توہین عدالت قانون عدلیہ کا فیصلہ‘ حکومتی ردعمل
آئین کے مطابق اگر پارلیمنٹ کوئی قانون بنانے کی مجاز ہے تو اس کی توضیح و تشریح کا حق عدلیہ کے پاس ہے
سپریم کورٹ نے حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ سے منظور کیے گئے توہین عدالت قانون 2012 کو ماورائے آئین قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قانون آئین سے متصادم، بدنیتی پر مبنی اور عدالت کے اختیارات کم کرنے کی کوشش ہے، قانون کی نظر میں سب برابر ہیں اور کچھ لوگوں کو استثنیٰ دینا آئین پاکستان کے منافی ہے، صدر وزیر اعظم اور دیگر کو استثنیٰ دینا آئین سے متصادم ہے اور استثنیٰ دینا آئین میں ترمیم کے مترادف ہے، عدالت عظمیٰ نے قرار دیا کہ جس روز یہ نیا قانون منظور کیا گیا تھا اسی دن سے ہی توہین عدالت قانون 2003ء نافذالعمل ہے لہذا نئے قانون کی کوئی آئینی یا قانونی حیثیت نہیں ہے۔
عدالت نے توہین عدالت قانون کے خلاف دائر تمام درخواستیں قابل سماعت قرار دے دیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے جمعے کو توہین عدالت قانون کے خلاف درخواستوں کی سماعت مکمل ہونے کے بعد مختصر فیصلہ جاری کیا۔ سپریم کورٹ نے نئے اور اب کالعدم توہین عدالت قانون کی کن شقوں کو خلاف آئین قرار دیا اس کی پوری تفصیل پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر آ چکی ہے' اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ آئین کے مطابق اگر پارلیمنٹ کوئی قانون بنانے کی مجاز ہے تو اس کی توضیح و تشریح کا حق عدلیہ کے پاس ہے اور عدلیہ نے اس حوالے سے اپنا فیصلہ صادر کر دیا ہے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے سوئس حکام کو خط لکھنے کے سلسلے میں بھی حکومت کو 8 اگست تک کا حتمی وقت دے رکھا ہے چنانچہ اس قانون کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد بھی حکومت اگر اس خط کے لکھے جانے کے حوالے سے کوئی اقدام نہیں کرتی تو اگلے ایک ہفتے میں وزیر اعظم کی ایک بار پھر رخصتی جیسا کوئی فیصلہ سامنے آ سکتا ہے' اس حوالے سے کوئی درمیانی راستہ نکالنا وقت کی ضرورت ہے۔ حکومت کے لیے یہ وقت نہایت سوچ سمجھ کر آگے بڑھنے کا ہے کیونکہ کوئی بھی غلط فیصلہ یا اقدام موجودہ سیٹ اپ اور جمہوریت دونوں کے لیے خطرات کا باعث بن سکتا ہے۔
یہ واضح ہے کہ حکومت نے کالعدم قرار دیا گیا بل نہایت عجلت میں اور محض چند دنوں میں منظور کرایا تھا اور واضح طور پر اس قانون کی منظوری اور اس حوالے سے کی جانے والی عجلت کے پس منظر میں ایک ہی سوچ یا مقصد کارفرما تھا کہ جو کچھ سید یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ہوا وہ نئے وزیر اعظم کے ساتھ نہ ہو سکے۔ اب سپریم کورٹ کا فیصلہ آ چکا ہے، حکومت نے اسے تسلیم بھی کر لیا ہے جو ایک اچھی پیش رفت ہے تاہم حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر ایک اور ردعمل بھی سامنے آیا ہے۔
ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ اتحادی جماعتوں کا اہم اجلاس صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت ایوان صدر میں ہوا جس میں توہین عدالت کے قانون کو سپریم کورٹ کی جانب سے کالعدم قرار دینے کے فیصلے اور موجودہ سیاسی صورتحال پر غور کیا گیا۔ ذرایع کا کہنا ہے کہ حکومت نے وزارت قانون کو توہین عدالت قانون میں خامیوں کا ازسرنو جائزہ لے کر نیا مسودہ تیار کرنے کی ہدایت کی، اجلاس میں شریک تین سیاسی جماعتوں کے نمایندوں نے دعویٰ کیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کی اپیل دائر کی جائے گی
