سندھ کے کھیتوں میں بھوک کیوں اگتی ہے
مخدوم طالب المولیٰ کے بعدان کے بڑے فرزند اور جانشین مخدوم امین فہیم ’’سروری جماعت‘‘ کے روحانی پیشوا بنے
بھٹ شاہ اورطالب المولیٰ کے شہر ہالا سے میرا گہرا تعلق رہا ہے، اسکول کے دور میں کچھ سال تعلیم بھی وہاں حاصل کی۔ بیس برس بیت گئے میرا وہاںجانا نہ ہوا، مگر جب ایک بہت ہی قریبی دوست کی طرف سے بیٹی کی شادی کی دعوت ملی تو پرانے دوستوں سے ملنے کا بہانہ بن ہی گیا۔ نا مکمل اور ادھورے موٹر وے پر سفر کیا تو سندھ اور پنجاب کے موٹر وے کا فرق اور تضاد بھی نظر آیا ۔ یہ فرق اور تضاد صرف موٹر وے تک محدود نہیں ہے یہ تضاد زندگی کے ہر شعبے میں نظر آتاہے۔ پنجاب میں داخل ہوتے ہی سڑک کی دونوں جانب لہراتی فصلیں آپ کا استقبال کرتی ہیں، پھرمیٹرو ٹرین ، انڈر پاسز، بریجز، سبزے اور ہریالی نے پنجاب کے شہروں کی شکل ہی تبدیل کردی ہے ، آپ کوسندھ اور پنجاب کے تعلیمی معیار میں بھی فرق ملے گا۔یقیناً اس کا کریڈٹ مسلم لیگ اور شریف برادران کو جاتا ہے جنہوں نے پنجاب کے تمام شہروں میں نہیں تو اکثر شہروں کی شکل بدل دی ہے۔
خیر سے دو بار محترمہ بے نظیر بھٹو اور ایک بار پورے پانچ سال آصف علی زرداری کو مرکز میں حکومت رہی۔ ماضی کے ادوار میں بھی پیپلز پارٹی سندھ میں حکومت میں رہی،گزشتہ 9 سال سے برسراقتدار ہے۔کاش پیپلز پارٹی اپنے ادوار میں دیہی سندھ میں کسانوں، ہاریوں، کاشت کاروں اور مزارعوں کی تقدیر بدلنے کی کوشش کرتی جس کا نعرہ ذوالفقار علی بھٹو نے دیا تھا۔ بھٹو صاحب کی شخصیت کا یہ تو کمال تھا ان کے رولنگ کلاس سے بھی اچھے تعلقات تھے۔ پارٹی کے قیام کے وقت ایک طرف معراج محمد خان، مختار رانا ،شیخ رشید، ڈاکٹر مبشر حسن جیسے سوشلسٹ انقلابی تھے تو دوسری طرف غلام مصطفی کھر، ممتاز بھٹو، طالب المولی، غلام مصطفی جتوئی جیسے جاگیر دار اور وڈیرے بھی ان کے ساتھ کھڑے تھے۔
سترکی دہائی میں سندھ میں سیاسی ، سماجی خدمات اور فروغ تعلیم کے حوالے سے ایک بڑا نام مخدوم طالب المولیٰ کا تھا ان کواحتراماً پیرل سائیں کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ آپ درگاہ مخدوم سرور نوح کے 17 ویں سجادہ نشیں مقرر ہوئے تو اپنے پیش رو مخدوم غلام حیدر کی طرح سیاست کے دشت کا بھی رخ کیا۔ صوبائی اور قومی اسمبلی کے کئی بار رکن رہے' ادبی تنظیموں کی بنیاد رکھی' ادبی میگزین کا اجرا کیا اورہالا میں اْن دنوں پرنٹنگ پریس لگوایا جب پریس کی تنصیب آسان کام نہ تھی۔ ہالہ میں متعدد تاریخی اجتماعات' تعلیمی ادارے' علم و ادب کی محفلیں منعقد کرائیں' سیکڑوں نہیں ہزاروں طالبعلموں کی سرپرستی بھی کی۔ مخدوم طالب المولیٰ کی علمی اورادبی ، سیاسی اور سماجی خدمات کو آج بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔
