سیاست یا دشمنی
مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین کو 2018 میں عام انتخابات کا انعقاد سمجھ میں نہیں آرہا
ایک ٹاک شو میں سپریم کورٹ بار کے ایک سابق صدر، جن کا سیاسی تعلق تحریک انصاف سے ہے، نے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف توہین عدالت ہی نہیں بلکہ آئین کی دفعہ 6 کے تحت بغاوت کا مقدمہ درج ہونا چاہیے۔ اس سینئر وکیل کے جواب میں جو خود بھی بار کے سابق صدر رہ چکے ہیں، نے کہا کہ بغاوت کا مقدمہ درست نہیں اور سینئر وکیل اس لیے کہہ رہے ہیں کہ ان کا تعلق نواز شریف کی شدید مخالف جماعت سے ہے اور سیاست میں دشمنی نہیں ہونی چاہیے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ہوچکا اور جو ہوا اس کے ذمے دار سابق وزیراعظم خود بھی ہیں۔
سپریم کورٹ نے تو ابھی انھیں صرف صادق و امین نہ ہونے کا ذمے دار قرار دیا ہے جب کہ نواز شریف کے سیاسی مخالف انھیں نہ جانے کیا کچھ قرار دے رہے ہیں اور وہ ان کی نااہلی پر مطمئن نہیں بلکہ اس سے زیادہ سزا کا حقدار بھی قرار دیتے نہیں تھکتے، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اب سیاست میں ذاتی دشمنی کا عنصر بھی شامل ہوچکا ہے اور موجودہ جمہوریت میں آزادی رائے کا اظہار جرم بنا دیا گیا ہے اور مخالف کی ہر بات غلط اور اپنی ہر بات درست کا اصول اپنا لیا گیا ہے، جہاں مخالف کی درست بات بھی اب ناگواری کا سبب بن جاتی ہے اور یہ سیاسی رجحان انتہائی تشویش ناک ہے۔ سیاست ہر کسی کو اظہار رائے کی آزادی کا حق دیتی ہے جہاں اپنا موقف پیش کرنا دوسرے کی بات سننا نہایت ضروری ہے اور سیاست میں برداشت بہت ضروری ہے کیونکہ سیاسی رواداری، تحمل اور برداشت جمہوریت کا اہم جز ہے، جس میں طریقے سے اپنی سنانا اور صبر سے مخالف کی بات سننا نہایت ضروری ہے اور یہی جمہوریت کا حسن ہے جس پر عمل سے ہی جمہوریت پروان چڑھ سکتی ہے اور مضبوط ہوسکتی ہے۔
سیاست میں اب جھوٹ ضروری بنادیا گیا ہے اور مخالف کے متعلق جھوٹا پروپیگنڈا، بے بنیاد الزامات اور جارحانہ انداز گزشتہ کئی سال سے بڑھ گیا ہے اور جتنا جھوٹ اب سیاست میں بولا جا رہا ہے، اس کی ماضی کی سیاست میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ سیاست پہلے عوام کی خدمت اور عبادت کا درجہ رکھتی تھی جو اب سیاسی دشمنی میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے اور جھوٹ سیاست میں بے انتہا بولا جا رہا ہے اور وہ بھی ڈھٹائی سے اور اپنے جھوٹوں پر اب کوئی شرمندگی کا اظہار کرتا ہے، نہ معذرت، بلکہ بے بنیاد الزامات لگا کر بعد میں اسے سیاسی بیان قرار دے دیا جاتا ہے۔
سیاست میں عارضی مخالفت تو ہوتی ہے جو عام انتخابات میں زیادہ بڑھ جاتی ہے اور انتخابات کے موقع پر ایک دوسرے کے بینرز اور جھنڈے اتار دینا یا پھاڑ دینا، چاکنگ مٹا دینا اور ایک دوسرے کے خلاف تقاریر اور جھوٹا پروپیگنڈا تو ہوتا ہی آیا ہے مگر اب کہیں کہیں انتخابی مہم کے دوران اور خصوصاً پولنگ کے روز اور پولنگ کے بعد نتیجہ آنے پر مخالفوں پر حملے، فائرنگ میں جانی نقصانات تو ہوتے آرہے ہیں اور انتخابی جھگڑے بھی الیکشن کا بخار اترنے پر ختم ہوجاتے ہیں مگر اب صورتحال مختلف اور انتہائی تشویشناک ہوتی نظر آرہی ہے۔