جب کہ اتحادی جماعتوں نے صدر کو عدالتی فیصلے پر پارلیمنٹ میں بحث کرنے کا بھی مشورہ دیا ہے۔ اتحادی جماعتوں اور پیپلز پارٹی نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پارلیمنٹ کی بالادستی اور قانون سازی کے حق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ ذرایع کے مطابق نیا قانون 8 اگست سے پہلے پارلیمنٹ سے منظور کرایا جائے گا۔ ہمارے خیال میں جس طرح عدلیہ کو آئین و قوانین کی تشریح کا اختیار حاصل ہے اسی طرح آئین پارلیمنٹ کو بھی یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ اتفاق رائے کے ساتھ کوئی قانون بنانا چاہے تو بنائے چنانچہ اگر حکومت نے گزشتہ ماہ بنایا گیا
توہین عدالت قانون کالعدم قرار دیے جانے کے بعد ایک اور نیا قانون لانے کی بات کی ہے یا اگر وہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کی اپیل دائر کرنے کا ارادہ کرتی ہے تو یہ اس کا حق ہے اور اس کی جانب سے ایسا کوئی اقدام کرنے پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ عدلیہ اور انتظامیہ کے مابین پھر سے اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔ جب بھی اور جدھر سے بھی ایسا کوئی تاثر دیا جائے گا وہ غلط ہو گا۔ پارلیمنٹ کا کام ہی قانون بنانا ہوتا ہے، اگر وہ کوئی قانون بناتی ہے اور پاکستان کا کوئی شہری سمجھتا ہے کہ یہ آئین سے متصادم ہے تو وہ عدالت عظمیٰ سے رجوع کر سکتا ہے اور عدالت آئین کے دیے ہوئے اختیار کے مطابق فیصلہ دینے کا اختیار رکھتی ہے
لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب تک جو کچھ ہوا وہ آئین اور قانون کے دائرے میں ہی ہوا ہے اور اداروں کے مابین تصادم کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اسی طرح اگر حکومت اتحادی جماعتوں کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے عدالتی فیصلے پر پارلیمنٹ میں بحث کرنے کا ارادہ کرتی ہے تو اسے اس سے روکا نہیں جا سکتا۔ وہ اس پر بحث کر سکتی ہے، یوں ارکان پارلیمنٹ کو اس قانون میں موجود خامیوں کا پتہ چل سکتا ہے اور وہ انھیں دور کرکے نیا قانون بنا سکتے ہیں۔ بہرحال ضرورت اس امر کی ہے کہ آئین اور قانون کے ان معاملات کو آئینی اور قانونی پیرامیٹرز کے اندر رہتے ہوئے طے یا حل کیا جائے تاکہ موجودہ سیٹ اپ یا جمہوریت میں سے کسی کو بھی نقصان نہ پہنچے۔
عدالت نے توہین عدالت قانون کے خلاف دائر تمام درخواستیں قابل سماعت قرار دے دیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ نے جمعے کو توہین عدالت قانون کے خلاف درخواستوں کی سماعت مکمل ہونے کے بعد مختصر فیصلہ جاری کیا۔ سپریم کورٹ نے نئے اور اب کالعدم توہین عدالت قانون کی کن شقوں کو خلاف آئین قرار دیا اس کی پوری تفصیل پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر آ چکی ہے' اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ آئین کے مطابق اگر پارلیمنٹ کوئی قانون بنانے کی مجاز ہے تو اس کی توضیح و تشریح کا حق عدلیہ کے پاس ہے اور عدلیہ نے اس حوالے سے اپنا فیصلہ صادر کر دیا ہے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے سوئس حکام کو خط لکھنے کے سلسلے میں بھی حکومت کو 8 اگست تک کا حتمی وقت دے رکھا ہے چنانچہ اس قانون کو کالعدم قرار دیے جانے کے بعد بھی حکومت اگر اس خط کے لکھے جانے کے حوالے سے کوئی اقدام نہیں کرتی تو اگلے ایک ہفتے میں وزیر اعظم کی ایک بار پھر رخصتی جیسا کوئی فیصلہ سامنے آ سکتا ہے' اس حوالے سے کوئی درمیانی راستہ نکالنا وقت کی ضرورت ہے۔ حکومت کے لیے یہ وقت نہایت سوچ سمجھ کر آگے بڑھنے کا ہے کیونکہ کوئی بھی غلط فیصلہ یا اقدام موجودہ سیٹ اپ اور جمہوریت دونوں کے لیے خطرات کا باعث بن سکتا ہے۔
