بچے ہمارے عہد کے ’سفاک‘ ہو گئے
یہ ان دنوں کی بات ہے جب لال مسجد کے سانحے کے بعد ملک میں بم دھماکوں کی تازہ تازہ لہر شروع ہوئی تھی
کچھ عرصے ایک نیوز چینل میں کام کرنے کا اتفاق ہوا، طالب علمی کا دور تھا اور جذبات کے ساتھ 'احساسات' کی بھی شدت تھی، ملک کے خراب حالات دیکھ کر دل کڑھتا بھی تھا اور اچھے وقت میں شاداں بھی ہوتا تھا، تبدیلی کی خواہش بھی تھی اور زمانے سے ٹکر لینے کی 'عام' سی آرزو بھی، حالات کے دھارے کو موڑنے کا حوصلہ بھی تھا اور وقت کے ساتھ چلنے کی تمنا بھی، یہ شوق بھی تھا کہ ہر 'دوسرے' فرد کی طرح 'باغی' بھی کہلایا جائوں، اور مشکلوں سے گزرنے کا طریقہ بھی بتائوں۔ اسی طرح کی بہت سی خواہشوں کے ساتھ جب کام کا آغاز ہوا تو تما م وہ تارے جو کبھی رات کو نظر آتے تھے دن میں نظر آنے لگے، ستاروں پر کمندیں ڈالنے کے خواب، بجلی کے کنڈوں تک محدود رہ گئے۔ تبدیلی صرف اور صرف اپنی 'پوسٹ' تک جا کے رہ گئی، ٹکر لینے کی بچپن کی خواہش چینل میں صرف 'ٹِکر' لے کر آگے دینے تک رہی، بغاوت کا تمغہ نا لینے میں عافیت اس وقت نظر آئی جب ایک جلاّد قسم کے 'ایڈیٹر' سے واسطہ پڑا، جس کے سامنے بڑے بڑے باغی 'باادب' ہو جاتے تھے، وہاں مشکلوں سے گزرنے کا طریقہ صرف 'ان' کی نگاہ سے بچ جانا ہی سمجھ آیا، لیکن ان تمام چیزوں کے ساتھ ساتھ جس کی سب سے زیادہ قربانی دینی پڑی وہ ان 'احساسات' کی تھی جو کہ انسانی اور فطری تھے۔
حکم یہ ملا کہ آپ کا کام پورے ملک سے آنے والی خبروں کو 'ہم' تک پہنچانا ہے، پھر ہم یہ فیصلہ کریں گے کہ خبر 'تازہ' ہے یا 'تازہ ترین'۔ پھر یہ ہی کیا اور کر بھی کیا سکتے تھے۔ کچھ دن تو اتفاقاً ساری خبریں سیاسی نوعیت کی ہی موصول ہوئیں، ایک دن ایک جذباتی سی کال میں اطلاع آئی کہ گاڑی الٹ گئی ہے، تین افراد جان بحق۔ ایسا لگا پورے جسم میں کسی نے بجلی سے بھر دی ہو، اب تک خبر ٹائپ کر کے باس کے پاس روانہ کرتا تھا لیکن یہ تو مرنے کی خبر تھی، کاغذ پر لکھی تحریر لے کر کرسی چھوڑ، بھاگ کر پہنچا اور اس خیال سے سامنے پیش کی کہ آج میرے ہاتھوں بھی کوئی 'پہلی بڑی' خبر چلے گی۔ چند لمحات تک تو میں اور وہ خبر دونوں اپنے باس کی نگاہ میں اہمیت اور عزت دیے جانے کے قابل محسوس نہ ہوئے، اور جب بے رخی سے نگاہیں چار ہوئیں تو ارشاد کیا کہ 'سر بریکنگ نیوز ہے، تین افراد جان سے گئے۔' فوراً پو چھا، کس نے کہا بریکنگ ہے؟ اس سوال کا جواب تو میرے پاس تھا نہیں، اس لیے منہ کھول کر ان کو دیکھنے لگا۔ جس پر بڑے ہی کاٹ کھانے والے لہجے میں حکم ہوا 'نارمل' میں ڈال دو، کوئی اتنی بڑی بات نہیں، اور ساتھ ہی یہ حکم بھی 'چپکا' دیا، آئندہ ایسی کوئی خبر آئے تو ساتھ میں موجود کسی 'بڑے' کو دِکھا دیا کرو یہاں مت لایا کرو۔ خاموشی سے خبر ٹِکر چلانے والے صاحب کے حوالے کی اور اپنی نشست پر بے جان سے آ کر گر پڑا اور وقت گزرنے کی اذیت کو محسوس کرتا رہا۔ دوسرا دن چھٹی کا تھا، دوستوں کو ہوٹل پر بڑی بڑی بڑھکیں مارنے پہنچا کہ چینل میں کیا کیا ہوتا ہے، تو کچھ سجھائی نہ دیا۔ یاد رہا تو بس کل کا قصہ، اور وہی سنا دیا، اس غصے کے ساتھ کہ یہ حال ہے لوگوں کا، انتہائی تند مزاج اور احساس سے عاری لوگ ہیں، سیاسی پریس کانفرنس کی خبریں ہم سے بریکنگ میں چلواتے ہیں اور انسانی جان کی خبر کو کوئی اہمیت نہیں ملتی۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب لال مسجد کے سانحے کے بعد ملک میں بم دھماکوں کی تازہ تازہ لہر شروع ہوئی تھی، اور 2008ء کا الیکشن بھی سر پر تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ میں بھی کچھ 'سینئر سا ' ہو گیا تھا، اب ہر طرح کی خبریں میرے پاس آتی تھیں اور میری سمجھ دانی کو دیکھتے ہوئے مجھے یہ بھی اختیار مل گیا تھا کہ کون سی بریکنگ ہے اور کونسی نہیں۔ نوشہرہ میں کسی خاندانی دشمنی پر پانچ افراد قتل ہوئے، رپورٹر نے انسانی ہمددری کے تما م الفاظ استعمال کرتے ہوئے درخواست کی کہ بیپر کروا دو، اہم خبر ہے ہمارے علاقے کی۔ لیکن مجھ سمیت تمام چینل کے اس وقت سیاسی جماعت کی پریس کانفرنس بہت اہم تھی، کیونکہ سنا تھا ہمارے مالکان کا اچھا تعلق ہے، اور یہ بات اب مجھے بتانے کی ضرورت نہیں تھی میں سمجھدار تھا، مجھے اب یہ بھی پتا تھا 'کون' سے شہر کی خبر کتنی اہم ہوتی ہے، کہاں مرنے والا اہم ہوتا ہے اور کہاں نہیں، کس شہر کا ہلکا سا بھی دھماکا فوراً 'سنا'جانا ہے اور کہاں کا نہیں، کس کا جنازہ دیکھنا ہے اور کس کی لاش کو 'دہشت گرد' بتانا ہے، کون سا مسلک مظلوم ہے اور کون سا ظالم۔ شہید کب لکھنا ہے اور جاں بحق کس جگہ ۔ میں بہت سمجھ دار ہوتا جا رہا تھا، تین لوگوں کے مرنے کی خبر اب مجھے 'مزا' نہ دیتی تھی کیونکہ روز تقریباً دو سو افراد کے دھماکوں میں جان سے جانے کے ٹِکر چلواتا تھا۔ پہلے نمائندے سے پوچھتا تھا کیا ہوا، اب پوچھنے لگا تھا کتنے مرے؟؟ کسی بڑے ذمے دار سے بات ہوئی؟ ہڑتال ہو گی یا سوگ پر گزارا ہو جائے گا؟ اب اگر دھماکا نہ ہوتا تھا تو کام میں 'دل' نہ لگتا تھا، اور اگر اتفاق سے میری چھٹی ہو اور اس دن دھماکا ہو جائے پھر میرے ساتھ کام کرنے والوں کا دل نہ لگتا تھا، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس طرح کے دھماکے میں بہت اچھی طرح Manage کرتا ہوں، لیکن میں یہ ساری باتیں کیوں کر رہا ہوں ؟؟سنیے۔