ملک میں وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں کی مدت آیندہ سال جون کے اوائل تک مکمل ہونے کے بعد نگراں حکومتوں نے قائم ہونا ہے جو 90 روز میں عام انتخابات کرانے کی پابند ہوں گی اس لحاظ سے موجودہ حکومتیں باقی نو ماہ میں اپنی کارکردگی پر خصوصی توجہ دے رہی ہیں مگر گزشتہ ایک سال سے ملک میں پاناما کے ایشو پر سیاست ذاتی دشمنی میں تبدیل کردی گئی ہے اور نواز شریف کی نااہلی کے متنازعہ فیصلے کے بعد سیاست میں ذاتی دشمنی کم نہیں ہوئی اور عمران خان، اسمبلیوں سے باہر اور ہر چند ماہ بعد کینیڈا سے پاکستان آکر پاکستان عوامی تحریک کی خاموش سیاست کو جلا دینے والے ڈاکٹر طاہر القادری، ایک نشست والے رہنما شیخ رشید، چوہدری پرویز الٰہی اور شریف برادران مخالف رہنماؤں کو اب بھی شریف برادران پر گرجتے برستے اور زہریلی تقریریں کرتے ہوئے دیکھا جا رہا ہے اور عمران خان اور شیخ رشید کے علاوہ سیاسی کے علاوہ مذہبی پہچان بھی رکھنے والے ڈاکٹر قادری اور سراج الحق ہر حالت میں شریف خاندانوں کو جیل میں دیکھنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ نواز شریف کی نااہلی کے بعد مسلم لیگ (ن) بھی نااہل ہوجائے اور سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کے ذریعے مسلم لیگ (ن) پر انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی لگوادی جائے۔ یہ لوگ اب شریف خاندان کو اپنا سیاسی حریف نہیں بلکہ ذاتی دشمن تصور کرکے سیاست جاری رکھے ہوئے ہیں اور سیاست میں شریف برادران کا وجود برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری تو کہہ چکے ہیں کہ انھیں آیندہ سیاست میں شریف برادران نظر نہیں آرہے اور اب انھیں ہر جگہ بلاول زرداری ہی چھائے نظر آرہے ہیں اور دونوں باپ بیٹے عمران خان اور نواز شریف کو ایک ہی سکے کے دو رخ قرار دیتے ہیں تو عمران خان کو آصف علی زرداری اور نواز شریف ایک ہی سکے کے دو رخ نظر آرہے ہیں۔
مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین کو 2018 میں عام انتخابات کا انعقاد سمجھ میں نہیں آرہا جس کی وجہ تو چوہدری صاحب ہی کو پتا ہے مگر آیندہ سال جون سے قبل ملک میں مرکز اور چاروں صوبوں کے قائدین ایوان اور اپوزیشن لیڈروں نے نگراں وزیر اعظم اور نگراں وزرائے اعلیٰ کے تقرر پر متفق ہونا ہے جو نظر نہیں آرہا۔ حالت تو یہ ہے کہ انتخابی اصلاحات پر اتفاق ہی مسئلہ بنا ہوا ہے۔
وفاق میں مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعظم اور پی پی کے اپوزیشن لیڈر، پنجاب میں (ن) لیگ کے وزیر اعلیٰ اور پی ٹی آئی کے اپوزیشن لیڈر، سندھ میں پی پی کے وزیر اعلیٰ اور متحدہ کے اپوزیشن لیڈر اور کے پی کے میں پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ اور جے یو آئی کے اپوزیشن لیڈر ہیں جب کہ بلوچستان کی صورتحال زیادہ گمبھیر نہیں ہوگی۔ 2013 میں بھی حکومت اور اپوزیشن لیڈر متفق نہیں ہوئے تھے اور نگراں وزیراعظم عدالت عظمیٰ نے مقرر کیا تھا جب کہ اس بار صورتحال زیادہ خراب نظر آرہی ہے، کیونکہ تینوں بڑی جماعتیں سیاست میں ایک دوسرے کی دشمن بنی ہوئی ہیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کبھی نگراں سیٹ اپ پر متفق نہیں ہوں گی وفاق میں مسلم لیگ اور پی پی کے فیصلے کو پی ٹی آئی کبھی نہیں مانے گی۔ کے پی کے میں پی ٹی آئی اور جے یو آئی ایک دوسرے کی سخت مخالف ہیں۔ سندھ اور پنجاب میں شاید اتفاق ہوجائے مگر پی ٹی آئی کبھی نہیں مانے گی اور نگرانوں کا فیصلہ عدلیہ ہی کو کرنا پڑ سکتا ہے۔