مخدوم طالب المولیٰ کے بعدان کے بڑے فرزند اور جانشین مخدوم امین فہیم ''سروری جماعت'' کے روحانی پیشوا بنے۔ روحانی پیشوا کے ساتھ ساتھ مخدوم صاحب نے 1970ء کے عام انتخابات کے دوران سیاست میں قدم رکھا، وہ آٹھ انتخابات میں نا قابل شکست رہے۔ 1977ء،1988ء، 1990ء،1993ء، 1997ء، 2002ء، 2008ء اور 2013ء تک مسلسل آٹھ مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن رہے۔مخدوم امین فہیم بینظیر بھٹو کے دونوں ادوار میں وفاقی وزیر کے عہدے پر بھی رہے ان کے پاس وزارت اطلاعات، ریلوے، ہاؤسنگ اینڈ ورکس اور معیشت وتجارت کا قلمدان بھی رہا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئر وائس چیئرمین کے عہدے پر بھی فائزہوئے۔ پارٹی سے ان کی وابستگی بہت گہری اور پختہ رہی وہ آخری وقت تک پیپلزپارٹی کے وفادار رہے۔
یہاں میں مخدوم خاندان کی پیپلز پارٹی سے وابستگی پر بات کرنے کی بجائے اس موضوع کی طرف آنا چاہوں گا جس کی وجہ سے مجھے انتہائی دکھ ، افسوس اور مایوسی ہوئی۔ 80 کی دہائی میں، میں متواتر ہالا جاتا تھا میں نے اپنی آنکھوں سے صبح سویرے سڑکوں اور گلیوں کو صاف ہوتے ہوئے دیکھا ، سیوریج کی نالیوں کو باقاعدگی سے صاف کیا جاتا تھاکچرے اور گندگی کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ گورنمنٹ اسکولز میں تعلیم کا معیار بہت اچھا تھا، ایک عام آدمی سیاسی ، سماجی اور معاشی دباؤ سے آزاد تھا، غربت اس وقت بھی تھی مگر اِس انتہا پر نہ تھی۔ مخدوم امین فہیم کا سیاست میںاپنا ایک کردار ہے جسے عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے مگر 1977 سے 2015 تک قومی اسمبلی کے ممبر اور وفاقی وزیر ہونے کے باوجود ہالا شہر جس طرح تباہ و برباد ہوا اس کا ذمے دار یقینا ً پیپلزپارٹی اورمخدوم خاندان کو ہی ٹھہرایا جاسکتا ہے۔
صورتحال یہ ہے کہ آج بھی سائیں سے کسی کو سوال کرنے کی جرات نہیں، ان کے مدمقابل کھڑے ہونے کی ہمت نہیں، اگر کوئی ان کے مدمقابل کھڑے ہونے اور سوال کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے تو سائیں کے مخالفین کا عبرت ناک انجام دیکھ کر اپنی زبان سی لیتا ہے۔ ایک خاندان، ایک جماعت، ایک ہی لیڈر متواتر ایک ہی جگہ سے کامیاب ہو رہا ہو مگر وہ اپنے علاقے ، اپنے لوگوں اور ارد گرد کے ماحول میں تبدیلی لانے میں ناکام رہے تو پھر سوال اْٹھتا ہے کہ اْس طاقتور وڈیرے کا احتساب کون کرے گا اور غلامی میں جکڑی قوم کو کون آزاد کرائے گا۔
