزبان اومان کے خلاف پانچ میچوں کی سیریز میں 3-0 کی کامیابی ہے۔ ٹیم کی اس کامیابی پر یقینی طور پر پی ایچ ایف حکام، کوچز محمد ثقلین، ریحان بٹ، محمد عثمان اور ٹیم منیجر منصور احمد مبارکباد کے مستحق ہیں۔
جونیئرز کے ساتھ ساتھ پاکستان ہاکی ٹیم کی بھی بات کر لیتے ہیں، قومی ٹیم ان دنوں بنگلہ دیش میں شیڈول ایشیا کپ کی تیاریوں میں مصروف ہے، یہ بات ہمیں ہرگز فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ پاکستانی ٹیم اس وقت عالمی رینکنگ میں چودھویں نمبر پر ہے، بھارت چھٹی رینکنگ کے ساتھ پہلے، ملائشیا بارہویں اور کوریا کی ٹیم تیرھویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کو ایشیا کپ میں ابتدائی تین ٹائٹلز جیتنے کا اعزاز حاصل ضرور ہے لیکن سوچنے اور محسوس کرنے کی بات یہ ہے کہ 1989 کے بعد سے پاکستانی ٹیم ایشیائی ٹائٹل سے محروم ہے۔
ملائشیا کے شہر ایپوہ میں 2013 میں شیڈول ایشیا کپ میں پاکستان نے ملائیشیا کو ایک کے مقابلے میں 3گول سے ہرا کر تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ 4سال کے عرصہ کے بعد گرین شرٹس کا ورلڈ کپ 2018ء کے لئے دوبارہ کوالیفائی کرنا خوش آئند ضرور ہے لیکن میگا ایونٹ میں عمدہ کارکردگی کے حصول کے لئے کھلاڑیوں پر بھی غیر معمولی کارکردگی دکھانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ماہرین کے مطابق غیر ملکی کوچز کھلاڑیوں کی کوچنگ تو کر سکتے ہیں، لیکن ان کے اندر وہ جوش، ولولہ اور جذبہ پیدا نہیں کر سکتے جو مسلمانوں کا میدانوں کے اندر اور باہر طرہ امتیاز رہا ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ ماضی میں پاکستان ہاکی ٹیم اللہ اکبر کے فلک شگاف نعروں کے ساتھ جب میدانوں میں اترتی تھی تو مخالف ٹیموں کے کھلاڑیوں کے دل دہل جاتے تھے اور وہ میچ شروع ہونے سے پہلے ہی ذہنی طور پر شکست تسلیم کر چکی ہوتیں۔ اولمپکس، ورلڈ کپ، چیمپئنز ٹرافی، ایشیا کپ سمیت دنیا کے تمام ایونٹس میں شاندار کامیابیاں اس کا ثبوت ہیں۔
پاکستان ہاکی ٹیم کے چیف کوچ فرحت خان سابق اولیمپئن رہے ہیں۔ بخوبی جانتے ہیں کہ جیت کا نشہ کیا ہوتا ہے۔وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ کھلاڑیوں میں جیت کی تڑپ پیدا کئے بٖغیر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کئے جا سکتے، کھلاڑیوں میں جذبہ ایمانی اور حب الوطنی پیدا کر کے ایشیا کپ کے دوران مطلوبہ نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔
لاس اینجلس اولمپکس مقابلوں میں قومی ٹیم کی قیادت منظور حسین جونیئر کے ہاتھوں میں تھی جبکہ دوسرے کھلاڑیوں میںسید غلام معین الدین، قاسم ضیا، ناصر علی، رشید حسن، ایاز محمود، نعیم اختر، کلیم اللہ، حسن سردار، حنیف خان، خالد حمید، شاہد علی خان، توقیر ڈار، اشتیاق احمد، سلیم شیروانی اور مشتاق احمد شامل تھے۔ میگا ایونٹ کا معرکہ سر کرنے کے بعد قومی ٹیم نے 1986ء میں انگلینڈ کے شہر لندن میں شیڈول ورلڈ کپ میں شرکت کی اور سٹار کھلاڑیوں پر مشتمل گرین شرٹس کی کارکردگی اتنی مایوس کن رہی کہ اسے میگا ایونٹ میں 11 ویں نمبر پر آنا پڑا جبکہ روایتی حریف کا نمبر 12 واں رہا۔