عام انتخابات سے ایک سال قبل ہی سیاسی صورتحال سخت کشیدہ، سیاستدان ایک دوسرے کے سیاسی حریف نہیں سیاسی دشمن نظر آرہے ہیں اور دعوے جمہوریت کے ہو رہے ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ متنازعہ کوششوں کے باوجود انتخابی نتائج کو تسلیم کرلیا جائے گا اور ملک میں شدید انتخابی خونریزی نہیں ہوگی۔
سپریم کورٹ نے تو ابھی انھیں صرف صادق و امین نہ ہونے کا ذمے دار قرار دیا ہے جب کہ نواز شریف کے سیاسی مخالف انھیں نہ جانے کیا کچھ قرار دے رہے ہیں اور وہ ان کی نااہلی پر مطمئن نہیں بلکہ اس سے زیادہ سزا کا حقدار بھی قرار دیتے نہیں تھکتے، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اب سیاست میں ذاتی دشمنی کا عنصر بھی شامل ہوچکا ہے اور موجودہ جمہوریت میں آزادی رائے کا اظہار جرم بنا دیا گیا ہے اور مخالف کی ہر بات غلط اور اپنی ہر بات درست کا اصول اپنا لیا گیا ہے، جہاں مخالف کی درست بات بھی اب ناگواری کا سبب بن جاتی ہے اور یہ سیاسی رجحان انتہائی تشویش ناک ہے۔ سیاست ہر کسی کو اظہار رائے کی آزادی کا حق دیتی ہے جہاں اپنا موقف پیش کرنا دوسرے کی بات سننا نہایت ضروری ہے اور سیاست میں برداشت بہت ضروری ہے کیونکہ سیاسی رواداری، تحمل اور برداشت جمہوریت کا اہم جز ہے، جس میں طریقے سے اپنی سنانا اور صبر سے مخالف کی بات سننا نہایت ضروری ہے اور یہی جمہوریت کا حسن ہے جس پر عمل سے ہی جمہوریت پروان چڑھ سکتی ہے اور مضبوط ہوسکتی ہے۔
سیاست میں اب جھوٹ ضروری بنادیا گیا ہے اور مخالف کے متعلق جھوٹا پروپیگنڈا، بے بنیاد الزامات اور جارحانہ انداز گزشتہ کئی سال سے بڑھ گیا ہے اور جتنا جھوٹ اب سیاست میں بولا جا رہا ہے، اس کی ماضی کی سیاست میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ سیاست پہلے عوام کی خدمت اور عبادت کا درجہ رکھتی تھی جو اب سیاسی دشمنی میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے اور جھوٹ سیاست میں بے انتہا بولا جا رہا ہے اور وہ بھی ڈھٹائی سے اور اپنے جھوٹوں پر اب کوئی شرمندگی کا اظہار کرتا ہے، نہ معذرت، بلکہ بے بنیاد الزامات لگا کر بعد میں اسے سیاسی بیان قرار دے دیا جاتا ہے۔
سیاست میں عارضی مخالفت تو ہوتی ہے جو عام انتخابات میں زیادہ بڑھ جاتی ہے اور انتخابات کے موقع پر ایک دوسرے کے بینرز اور جھنڈے اتار دینا یا پھاڑ دینا، چاکنگ مٹا دینا اور ایک دوسرے کے خلاف تقاریر اور جھوٹا پروپیگنڈا تو ہوتا ہی آیا ہے مگر اب کہیں کہیں انتخابی مہم کے دوران اور خصوصاً پولنگ کے روز اور پولنگ کے بعد نتیجہ آنے پر مخالفوں پر حملے، فائرنگ میں جانی نقصانات تو ہوتے آرہے ہیں اور انتخابی جھگڑے بھی الیکشن کا بخار اترنے پر ختم ہوجاتے ہیں مگر اب صورتحال مختلف اور انتہائی تشویشناک ہوتی نظر آرہی ہے۔
ملک میں وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں کی مدت آیندہ سال جون کے اوائل تک مکمل ہونے کے بعد نگراں حکومتوں نے قائم ہونا ہے جو 90 روز میں عام انتخابات کرانے کی پابند ہوں گی اس لحاظ سے موجودہ حکومتیں باقی نو ماہ میں اپنی کارکردگی پر خصوصی توجہ دے رہی ہیں مگر گزشتہ ایک سال سے ملک میں پاناما کے ایشو پر سیاست ذاتی دشمنی میں تبدیل کردی گئی ہے اور نواز شریف کی نااہلی کے متنازعہ فیصلے کے بعد سیاست میں ذاتی دشمنی کم نہیں ہوئی اور