جامعات اور دہشتگردی
کراچی شہر میں گزشتہ ہفتے دہشتگردی کے واقعات کی تحقیقات جوں جوں منظرعام پر آتی گئیں
کراچی شہر میں گزشتہ ہفتے دہشتگردی کے واقعات کی تحقیقات جوں جوں منظرعام پر آتی گئیں، ان کا تعلق جامعات سے جڑتا ہوا نظر آیا۔ ٹی وی ٹاک شوز میں تو باقاعدہ اس بات پر بحث ہو رہی تھی کہ اب جامعات کے طلبا بھی دہشتگردی کی طرف مائل ہورہے ہیں اور انھیں اس ضمن میں سوچ بھی اساتذہ فراہم کررہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اب جو واقعات سامنے آرہے ہیں ان میں مختلف مسلح تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد جامعات سے بھی تعلیم حاصل کر چکے ہوتے ہیں، لیکن یہ ضروری تو نہیں کہ جن طلبا کا تعلق کسی عسکری گروپ سے ہو ان کی نظریات کی آبیاری ان ہی جامعات سے کی گئی ہو۔ کچھ ہی عرصے قبل کی بات ہے کہ خود بین الااقوامی میڈیا پر یہ خبر یں آئیں کہ یورپ کی جامعات سے فارغ التحصیل طلبا جہاد کے لیے داعش وغیرہ میں شامل ہورہے ہیں اور یورپ سے ہجرت کر رہے ہیں۔
بات یہ ہے کہ جب مغرب میںرہنے والے اور وہیں کے تعلیمی اداروں سے پڑھ کر نکلنے والوں کی سوچ ''جہادی'' قسم کی ہوجائے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان طلبا کو کسی پروفیسر نے یہ نظریاتی تعلیم دی ہے بلکہ اس کی وجوہات کچھ اور ہوں گی۔ چنانچہ اسی طرح یہ نہیں کہا جاسکتا کہ پاکستانی جامعات میں طلبا کو دہشتگرد ی کی تعلیم دی جارہی ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی جامعہ، جامعہ کراچی کے بارے میں میڈیا پروگراموں اور خبروں سے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہاں اساتذہ اور طلبا اس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں، قطعی غلط ہے۔راقم کا جامعہ کراچی کا مشاہدہ قریباً بیس برس کا ہے، جس کے مطابق یہاں کسی قسم کی ایسی کوئی مثال موجود نہیں کہ جس میں کسی ایک استاد نے بھی اپنے طور پر طلبا کو ایسی سرگرمیوں کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی ہو۔ یہاں ایسے اساتذہ تو بہت ملیں گے کہ جن کی کوشش ہمیشہ طلبا کو ایک اور نیک بنانے کی ہو۔ ویسے بھی جس قسم کی دہشتگردی کے واقعات منظر عام پر آئے ہیں ان سے تعلق رکھنے والوں کو تو اپنے نظریے کو پھیلانے کے لیے بھی بہت احتیاط کی ضرورت ہوگی نہ کہ وہ کھلے عام اپنے نظریات کی تبلیغ کرتے ہوں۔
البتہ جامعات سے جڑی دہشتگردی کا دوسرا پہلو یقیناً قابل غور ہے اور وہ یہ کہ مستقبل میں ایسی کسی ممکنہ کوشش کو ہونے سے قبل ہی روکا جائے اور ایسے حالات ہی نہ پیدا ہونے دیے جائیں کہ طلبا یا اساتذہ میں سے کوئی اس طرف راغب ہوسکے۔ ایسی منصوبہ بندی کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے جامعات کے طلبا اور اساتذہ کے مسائل حل کیے جائیں اور تحقیقی سرگرمیوں کے مواقعے بڑھائے جائیں۔ اس وقت پاکستان کی تمام جامعات اپنی کارکردگی کے اعتبار سے دنیا میں بہت پیچھے ہیں۔ سرکاری جامعات میں پہلے ہی فنڈز کی کمی ہے، بقول ڈاکٹر عطا الرحمٰن کے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی مختص رقم میں بجائے اضافے کے مزید کمی کردی گئی ہے، چنانچہ اب ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے سرکاری جامعات کو دی جانے والی گرانٹ میں بھی مزید کمی آجائے گی۔ واضح رہے کہ ملک کی سب سے بڑی جامعہ کراچی کی پہلے ہی گرانٹ بہت کم ہے اور یہاں اساتذہ کی تنخواہوں کی ادائیگیاں ایک مسئلہ بن چکی ہیں، ہر مہینے جامعہ کراچی کے اساتذہ پریشان دکھائی دیتے ہیں کہ انھیں پہلی تاریخ کو تنخواہ ملے گی بھی یا نہیں؟ یہاں ریٹائرڈ اساتذہ کو کئی کئی ماہ پنشن بھی نہیں ملتی، نہ ہی ریٹائرڈ ہونے والے اساتذہ کو بروقت ان کے واجبات ملتے ہیں۔ گزشتہ دنوں دہشتگردی کے واقعات کے بعد جامعہ کراچی کے کیمپس میں رہنے والے ریٹائرڈ ملازمین کو ان کے گھروں پر جاکر کہا گیا کہ مکانات خالی کردیں، جس پر چند اساتذہ نے کہا کہ ہمارے واجبات ادا کردیں، ہم مکانات خالی کردیں گے۔
ذرا غور کیجیے، کس قدر شرمناک مقام ہے کہ جن اساتذہ نے اس قوم کے معماروں کو ایک اچھا اور کارآمد شہری بنانے کے لیے اپنی پوری عمر وقف کردی، جنھوں نے اس ملک و قوم کو وہ ہیرے دیے جو آج اس ملک کو چلا رہے ہیں، ریٹائرمنٹ کے بعد انھیں وقت پر ان ہی کے واجبات ادا نہیں کیے گئے اور دہشتگردی کے خلاف مہم کے سلسلے میں راتوں کو ان کے گھروں پر جاکر کہا جا رہا ہے کہ حالات بدل گئے ہیں اب آپ کو اور رعایت نہیں دی جاسکتی، لہٰذا آپ جس مکان میں رہ رہے ہیں وہ خالی کردیں۔ سوال یہ ہے کہ بزرگ اساتذہ کے ساتھ ایسا شرمناک سلوک کرکے ہم اپنے تعلیمی اداروں اور طلبا کو دہشتگردی کی لہر سے دور رکھ سکتے ہیں؟ کیا یہ طریقہ درست ہے؟ آج جامعات کے اساتذہ کو اپنی ریٹائرمنٹ پر جتنی رقم ملتی ہے اس میں وہ کوئی چھوٹا سا پلاٹ بھی نہیں خرید سکتے ہیں (مکان یا فلیٹ خریدنا تو خواب کی بات بھی نہیں)، نہ ہی اپنی بیٹی کی ڈھنگ سے شادی کرسکتے ہیں۔ آج جامعات کے پروفیسروں کو جو تنخواہ ملتی ہے اس میں وہ اپنے چند بچوں کو کسی اچھی نامی اسکول میں پڑھا بھی نہیں سکتے، اسکول اور کالجز کے اساتذہ کی تو بات ہی مت پوچھئے۔ جامعہ کراچی کے ریٹائرڈ پروفیسر خیراتی اسپتال سے اپنے کینسر جیسے مرض کا علاج کرا رہے ہیں اور جو حاضر سروس ہیں ان کے پینل پر کوئی ایک اسپتال نہیں ملتا کہ ان اسپتالوں نے بلوں کی عدم ادائیگی پر جامعہ کراچی کے ملازمین کا علاج ہی بند کردیا ہے۔
پھر دوسری طرف شعبہ جات کا یہ حال ہے کہ کمروں کی چھتوں کا پلستر روزانہ کہیں نہ کہیں گرتا نظر آتا ہے، کسی دن کسی استاد یا طالب علم کی ہلاکت ہوگئی تو پھر ٹی وی چینلز پر بریکنگ نیوز چلیں گی، ریسرچ لیب شاید ہی کوئی ایسی ہو کہ جہاں طلبا کو ریسرچ کرنے کا سامان دستیاب ہو۔