گھر وں کے سامنے بہنے والاگندہ پانی ، سیوریج لائن سے بہتی ہوئی گندگی ، گلیوں اور محلوں میں کچرے کے ڈھیر، اس سے اْٹھنے والی ناقابل برداشت بدلو۔ یہ وہ ہالا ہے جو پیپلز پارٹی کا گڑھ ہے، جو طالب المولیٰ اور مخدوم خاندان کا گھر ہے، تمام فیصلوں میں وہ بااختیار ہیں اور ہالا کے بلا شرکت غیرے بادشاہ ہیں مگر پھر بھی وہاں کی حالت انتہائی افسوسناک ہے۔ ہالا ہی نہیں بلکہ سندھ بھر میںکسان، ہاری، کاشت کار، مزارعے کی ایک مجبور، بے کس اور مفلس انسان سے بھی بدتر حیثیت ہے وہ انتہائی پستی، انتہائی مفلسی اور انتہائی غلیظ ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں،کوئی سائیں کے سامنے اْف کرنے کی جرات نہیں کرتا۔ طاقتور وڈیرے کے سامنے اس کی حیثیت ایک ادنیٰ غلام سے زیادہ نہیں ہے۔ایک ہاری وڈیرے کی زمینوں پر ہل چلاتا ہے، بیج بوتا ہے، فصل کاٹ کر زمیندار کے گوداموں میں اناج کے انبار لگاتا ہے اور خود ایک نوالے کو ترستا ہے۔
وڈیرہ صرف وڈیرہ نہیں ہوتا، وہ اپنے قبیلے کا سردار ''بوتار'' ہوتا ہے،کسی بڑی سیاسی جماعت کا ممبر ہوتا ہے، قومی اسمبلی اور سینیٹ کا ممبر ہوتا ہے اس کی مرضی اور فرمائش پر اْس کا من پسند ایس پی ، ایس ایچ او اور ٹپے دار لگتاہے وہ اپنی زمین پر کام کرنے والے کسانوں کا مالک ہوتا ہے، ان کا آقا ہوتا ہے، ان کا وڈیرہ ہوتا ہے۔ ایک کسان سہما ہوا اس دنیا میں آتا ہے اور سہما ہوا اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔ سرداروں اور پیر سائیوں کے معاشرے میں ایک کسان ایک ہاری کی حیثیت کیڑوں، مکوڑوں سے زیادہ نہیں ہوتی۔ وڈیرے ان پڑھ اور ڈرے ہوئے کسان کے ووٹ کے بل بوتے پر اسمبلیوں کے ممبر بنتے ہیں پھر وزیر اور وزیراعلیٰ بنتے ہیں۔وڈیرے کے پیدا ہونے سے ممبر اسمبلی بننے تک ان کی گٹھی میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ سندھ میں چلتی پھرتی ہر شے، ہر شخص ان کا خادم ہے، ان کا کسان ہے، ان کا ہاری ہے۔ اندرون سندھ کو مکمل اندھیروں، جہالت، خوف اور ڈر میں جکڑ کر رکھنے والے مخدوم سائیں، سردار سائیں اور پیر سائیں سندھ پر راج کر رہے ہیں۔
اے جی پی کی جانب سے 2015-16ء کی پیش کردہ رپورٹ کے مطابق سندھ کے اثاثوں میں 35 ارب روپے کی کرپشن ہوئی ہے۔ تنخواہوں' پنشن' قرض اور ایڈوانس ادائیگی میں 25 ارب روپے کی بے ضابطگیاں پائی گئیں اور مختلف منصوبوں کے لیے مختص بجٹ سے 8 ارب روپے کے اضافی اخراجات کیے گئے، رپورٹ میں 147 ملین روپے کے غیر ضروری اخراجات کی نشاندہی بھی کی گئی ، تعمیراتی ٹھیکوں میں بغیر کوئی کام کیے 28 ملین روپے ادا کردیے گئے، سندھ میں کھربوں روپے کی کرپشن گزشتہ کئی سال سے جاری ہے، حقیقت یہ ہے کہ کرپشن بھوک و افلاس' غربت اور بیروزگاری کو جنم دیتی ہے، بدعنوانیوں سے چند سو یا چند ہزار خاندان تو امیرکبیر ہوجاتے ہیں لیکن عوام کی اکثریت محروم رہتی ہے ان میںاحساس محرومی پیدا ہوتی ہے۔سندھ کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ سرکاری اداروں میں کرپشن، بددیانتی، اقرباء پروری، سرکاری فنڈز کی خورد برد کام چوری اور نااہلی بھی ہے۔