اسلامی ثقافتی مرکز مسجد کے آداب

ارشاد فرمایا:’’یہ مساجد بول و برازاورگندگی کرنے کیلیے نہیں ہوتیں،یہ توذکر الہیٰ، نماز اور تلاوت قرآن کیلیے ہوتی ہیں۔‘‘

حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’یہ مساجد بول و برازاورگندگی کرنے کیلیے نہیں ہوتیں،یہ توذکر الہیٰ، نماز اور تلاوت قرآن کیلیے ہوتی ہیں۔‘‘ فوٹو : فائل

حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرمؐ نے فرمایا : ''جس نے پیاز یا لہسن کھایا وہ ہم سے علیحدہ رہے یا ہماری مسجد کے قریب نہ آئے اور اپنے گھر میں بیٹھا رہے۔''

شرح و تفصیل
نفیس طبیعت کے مالک لوگ، پھولوں کے شیدا اور عطر و خوشبو کے شائق و عاشق ہوتے ہیں۔ خوشبو اور خوشبو دار چیز پاکر ان کی خوشی کی انتہا نہیں رہتی اور وہ فرحت و انبساط محسوس کرنے لگ جاتے ہیں۔ حضورنبی اکرمؐ نے فرمایا ''خوشبو اور نماز کی محبت ہماری طبیعت میں ڈال دی گئی ہے۔'' جس طرح لطیف مزاج کے انسان خوشبو سے محبت اور بدبو سے نفرت کرتے ہیں، اسی طرح فرشتے بھی خوشبو کو پسند اور بدبو کو ناپسند کرتے ہیں اور انہیں اس سے سخت اذیت اور تکلیف پہنچتی ہے۔ چناں چہ جو لوگ بد بو کے باعث ان کو اذیت دینے کا باعث بنتے ہیں، وہ ان کے لیے کلمہ خیر منہ سے نہیں نکالتے اور جو چیز بدبو دار ہو اسے بھی پسند نہیں کرتے۔ اس لیے حضور نبی اکرمؐ فرشتوں کے ان جذبات و احساسات کا بہت خیال رکھا کرتے تھے، خصوصاً مسجد میں بدبو دار حالت میں آنے سے آپ نے سختی کے ساتھ منع فرمایا تھا۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آپؐ کی خدمت ِاقدس میں کچھ کھانا پیش کیا گیا، جب سرپوش ہٹایا تو دیکھا سبزی پکی ہوئی ہے اور اس میں سے لہسن اور پیاز وغیرہ کی بو آ رہی ہے، تو آپؐ نے کھانے سے ہاتھ روک لیا اور جو آدمی پاس بیٹھا ہوا تھا اس سے کہا کہ تم کھا لو۔ اس شخص نے سمجھا کہ سرکار خود نہیں کھا ر ہے، شاید یہ حرام ہے۔ آپؐ نے فرمایا! تم بے تکلف کھا لو، ہمارا معاملہ کچھ اور ہے۔ جبریل امینؑ کے ساتھ گفتگو کا سلسلہ جاری رہتا ہے، دیگر فرشتے بھی آتے جاتے رہتے ہیں، اس لیے ہم نہیں چاہتے کہ اس بو سے اُنہیں اذیت پہنچے، چوںکہ تمہاری یہ شان نہیں ہے اس واسطے تم بلا تکلف کھا لو۔

حضرت عائشہ صدیقہؓ روایت کر تی ہیں کہ ''مزدور پیشہ لوگوں کو دوسروں کی نسبت زیادہ پسینہ آتا ہے جو کپڑوں میں جذب ہو کر بدبو کا باعث بنتا ہے۔ یہ لوگ جمعۃ المبارک کے دن غسل کیے بغیر ہی آ جاتے تھے، انہیں یہ سمجھایا گیا کہ اگر تم غسل کر کے آیا کرو تو کتنا اچھا ہو! انسان اور فرشتے اذیت سے بچ جائیں اور مسجد میں حاضری راحت و فرحت کا باعث بن جائے۔

مسجد کے آداب

حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم مسجد میں نبی اکرمؐ کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک بدوی شخص آیا جس کے چہرے اور انداز سے صاف پتا چل رہا تھا کہ وہ دیہاتی ہے اور شہری آداب و اطوار اور تہذیب و تمدن کے تقاضوں سے قطعی ناواقف ہے، اُسے مسجد اور کسی دوسری جگہ کا فرق معلوم نہیں۔ شاید اسے رفع حاجت کی سخت ضرورت تھی، اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، آتے ہی مسجد کے ایک خالی کونے میں بیٹھ کر رفع حاجب کرنا شروع کر دیا۔ حاضرین کو سخت طیش آیا، انہوں نے اسے باز رکھنے کیلیے چلانا شروع کر دیا مگر رحمتِ مجسم نبی اکرمؐ نے انہیں روکا اور فرمایا: ''اب اسے اپنا کام کر لینے دو بعد میں سمجھا لیں گے۔''چناں چہ جب وہ فارغ ہوا تو اسے اپنے پاس بلایا اور ارشاد فرمایا: ''یہ مساجد بول و براز اور گندگی کرنے کیلیے نہیں ہوتیں، یہ تو ذکرِ الہیٰ، نماز اور تلاوتِ قرآن کیلیے ہوتی ہیں۔'' پھر آپؐ نے ایک شخص کو حکم دیا اور اس نے پانی کا ڈول بھر کر غلاظت پہ بہا دیا۔

