کوک اسٹوڈیو میں صدابہارگیتوں کی ’’مرمت‘‘

کوک اسٹوڈیو سے لوگوں کوایک ایسی ’’تازہ ہوا کا جھونکا ‘‘ محسوس ہونے لگا کہ جیسے انہیں نئی زندگی ملنے والی ہو

کوک اسٹوڈیو سے لوگوں کو ایک ایسی ’’تازہ ہوا کا جھونکا ‘‘ محسوس ہونے لگا کہ جیسے انہیں نئی زندگی ملنے والی ہو ۔ فوٹو : فائل

پاکستان میں گزشتہ کئی برسوں سے میوزک کا شعبہ بحران کا شکارہے۔ ایک طرف میوزک پروگرامز کا انعقاد بدامنی کی بدولت نہ ہونے کے برابر ہے اوردوسری جانب آڈیو، ویڈیوالبم ریلیزکرنے کیلئے میوزک ریلیزنگ کمپنیاں ناپید ہوتی جارہی ہیں۔

اس بحران کی ذمہ داری حکومت پر توعائد ہوتی ہے لیکن پائریسی کے جال نے اس شعبے کو ایسا اپنی لپیٹ میں لیا کہ پھر دیکھتے ہی دیکھتے برسوں سے میوزک انڈسٹری پر راج کرنے والی میوزک کمپنیاں خسارے میں جانے لگیں اور نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ ان کمپنیوں کوچلانے والے مالکان کوانہیں بند کرنا پڑا۔ ان کمپنیوں نے جونہی پاکستان میں کام کرنا چھوڑا تواس کے بعد پاکستانی گلوکاروں کے پاس اپنا کام سامنے لانے کے ذرائع کم ہوگئے۔

کچھ بچی کچی میوزک کمپنیوں نے کام جاری رکھا لیکن ان کی بلیک میلنگ نے گلوکاروں، سازندوں ، موسیقاروں اور شاعروں کوخون کے آنسورونے پرمجبورکردیا۔ ایسے حالات میں پاکستان میں میوزک کے شعبے سے وابستہ افراد کے پاس صرف دوہی راستے تھے، ایک توبیرون ممالک ہونے والے میوزک پروگراموں میں شمولیت اوردوسری پڑوسی ملک بھارت کی یاترا۔ دونوں ہی مشکل کام تھے لیکن کچھ معروف گلوکار توان دونوں میں کامیاب رہے لیکن بڑی تعدادمیں گلوکار، سازندے ، موسیقاراورشاعرمالی مشکلات میں گھر گئے۔

ایسے میں ''کوک اسٹوڈیو'' لوگوں کو ایک ایسی ''تازہ ہوا کا جھونکا '' محسوس ہونے لگا کہ جیسے انہیں نئی زندگی ملنے والی ہو۔ کوک اسٹوڈیو کا پہلا سیزن جب لانچ ہوا تواس کوپیش کرنے کا انداز واقع ہی بہت منفرد اورعمدہ تھا۔ اس سے پہلے بھی پاکستان میں سرکاری اورنجی چینلز پرموسیقی کے پروگرام پیش کئے جاتے رہے ہیں ، لیکن جس طرح سے کوک اسٹوڈیو کوسجایا اورسنوارا گیا، اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان میں میوزک سے وابستہ ہرشخص 'کوک اسٹوڈیو' کی آمد سے بے حد خوش تھا۔ پہلے سیزن میں بہت سے معروف اورنوجوان گلوکاروںکو گانے کا موقع ملا۔ اس سیزن نے ایسی شناخت چھوڑی کہ شائقین کی بڑی تعداد اگلے سیزن کا انتظارکرنے لگی۔ پاکستان میں میوزک کی مختلف اصناف کے گلوکاروں، سازندوںکو ایک ساتھ دیکھنے کا اس سے بہترکوئی دوسرا پلیٹ فارم نہیں تھا۔ اسی لئے توہرکوئی اس کا حصہ بننا چاہتا تھا۔

اسی طرح دوسرا سیزن آیا توچند ایک نئے فنکاروں کے علاوہ بقیہ سب پہلے سیزن والے گلوکار اس میں پرفارم کرتے دکھائی دیئے۔ یہ وہ لمحہ تھا جب کوک اسٹوڈیوکوتازہ ہوا کاجھونکا ماننے والے اس کے لابی سسٹم کوتنقید کانشانہ بنانے لگے۔ کسی نے اس کے منتظمین کوموسیقی کے علم سے لاعلم قرار دیا توکسی نے نوجوان گلوکاروںکو ''سرلے اورتال '' سے ناآشنا قراردیا۔ یہاں سے تنقید کا سلسلہ ایساشروع ہوا کہ پھریہ نہ روکا۔ بڑھتی تنقید کومدنظررکھتے ہوئے کوک اسٹوڈیو کے منتظمین کو ''مجبوراً ''ان گائیکوں، سازندوں کوبھی اس کا حصہ بنانا پڑا، جنہوں نے اپنی تمام عمرمیوزک کے شعبے کیلئے وقف کررکھی تھی۔