صوبے کے عوام کی تباہ ہوتی حالت اور بڑھتی ہوئی غربت و بیروزگاری کا ذمے دار خود وہاں کے سیاستدان ہیںسندھ کے تمام وزرائے اعلیٰ کا تعلق ' دیہی سندھ سے رہا ہے' پھر سندھ کے کھیتوں میں بھوک کیوں اگتی ہے اور عوام پیاس سے کیوں بلکتے ہیں، نومولود بچے ماں کی گود میں کیوں دم توڑ دیتے ہیں ، جہالت اور غربت اپنے عروج پر کیوںہے، سندھ کا تھر ہو یا کچے کا علاقہ ، لاڑکانہ ہو یا شمالی سندھ، ہر طرف غربت اور مفلسی کیوں ہے؟
خیر سے دو بار محترمہ بے نظیر بھٹو اور ایک بار پورے پانچ سال آصف علی زرداری کو مرکز میں حکومت رہی۔ ماضی کے ادوار میں بھی پیپلز پارٹی سندھ میں حکومت میں رہی،گزشتہ 9 سال سے برسراقتدار ہے۔کاش پیپلز پارٹی اپنے ادوار میں دیہی سندھ میں کسانوں، ہاریوں، کاشت کاروں اور مزارعوں کی تقدیر بدلنے کی کوشش کرتی جس کا نعرہ ذوالفقار علی بھٹو نے دیا تھا۔ بھٹو صاحب کی شخصیت کا یہ تو کمال تھا ان کے رولنگ کلاس سے بھی اچھے تعلقات تھے۔ پارٹی کے قیام کے وقت ایک طرف معراج محمد خان، مختار رانا ،شیخ رشید، ڈاکٹر مبشر حسن جیسے سوشلسٹ انقلابی تھے تو دوسری طرف غلام مصطفی کھر، ممتاز بھٹو، طالب المولی، غلام مصطفی جتوئی جیسے جاگیر دار اور وڈیرے بھی ان کے ساتھ کھڑے تھے۔
سترکی دہائی میں سندھ میں سیاسی ، سماجی خدمات اور فروغ تعلیم کے حوالے سے ایک بڑا نام مخدوم طالب المولیٰ کا تھا ان کواحتراماً پیرل سائیں کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ آپ درگاہ مخدوم سرور نوح کے 17 ویں سجادہ نشیں مقرر ہوئے تو اپنے پیش رو مخدوم غلام حیدر کی طرح سیاست کے دشت کا بھی رخ کیا۔ صوبائی اور قومی اسمبلی کے کئی بار رکن رہے' ادبی تنظیموں کی بنیاد رکھی' ادبی میگزین کا اجرا کیا اورہالا میں اْن دنوں پرنٹنگ پریس لگوایا جب پریس کی تنصیب آسان کام نہ تھی۔ ہالہ میں متعدد تاریخی اجتماعات' تعلیمی ادارے' علم و ادب کی محفلیں منعقد کرائیں' سیکڑوں نہیں ہزاروں طالبعلموں کی سرپرستی بھی کی۔ مخدوم طالب المولیٰ کی علمی اورادبی ، سیاسی اور سماجی خدمات کو آج بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔
مخدوم طالب المولیٰ کے بعدان کے بڑے فرزند اور جانشین مخدوم امین فہیم ''سروری جماعت'' کے روحانی پیشوا بنے۔ روحانی پیشوا کے ساتھ ساتھ مخدوم صاحب نے 1970ء کے عام انتخابات کے دوران سیاست میں قدم رکھا، وہ آٹھ انتخابات میں نا قابل شکست رہے۔ 1977ء،1988ء، 1990ء،1993ء، 1997ء، 2002ء، 2008ء اور 2013ء تک مسلسل آٹھ مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن رہے۔مخدوم امین فہیم بینظیر بھٹو کے دونوں ادوار میں وفاقی وزیر کے عہدے پر بھی رہے ان کے پاس وزارت اطلاعات، ریلوے، ہاؤسنگ اینڈ ورکس اور معیشت وتجارت کا قلمدان بھی رہا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئر وائس چیئرمین کے عہدے پر بھی فائزہوئے۔ پارٹی سے ان کی وابستگی بہت گہری اور پختہ رہی وہ آخری وقت تک پیپلزپارٹی کے وفادار رہے۔