یہ واضح ہے کہ حکومت نے کالعدم قرار دیا گیا بل نہایت عجلت میں اور محض چند دنوں میں منظور کرایا تھا اور واضح طور پر اس قانون کی منظوری اور اس حوالے سے کی جانے والی عجلت کے پس منظر میں ایک ہی سوچ یا مقصد کارفرما تھا کہ جو کچھ سید یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ہوا وہ نئے وزیر اعظم کے ساتھ نہ ہو سکے۔ اب سپریم کورٹ کا فیصلہ آ چکا ہے، حکومت نے اسے تسلیم بھی کر لیا ہے جو ایک اچھی پیش رفت ہے تاہم حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر ایک اور ردعمل بھی سامنے آیا ہے۔
ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ اتحادی جماعتوں کا اہم اجلاس صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کی زیر صدارت ایوان صدر میں ہوا جس میں توہین عدالت کے قانون کو سپریم کورٹ کی جانب سے کالعدم قرار دینے کے فیصلے اور موجودہ سیاسی صورتحال پر غور کیا گیا۔ ذرایع کا کہنا ہے کہ حکومت نے وزارت قانون کو توہین عدالت قانون میں خامیوں کا ازسرنو جائزہ لے کر نیا مسودہ تیار کرنے کی ہدایت کی، اجلاس میں شریک تین سیاسی جماعتوں کے نمایندوں نے دعویٰ کیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کی اپیل دائر کی جائے گی
جب کہ اتحادی جماعتوں نے صدر کو عدالتی فیصلے پر پارلیمنٹ میں بحث کرنے کا بھی مشورہ دیا ہے۔ اتحادی جماعتوں اور پیپلز پارٹی نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پارلیمنٹ کی بالادستی اور قانون سازی کے حق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ ذرایع کے مطابق نیا قانون 8 اگست سے پہلے پارلیمنٹ سے منظور کرایا جائے گا۔ ہمارے خیال میں جس طرح عدلیہ کو آئین و قوانین کی تشریح کا اختیار حاصل ہے اسی طرح آئین پارلیمنٹ کو بھی یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ اتفاق رائے کے ساتھ کوئی قانون بنانا چاہے تو بنائے چنانچہ اگر حکومت نے گزشتہ ماہ بنایا گیا
توہین عدالت قانون کالعدم قرار دیے جانے کے بعد ایک اور نیا قانون لانے کی بات کی ہے یا اگر وہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی کی اپیل دائر کرنے کا ارادہ کرتی ہے تو یہ اس کا حق ہے اور اس کی جانب سے ایسا کوئی اقدام کرنے پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ عدلیہ اور انتظامیہ کے مابین پھر سے اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔ جب بھی اور جدھر سے بھی ایسا کوئی تاثر دیا جائے گا وہ غلط ہو گا۔ پارلیمنٹ کا کام ہی قانون بنانا ہوتا ہے، اگر وہ کوئی قانون بناتی ہے اور پاکستان کا کوئی شہری سمجھتا ہے کہ یہ آئین سے متصادم ہے تو وہ عدالت عظمیٰ سے رجوع کر سکتا ہے اور عدالت آئین کے دیے ہوئے اختیار کے مطابق فیصلہ دینے کا اختیار رکھتی ہے
لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب تک جو کچھ ہوا وہ آئین اور قانون کے دائرے میں ہی ہوا ہے اور اداروں کے مابین تصادم کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اسی طرح اگر حکومت اتحادی جماعتوں کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے عدالتی فیصلے پر پارلیمنٹ میں بحث کرنے کا ارادہ کرتی ہے تو اسے اس سے روکا نہیں جا سکتا۔ وہ اس پر بحث کر سکتی ہے، یوں ارکان پارلیمنٹ کو اس قانون میں موجود خامیوں کا پتہ چل سکتا ہے اور وہ انھیں دور کرکے نیا قانون بنا سکتے ہیں۔ بہرحال ضرورت اس امر کی ہے کہ آئین اور قانون کے ان معاملات کو آئینی اور قانونی پیرامیٹرز کے اندر رہتے ہوئے طے یا حل کیا جائے تاکہ موجودہ سیٹ اپ یا جمہوریت میں سے کسی کو بھی نقصان نہ پہنچے۔