عوام سرسبز و شاداب دنیا کے منتظر
ایک سال میں کراچی ہرا بھرا ہوجائے گا اور بارش بھی ہونے لگے گی
آج سے پچاس ہزار سال قبل انسان نے کاشت کاری شروع کی، اسی دن سے فطری پیداواراور نشونما میں بگاڑ پیدا ہوا۔ معلوم تاریخ کے مطابق انسان کی مکمل فطری نقل وحمل اور رہن سہن کی شروعات پچاس لاکھ سال سے عمل میں آئی۔ ہرچندکہ کپڑا نہیں پہنتا تھا، ائیرکنڈیشن مکان یا ہیٹر نہیں تھے مگر آج کی طرح انجان بیماریوں، حاد ثات اور بھوک سے انسان نہیں مرتے تھے ۔ انسان، انسان کا استحصال نہیں کرتا تھا ۔ کوئی ارب پتی تھا اور نہ کوئی گدا گر ۔ بھوک لگتی تھی تو درخت سے پھل توڑ کر یا پودوں کی جڑوں کو اکھاڑکرکھا لیتا تھا۔
کبھی پرندوں اور جانوروں کا شکارکرکے خورا ک پوری کرلیتا تھا۔ دریا، سمندر یا ندی سے مچھلیاں پکڑکر کھا لیتا تھا ۔ با قی فرصت کے اوقات رقص وموسیقی سے لطف اندوزہوتا تھا۔ میرا اور تیرا، دشمن اور قتل کے الفاظ سے ناآشنا تھا ۔ یہ ساری سہولتیں اور آسائشیں فطرت کی دین تھی خاص کرکے درختوں، پودوں اور آبی وسا ئل کی۔ اب بھی ساڑھے چارکروڑ انسان جنگلوں میں رہتے ہیں ۔ ان کی کوئی سرحد نہیں ہے اور نہ کوئی طبقات ۔ بقول روسو کے '' معصوم وحشی انسان'' لیکن آج کے مہذب انسانوں کی طرح نہیں جہاں دنیا کی آدھی دولت کے مالک صرف آٹھ افراد اور روزا نہ بھوک سے پچہتر ہزار انسان مر رہے ہیں۔
ماحولیات کی تباہی سے مختلف بیماریاں پھیل رہی ہیں، حرارت اچانک کم ہونے اور بڑھنے سے لاکھوں انسان موت کے منہ میں جارہے ہیں ۔ زلزلے، سیلاب، طوفان، طغیانی اور خشک سالی کی وجہ سے انسان کا مستقبل خطرے میں ہے ۔ ایک زمانہ وہ تھا جب سارے براعظم ایک ہی کرہ ارض میں جڑے ہو ئے تھے اور یہ ارض بارشوں میں جھوم اٹھتی تھی ، پھولوں کی خوشبوؤں سے دنیا مہکتی تھی ، پرندوں کی آوازوں سے چہچہاتی تھیں ، مگر آج برف پگھل رہی ہے ، زرخیز زمینیں بنجر ہورہی ہیں، پانی کی سطح بلند ہورہی ہے اور ہم بے فکری سے سو رہے ہیں ۔ اقوام متحدہ کے فیصلوں کے مطابق ہر ملک کی سطح زمین کا پچیس فیصد جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے۔ جس پر جنوبی امریکی ممالک زیادہ تر عمل درآمد کررہے ہیں۔
جب کہ ماحولیات کے تحفظ کی خلاف ورزی سب سے زیادہ ریاست ہائے متحدہ امریکا کررہا ہے ۔ دنیا میں اس وقت ساٹھ ہزار اقسام کے درخت اور پودے پائے جاتے ہیں جن میں آٹھ ہزار برازیل میں ہیں ۔ ان آٹھ ہزار میں سے چار ہزار ایسی اقسام کے ہیں جو دنیا میں اورکہیں نہیں پائی جاتیں۔ اس وقت سب سے زیادہ رقبے پر جنگلات برازیل میں ہیں یعنی پچاسی فیصد، سوری نام میں اس سے بھی زیادہ یعنی نوے فیصد، جنو بی کوریا میں انہترفیصد، امریکا میں چالیس فیصد ، بھارت میں بیس فیصد ، بنگلہ دیش میں سولہ فیصد جب کہ پاکستان میں دو عشاریہ پانچ فیصد ہے ۔امریکی ایما زون جنگل دنیا کا پھیپھڑا کہلاتا ہے جب کہ یہی امریکا سب سے زیادہ ماحولیات کی تباہی کا ذمے دار ہے۔
