کراچی لاہور ۔۔۔۔ میری آنکھیں

کراچی سسک رہا ہے اور کوئی پوچھنے والا، دیکھنے والا نہیں ہے

لاہور میں چھ برس کیا گزار لیے! کہ اب یہ بانکا شہر پیچھا ہی نہیں چھوڑتا۔ لاہور چھوڑے بھی اب زمانہ ہوگیا، مگر دور بیٹھے زیادہ یاد آتا ہے۔ اسی کارن سال میں لاہور کا ایک چکر ضرور لگ جاتا ہے۔

بٹوارے کے بعد دہلی کے خواجہ نظام الدین اولیا ریلوے اسٹیشن سے ریل گاڑی میں بیٹھے۔ تیمار پور کے پولیس تھانہ انچارج نے ہمارے ابا اماں سے کہا ''اب آپ بھی اپنی ''ٹبری'' (یعنی بال بچوں) کو لے کر نکل جائیں'' نکلنا کہاں تھا بس پاکستان ہی سامنے تھا۔ تین چار دن لگے، ریل کا سفر قیامت کا سماں تھا، کئی ریل گاڑیاں کٹ چکی تھیں، ریل کے ڈبوں میں لاشیں تھیں، بس یوں سمجھیں جن کی زندگی تھی وہ بچ گئے۔

1947ء میں کراچی پہنچے اور اس شہر کو اپنا گھر بنا لیا۔ اس شہر نے ہمیں بہت کچھ دیا۔ عزت، شہرت، دولت، تعلیم، جھونپڑی سے اٹھا کر پکے مکان میں لا بٹھایا۔

دلی سے آئے گیارہ برس ہی ہوئے تھے کہ ملک میں پہلا مارشل لا لگ گیا، یہ 1958ء تھا کہ جب ہمارے بڑے بھیا حبیب جالبؔ لاہور جا کر مستقل آباد ہونے کے لیے ذہن بنا چکے تھے۔ لاہور اردو ادب کا بڑا مرکز، بس یہی ایک وجہ تھی کہ بڑے بھیا وہاں جانا چاہتے تھے۔ لاہور میں بھیا کا بظاہر ایک ہی سہارا تھا، وہ تھا عوامی اداکار علاؤ الدین، جس نے جالبؔ بھائی سے کہا ''لاہور آجاؤ ہم تمہارے لیے فلموں میں گیت نگاری کا رستہ نکالیں گے''۔ علاؤ الدین صاحب 1952ء میں بننے والی مشہور فلم ''آس پاس'' میں جالبؔ بھائی کا مشہور شعر بطور اداکار پڑھ چکے تھے۔ فلم ''آس پاس'' میں علاؤ الدین صاحب کا کردار ایک آوارہ گرد نوجوان کا تھا، لوگ اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے، مگر وہ کردار لوگوں کے کام آنے والا، ہمدرد، مہربان، دل رکھنے والا بھی تھا، تو فلم کے مکالموں سے ہٹ کے علاؤ الدین صاحب نے جالبؔ صاحب کا یہ شعر پڑھا تھا:

ایک ہمیں آوارہ کہنا، کوئی بڑا الزام نہیں

دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں

بھائی حبیب جالبؔ اپنی خواہش کے مطابق لاہور آباد ہو گئے اور اب تا ابد لاہور ہی میں اپنا ٹھکانہ بنا لیا ہے۔ ان کا پتہ ہے شاہ فرید قبرستان، سبزہ زار، ملتان روڈ لاہور۔


ہمارے ابا اماں کی ٹبری اب دو شہروں میں بٹ گئی۔ ایک شہر کراچی اور دوسرا لاہور۔

میں نے 1958ء سے 1964ء کا لاہور دیکھا ہے۔ چھوٹا سا مگر بھرپور شہر۔ داتا دربار کے بعد سنت نگر، کرشن نگر اور آگے کھیت، شہر ختم۔ موہنی روڈ، بڈھا دریا، شاہی قلعہ، بادشاہی مسجد سے آگے شہر ختم۔ چوبرجی سے آگے کھیت۔ پھر ٹانواں ٹانواں سمن آباد، وحدت کالونی اور بہت آگے جا کر کھیتوں کے بیچوں بیچ فلمی نگار خانے شاہنور اسٹوڈیو اور ایور نیو فلم اسٹوڈیو۔