غور کیجیے، ہم چاہتے ہیں کہ ہماری جامعات دہشتگردوں کی آماجگاہیں نہ بنیں، یہ جامعات اپنی علمی اور تحقیقی سرگرمیوں سے ملک و قوم کی ترقی میں فعال کردار ادا کریں۔ سوال یہ ہے کہ کیا صرف چاہنے سے یہ سب کچھ ممکن ہے؟ کیا جب ملک کی سب سے بڑی جامعہ میں ریسرچ کے لیے سامان نہ ہو، عمارتیں خستہ حال ہوں اور کسی حادثے کی منتظر ہوں، جہاں کے اساتذ ہ کو حکومت کی اعلان کردہ اضافی تنخواہ بھی نہ ملے بلکہ ہر مہینے یہ خوف ہو کہ تنخواہیں ملیں گی بھی یا نہیں؟ جہاں کے ریٹائر اساتذہ اپنی رہائش اور واجبات کے لیے فکرمند ہوں، جنھیں میڈیکل کی بنیادی سہولتیں بھی میسر نہ ہوں، کیا دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑی جا سکتی ہے؟ کیا سنگین مذاق ہے کہ بعض اداروں کے سرکاری ملازمین کو تو بڑے بڑے پلاٹ بھی مل جاتے ہیں، بعض کو تو جن جن شہروں میں پوسٹنگ ہو، اس کے اعتبار سے بھی پلاٹ مل جاتے ہیں مگر جامعہ کے ایک پروفیسر کو جو ساری زندگی اس ملک وقوم کو وقف کر دیتا ہے نہ پلاٹ ملتا ہے نہ کیمپس میں رہنے کا حق۔ ایک سترہ اور اٹھارہ گریڈ کے سرکاری ملازم کو عموماً گاڑی اور ڈرائیور بھی مل جاتا ہے، اوور ٹائم بھی تنخواہ کے ساتھ مل جاتا ہے مگر ایک انیس اور بیس گریڈ کے استاد کو بحثیت صدر شعبہ حتیٰ کہ ڈین بننے پر گاڑی خریدنے کے لیے قرضہ تک نہیں دیا جاتا۔ اس ملک کی سب سے بڑی جامعہ کے پروفیسر اپنی گزر اوقات کے لیے پچیس، پچاس روپے کے حساب سے مارکس شیٹ اور رزلٹ بنانے میں مشغول رہتے ہیں۔ سب سے بڑا اور اہم سوال یہ ہے کہ جب جامعات کے اساتذہ اپنے بچوں کی فیسیں ادا کرنے کے لیے قرضہ لیتے ہوں، اپنی گزر اوقات کے لیے رزلٹ اور مارکس شیٹ بنانے کی تگ و دو کرتے نظر آتے ہوں، اپنے علاج اور معالجے اور ہر مہینے ''تنخواہ ملے گی یا نہیں؟'' کی فکر انھیں کھائے جا رہی ہو، کیا ان سے صرف یہ توقع کرنی ہو کہ وہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کوئی فعال کردار ادا کریں گے۔
کیا مذکورہ بالا حالات کی حامل سرکاری جامعات کو تباہ کرنے کے لیے کسی دہشتگرد کا ہونا ضروری ہے؟ کیا ان حالات میں یہ خود ہی تباہ نہ ہوجائیں گی؟ اگر اس ملک سے دہشتگردی ختم کرنی ہے تو پہلے ہمیں اپنی اساتذہ کو وہ مقام دینا ہوگا جو ترقی یافتہ قومیں دنیا بھر میں دیتی ہیں، ان کے اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کے مسائل حل کرنا ہوں گے، جامعات خصوصاً جامعہ کراچی کی مالی گرانٹ میں کئی گنا اضافہ کرنا ہو گا اور عمومی طور پر تعلیمی بجٹ کو بڑھانا ہوگا۔
بات یہ ہے کہ جب مغرب میںرہنے والے اور وہیں کے تعلیمی اداروں سے پڑھ کر نکلنے والوں کی سوچ ''جہادی'' قسم کی ہوجائے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان طلبا کو کسی پروفیسر نے یہ نظریاتی تعلیم دی ہے بلکہ اس کی وجوہات کچھ اور ہوں گی۔ چنانچہ اسی طرح یہ نہیں کہا جاسکتا کہ پاکستانی جامعات میں طلبا کو دہشتگرد ی کی تعلیم دی جارہی ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی جامعہ، جامعہ کراچی کے بارے میں میڈیا پروگراموں اور خبروں سے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہاں اساتذہ اور طلبا اس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں، قطعی غلط ہے۔راقم کا جامعہ کراچی کا مشاہدہ قریباً بیس برس کا ہے، جس کے مطابق یہاں کسی قسم کی ایسی کوئی مثال موجود نہیں کہ جس میں کسی ایک استاد نے بھی اپنے طور پر طلبا کو ایسی سرگرمیوں کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی ہو۔ یہاں ایسے اساتذہ تو بہت ملیں گے کہ جن کی کوشش ہمیشہ طلبا کو ایک اور نیک بنانے کی ہو۔ ویسے بھی جس قسم کی دہشتگردی کے واقعات منظر عام پر آئے ہیں ان سے تعلق رکھنے والوں کو تو اپنے نظریے کو پھیلانے کے لیے بھی بہت احتیاط کی ضرورت ہوگی نہ کہ وہ کھلے عام اپنے نظریات کی تبلیغ کرتے ہوں۔