کوئٹہ میں کچھ ہی وقفوں میں دو بم دھماکوں اور کراچی شہر میں جاری مسلسل مسلکی 'خانہ جنگی' نے اس شہر کے تما م ہی افراد اور بچوں کو بہت پہلے اور معصوم سی عمر میں ہی میری طرح سمجھ دار کر دیا ہے۔ میڈیا کے شدید اور ناجائز اثرات کا اندازہ تو بہت عرصے سے ہو ہی چکا تھا، لیکن ان بد اثرات نے بچوں کی فکری سطح اس نہج پر پہنچا دی ہے کہ محلے کے بچے جو کبھی کھیلتے ہوئے ملتے تھے، اس حال میں ملے کہ ایک بچہ جو تھوڑا بڑا نظر آ رہا تھا، اجتماعی دعا کروا رہا تھا، جو کہ یقیناً کسی اینکر کی ہی نقل تھی کیونکہ اس میں ڈراما زیادہ اور حقیقت کم تھی کہ اﷲ کرے آج پھر دھماکا ہو جائے اور دو دن کی چھٹی مل جائے، جس پر دعا میں موجود تما م ہی حاظرین نے بڑے ہی خلوص کے ساتھ آمین کہا، جن میں وہ بچے اور بچیاں بھی شامل تھے جن کا قرآن ختم ہونے کی 'آمین' میں بھی کافی وقت باقی تھا۔ ایک پیاری سی بچی جو سر پر دوپٹا لیے اس اجتماع میں شریک تھی اس کو دیکھ کر مجھے وہ بچیاں یاد آ گئیں جو بلک بلک کر ہر شہر میں اپنے باپ کے مرنے کا غم منا رہی ہوتی تھیں، لاشوں کے ڈھیر میں اپنے بابا اور بھائی کو تلاش کرنے والی بچی کا دکھ اور تھلیسمیا کا شکار اپنے لاپتہ باپ کی تصویر لیے شہروں شہروں دھکے کھاتی بچی کا جذبہ ایک ہی ہوتا ہے کہ بس بابا! نظر آ جائو۔ دعا کا شریک کار بچہ جو اپنے کھلونے کے ساتھ موجود تھا، مجھے اس ہوٹل والے کے بچہ کی یاد دلا گیا جس کو ہمارے محلے میں قتل کیا گیا تھا، جب اس کا چچا کام سمیٹ کر واپس کوئٹہ جا رہا تھا، تو اس نے کہا تھا ہمارا بھتیجا بڑا ہوکر اپنے باپ کا بدلا لے گا۔ دھماکے کی اطلاع پر سوچا، کیا پتا وہ بڑا ہوگیا ہو؟
انگنت لوگ ہیں اور بے شمار کہانیاں، کس کا غم منانا ہے اور کس کا نہیں... یہ بات اب شعور کی حدوں سے گزر چکی ہے۔ کوئی کہتا ہے سائنس و ٹیکنالوجی کی صدی ہے، کوئی کہتا ہے اسلام کی صدی ہے، کسی کو انقلاب نظر آتا ہے اور کسی کو انصاف کا بول بولا دکھائی دیتا ہے۔ یہ حالات دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ سفاکیت کی صدی ہے۔ اس سوچ کے ساتھ جوان ہونے والی نسلیں اور اس ہیجان میں پروان چڑھنے والے اذہان کون سا تعمیری کام انجام دے سکیں گے؟ اگر اسلام کی صدی ہے تو کون سا اسلام نافذ ہو گا؟ اور یہ انقلاب پہلے سے پسے ہوئوں کو کیوں بہا لے جا رہا ہے؟ یہ انصاف کی دکانوں پر انصاف صرف 'بول بچن' ہی کیوں دیتا ہے؟ اس تمام غموں اور دکھوں کے پیچھے ایک عجیب سا احساس بھی ہے، ایک امید بھی اور 'خوشی' بھی ہے، وہ یہ کہ آئندہ نسلوں کو کم سے کم اپنے احساسات کا 'قتل' نہ کرنا پڑے گا۔ ان کے جذبات کو 'ٹھیس' نہ آئے گی، ان کو کسی چینل میں 'بے عزت' نہ ہونا پڑے گا، اس بات پر کہ کس خبر کو اہمیت دینی ہے اور کس کو نہیں۔ ان کو اندازہ ہو گا کون سے شہر کے لوگ 'انسان' ہیں اور کہاں کے 'تکمیل' کے مراحل میں ہیں۔ لاشیں رکھ کر مظلوم لوگ تو ہر شہر میں احتجاج کرتے ہیں، فرق یہ ہے کہیں وزیر ہٹا دیے جاتے ہیں اور کہیں 'مظاہرین'۔ اب یہ امتحان ہے خبر چلانے والوں کا کہ کون سی اہم ہے؟ اور خبروں پر حق 'انسانوں' کا ہے۔
حکم یہ ملا کہ آپ کا کام پورے ملک سے آنے والی خبروں کو 'ہم' تک پہنچانا ہے، پھر ہم یہ فیصلہ کریں گے کہ خبر 'تازہ' ہے یا 'تازہ ترین'۔ پھر یہ ہی کیا اور کر بھی کیا سکتے تھے۔ کچھ دن تو اتفاقاً ساری خبریں سیاسی نوعیت کی ہی موصول ہوئیں، ایک دن ایک جذباتی سی کال میں اطلاع آئی کہ گاڑی الٹ گئی ہے، تین افراد جان بحق۔ ایسا لگا پورے جسم میں کسی نے بجلی سے بھر دی ہو، اب تک خبر ٹائپ کر کے باس کے پاس روانہ کرتا تھا لیکن یہ تو مرنے کی خبر تھی، کاغذ پر لکھی تحریر لے کر کرسی چھوڑ، بھاگ کر پہنچا اور اس خیال سے سامنے پیش کی کہ آج میرے ہاتھوں بھی کوئی 'پہلی بڑی' خبر چلے گی۔ چند لمحات تک تو میں اور وہ خبر دونوں اپنے باس کی نگاہ میں اہمیت اور عزت دیے جانے کے قابل محسوس نہ ہوئے، اور جب بے رخی سے نگاہیں چار ہوئیں تو ارشاد کیا کہ 'سر بریکنگ نیوز ہے، تین افراد جان سے گئے۔' فوراً پو چھا، کس نے کہا بریکنگ ہے؟ اس سوال کا جواب تو میرے پاس تھا نہیں، اس لیے منہ کھول کر ان کو دیکھنے لگا۔ جس پر بڑے ہی کاٹ کھانے والے لہجے میں حکم ہوا 'نارمل' میں ڈال دو، کوئی اتنی بڑی بات نہیں، اور ساتھ ہی یہ حکم بھی 'چپکا' دیا، آئندہ ایسی کوئی خبر آئے تو ساتھ میں موجود کسی 'بڑے' کو دِکھا دیا کرو یہاں مت لایا کرو۔ خاموشی سے خبر ٹِکر چلانے والے صاحب کے حوالے کی اور اپنی نشست پر بے جان سے آ کر گر پڑا اور وقت گزرنے کی اذیت کو محسوس کرتا رہا۔ دوسرا دن چھٹی کا تھا، دوستوں کو ہوٹل پر بڑی بڑی بڑھکیں مارنے پہنچا کہ چینل میں کیا کیا ہوتا ہے، تو کچھ سجھائی نہ دیا۔ یاد رہا تو بس کل کا قصہ، اور وہی سنا دیا، اس غصے کے ساتھ کہ یہ حال ہے لوگوں کا، انتہائی تند مزاج اور احساس سے عاری لوگ ہیں، سیاسی پریس کانفرنس کی خبریں ہم سے بریکنگ میں چلواتے ہیں اور انسانی جان کی خبر کو کوئی اہمیت نہیں ملتی۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب لال مسجد کے سانحے کے بعد ملک میں بم دھماکوں کی تازہ تازہ لہر شروع ہوئی تھی، اور 2008ء کا الیکشن بھی سر پر تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ میں بھی کچھ 'سینئر سا ' ہو گیا تھا، اب ہر طرح کی خبریں میرے پاس آتی تھیں اور میری سمجھ دانی کو دیکھتے ہوئے مجھے یہ بھی اختیار مل گیا تھا کہ کون سی بریکنگ ہے اور کونسی نہیں۔ نوشہرہ میں کسی خاندانی دشمنی پر پانچ افراد قتل ہوئے، رپورٹر نے انسانی ہمددری کے تما م الفاظ استعمال کرتے ہوئے درخواست کی کہ بیپر کروا دو، اہم خبر ہے ہمارے علاقے کی۔ لیکن مجھ سمیت تمام چینل کے اس وقت سیاسی جماعت کی پریس کانفرنس بہت اہم تھی، کیونکہ سنا تھا ہمارے مالکان کا اچھا تعلق ہے، اور یہ بات اب مجھے بتانے کی ضرورت نہیں تھی میں سمجھدار تھا، مجھے اب یہ بھی پتا تھا 'کون' سے شہر کی خبر کتنی اہم ہوتی ہے، کہاں مرنے والا اہم ہوتا ہے اور کہاں نہیں، کس شہر کا ہلکا سا بھی دھماکا فوراً 'سنا'جانا ہے اور کہاں کا نہیں، کس کا جنازہ دیکھنا ہے اور کس کی لاش کو 'دہشت گرد' بتانا ہے، کون سا مسلک مظلوم ہے اور کون سا ظالم۔ شہید کب لکھنا ہے اور جاں بحق کس جگہ ۔ میں بہت سمجھ دار ہوتا جا رہا تھا، تین لوگوں کے مرنے کی خبر اب مجھے 'مزا' نہ دیتی تھی کیونکہ روز تقریباً دو سو افراد کے دھماکوں میں جان سے جانے کے ٹِکر چلواتا تھا۔ پہلے نمائندے سے پوچھتا تھا کیا ہوا، اب پوچھنے لگا تھا کتنے مرے؟؟ کسی بڑے ذمے دار سے بات ہوئی؟ ہڑتال ہو گی یا سوگ پر گزارا ہو جائے گا؟ اب اگر دھماکا نہ ہوتا تھا تو کام میں 'دل' نہ لگتا تھا، اور اگر اتفاق سے میری چھٹی ہو اور اس دن دھماکا ہو جائے پھر میرے ساتھ کام کرنے والوں کا دل نہ لگتا تھا، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس طرح کے دھماکے میں بہت اچھی طرح Manage کرتا ہوں، لیکن میں یہ ساری باتیں کیوں کر رہا ہوں ؟؟سنیے۔
کوئٹہ میں کچھ ہی وقفوں میں دو بم دھماکوں اور کراچی شہر میں جاری مسلسل مسلکی 'خانہ جنگی' نے اس شہر کے تما م ہی افراد اور بچوں کو بہت پہلے اور معصوم سی عمر میں ہی میری طرح سمجھ دار کر دیا ہے۔ میڈیا کے شدید اور ناجائز اثرات کا اندازہ تو بہت عرصے سے ہو ہی چکا تھا، لیکن ان بد اثرات نے بچوں کی فکری سطح اس نہج پر پہنچا دی ہے کہ محلے کے بچے جو کبھی کھیلتے ہوئے ملتے تھے، اس حال میں ملے کہ ایک بچہ جو تھوڑا بڑا نظر آ رہا تھا، اجتماعی دعا کروا رہا تھا، جو کہ یقیناً کسی اینکر کی ہی نقل تھی کیونکہ اس میں ڈراما زیادہ اور حقیقت کم تھی کہ اﷲ کرے آج پھر دھماکا ہو جائے اور دو دن کی چھٹی مل جائے، جس پر دعا میں موجود تما م ہی حاظرین نے بڑے ہی خلوص کے ساتھ آمین کہا، جن میں وہ بچے اور بچیاں بھی شامل تھے جن کا قرآن ختم ہونے کی 'آمین' میں بھی کافی وقت باقی تھا۔ ایک پیاری سی بچی جو سر پر دوپٹا لیے اس اجتماع میں شریک تھی اس کو دیکھ کر مجھے وہ بچیاں یاد آ گئیں جو بلک بلک کر ہر شہر میں اپنے باپ کے مرنے کا غم منا رہی ہوتی تھیں، لاشوں کے ڈھیر میں اپنے بابا اور بھائی کو تلاش کرنے والی بچی کا دکھ اور تھلیسمیا کا شکار اپنے لاپتہ باپ کی تصویر لیے شہروں شہروں دھکے کھاتی بچی کا جذبہ ایک ہی ہوتا ہے کہ بس بابا! نظر آ جائو۔ دعا کا شریک کار بچہ جو اپنے کھلونے کے ساتھ موجود تھا، مجھے اس ہوٹل والے کے بچہ کی یاد دلا گیا جس کو ہمارے محلے میں قتل کیا گیا تھا، جب اس کا چچا کام سمیٹ کر واپس کوئٹہ جا رہا تھا، تو اس نے کہا تھا ہمارا بھتیجا بڑا ہوکر اپنے باپ کا بدلا لے گا۔ دھماکے کی اطلاع پر سوچا، کیا پتا وہ بڑا ہوگیا ہو؟
انگنت لوگ ہیں اور بے شمار کہانیاں، کس کا غم منانا ہے اور کس کا نہیں... یہ بات اب شعور کی حدوں سے گزر چکی ہے۔ کوئی کہتا ہے سائنس و ٹیکنالوجی کی صدی ہے، کوئی کہتا ہے اسلام کی صدی ہے، کسی کو انقلاب نظر آتا ہے اور کسی کو انصاف کا بول بولا دکھائی دیتا ہے۔ یہ حالات دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ سفاکیت کی صدی ہے۔ اس سوچ کے ساتھ جوان ہونے والی نسلیں اور اس ہیجان میں پروان چڑھنے والے اذہان کون سا تعمیری کام انجام دے سکیں گے؟ اگر اسلام کی صدی ہے تو کون سا اسلام نافذ ہو گا؟ اور یہ انقلاب پہلے سے پسے ہوئوں کو کیوں بہا لے جا رہا ہے؟ یہ انصاف کی دکانوں پر انصاف صرف 'بول بچن' ہی کیوں دیتا ہے؟ اس تمام غموں اور دکھوں کے پیچھے ایک عجیب سا احساس بھی ہے، ایک امید بھی اور 'خوشی' بھی ہے، وہ یہ کہ آئندہ نسلوں کو کم سے کم اپنے احساسات کا 'قتل' نہ کرنا پڑے گا۔ ان کے جذبات کو 'ٹھیس' نہ آئے گی، ان کو کسی چینل میں 'بے عزت' نہ ہونا پڑے گا، اس بات پر کہ کس خبر کو اہمیت دینی ہے اور کس کو نہیں۔ ان کو اندازہ ہو گا کون سے شہر کے لوگ 'انسان' ہیں اور کہاں کے 'تکمیل' کے مراحل میں ہیں۔ لاشیں رکھ کر مظلوم لوگ تو ہر شہر میں احتجاج کرتے ہیں، فرق یہ ہے کہیں وزیر ہٹا دیے جاتے ہیں اور کہیں 'مظاہرین'۔ اب یہ امتحان ہے خبر چلانے والوں کا کہ کون سی اہم ہے؟ اور خبروں پر حق 'انسانوں' کا ہے۔