یہاں میں مخدوم خاندان کی پیپلز پارٹی سے وابستگی پر بات کرنے کی بجائے اس موضوع کی طرف آنا چاہوں گا جس کی وجہ سے مجھے انتہائی دکھ ، افسوس اور مایوسی ہوئی۔ 80 کی دہائی میں، میں متواتر ہالا جاتا تھا میں نے اپنی آنکھوں سے صبح سویرے سڑکوں اور گلیوں کو صاف ہوتے ہوئے دیکھا ، سیوریج کی نالیوں کو باقاعدگی سے صاف کیا جاتا تھاکچرے اور گندگی کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ گورنمنٹ اسکولز میں تعلیم کا معیار بہت اچھا تھا، ایک عام آدمی سیاسی ، سماجی اور معاشی دباؤ سے آزاد تھا، غربت اس وقت بھی تھی مگر اِس انتہا پر نہ تھی۔ مخدوم امین فہیم کا سیاست میںاپنا ایک کردار ہے جسے عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے مگر 1977 سے 2015 تک قومی اسمبلی کے ممبر اور وفاقی وزیر ہونے کے باوجود ہالا شہر جس طرح تباہ و برباد ہوا اس کا ذمے دار یقینا ً پیپلزپارٹی اورمخدوم خاندان کو ہی ٹھہرایا جاسکتا ہے۔
صورتحال یہ ہے کہ آج بھی سائیں سے کسی کو سوال کرنے کی جرات نہیں، ان کے مدمقابل کھڑے ہونے کی ہمت نہیں، اگر کوئی ان کے مدمقابل کھڑے ہونے اور سوال کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے تو سائیں کے مخالفین کا عبرت ناک انجام دیکھ کر اپنی زبان سی لیتا ہے۔ ایک خاندان، ایک جماعت، ایک ہی لیڈر متواتر ایک ہی جگہ سے کامیاب ہو رہا ہو مگر وہ اپنے علاقے ، اپنے لوگوں اور ارد گرد کے ماحول میں تبدیلی لانے میں ناکام رہے تو پھر سوال اْٹھتا ہے کہ اْس طاقتور وڈیرے کا احتساب کون کرے گا اور غلامی میں جکڑی قوم کو کون آزاد کرائے گا۔
گھر وں کے سامنے بہنے والاگندہ پانی ، سیوریج لائن سے بہتی ہوئی گندگی ، گلیوں اور محلوں میں کچرے کے ڈھیر، اس سے اْٹھنے والی ناقابل برداشت بدلو۔ یہ وہ ہالا ہے جو پیپلز پارٹی کا گڑھ ہے، جو طالب المولیٰ اور مخدوم خاندان کا گھر ہے، تمام فیصلوں میں وہ بااختیار ہیں اور ہالا کے بلا شرکت غیرے بادشاہ ہیں مگر پھر بھی وہاں کی حالت انتہائی افسوسناک ہے۔ ہالا ہی نہیں بلکہ سندھ بھر میںکسان، ہاری، کاشت کار، مزارعے کی ایک مجبور، بے کس اور مفلس انسان سے بھی بدتر حیثیت ہے وہ انتہائی پستی، انتہائی مفلسی اور انتہائی غلیظ ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں،کوئی سائیں کے سامنے اْف کرنے کی جرات نہیں کرتا۔ طاقتور وڈیرے کے سامنے اس کی حیثیت ایک ادنیٰ غلام سے زیادہ نہیں ہے۔ایک ہاری وڈیرے کی زمینوں پر ہل چلاتا ہے، بیج بوتا ہے، فصل کاٹ کر زمیندار کے گوداموں میں اناج کے انبار لگاتا ہے اور خود ایک نوالے کو ترستا ہے۔
