اپوزیشن کا کرداراورہمارے مسائل

گردن تک قرضوں میں ڈوبے ملک کا سیاسی ڈھانچہ یہاں کی اشرافیہ کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے

ali.dhillon@ymail.com

حلقہ این اے120کا ضمنی الیکشن اچھا رہا۔ دھاندلی کا شور نسبتاً کم دیکھنے میں آیا، دونوں فریق مطمئن بھی نظر آئے اور شکایات بھی کرتے رہے ۔مسلم لیگ ن نے پولنگ کے دوران ہی شکایت شروع کر دی تھی کہ ان کے کارکن غائب کر دیے گئے ہیں جب کہ الیکشن کے بعد پی ٹی آئی والے کہہ رہے تھے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور وہ الیکشن کمیشن کے خلاف عدالت میں جائیں گے، اُن کا دعویٰ ہے کہ اُن کے 29ہزار ووٹ پہلے ہی غائب کردئے گئے ہیں۔خیر ناقص حکمت عملی اور ناقص الیکشن سسٹم کی وجہ سے شکوے شکایات روٹین کا حصہ بن گئی ہیں جنھیں اہمیت ہی نہیں دی جاتی۔ بہرکیف ن لیگ نے اچھا الیکشن لڑا اور ''گھر والی'' سیٹ بچالی۔ حمزہ شہباز کی کمی کے باوجود مریم نواز اور بلال یٰسین نے حلقے میں اچھی مہم چلائی جس کا یقینا کریڈٹ اُنہیں ملنا چاہیے۔

مذکورہ الیکشن میں اگر کہیں ناقص حکمت عملی نظر آئی تو وہ اپوزیشن کے اتحاد کا فقدان نظر آیا، میں نے چند دن پہلے اپنے ایک کالم ''پیپلز پارٹی کی 'محافظانہ' سیاست'' میں لکھا تھا کہ پیپلز پارٹی نے غلط جگہ اپنے امید وار کھڑے کر کے ہمیشہ ن لیگ کا ساتھ دیا، جس سے ن لیگ کی فتح ہوتی رہی۔ اب اس الیکشن میں بھی اپوزیشن کی جانب سے کوئی مشترکہ امیدوار نہ لائے جانے کی و جہ سے ن لیگ نے فائدہ اُٹھایا اور جیت گئی۔ چونکہ ماہرین سیاست کی نظر میں اب ووٹ کی تقسیم نواز شریف یا اینٹی نواز شریف ہوچکی ہے، اور اینٹی نواز شریف ووٹ اگر تقسیم ہوجائے تو اُس کا فائدہ بھی ن لیگ ہی اُٹھا رہی ہے۔ اب حالیہ ضمنی انتخاب میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا کہ کل 1لاکھ 26ہزار 860ووٹ ڈالے گئے۔

جن میں سے کلثوم نواز کو 61ہزار 745ووٹ پڑے جب کہ ڈاکٹر یاسمین راشد کو 47ہزار ننانوے ووٹ ملے جب کہ باقی جماعتوں کے امیدواروں کو کل 18ہزار ووٹ ملے اور اگر یہی 18ہزار ووٹ پی ٹی آئی کو ملتا تو پی ٹی آئی 4ہزار کی لیڈ سے جیت جاتی۔ اور ہمیشہ ایسا ہوتا رہا ہے کہ حکومت وقت کو شکست دینے کے لیے پارٹیاں وسیع تر قومی مفاد میں الائنس بنایا کرتی ہیں، قارئین کو یاد ہو گا کہ 1977ء کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی کو شکست سے دوچارکرنے کے لیے حزب مخالف کی 9 سیاسی جماعتوں نے ایک اتحاد تشکیل دیا اور نوجماعتی سیاسی اتحاد کا نام ''پاکستان نیشنل الائنس'' PNA تجویز ہوا۔

اس الائنس میں پاکستان جمہوری پارٹی، تحریک استقلال، جماعت اسلامی، جمعیت علما پاکستان،جمعیت علما اسلام،خاکسار تحریک،پاکستان مسلم لیگ( قاسم گروپ)، نیشنل عوامی پارٹی و آل جموں وکشمیر مسلم لیگ کانفرنس شامل تھیں۔ جب کہ ایک اور سیاسی جماعت مسلم لیگ (قیوم گروپ) بھی ان انتخابات میں حصہ لے رہی تھی۔ نو جماعتی اتحاد کے سربراہ تھے مفتی محمود مرحوم جو مولانا فضل الرحمن کے والد تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا انتخابی نشان تلوار جب کہ پاکستان قومی اتحادکا انتخابی نشان ہل تھا۔ PNA کا نعرہ اسلامی قوانین کا نفاذ تھا۔اس بات سے قطع نظر کہ یہ اتحاد کس قدر کارآمد ثابت ہوا کس قدر نہیں، لیکن اس اتحاد نے بھٹو حکومت کو خاصا ٹف ٹائم دیا اور اگلے تین الیکشنز میں کم و بیش ایک چوتھائی سیٹیں نکالنے میں کامیاب ہوتا رہا۔ لیکن اس بار اپوزیشن کوئی بھی سیاسی اتحاد بنانے میں ناکام نظر آئی۔