عمران خان، اسمبلیوں سے باہر اور ہر چند ماہ بعد کینیڈا سے پاکستان آکر پاکستان عوامی تحریک کی خاموش سیاست کو جلا دینے والے ڈاکٹر طاہر القادری، ایک نشست والے رہنما شیخ رشید، چوہدری پرویز الٰہی اور شریف برادران مخالف رہنماؤں کو اب بھی شریف برادران پر گرجتے برستے اور زہریلی تقریریں کرتے ہوئے دیکھا جا رہا ہے اور عمران خان اور شیخ رشید کے علاوہ سیاسی کے علاوہ مذہبی پہچان بھی رکھنے والے ڈاکٹر قادری اور سراج الحق ہر حالت میں شریف خاندانوں کو جیل میں دیکھنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ نواز شریف کی نااہلی کے بعد مسلم لیگ (ن) بھی نااہل ہوجائے اور سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کے ذریعے مسلم لیگ (ن) پر انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی لگوادی جائے۔ یہ لوگ اب شریف خاندان کو اپنا سیاسی حریف نہیں بلکہ ذاتی دشمن تصور کرکے سیاست جاری رکھے ہوئے ہیں اور سیاست میں شریف برادران کا وجود برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری تو کہہ چکے ہیں کہ انھیں آیندہ سیاست میں شریف برادران نظر نہیں آرہے اور اب انھیں ہر جگہ بلاول زرداری ہی چھائے نظر آرہے ہیں اور دونوں باپ بیٹے عمران خان اور نواز شریف کو ایک ہی سکے کے دو رخ قرار دیتے ہیں تو عمران خان کو آصف علی زرداری اور نواز شریف ایک ہی سکے کے دو رخ نظر آرہے ہیں۔
مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین کو 2018 میں عام انتخابات کا انعقاد سمجھ میں نہیں آرہا جس کی وجہ تو چوہدری صاحب ہی کو پتا ہے مگر آیندہ سال جون سے قبل ملک میں مرکز اور چاروں صوبوں کے قائدین ایوان اور اپوزیشن لیڈروں نے نگراں وزیر اعظم اور نگراں وزرائے اعلیٰ کے تقرر پر متفق ہونا ہے جو نظر نہیں آرہا۔ حالت تو یہ ہے کہ انتخابی اصلاحات پر اتفاق ہی مسئلہ بنا ہوا ہے۔
وفاق میں مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعظم اور پی پی کے اپوزیشن لیڈر، پنجاب میں (ن) لیگ کے وزیر اعلیٰ اور پی ٹی آئی کے اپوزیشن لیڈر، سندھ میں پی پی کے وزیر اعلیٰ اور متحدہ کے اپوزیشن لیڈر اور کے پی کے میں پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ اور جے یو آئی کے اپوزیشن لیڈر ہیں جب کہ بلوچستان کی صورتحال زیادہ گمبھیر نہیں ہوگی۔ 2013 میں بھی حکومت اور اپوزیشن لیڈر متفق نہیں ہوئے تھے اور نگراں وزیراعظم عدالت عظمیٰ نے مقرر کیا تھا جب کہ اس بار صورتحال زیادہ خراب نظر آرہی ہے، کیونکہ تینوں بڑی جماعتیں سیاست میں ایک دوسرے کی دشمن بنی ہوئی ہیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کبھی نگراں سیٹ اپ پر متفق نہیں ہوں گی وفاق میں مسلم لیگ اور پی پی کے فیصلے کو پی ٹی آئی کبھی نہیں مانے گی۔ کے پی کے میں پی ٹی آئی اور جے یو آئی ایک دوسرے کی سخت مخالف ہیں۔ سندھ اور پنجاب میں شاید اتفاق ہوجائے مگر پی ٹی آئی کبھی نہیں مانے گی اور نگرانوں کا فیصلہ عدلیہ ہی کو کرنا پڑ سکتا ہے۔
عام انتخابات سے ایک سال قبل ہی سیاسی صورتحال سخت کشیدہ، سیاستدان ایک دوسرے کے سیاسی حریف نہیں سیاسی دشمن نظر آرہے ہیں اور دعوے جمہوریت کے ہو رہے ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ متنازعہ کوششوں کے باوجود انتخابی نتائج کو تسلیم کرلیا جائے گا اور ملک میں شدید انتخابی خونریزی نہیں ہوگی۔