بینظیر پارک کی تعمیر میں 22کروڑ کی کرپشن مقدمہ احتساب عدالت منتقل کیا جائے چیئرمین نیب
لیاقت علی قائم خانی اور21 افسران کیخلاف مقدمے کو چیف سیکریٹری سندھ کی جانب سے سی کلاس قرار دینے پر نیب کی درخواست
بینظیر پارک کی تعمیرات میں 22 کروڑ روپے سے زائد رقم کی بدعنوانی میں ملوث سابق ڈائریکٹر جنرل پارکس اینڈ او ڈی کلچرل لیاقت علی قائم خانی سمیت 21 اعلیٰ افسران کے خلاف درج مقدمہ چیف سیکریٹری سندھ کی جانب سے ختم (سی کلاس ) قرار دینے پر نیب کے چیئرمین نے مقدمہ نیب میں منتقل کرنے کی درخواست دائر کردی۔
2009 میں بھی مذکورہ افسران کے خلاف بدعنوانی کے 9 سے زائد مقدمات قائم کیے گئے تھے تاہم اینٹی کرپشن کمیٹی ون کے سربراہ چیف سیکریٹری کی سفارش پر7 مقدمات واپس لے چکے ہیں،تفصیلات کے مطابق نیب کے چیئرمین سید فصیح بخاری کی جانب سے جاری درخواست پراسیکیوٹر احتساب بیورو نے انسداد بدعنوانی کی صوبائی عدالت میں جمع کرائی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ سابق ڈائریکٹر جنرل پارکس اینڈ او ڈی کلچرل لیاقت علی قائم خانی سمیت دیگر کے خلاف زیرسماعت مقدمہ الزام 9/12 زیر دفعہ 217/218/409/420/468/47/34ppc اور 5(2)1995 کو نیب آرڈینس1999 16A (A)کے تحت احتساب عدالت میں منتقل کیا جائے۔
مذکورہ مقدمے میں قومی خزانے کی 22کروڑ روپے سے زائد رقم لوٹی گئی ہے جو کہ نیب آرڈیننس 9 کے زمرے میں آتا ہے نیب بیورو کا مقصد سرکاری و قومی خزانے کو لوٹنے والے ملزمان سے پلی بارگین کے ذریعے لوٹی ہوئی رقم واپس لینا ہے اور ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا زیر دفعہ 25.B کے تحت نیب کو اختیار حاصل ہے، اگر مقدمہ فاضل عدالت میں زیرسماعت رہا تو فاضل عدالت ملزمان سے رقم واپس نہیں نکلواسکتی،درخواست میں مقدمہ احتساب عدالت منتقل کرنے کی استدعا کی گئی ہے،10دسمبر2012کو فاضل عدالت کی جج راشدہ اسد کا تبادلہ ہوچکا ہے عدالت خالی ہے جبکہ انچارج جج احمد صبا نے درخواست پر کوئی احکامات جاری نہیں کیے اور اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ اختیار صرف متعلقہ جج کو حاصل ہے تاہم درخواست جج کی تعیناتی تک التوا میں ہے۔
استغاثہ کے مطابق ملزمان سابق ڈی جی پارکس اینڈ او ڈی کلچرل لیاقت علی قائم خانی ، ایکسیئن افتخار اﷲ خان ، امیر بخش سومرو ، مشیر عالم ، ڈپٹی ڈائریکٹر، عبدالرشید ، اے ای ای ، افتخار احمد ، سب انجینئر راحیل اکبر ، خواجہ عارف ندیم ، شاہد حسین ، محمد شاہد علی ، سکندر علی لاشاری ، محمد شمیم ، طارق بن رشید ، ممتاز علی چنہ، محمد زمان سمیت 6 سے زائد ٹھکیداروں پر الزام ہے کہ انھوں نے150ایکڑ اراضی پر تین حصوں میں مشتمل پارک کی تعمیرات میں جعل سازی کے ذریعے خورد برد کرتے ہوئے قومی خزانے کو تقریباً 22کروڑ کا نقصان پہنچایا تھا۔
2009 میں بھی مذکورہ افسران کے خلاف بدعنوانی کے 9 سے زائد مقدمات قائم کیے گئے تھے تاہم اینٹی کرپشن کمیٹی ون کے سربراہ چیف سیکریٹری کی سفارش پر7 مقدمات واپس لے چکے ہیں،تفصیلات کے مطابق نیب کے چیئرمین سید فصیح بخاری کی جانب سے جاری درخواست پراسیکیوٹر احتساب بیورو نے انسداد بدعنوانی کی صوبائی عدالت میں جمع کرائی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ سابق ڈائریکٹر جنرل پارکس اینڈ او ڈی کلچرل لیاقت علی قائم خانی سمیت دیگر کے خلاف زیرسماعت مقدمہ الزام 9/12 زیر دفعہ 217/218/409/420/468/47/34ppc اور 5(2)1995 کو نیب آرڈینس1999 16A (A)کے تحت احتساب عدالت میں منتقل کیا جائے۔
مذکورہ مقدمے میں قومی خزانے کی 22کروڑ روپے سے زائد رقم لوٹی گئی ہے جو کہ نیب آرڈیننس 9 کے زمرے میں آتا ہے نیب بیورو کا مقصد سرکاری و قومی خزانے کو لوٹنے والے ملزمان سے پلی بارگین کے ذریعے لوٹی ہوئی رقم واپس لینا ہے اور ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے کا زیر دفعہ 25.B کے تحت نیب کو اختیار حاصل ہے، اگر مقدمہ فاضل عدالت میں زیرسماعت رہا تو فاضل عدالت ملزمان سے رقم واپس نہیں نکلواسکتی،درخواست میں مقدمہ احتساب عدالت منتقل کرنے کی استدعا کی گئی ہے،10دسمبر2012کو فاضل عدالت کی جج راشدہ اسد کا تبادلہ ہوچکا ہے عدالت خالی ہے جبکہ انچارج جج احمد صبا نے درخواست پر کوئی احکامات جاری نہیں کیے اور اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ اختیار صرف متعلقہ جج کو حاصل ہے تاہم درخواست جج کی تعیناتی تک التوا میں ہے۔
استغاثہ کے مطابق ملزمان سابق ڈی جی پارکس اینڈ او ڈی کلچرل لیاقت علی قائم خانی ، ایکسیئن افتخار اﷲ خان ، امیر بخش سومرو ، مشیر عالم ، ڈپٹی ڈائریکٹر، عبدالرشید ، اے ای ای ، افتخار احمد ، سب انجینئر راحیل اکبر ، خواجہ عارف ندیم ، شاہد حسین ، محمد شاہد علی ، سکندر علی لاشاری ، محمد شمیم ، طارق بن رشید ، ممتاز علی چنہ، محمد زمان سمیت 6 سے زائد ٹھکیداروں پر الزام ہے کہ انھوں نے150ایکڑ اراضی پر تین حصوں میں مشتمل پارک کی تعمیرات میں جعل سازی کے ذریعے خورد برد کرتے ہوئے قومی خزانے کو تقریباً 22کروڑ کا نقصان پہنچایا تھا۔