ثواب و برکات
نماز کیلیے مسجد کی طرف اٹھنے والے قدم بڑے ہی قابلِ قدر اور محترم ہوتے ہیں، جب نمازی مسجد کی طرف روانہ ہوتا ہے تو رب کریم اُسے ہر قدم پر ایک گناہ معاف اور ایک درجہ بلند کر دیتا ہے۔
٭ حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ جو نمازی صبح و شام مسجد میں حاضری دیتا ہے، وہ گویا جنت میں ضیافت کھانے کیلیے آتا ہے۔ جتنی بار وہ مسجد میں آتا ہے ہر آنے کے بدلے اللہ تعالیٰ جنت میں اس کی ضیافت فرمائیں گے۔

٭ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ مسجدِ نبوی کے قریب زمین کے کچھ پلاٹ خالی ہو گئے۔ بنی سلمہ مدینہ منورہ کے نواحی علاقوں میں رہتے تھے، جو مسجدِ نبوی سے کافی فاصلے پر تھے، اس لیے انہوں نے اس موقع کو غنیمت جانا اور مسجد کے قریب جگہ خریدنے کا ارادہ کر لیا تاکہ وہ آسانی سے مسجد میں آ جا سکیں۔ جب نبی اکرمؐ کو ان کے اس ارادے کا علم ہوا تو فرمایا: ''اے بنو سلمہ! اپنے علاقوں میں مقیم رہو، جتنے قدم چل کر آؤ گے اتنی نیکیاں لکھی جائیں گی۔'' اس لیے پیدل آنے کی اس مشقت کو بے فائدہ اور بے قیمت نہ سمجھو بلکہ یہ کارآمد اور قیمتی قدم ہیں جو گناہ مٹاتے اور درجات بلند کرتے ہیں۔

اسلامی تعلیمی مرکز
حضرت ابو ہریرہؓ راوی ہیں کہ ہم سب نبی مکرمؐ کے حضور بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور اس نے جلدی جلدی نماز پڑھی اور تعدیلِ ارکان کا خیال نہ رکھا۔ پھر ہماری طرف آیا تاکہ دوسرے حاضرین کی طرح مجلس میں بیٹھے اور قریب آ کر سلام کیا۔ نبی اکرمؐ نے بڑی خوش دلی کے ساتھ سلام کا جواب دیا اور ارشاد فرمایا کہ جاؤ! دوبارہ نماز پڑھو، تمہاری نماز نہیں ہوئی۔ وہ شخص گیا اور ارکانِ نماز میں تعدیل کا لحاظ کیے بغیر پھر پہلے کی طرح جلدی جلدی نماز پڑھ کر آ گیا اور سلام کر کے بیٹھنے کی کوشش کی۔ آپؐ نے دوبارہ اسے ارشاد فرمایا کہ جا کر نماز لوٹاؤ، تمہاری یہ نماز بھی نہیں ہوئی۔ آپؐ اسے دیکھتے رہے، وہ تیسری بار بھی اسی طرح تیزی سے نماز پڑھ کے آ گیا۔ آپؐ نے فرمایا! تمہاری یہ نماز بھی نہیں ہوئی۔ اس نے عرض ''اللہ پاک کی قسم! جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے، مجھے اچھی طرح نماز ادا کرنے کا کوئی اور طریقہ نہیں آتا، آپ سکھا دیجئے۔''

آپؐ نے فرمایا! جب نماز پڑھنے کا ارادہ ہو تو سب سے پہلے اللہ اکبر کہہ کر، ہاتھ باندھ کے کھڑے ہو جاؤ اور قرآنِ پاک کی تلاوت کرو۔ پھر رکوع میں چلے جاؤ اور بڑے اطمینان کے ساتھ رکوع کرو، یہ نہیں کہ جسم کا اگلا حصہ اوپر اٹھا ہوا ہو' اس طرح اعتدال پیدا نہیں ہوتا۔ پشت بالکل ہم وار ہونی چاہیے، یہاں تک کہ اگر اس کے اوپر پانی سے بھرا ہوا برتن بھی رکھ دیں تو وہ نہ چھلکے۔ اس کے بعد سیدھے کھڑے ہو جاؤ۔ اس طرح رکوع کے بعد کھڑا ہونے کو قومہ کہتے ہیں۔ اچھی طرح قومہ کرو۔ پھر جھکتے ہوئے سجدے میں چلے جاؤ اور آرام سے سجدہ کرو۔ اس کے بعد سجدے سے سر اٹھا کر دو زانو ہو کر بیٹھ جاؤ' سجد ے کے بعد اس طرح بیٹھنے کو 'جلسہ' کہتے ہیں۔ اچھی طرح جلسہ کرو۔ پھر سجدے میں جاؤ اور اطمینان سے سجدہ کر کے اُٹھو اور دوسری رکعت کیلیے کھڑے ہو جاؤ۔ اسی طرح آرام و اطمینان سے، ٹھہر ٹھہر کر ' آہستہ آہستہ باقی رکعتیں بھی ادا کرو۔
Load Next Story