وڈیرہ صرف وڈیرہ نہیں ہوتا، وہ اپنے قبیلے کا سردار ''بوتار'' ہوتا ہے،کسی بڑی سیاسی جماعت کا ممبر ہوتا ہے، قومی اسمبلی اور سینیٹ کا ممبر ہوتا ہے اس کی مرضی اور فرمائش پر اْس کا من پسند ایس پی ، ایس ایچ او اور ٹپے دار لگتاہے وہ اپنی زمین پر کام کرنے والے کسانوں کا مالک ہوتا ہے، ان کا آقا ہوتا ہے، ان کا وڈیرہ ہوتا ہے۔ ایک کسان سہما ہوا اس دنیا میں آتا ہے اور سہما ہوا اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔ سرداروں اور پیر سائیوں کے معاشرے میں ایک کسان ایک ہاری کی حیثیت کیڑوں، مکوڑوں سے زیادہ نہیں ہوتی۔ وڈیرے ان پڑھ اور ڈرے ہوئے کسان کے ووٹ کے بل بوتے پر اسمبلیوں کے ممبر بنتے ہیں پھر وزیر اور وزیراعلیٰ بنتے ہیں۔وڈیرے کے پیدا ہونے سے ممبر اسمبلی بننے تک ان کی گٹھی میں یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ سندھ میں چلتی پھرتی ہر شے، ہر شخص ان کا خادم ہے، ان کا کسان ہے، ان کا ہاری ہے۔ اندرون سندھ کو مکمل اندھیروں، جہالت، خوف اور ڈر میں جکڑ کر رکھنے والے مخدوم سائیں، سردار سائیں اور پیر سائیں سندھ پر راج کر رہے ہیں۔
اے جی پی کی جانب سے 2015-16ء کی پیش کردہ رپورٹ کے مطابق سندھ کے اثاثوں میں 35 ارب روپے کی کرپشن ہوئی ہے۔ تنخواہوں' پنشن' قرض اور ایڈوانس ادائیگی میں 25 ارب روپے کی بے ضابطگیاں پائی گئیں اور مختلف منصوبوں کے لیے مختص بجٹ سے 8 ارب روپے کے اضافی اخراجات کیے گئے، رپورٹ میں 147 ملین روپے کے غیر ضروری اخراجات کی نشاندہی بھی کی گئی ، تعمیراتی ٹھیکوں میں بغیر کوئی کام کیے 28 ملین روپے ادا کردیے گئے، سندھ میں کھربوں روپے کی کرپشن گزشتہ کئی سال سے جاری ہے، حقیقت یہ ہے کہ کرپشن بھوک و افلاس' غربت اور بیروزگاری کو جنم دیتی ہے، بدعنوانیوں سے چند سو یا چند ہزار خاندان تو امیرکبیر ہوجاتے ہیں لیکن عوام کی اکثریت محروم رہتی ہے ان میںاحساس محرومی پیدا ہوتی ہے۔سندھ کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ سرکاری اداروں میں کرپشن، بددیانتی، اقرباء پروری، سرکاری فنڈز کی خورد برد کام چوری اور نااہلی بھی ہے۔صوبے کے عوام کی تباہ ہوتی حالت اور بڑھتی ہوئی غربت و بیروزگاری کا ذمے دار خود وہاں کے سیاستدان ہیںسندھ کے تمام وزرائے اعلیٰ کا تعلق ' دیہی سندھ سے رہا ہے' پھر سندھ کے کھیتوں میں بھوک کیوں اگتی ہے اور عوام پیاس سے کیوں بلکتے ہیں، نومولود بچے ماں کی گود میں کیوں دم توڑ دیتے ہیں ، جہالت اور غربت اپنے عروج پر کیوںہے، سندھ کا تھر ہو یا کچے کا علاقہ ، لاڑکانہ ہو یا شمالی سندھ، ہر طرف غربت اور مفلسی کیوں ہے؟