یہاں سب سے زیادہ ماحولیات کو خراب صنعتی فضلے اور گو لہ بارود بشمول جوہری ہتھیاروں کی نقل وحمل کے ذریعے کیا جارہا ہے۔ اسی لیے حال ہی میں ماحولیات کی عالمی اجلاس سے امریکی نمایندہ واک آؤٹ کرگیا ۔اس کے بعد سب سے زیادہ ماحولیات بگاڑ نے میں چین کا کردار ہے ۔ چین میں تیس فیصد علاقے میں تیزابی بارش ہوتی ہے کیونکہ دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ کوئلے سے بجلی کی پیداوار چین میں ہورہی ہے جس کی وجہ سے فضا میں کاربن کا ڈھیر لگ گیا ہے ۔ پہلے توکیو ٹو کے اجلاس میں کیے جا نے وا لے معاہدات پر عمل کر نے سے امریکا، کینیڈا اور آسٹریلیا انکارکر رہے تھے، مگر اب صرف امریکا رہ گیا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ صنعتی فضلے کو نیوٹرلائزڈ کیا جائے قبل از قیام صنعت ۔ دوسرا اقدام کاربن کے پھیلاؤ کو روکا جائے اور تیسرا اسلحے کی پیداوار استعمال، جوہری ہتھیاروں پر نہ صرف پابندی بلکہ ان کو فی الفور دفنایا جائے۔
پاکستان میں بنجر علا قوں کو سرسبزوشاداب بنانے کے لیے کوئی مستقل منصو بہ بندی نہیں ہے ۔ تھر پارکر میں اگرکثرت سے درخت لگائے جائیں تو یہ علا قہ سب سے زیادہ ہرا بھرا ہوسکتا ہے، اسی طرح چولستان اور بلوچستان ۔کرا چی میں جتنے درخت لگائے جاتے ہیں اتنے ہی کاٹے جاتے ہیں ۔ایک انسان کے لیے سات درختوں کی آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ یہاں زندہ لوگوں کی آ بادی کو قبرستان اور قبرستان کو شاداب بنایا جاتا ہے ۔کرا چی میں میوہ شاہ ،ماڈل کالونی، پاپوش نگر اورکالونی گیٹ کے قبرستانوں کو باغات اور انسانی بستیاں ریگستان بنا دی گئی ہیں۔
فاٹا ، گلگت، بلتستان کو تو حال ہی میں پاکستان میں شامل کیا گیا ہے جب کہ آزادکشمیر پا کستان کا حصہ ہی نہیں اس لیے ان علاقوں کے جنگلات کو پاکستان کے جنگلات میں شامل نہیں کیا جاسکتا ہے ۔کے پی کے، ضلع ایبٹ آ باد میں گلیات کا علا قہ جوکہ پچاس ہزارکی آ بادی پر مشتمل ہے یہاں گیس پا ئپ لا ئن ہی نہیں ہے ۔ جس کی وجہ سے یہاں کے عوام جنگلات کی لکڑیاں ایندھن کے طور پر استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔کرا چی میں تو بارش ہی نہیں ہوتی، جب کہ یہاں درخت لگانے کی بہت گنجائش ہے ۔گزشتہ برسوں میں خاصے درخت لگائے گئے لیکن انھیں بے دریغ کاٹا بھی جارہا ہے ۔ حال ہی میں کرا چی میں سڑکوں کی توسیع کر نے کی خا طر تیس ہزار درخت کاٹے گئے ۔ جہاں تک تھر اور چولستان کا تعلق ہے تو انھیں بھی سبزوشاداب بنایا جاسکتا ہے مگر اس کی منصو بہ بندی کرنی ہوگی۔