البتہ جامعات سے جڑی دہشتگردی کا دوسرا پہلو یقیناً قابل غور ہے اور وہ یہ کہ مستقبل میں ایسی کسی ممکنہ کوشش کو ہونے سے قبل ہی روکا جائے اور ایسے حالات ہی نہ پیدا ہونے دیے جائیں کہ طلبا یا اساتذہ میں سے کوئی اس طرف راغب ہوسکے۔ ایسی منصوبہ بندی کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے جامعات کے طلبا اور اساتذہ کے مسائل حل کیے جائیں اور تحقیقی سرگرمیوں کے مواقعے بڑھائے جائیں۔ اس وقت پاکستان کی تمام جامعات اپنی کارکردگی کے اعتبار سے دنیا میں بہت پیچھے ہیں۔ سرکاری جامعات میں پہلے ہی فنڈز کی کمی ہے، بقول ڈاکٹر عطا الرحمٰن کے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی مختص رقم میں بجائے اضافے کے مزید کمی کردی گئی ہے، چنانچہ اب ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے سرکاری جامعات کو دی جانے والی گرانٹ میں بھی مزید کمی آجائے گی۔ واضح رہے کہ ملک کی سب سے بڑی جامعہ کراچی کی پہلے ہی گرانٹ بہت کم ہے اور یہاں اساتذہ کی تنخواہوں کی ادائیگیاں ایک مسئلہ بن چکی ہیں، ہر مہینے جامعہ کراچی کے اساتذہ پریشان دکھائی دیتے ہیں کہ انھیں پہلی تاریخ کو تنخواہ ملے گی بھی یا نہیں؟ یہاں ریٹائرڈ اساتذہ کو کئی کئی ماہ پنشن بھی نہیں ملتی، نہ ہی ریٹائرڈ ہونے والے اساتذہ کو بروقت ان کے واجبات ملتے ہیں۔ گزشتہ دنوں دہشتگردی کے واقعات کے بعد جامعہ کراچی کے کیمپس میں رہنے والے ریٹائرڈ ملازمین کو ان کے گھروں پر جاکر کہا گیا کہ مکانات خالی کردیں، جس پر چند اساتذہ نے کہا کہ ہمارے واجبات ادا کردیں، ہم مکانات خالی کردیں گے۔
ذرا غور کیجیے، کس قدر شرمناک مقام ہے کہ جن اساتذہ نے اس قوم کے معماروں کو ایک اچھا اور کارآمد شہری بنانے کے لیے اپنی پوری عمر وقف کردی، جنھوں نے اس ملک و قوم کو وہ ہیرے دیے جو آج اس ملک کو چلا رہے ہیں، ریٹائرمنٹ کے بعد انھیں وقت پر ان ہی کے واجبات ادا نہیں کیے گئے اور دہشتگردی کے خلاف مہم کے سلسلے میں راتوں کو ان کے گھروں پر جاکر کہا جا رہا ہے کہ حالات بدل گئے ہیں اب آپ کو اور رعایت نہیں دی جاسکتی، لہٰذا آپ جس مکان میں رہ رہے ہیں وہ خالی کردیں۔ سوال یہ ہے کہ بزرگ اساتذہ کے ساتھ ایسا شرمناک سلوک کرکے ہم اپنے تعلیمی اداروں اور طلبا کو دہشتگردی کی لہر سے دور رکھ سکتے ہیں؟ کیا یہ طریقہ درست ہے؟ آج جامعات کے اساتذہ کو اپنی ریٹائرمنٹ پر جتنی رقم ملتی ہے اس میں وہ کوئی چھوٹا سا پلاٹ بھی نہیں خرید سکتے ہیں (مکان یا فلیٹ خریدنا تو خواب کی بات بھی نہیں)، نہ ہی اپنی بیٹی کی ڈھنگ سے شادی کرسکتے ہیں۔ آج جامعات کے پروفیسروں کو جو تنخواہ ملتی ہے اس میں وہ اپنے چند بچوں کو کسی اچھی نامی اسکول میں پڑھا بھی نہیں سکتے، اسکول اور کالجز کے اساتذہ کی تو بات ہی مت پوچھئے۔ جامعہ کراچی کے ریٹائرڈ پروفیسر خیراتی اسپتال سے اپنے کینسر جیسے مرض کا علاج کرا رہے ہیں اور جو حاضر سروس ہیں ان کے پینل پر کوئی ایک اسپتال نہیں ملتا کہ ان اسپتالوں نے بلوں کی عدم ادائیگی پر جامعہ کراچی کے ملازمین کا علاج ہی بند کردیا ہے۔