الیکشن سے پہلے تحریک انصاف کی جانب سے میاں محمود الرشید اور چوہدری سرور نے سینٹر سراج الحق سے ملاقات کا وقت لیا لیکن پی ٹی آئی کے رہنماوں نے تحریک انصاف کی کور کمیٹی کی میٹنگ کے باعث سینٹر سراج الحق سے ملاقات منسوخ کردی۔اور جماعت اسلامی نے ڈاکٹر یاسمین راشد کے مقابلے میں امیدوار ضیاالدین انصاری کو دستبردار کرانے سے انکار کردیا۔پاکستان میں اپوزیشن کا کردار وہ نہیں جو ہونا چاہیے، محض سیاسی لڑائی ہی اپوزیشن نہیں ہوتی۔ ہماری اپوزیشن کے مخصوص کام رہ گئے ہیں۔

موجودہ حکومت نے اندرونی و بیرونی اداروں سے بے تحاشا قرضے لیے، اپوزیشن خاموش رہی۔ اس قدر قرضوں کی وجہ سے پاکستان کی معاشی حالت ابتر سے ابتر ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی مالیاتی اداروں کو مداخلت کرکے حکومت کو جنجھوڑنا پڑا، جس پر آئی ایم ایف ودیگر مالیاتی اداروں نے پاکستان پر دباؤ ڈالا کہ ڈالر اِس وقت 116 روپے فی ڈالر یا اس سے بھی کچھ زیادہ کا ہونا چاہیے تاکہ مہنگائی میں اضافہ ہو اور حکومت زیادہ سے زیادہ پیسے اکٹھے کر کے مالیاتی اداروں کو واپس کرے۔

اس قدر زیادہ قرض چکا نے کے لیے مزید قرضے لینے پڑیں گے، اور قرض لینے کے لیے ہم پہلے ہی ملک کے منافع بخش ادارے گروی رکھوا چکے ہیں اور پھر جب کہا جا تا ہے کہ ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر 20 ارب 45کروڑ ڈالر تک کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئے ہیں، ان ذخائر کے اضافے کا قصہ جو سابق وزیرِ خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے اسلام آباد میں گزشتہ سال ایک سیمینار کے دوران بیان کیا ذرا سن لیجیے۔ انھوں نے کہا کہ ملک کا موجود ہ بیرونی قرضہ 2018-19ء تک بڑھ کر 90 ارب ڈالر ہو جائے گا۔ حکومت کو ہر سال 20 ارب ڈالر بطور سود کی قسط ادا کرنا ہوگی۔ یعنی آنے والے تین برس میں یہ اضافہ 38% ہو گا۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ حکومت میں شامل سرمایہ دار اپنی تجوریاں بھرنے پر لگے ہوئے ہیں۔

گردن تک قرضوں میں ڈوبے ملک کا سیاسی ڈھانچہ یہاں کی اشرافیہ کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔ اپوزیشن کو نہ جانے یہ ایشوز کیوں نظر نہیں آرہے۔ آج ملک میں 80فیصد سے زائد ادارے چل نہیں رہے اور جو 20 فیصد ادارے رہ گئے ہیں وہ گروی رکھے جا رہے ہیں، اور اگر موٹروے پیسے کما رہی ہے تو اسے گروی رکھ دیا گیا ہے۔عالمی دنیا میں ہمارا تاثر کیا ہوگا؟ آج حالات یہ ہیں کہ ریمیٹنس آنہیں رہے، بیرون ملک خصوصاََ عرب ممالک سے پاکستانیوں کو نکال کر برما، بنگلہ دیش اور بھارت سے سستی لیبر رکھی جا رہی ہے۔ امپورٹ کا بل دن بدن بڑھتا جا رہا ہے، جب کہ برآمدات کا بل دن بدن کم ہوتا جا رہا ہے۔ کیا ان چیزوں سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جب موجودہ حکومت ختم ہو گی اور نگران سیٹ اپ آئے گا تو اس کے بعد ملک کی معاشی حالت مزید بگڑ جائے گی۔ میرے خیال میں یہ وقت قوم کو اعتماد میں لینے اور سچ بتانے کا ہے۔ قوم کو اگر سچ بتا دیا جائے تو ہم آنے والے کڑے وقت کے لیے اپنے آپ کو تیار کر سکتے ہیں اور آیندہ کے لیے ضروری اقدامات کر سکتے ہیں۔

اگر آج بھی ہم نے جھوٹ بولا تو پانی سر سے گزرتے ہوئے دیر نہیں لگے گی۔ اس لیے اپوزیشن کو اگر الیکشن 2018ء جیتنا ہے تو پھر ان ایشوز پر بات کرنا ہوگی، حکومت کی خامیوں کو سامنے لانا ہوگا، اور عوام کو یہ بتانا ہو گا کہ جب نگران حکومت آئے گی تو پاکستان معاشی تباہی کے دہانے پر کھڑا ہوگا، خزانہ خالی ہو گا اور اگلی حکومت پھر آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کی طرف جائے گی مگر اس بار یہ بھی یاد رکھنا پڑے گا کہ ہمارے ساتھ امریکا نہیں ہوگا لہٰذا ان حالات کی حکومت کے ساتھ اپوزیشن بھی برابر کی ذمے دار ہے جو نواز شریف اور اینٹی نواز شریف کمپین کا حصہ رہی ہیں جب کہ ملک کے بارے میں کسی نے نہیں سوچا!
Load Next Story