روس میں سوشلسٹ انقلاب کے بعد سائیبیریا کے لا کھوں ایکٹر علا قے کو سبزوشاداب بنا گیا تھا ۔ وہ اس طرح سے کہ یہاں کی زمین پر دیسی کھاد ڈالے گئی اور چار برس تک گہرے ہل چلائے گئے ، پھر یہ علا قہ آلو، تربوز،گندم اور مکئی کی پیدا وار دینے لگا۔ اسی طرح سے ہم بھی تھرپارکر اورچولستان کو سرسبزوشاداب بناسکتے ہیں ۔ شہروں کو خاص کرکے کراچی میں اگر حکومت یہ حکم نامہ جاری کرے کہ ہر فرد اپنے گھر یا گلی کے سامنے ایک درخت لگائے گا ورنہ اس پر جرمانہ کیا جائے گا۔
دیکھیے گا کہ ایک سال میں کراچی ہرا بھرا ہوجائے گا اور بارش بھی ہونے لگے گی۔ سندھ کے لیے تو نیم کے درخت بہت ہی موافق ہے اور نیم کا درخت سب سے زیادہ آکسیجن چھوڑتا ہے، یہ ہماری خوش قسمتی بھی ہے ۔ ناریل اورکجھور بھی موافق ہے ۔ ناریل وا حد درخت ہے جو کہ فضا کی آلودگی کو جذب کرتا ہے ۔ پاکستان کی ساٹھ فیصد زمین بنجر پڑی ہیں جسے زرخیز بنا کر بے روزگاری کا خاتمہ اور ماحولیات دونوںکو بہتر بنایا جاسکتا ہے، مگر شرط یہ ہے کہ ہمیں آئی ایم ایف سے قرضوں اور اسلحے کی پیداوار یعنی دفاعی اخراجات میں کمی کرنی ہوگی۔ ہمارا ملک سرسبز وشاداب لہلہاتے کھیتوں سے جھوم اٹھے گا۔ ہرچندکہ مسا ئل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی معاشرے کے قیام میں مضمر ہے جہاں سب مل کرکام کریں اور مل کر کھائیں، کوئی ارب پتی ہو اور نہ کوئی گداگر۔
کبھی پرندوں اور جانوروں کا شکارکرکے خورا ک پوری کرلیتا تھا۔ دریا، سمندر یا ندی سے مچھلیاں پکڑکر کھا لیتا تھا ۔ با قی فرصت کے اوقات رقص وموسیقی سے لطف اندوزہوتا تھا۔ میرا اور تیرا، دشمن اور قتل کے الفاظ سے ناآشنا تھا ۔ یہ ساری سہولتیں اور آسائشیں فطرت کی دین تھی خاص کرکے درختوں، پودوں اور آبی وسا ئل کی۔ اب بھی ساڑھے چارکروڑ انسان جنگلوں میں رہتے ہیں ۔ ان کی کوئی سرحد نہیں ہے اور نہ کوئی طبقات ۔ بقول روسو کے '' معصوم وحشی انسان'' لیکن آج کے مہذب انسانوں کی طرح نہیں جہاں دنیا کی آدھی دولت کے مالک صرف آٹھ افراد اور روزا نہ بھوک سے پچہتر ہزار انسان مر رہے ہیں۔