لیکن ممی ڈیڈی ٹائپ کے بے سرے اورسفارشی، غیرمعروف گلوکاروں کوزیادہ مواقع فراہم کئے گئے۔ ان غیرمعروف گلوکاروں نے میوزک کے شعبے میں کوئی جدت لانے کی بجائے ماضی کے مقبول گیتوں سے '' چھیڑچھاڑ '' کا سلسلہ شروع کیا اوراسے ''ری مکس'' کا نام دے کرمیوزک سے مزاق کی ایک ایسی نئی روایت کوجنم دیا ، جوآج دسویں سیزن میں بھی جاری وساری ہے۔

نہ کوئی ان کوپوچھنے والا ہے اورنہ ہی کوئی ان کی اصلاح کرنے والا۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ ''کوک اسٹوڈیو''نامی اس پروگرام کے ذریعے ماضی کے عظیم گلوکاروں کے گائے مقبول ترین گیتوں، غزلوں، قوالیوں، کافیوں اورفوک گیتوں کو ''مرمت'' کا عمل کسی ورکشاپ میں تیزی سے جاری ہے۔ کوک اسٹوڈیو کی'' ورکشاپ '' میں میوزک کے دس سے پندرہ ایسے ''میکنک'' کارفرما ہیں جن کے پاس شاید اس کام کا کوئی علم یا ڈگری تونہیں ہوگی لیکن ایک بات طے ہے کہ ان کے پاس ایسی بڑی سفارشیں اور''چڑیا ''ضرورہیں جو انہیں اس شعبے کوہرقیمت پر''آباد'' رکھنے کی ذمہ داری دیتی چلی جا رہی ہیں۔

ایک بات جوقابل غورہے کہ '' کوک اسٹوڈیو '' کے تمام سیزنز کا اگرجائزہ لیا جائے تواس میں جہاں بہت بڑی تعداد میں نوجوان گلوکاروںکومتعارف کروایا گیا ، وہیں عظیم گلوکارراحت فتح علی خاں، عارف لوہار، سجاد علی، عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی، عابدہ پروین، ریشماں، نیازی برادرز، جاوید بشیر، عاطف اسلم، صنم ماروی ، علی ظفر، استاد رئیس خاں، امجد صابری اور طافوخاں سمیت دیگرکو پروگرام کا حصہ بنا کراسے انٹرنیشنل مارکیٹ تک پہنچانے کا سہارا بھی لیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ کوک اسٹوڈیو کے اب تک مقبول ہونے والے گیتوں میں زیادہ ترگیت وہی ہیں جنہیں پاکستان کے معروف گلوکاروں نے سچے سروں کی مالا سے سجا کرپیش کیا تھا۔ وگرنہ سوشل میڈیا جوآج کے دورمیں سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے، یہاں پردنیا بھرسے لوگ ''کوک اسٹوڈیو'' کونہیں بلکہ اس میں شامل کئے جانے والے مقبول گیت، غزلوں کوایسے گلوکاروں سے گوانے پربہت ناراضگی کا اظہارکرتے دکھائی دیتے ہیں، جنہیں میوزک کی الف ب کا پتہ نہیں۔ اسی لئے شوپرتنقید کا نہ روکنے والاسلسلہ تاحال جاری ہے۔

کوک اسٹوڈیو کے دس برس مکمل ہونے اورنئے سیزن کے حوالے سے میوزک کے سنجیدہ حلقوں نے '' ایکسپریس '' سے گفتگوکرتے ہوئے بتایا کہ یہ بہت ہی خوش آئند بات ہے کہ ایک مشروب کے مقبول ترین برانڈ نے پاکستان میں موسیقی کودوبارہ زندہ کرنے کیلئے ایک ایسا قدم اٹھایا، جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ لیکن اس میں کام کوکرنے والوں کیلئے جومعیارانہوں نے قائم کیا ہے، اس پرتوصرف وہی شخص پورا اترسکتا ہے، جس کومشرقی اورمغربی کلاسیکی موسیقی سے کوئی لگاؤ نہ ہو، جاز، پاپ ، راک سے تووہ دوربھاگتا ہو، صوفی، کافی اورقوالی سے بھی کوئی آشنائی نہ ہو، بس ایسے لوگ ہی کوک سٹوڈیو کو '' بہتر '' انداز سے آگے بڑھا سکتے ہیں۔

یہ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ جس طرح یہاں تعلیم، صحت، کھیل اوردیگرشعبوں کی ذمہ داری نان پروفیشنلز کے ہاتھ میں دے کرتباہی کا سلسلہ جاری ہے، اسی طرح میوزک کے شعبے کے ساتھ بھی سوچی سمجھی سازش ہورہی ہے۔ موسیقی جسے روح کی غذا تصور کیا جاتا ہے، کوک سٹوڈیوکے ذریعے اب تووبال جان بنتی جارہی ہے۔ اس سلسلہ میں کوک سٹوڈیو کے اعلیٰ حکام کوسنجیدگی سے غورکرنا ہوگا۔ تاکہ میوزک کی بحالی اورفروغ کیلئے جوقدم اس ادارے کی جانب سے اٹھایا گیا ہے، اس کے ذریعے نئے فنکارارنیا میوزک سامنے لایا جاسکے۔
Load Next Story