پھر دوسری طرف شعبہ جات کا یہ حال ہے کہ کمروں کی چھتوں کا پلستر روزانہ کہیں نہ کہیں گرتا نظر آتا ہے، کسی دن کسی استاد یا طالب علم کی ہلاکت ہوگئی تو پھر ٹی وی چینلز پر بریکنگ نیوز چلیں گی، ریسرچ لیب شاید ہی کوئی ایسی ہو کہ جہاں طلبا کو ریسرچ کرنے کا سامان دستیاب ہو۔
غور کیجیے، ہم چاہتے ہیں کہ ہماری جامعات دہشتگردوں کی آماجگاہیں نہ بنیں، یہ جامعات اپنی علمی اور تحقیقی سرگرمیوں سے ملک و قوم کی ترقی میں فعال کردار ادا کریں۔ سوال یہ ہے کہ کیا صرف چاہنے سے یہ سب کچھ ممکن ہے؟ کیا جب ملک کی سب سے بڑی جامعہ میں ریسرچ کے لیے سامان نہ ہو، عمارتیں خستہ حال ہوں اور کسی حادثے کی منتظر ہوں، جہاں کے اساتذ ہ کو حکومت کی اعلان کردہ اضافی تنخواہ بھی نہ ملے بلکہ ہر مہینے یہ خوف ہو کہ تنخواہیں ملیں گی بھی یا نہیں؟ جہاں کے ریٹائر اساتذہ اپنی رہائش اور واجبات کے لیے فکرمند ہوں، جنھیں میڈیکل کی بنیادی سہولتیں بھی میسر نہ ہوں، کیا دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑی جا سکتی ہے؟ کیا سنگین مذاق ہے کہ بعض اداروں کے سرکاری ملازمین کو تو بڑے بڑے پلاٹ بھی مل جاتے ہیں، بعض کو تو جن جن شہروں میں پوسٹنگ ہو، اس کے اعتبار سے بھی پلاٹ مل جاتے ہیں مگر جامعہ کے ایک پروفیسر کو جو ساری زندگی اس ملک وقوم کو وقف کر دیتا ہے نہ پلاٹ ملتا ہے نہ کیمپس میں رہنے کا حق۔ ایک سترہ اور اٹھارہ گریڈ کے سرکاری ملازم کو عموماً گاڑی اور ڈرائیور بھی مل جاتا ہے، اوور ٹائم بھی تنخواہ کے ساتھ مل جاتا ہے مگر ایک انیس اور بیس گریڈ کے استاد کو بحثیت صدر شعبہ حتیٰ کہ ڈین بننے پر گاڑی خریدنے کے لیے قرضہ تک نہیں دیا جاتا۔ اس ملک کی سب سے بڑی جامعہ کے پروفیسر اپنی گزر اوقات کے لیے پچیس، پچاس روپے کے حساب سے مارکس شیٹ اور رزلٹ بنانے میں مشغول رہتے ہیں۔ سب سے بڑا اور اہم سوال یہ ہے کہ جب جامعات کے اساتذہ اپنے بچوں کی فیسیں ادا کرنے کے لیے قرضہ لیتے ہوں، اپنی گزر اوقات کے لیے رزلٹ اور مارکس شیٹ بنانے کی تگ و دو کرتے نظر آتے ہوں، اپنے علاج اور معالجے اور ہر مہینے ''تنخواہ ملے گی یا نہیں؟'' کی فکر انھیں کھائے جا رہی ہو، کیا ان سے صرف یہ توقع کرنی ہو کہ وہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کوئی فعال کردار ادا کریں گے۔
کیا مذکورہ بالا حالات کی حامل سرکاری جامعات کو تباہ کرنے کے لیے کسی دہشتگرد کا ہونا ضروری ہے؟ کیا ان حالات میں یہ خود ہی تباہ نہ ہوجائیں گی؟ اگر اس ملک سے دہشتگردی ختم کرنی ہے تو پہلے ہمیں اپنی اساتذہ کو وہ مقام دینا ہوگا جو ترقی یافتہ قومیں دنیا بھر میں دیتی ہیں، ان کے اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کے مسائل حل کرنا ہوں گے، جامعات خصوصاً جامعہ کراچی کی مالی گرانٹ میں کئی گنا اضافہ کرنا ہو گا اور عمومی طور پر تعلیمی بجٹ کو بڑھانا ہوگا۔