اس نازک اور کڑے وقت میں اس وقت کی پی ایچ ایف انتظامیہ نے نتائج اور تنقید کی پرواہ کئے بغیر سخت فیصلے کئے اور قومی ٹیم میں وسیع پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ کرتے ہوئے بڑے ناموں کو باہر بٹھا کر 9 نئے کھلاڑیوں شہباز سینئر، رانا مجاہد، خالد بشیر، انجم سعید، فرحت خان، خواجہ محمد جنید، طاہر زمان، وسیم فیروز اور قمر ابراہیم کو قومی سکواڈ کا حصہ بنایا۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ اگلے 8 برس تک نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل اس ٹیم نے پھر واپس مڑ کر نہ دیکھا۔
پہلے مرحلے میں 1989ء کی ایشیئن گیمز میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ بعد ازاں 1990ء میں لاہور میں ہونے والے ورلڈ کپ میں شرکت کی اور حریف ٹیموں کے چھکے چھڑاتے ہوئے فائنل تک رسائی حاصل کی تاہم فیصلہ کن میچ میں ہالینڈ کے ہاتھوں شکست کے بعد چاندی کا تمغہ پاکستان کے حصہ میں آیا۔ بارسلونا (سپین) میں 1992 میں شیڈول اولمپکس میں گرین شرٹس تیسری پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ 1994ء میں لاہور میں چیمپئنز ٹرافی کھیلی گئی جس میں پاکستان ٹیم نے ایونٹ کا گولڈ میڈل اپنے نام کیا، اسی برس سڈنی آسٹریلیا میں ورلڈ کپ کا انعقاد ہوا جس میں گرین شرٹس نے چوتھی بار میگا ایونٹ میں سونے کا تمغہ حاصل کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے، فتح کے نشہ میں چور قومی کھیل کے کرتا دھرتا جیسے ہی ٹریک سے اترنا شروع ہوئے تو ہاکی کے کھیل کے زوال کا بھی آغاز ہو گیا، ملکی ہاکی ایک عرصہ تک مایوسیوں اور تاریکیوں کے گھپ اندھیروں میں کھو گئی، انتظامی امور میں اکھاڑ پچھاڑ ضرور جاری رہے لیکن مستقبل کے تقاضے پورے کرنے کے لئے گراس روٹ سطح پر قومی کھیل کے فروغ کو بری طرح نظر انداز کیا گیا۔
پاکستان کے سابق کھلاڑیوں سے گر سیکھنے والے کئی ملک میدانوں میں گرین شرٹس کو پچھاڑتے رہے ، 30کے قریب کھلاڑیوں کو ٹیم سے اندر باہر کر کے ہی انٹرنیشنل مقابلوں میں نتائج حاصل کرنے کی کوششوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ گرین شرٹس ورلڈ کپ2014ء کے بعد اولمپکس2016ء میں شرکت سے بھی محروم رہ گئے۔
کہا جاتا ہے کہ جونیئر ٹیمیں کسی بھی کھیل میں ملکوں کا مستقبل سمجھی جاتی ہیں۔نو عمر کھلاڑیوں کی صلاحیتیں ہی آنے والے وقتوں کی راہیں متعین کرتی ہیں۔ اسی لئے دنیا بھر میں گراس روٹ سے سکول اور کالج کی سطح پر ہی پلیئرز کی مناسب خوراک، تربیت اور ٹیلنٹ نکھارنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔پاکستان میں کھیل کسی دور میں بھی قومی ترجیحات میں شامل نہیں رہے۔زیادہ تر زبانی جمع خرچ سے ہی کام چلا کر بلند بانگ دعوے کئے جاتے ہیں۔
حوصلہ شکن ماحول میں کھلاڑیوں کی کارکردگی کا گراف بھی بلند ہونے کی بجائے گرتا رہا۔ہاکی ہمارا قومی کھیل ہے مگر ماضی میں اس کو سکول ، کالج اور کلب کی سطح پر فروغ دینے کے لئے ٹھوس اقدامات نہ اٹھائے گئے، نتیجہ کے طور پر سینئر ٹیموں کو مناسب فیڈبیک حاصل نہ ہو سکا اور ہم چند گنے کھلاڑیوں ہر ہی انحصار کرتے اور شکستوں کا منہ دیکھتے تھے۔