جہانگیر بادشاہ کی ملکہ نورجہاں نے اپنی جان کے بدلے لاہور کو پسند کیا۔ نورجہاں کا پسندیدہ شہر لاہور، باغوں کا شہر، پھولوں کا شہر، خوبصورت سڑکوں کا شہر، مال روڈ، ڈیوس روڈ سے شملہ پہاڑی۔ یہ میں 1958ء سے 1964ء والے لاہور کا ذکر کر رہا ہوں۔ پنجاب یونیورسٹی، عجائب گھر، بھنگیوں کی توپ، کافی ہاؤس، بی این آر سینٹر کے سامنے بس اسٹاپ انارکلی اور پرانی انارکلی کا سنگم، ٹولنیٹن مارکیٹ اور بس اسٹاپ پر بس کے انتظار میں کھڑے پاکستان کرکٹ ٹیم کے مایہ ناز ون ڈاؤن بلے باز سعید احمد۔ سعید احمد کو نیلی بار بینک (اب اسلام پورہ) کے اسٹاپ پر اترنا ہوتا تھا، اور پھر ارجن روڈ سے دو فرلانگ پیدل چل کر ان کا گھر آتا تھا۔ (سعید احمد کے چھوٹے بھائی یونس احمد بھی بڑے اچھے کرکٹر تھے اور میرے اسکول فیلو تھے، ہم دونوں مسلم ماڈل ہائی اسکول میں پڑھتے تھے) اور مجھے سُوری منزل (اب نوری منزل) سراج بلڈنگ کے بعد کرشن نگر کے آخری بس اسٹاپ پر اترنا ہوتا تھا۔ جہاں میرا دوست کرکٹ کا اوپنگ بیٹس مین شفیق احمد رہتا تھا۔ میں اور شفیق ارجن روڈ کے پرائمری اسکول میں پانچویں جماعت میں پڑھتے تھے۔

کراچی بھی بڑا شفیق شہر رہا ہے۔ اس شہر نے بھی اپنے رہنے والوں کو بہت زیادہ دیا ہے۔ یہ شہر پورے ملک کا مائی باپ شہر ہے۔ پورا ملک اسی شہر کی بدولت کھڑا ہے۔ اس شہر نے تو سب کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا، مگر اس شہر کو سب نے مل کر تباہ و برباد کر دیا۔ وہ شہر جہاں واقعی راتیں جاگتی تھیں، جو روشنیوں میں نہایا ہوا شہر ہوا کرتا تھا، جس کی حسین شاہراہوں پر چہل قدمی کرنے والوں کے قہقہے سنائی دیتے تھے۔ آج اس شہر میں قدم قدم پر کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگے نظر آتے ہیں۔ پورا شہر تعفن زدہ ہو چکا ہے سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں، گٹر ابل رہے ہیں، گندہ پانی سڑکوں پر اور آبادیوں کی گلیوں میں بہہ رہا ہے۔ مکان گندے پانیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ شہر کے ندی نالے کوڑے سے بھرے پڑے ہیں، شہر کا سیوریج نظام مکمل برباد ہو چکا ہے۔ پینے کے پانی میں سیوریج کی لائنیں مل گئی ہیں۔ شہری یہی پانی پینے پر مجبور ہیں۔ جگہ جگہ گندگی کے ڈھیروں کی وجہ سے مکھی مچھروں کا ایک طوفان برپا ہے۔ چکن گونیا، ڈینگی جیسی جاں لیوا بیماریاں سر پر منڈلا رہی ہیں۔

کراچی سسک رہا ہے اور کوئی پوچھنے والا، دیکھنے والا نہیں ہے۔ کراچی وہ شہر تھا جہاں کیا غریب کیا امیر سبھی اپنی اپنی دنیاؤں میں خوشی خوشی رہتے تھے۔ برنس روڈ پر فجر کی نماز کے بعد نہاری کی دیگ کا ڈھکنا کھلتا تھا تو باہر گاہکوں کی لائنیں لگی ہوتی تھیں، صبح کا ناشتہ، نلی نہاری پورے شہر کا من بھاتا ناشتہ ہوتا تھا۔

اس شہر کراچی میں روشنیاں تو اب بھی ہیں مگر ان میں رنگ نہیں ہیں، امنگ ترنگ نہیں ہیں۔ یقیناً محتاط اندازے کے مطابق دو کروڑ آبادی کا یہ شہر بستر مرگ پر پڑا ہے۔ یہ ہمارا شہر ہے۔ اس کی موت ہماری موت ہے۔ حکومتوں نے تو ہمیں ہری جھنڈی دکھادی ہے۔ تو کیا ہم اس شہر کے شہری اپنے شہر کو مرتا چھوڑ دیں؟ آخر کسی کو تو شہر کا خیال کرنا ہوگا۔

اور ادھر لاہور شہر ہے۔ جہاں کرکٹ کا چار روزہ میلہ خوب لگا۔ وہاں سڑکیں، فلائی اوور، عوام کی سہولت کے لیے ٹرانسپورٹ، بارشیں کتنی بھی شدید ہوں کچھ نہیں ہوتا۔ ادھر کراچی میں دو گھنٹوں کی بارش میں شہر ڈوب جاتا ہے۔

ان پناہ کن حالات میں اس شہر کراچی میں کثیرالمنزلہ عمارتیں دھڑا دھڑ بن رہی ہیں۔ رہائشی علاقوں میں بھی چھوٹے پلاٹوں تک کو توڑ کر فلیٹ بنائے جا رہے ہیں۔ یوں جس مکان میں چھ سے آٹھ یا دس افراد کے لیے سیوریج اور پینے کا پانی رکھا گیا تھا۔ اب اس پلاٹ پر 25 افراد فلیٹوں میں رہتے ہیں۔ اب کراچی انتہائی پھیلاؤ کے بعد آسمان کی طرف جا رہا ہے۔ کیا بنے گا؟ کچھ تو کرنا ہوگا۔
Load Next Story