قبل ازوقت بجٹ تجاویز کی تیاری پر کراچی چیمبر کو تشویش

رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان پر بغیر مشاورت نئے ٹیکسیشن اقدامات زبردستی تھوپے جارہے ہیں

امیروں پر ٹیکس کے دعوے دکھاوا ہیں، ایف بی آر پولیس کی طرح ہراساں کررہا ہے، ہارون اگر فوٹو: فائل

کراچی چیمبر آف کامرس نے ایف بی آر کے مالی سال 2013-14 کے وفاقی بجٹ سے متعلق قبل ازوقت مالیاتی اقدامات کے جبری نفاذ پرتحفظات کا اظہار کردیا ہے۔

چیمبر کے صدر ہارون اگر نے ایف بی آر کی حکمت عملی پرتشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے دباؤ پرایف بی آرکے قواعدوضوابط کے خلاف غیرمعمولی اقدامات کی وجہ سے پہلے سے رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان پرنئے ٹیکسیشن اقدامات زبردستی تھوپے جا ر ہے ہیں، وزارت خزانہ اور ایف بی آرحکام اس سلسلے میں کسی بھی مرحلے پر نئے ٹیکسیشن اقدامات کے حوالے سے تاجربرادری یا ملک بھر کی نمائندہ چیمبرز آف کامرس اور ٹریڈانجمنوں کے ساتھ مشاورت نہیں کی۔

انھوں نے 17 فروری کو حکومتی مدت کی تکمیل سے 25روز قبل ٹیکسیشن تجاویزکو حتمی شکل دینے کی خبروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حکومت اپنے یکطرفہ اقدامات کے تحت 461 ارب روپے کے اضافی ٹیکسوںکا بوجھ بھی پہلے سے رجسٹرڈ اور باقاعدگی سے ٹیکسوں کی ادائیگیاں کرنیوالے ٹیکس دہندگان پر ڈالنے کی کوشش کررہی ہے جبکہ ٹیکس وصولیوں کے ہدف میں اضافہ بھی تجویز کیا گیا ہے۔ ہارون اگرنے کہا کہ ملک بھر کی تاجربرادری اور چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری سال 2013-14 کیلیے بجٹ تجاویزوسفارشات مرتب کررہے ہیں لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایف بی آر اور وزارت خزانہ نے تاجربرادری اور چیمبرز آف کامرس کی سفارشات کونئے وفاقی بجٹ کا حصہ بنانے یا جائزہ لینے کی مشق کا فیصلہ ترک کر لیا ہے اورتمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیے بغیر نئے سال کیلیے بجٹ وٹیکسیشن اقدامات ترتیب دینے کی ٹھان لی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ایف بی آررواں مالی سال کیلیے مقررہ ریونیو اہداف کے حصول میں یکسر ناکام ہوچکا ہے جس کا تمامتر بوجھ اب پہلے سے بھاری ٹیکسوں کے بار تلے دبے رجسٹرڈ و ایماندار ٹیکس دہندگان پرڈالنے کا قصد کررہا ہے، ایف بی آر کا ٹیکس کے دائرہ کار کو وسیع کرنے، نئے ٹیکس دہندگان کا اندارج کرنے اور پر تعیش زندگی گزارنے والے ٹیکس نادہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا دعویٰ محض دکھاوا ثابت ہورہا ہے، ایف بی آرحکام نے بھی محکمہ پولیس کا طرز عمل اختیار کرتے ہوئے روایتی حربے اور چالبازیوں کی پالیسیاں اختیار کرلی ہے اور محکمہ پولیس کی طرز پرٹیکس دہندگان کوہراسان کرنے اوران سے غیرقانونی و غیرمنصفانہ اقدامات کے ذریعے ریونیو کے نام پرجبری پیسے ہتھیانے کی پالیسی اپنالی ہے۔




انہوں نے کہا کہ تاجربرادری سے قانونی واجبات سے زیادہ وصولیوں کی خواہش کے عمل سے یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ ایف بی آر اپنے ریوینو آفیسرز کو نوازنا چاہتا ہے۔ انھوں نے کہاکہ بڑے پیمانے پرٹیکسیشن کے ڈھانچے میں تبدیلیاں اور نئے مالی سال کیلیے مالی اقدامات کا استحقاق اگرچہ صرف آئندہ منتخب حکومت کو ہو گا اور قانونی طور پر موجودہ حکومت جو آئندہ چند دنوںمیں اپنی مدت مکمل کرلے گی جس کے بعد متوقع نگران حکومت کو ٹیکسیشن میں تبدیلیوں کا کوئی استحقاق نہیں ہے، اگر ایف بی آر کی ٹیکسیشن قانون میں وضع کردہ تبدیلیوں کا نفاذ ہو جاتا ہے تو یہ نئی منتخب حکومت کیلیے مشکلات اور مسائل پیدا کریگا جس کے جائزے اورحل کیلیے اسے طویل وقت درکار ہوگا۔

ایف بی آر کی یہ وضع کردہ ٹیکسیشن تبدیلیاں تاجربرادری پرخودکش حملے کی مانند ہے اور نئی منتخب ہونے والی حکومت کیلیے بھی ان متنازع قوانین کا فوری طور پر جائزہ لینا دقت طلب ہو گا۔ انھوں نے بتایا کہ ایف بی آر نے سیلز ٹیکس اور ودہولڈنگ ٹیکس میں اضافے کیلیے پہلے ہی ایس آراوزجاری کر دیے ہیں اور ان لینڈ ریونیو کے افسران کو اہداف وفاضل ریونیوکے حصول کیلیے کھلی چھوٹ دیدی گئی ہے۔

جومینولی آڈٹ کیس کا انتخاب کررہے ہیں اور مختلف عذر پیش کرتے ہوئے رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان سے مزید غیر منصفانہ وصولیوں میں سرگرم ہوگئے ہیں، متنازع ایس آر او 98(I)/2013 کے ذریعے ایف بی آر نے تاجربرادری سے مشاورت کے بغیر سیلز ٹیکس ودہولڈنگ ریجیم میں بلاجواز ترامیم کی ہیں ، کراچی چیمبر شاہانہ زندگی گزارنے والے بااثر اور طاقتور افرادکو ٹیکس نیٹ میں لانے میں ناکام ہوچکا ہے۔ انھوں نے حکومت پر واضح کیا کہ کراچی چیمبر بغیر مشاورت بجٹ اقدامات اوراس کانفاذ مستردکرتا ہے۔
Load Next Story