پاکستان ہاکی فیڈریشن موجودہ انتظامیہ نے باگ دوڑ سنبھالتے ہی اپنی توجہ نوجوان کھلاڑیوں کی بڑی کھیپ تیار کرنے پر مرکوز رکھے ہوئے ہے، اس ضمن میں ڈائریکٹر ڈویلپمنٹ اینڈ ڈومیسٹک نوید عالم کی کوششوں کو کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، انہوں نے نوجوان کھلاڑیوں کی مختلف کیٹگریز بناکر ان کے درمیان ٹورنامنٹس کروانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کو بڑی تعداد میں باصلا حیت کھلاڑی میسر آ رہے ہیں جو مستقبل میں قومی جونیئر اور سینئر ٹیموں کا حصہ بن کر اپنے کھیل سے ملک وقوم کی نیک نامی کا باعث بن رہے ہیں، تازہ ترین مثال پی ایچ ایف ڈویلپمنٹ سکواڈ کی میزبان اومان کے خلاف پانچ میچوں کی سیریز میں 3-0 کی کامیابی ہے۔ ٹیم کی اس کامیابی پر یقینی طور پر پی ایچ ایف حکام، کوچز محمد ثقلین، ریحان بٹ، محمد عثمان اور ٹیم منیجر منصور احمد مبارکباد کے مستحق ہیں۔
جونیئرز کے ساتھ ساتھ پاکستان ہاکی ٹیم کی بھی بات کر لیتے ہیں، قومی ٹیم ان دنوں بنگلہ دیش میں شیڈول ایشیا کپ کی تیاریوں میں مصروف ہے، یہ بات ہمیں ہرگز فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ پاکستانی ٹیم اس وقت عالمی رینکنگ میں چودھویں نمبر پر ہے، بھارت چھٹی رینکنگ کے ساتھ پہلے، ملائشیا بارہویں اور کوریا کی ٹیم تیرھویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کو ایشیا کپ میں ابتدائی تین ٹائٹلز جیتنے کا اعزاز حاصل ضرور ہے لیکن سوچنے اور محسوس کرنے کی بات یہ ہے کہ 1989 کے بعد سے پاکستانی ٹیم ایشیائی ٹائٹل سے محروم ہے۔
ملائشیا کے شہر ایپوہ میں 2013 میں شیڈول ایشیا کپ میں پاکستان نے ملائیشیا کو ایک کے مقابلے میں 3گول سے ہرا کر تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ 4سال کے عرصہ کے بعد گرین شرٹس کا ورلڈ کپ 2018ء کے لئے دوبارہ کوالیفائی کرنا خوش آئند ضرور ہے لیکن میگا ایونٹ میں عمدہ کارکردگی کے حصول کے لئے کھلاڑیوں پر بھی غیر معمولی کارکردگی دکھانے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ماہرین کے مطابق غیر ملکی کوچز کھلاڑیوں کی کوچنگ تو کر سکتے ہیں، لیکن ان کے اندر وہ جوش، ولولہ اور جذبہ پیدا نہیں کر سکتے جو مسلمانوں کا میدانوں کے اندر اور باہر طرہ امتیاز رہا ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ ماضی میں پاکستان ہاکی ٹیم اللہ اکبر کے فلک شگاف نعروں کے ساتھ جب میدانوں میں اترتی تھی تو مخالف ٹیموں کے کھلاڑیوں کے دل دہل جاتے تھے اور وہ میچ شروع ہونے سے پہلے ہی ذہنی طور پر شکست تسلیم کر چکی ہوتیں۔ اولمپکس، ورلڈ کپ، چیمپئنز ٹرافی، ایشیا کپ سمیت دنیا کے تمام ایونٹس میں شاندار کامیابیاں اس کا ثبوت ہیں۔
پاکستان ہاکی ٹیم کے چیف کوچ فرحت خان سابق اولیمپئن رہے ہیں۔ بخوبی جانتے ہیں کہ جیت کا نشہ کیا ہوتا ہے۔وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ کھلاڑیوں میں جیت کی تڑپ پیدا کئے بٖغیر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کئے جا سکتے، کھلاڑیوں میں جذبہ ایمانی اور حب الوطنی پیدا کر کے ایشیا کپ کے دوران مطلوبہ نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