ماحولیات کی تباہی سے مختلف بیماریاں پھیل رہی ہیں، حرارت اچانک کم ہونے اور بڑھنے سے لاکھوں انسان موت کے منہ میں جارہے ہیں ۔ زلزلے، سیلاب، طوفان، طغیانی اور خشک سالی کی وجہ سے انسان کا مستقبل خطرے میں ہے ۔ ایک زمانہ وہ تھا جب سارے براعظم ایک ہی کرہ ارض میں جڑے ہو ئے تھے اور یہ ارض بارشوں میں جھوم اٹھتی تھی ، پھولوں کی خوشبوؤں سے دنیا مہکتی تھی ، پرندوں کی آوازوں سے چہچہاتی تھیں ، مگر آج برف پگھل رہی ہے ، زرخیز زمینیں بنجر ہورہی ہیں، پانی کی سطح بلند ہورہی ہے اور ہم بے فکری سے سو رہے ہیں ۔ اقوام متحدہ کے فیصلوں کے مطابق ہر ملک کی سطح زمین کا پچیس فیصد جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے۔ جس پر جنوبی امریکی ممالک زیادہ تر عمل درآمد کررہے ہیں۔
جب کہ ماحولیات کے تحفظ کی خلاف ورزی سب سے زیادہ ریاست ہائے متحدہ امریکا کررہا ہے ۔ دنیا میں اس وقت ساٹھ ہزار اقسام کے درخت اور پودے پائے جاتے ہیں جن میں آٹھ ہزار برازیل میں ہیں ۔ ان آٹھ ہزار میں سے چار ہزار ایسی اقسام کے ہیں جو دنیا میں اورکہیں نہیں پائی جاتیں۔ اس وقت سب سے زیادہ رقبے پر جنگلات برازیل میں ہیں یعنی پچاسی فیصد، سوری نام میں اس سے بھی زیادہ یعنی نوے فیصد، جنو بی کوریا میں انہترفیصد، امریکا میں چالیس فیصد ، بھارت میں بیس فیصد ، بنگلہ دیش میں سولہ فیصد جب کہ پاکستان میں دو عشاریہ پانچ فیصد ہے ۔امریکی ایما زون جنگل دنیا کا پھیپھڑا کہلاتا ہے جب کہ یہی امریکا سب سے زیادہ ماحولیات کی تباہی کا ذمے دار ہے۔
یہاں سب سے زیادہ ماحولیات کو خراب صنعتی فضلے اور گو لہ بارود بشمول جوہری ہتھیاروں کی نقل وحمل کے ذریعے کیا جارہا ہے۔ اسی لیے حال ہی میں ماحولیات کی عالمی اجلاس سے امریکی نمایندہ واک آؤٹ کرگیا ۔اس کے بعد سب سے زیادہ ماحولیات بگاڑ نے میں چین کا کردار ہے ۔ چین میں تیس فیصد علاقے میں تیزابی بارش ہوتی ہے کیونکہ دنیا میں اس وقت سب سے زیادہ کوئلے سے بجلی کی پیداوار چین میں ہورہی ہے جس کی وجہ سے فضا میں کاربن کا ڈھیر لگ گیا ہے ۔ پہلے توکیو ٹو کے اجلاس میں کیے جا نے وا لے معاہدات پر عمل کر نے سے امریکا، کینیڈا اور آسٹریلیا انکارکر رہے تھے، مگر اب صرف امریکا رہ گیا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ صنعتی فضلے کو نیوٹرلائزڈ کیا جائے قبل از قیام صنعت ۔ دوسرا اقدام کاربن کے پھیلاؤ کو روکا جائے اور تیسرا اسلحے کی پیداوار استعمال، جوہری ہتھیاروں پر نہ صرف پابندی بلکہ ان کو فی الفور دفنایا جائے۔
پاکستان میں بنجر علا قوں کو سرسبزوشاداب بنانے کے لیے کوئی مستقل منصو بہ بندی نہیں ہے ۔ تھر پارکر میں اگرکثرت سے درخت لگائے جائیں تو یہ علا قہ سب سے زیادہ ہرا بھرا ہوسکتا ہے، اسی طرح چولستان اور بلوچستان ۔کرا چی میں جتنے درخت لگائے جاتے ہیں اتنے ہی کاٹے جاتے ہیں ۔ایک انسان کے لیے سات درختوں کی آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ یہاں زندہ لوگوں کی آ بادی کو قبرستان اور قبرستان کو شاداب بنایا جاتا ہے ۔کرا چی میں میوہ شاہ ،ماڈل کالونی، پاپوش نگر اورکالونی گیٹ کے قبرستانوں کو باغات اور انسانی بستیاں ریگستان بنا دی گئی ہیں۔
فاٹا ، گلگت، بلتستان کو تو حال ہی میں پاکستان میں شامل کیا گیا ہے جب کہ آزادکشمیر پا کستان کا حصہ ہی نہیں اس لیے ان علاقوں کے جنگلات کو پاکستان کے جنگلات میں شامل نہیں کیا جاسکتا ہے ۔کے پی کے، ضلع ایبٹ آ باد میں گلیات کا علا قہ جوکہ پچاس ہزارکی آ بادی پر مشتمل ہے یہاں گیس پا ئپ لا ئن ہی نہیں ہے ۔ جس کی وجہ سے یہاں کے عوام جنگلات کی لکڑیاں ایندھن کے طور پر استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔کرا چی میں تو بارش ہی نہیں ہوتی، جب کہ یہاں درخت لگانے کی بہت گنجائش ہے ۔گزشتہ برسوں میں خاصے درخت لگائے گئے لیکن انھیں بے دریغ کاٹا بھی جارہا ہے ۔ حال ہی میں کرا چی میں سڑکوں کی توسیع کر نے کی خا طر تیس ہزار درخت کاٹے گئے ۔ جہاں تک تھر اور چولستان کا تعلق ہے تو انھیں بھی سبزوشاداب بنایا جاسکتا ہے مگر اس کی منصو بہ بندی کرنی ہوگی۔
روس میں سوشلسٹ انقلاب کے بعد سائیبیریا کے لا کھوں ایکٹر علا قے کو سبزوشاداب بنا گیا تھا ۔ وہ اس طرح سے کہ یہاں کی زمین پر دیسی کھاد ڈالے گئی اور چار برس تک گہرے ہل چلائے گئے ، پھر یہ علا قہ آلو، تربوز،گندم اور مکئی کی پیدا وار دینے لگا۔ اسی طرح سے ہم بھی تھرپارکر اورچولستان کو سرسبزوشاداب بناسکتے ہیں ۔ شہروں کو خاص کرکے کراچی میں اگر حکومت یہ حکم نامہ جاری کرے کہ ہر فرد اپنے گھر یا گلی کے سامنے ایک درخت لگائے گا ورنہ اس پر جرمانہ کیا جائے گا۔
دیکھیے گا کہ ایک سال میں کراچی ہرا بھرا ہوجائے گا اور بارش بھی ہونے لگے گی۔ سندھ کے لیے تو نیم کے درخت بہت ہی موافق ہے اور نیم کا درخت سب سے زیادہ آکسیجن چھوڑتا ہے، یہ ہماری خوش قسمتی بھی ہے ۔ ناریل اورکجھور بھی موافق ہے ۔ ناریل وا حد درخت ہے جو کہ فضا کی آلودگی کو جذب کرتا ہے ۔ پاکستان کی ساٹھ فیصد زمین بنجر پڑی ہیں جسے زرخیز بنا کر بے روزگاری کا خاتمہ اور ماحولیات دونوںکو بہتر بنایا جاسکتا ہے، مگر شرط یہ ہے کہ ہمیں آئی ایم ایف سے قرضوں اور اسلحے کی پیداوار یعنی دفاعی اخراجات میں کمی کرنی ہوگی۔ ہمارا ملک سرسبز وشاداب لہلہاتے کھیتوں سے جھوم اٹھے گا۔ ہرچندکہ مسا ئل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی معاشرے کے قیام میں مضمر ہے جہاں سب مل کرکام کریں اور مل کر کھائیں، کوئی ارب پتی ہو اور نہ کوئی گداگر۔