وزیراعظم سانحہ کوئٹہ کے براہ راست ذمے دار ہیں سپریم کورٹ
جدید ٹیکنالوجی کے باوجود انتظامیہ ناکام رہی، الیکشن سر پر ہیں، حالات سازگار ہونے چاہئیں، عدالت
چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے سانحہ کوئٹہ ازخودنوٹس کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ گورنر راج کی موجودگی میں وفاقی حکومت اور وزیر اعظم براہ راست ذمے دار ہیں۔
لوگ محفوظ نہیں تو وفاقی حکومت کو سوچنا ہوگا اور فیصلے کرنا پڑیں گے۔ سپریم کورٹ کے3رکنی بینچ کے روبرو سماعت کے دوران وفاقی حکومت نے اپنا جواب جمع کرا دیا جسے عدالت نے اٹارنی جنرل کی استدعا پر خفیہ رکھنے کی ہدایت کی، اٹارنی جنرل نے کہا اسے صدر اور وزیر اعظم کا جواب تصور کیا جائے۔ حالات معمول پر لانے کیلیے مکمل نقشہ تیار ہو گیا ہے، اہم فیصلے کرلیے گئے ہیں، رپورٹ صرف عدالت کی معلومات کیلیے ہے، لیکیج ہوئی تو آپریشن متاثر ہو سکتا ہے، مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق وزیراعظم سیکریٹریٹ کے جواب میں کہا گیا کہ خفیہ معلومات صوبائی انتظامیہ سے شیئر کی گئی تھیں۔ کمانڈر شہباز نے10جنوری کے واقعے پر آئی ایس آئی کی خفیہ رپورٹ پیش کی۔
فاضل بینچ نے ایف سی کی رپورٹ غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے حکم دیا کہ کمانڈنٹ خود اس پر دستخط کریں۔ چیف جسٹس نے کہا تمام خفیہ رپورٹس کے بعد یہ طے ہو چکاحملہ پولیس اور ایف سی کی غفلت سے ہوا، ایف سی کی6 چوکیوںکے باوجود دہشتگرد ٹینکر اندر لے گئے، ہوم سیکریٹری بلوچستان نے کہا خفیہ معلومات میں کہا گیا تھا کہ بڑے حملے کا خطرہ ہے، مخصوص معلومات نہیں تھیں۔ ڈی آئی جی آپریشنز میر زبیر نے کہا دہشتگردوں نے نئی اسٹرٹیجی اپنائی، ہزارہ ٹائون میں پانی کی قلت ہے اور ٹینکرز سے پانی فراہم کیا جاتا ہے، بی بی سی کے مطابق میر زبیر کا کہنا تھا کہ جان بوجھ کر پانی کی قلت پیدا کرکے یہ کارروائی کی گئی، ٹینکر پولیس کی3چوکیوں سے گّْزرا اور پانی کی کمی کے باعث کسی نے نوٹس نہیں لیا۔
خفیہ اداروں نے پیشگی اطلاع نہیں دی، مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ ٹینکر کس گیراج میں بنا اور کس نے ڈیزائن کیا، وہ گرفتار ہوا یا نہیں، کیا پولیس کو علم نہیں ہوتا کہ علاقے میں کیا ہو رہا ہے ؟ میرزبیر نے بتایا کہ 183 افراد کو شامل تفتیش کیاگیا ہے، یقین دلاتا ہوں جلد بڑی کامیابی حاصل ہوگی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جو برادری بار بار نشانہ بن رہی ہے، اسکو خصوصی تحفظ ملنا چاہیے، دہشتگرد جیل توڑ کر فرار ہو جاتے ہیں، سب جانتے ہیں یہ کیسے ہو رہا ہے۔ 1996میں جنرل عمران نے سب کچھ ٹھیک کر دیا تھا، اب تو جدید ٹیکنالوجی آگئی ہے، اس کے باوجود انتظامیہ ناکام ہے، الیکشن سر پر ہیں، ایسا نہ ہو ایک حملہ آج کوئٹہ میں ہو، کل خضدار میں اور پرسوں پشتون آباد میں ہو، انتخابات کیلیے ہرصورت حالات سازگار ہونے چاہیئں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ کوئٹہ میں آپریشن نہیں آپریشن کلین اپ کی ضرورت ہے، الیکشن ہونے والے ہیں اور ایسے واقعات کو روکنا ہوگا۔ جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر غیر قانونی سم بنداور غیر قانونی گاڑیاں ضبط کی جاتیں تو یہ حملے نہ ہوتے، ہر واقعے کے پیچھے پیسہ ہوتا ہے، انکا کھوج لگایا جائے، حکومت کو واضح لائحہ عمل اپنانا پڑے گا۔ آن لائن کے مطابق جسٹس خلجی نے کہا کہ دنیا بھر میں دہشتگردی پر قابو پالیا گیا ہے مگر ہمارے ہاں اداروں میں حوصلہ نہیں، چیف جسٹس نے کہا عوام کی زندگی کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔
گورنر راج کی موجودگی میں وفاقی حکومت اور وزیر اعظم براہ راست ذمے دار ہیں، اگر اس کے باوجود لوگ محفوظ نہیں تو وفاقی حکومت کو سوچنا ہو گا اور فیصلے کرنے پڑینگے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جمہوریت کی بساط لپیٹ کر بھی دہشتگردی سے چھٹکارا نہ مل سکا۔ اٹارنی جنرل نے کہا بہت اقدامات کیے ورنہ حالات بہت خراب ہوتے، چیف جسٹس نے کہا100 لوگ جاں بحق ہو جائے، اس سے زیادہ خراب حالات نہیں ہو سکتے۔ حکومت نے تمام سوالات کا جواب نہیں دیا لیکن نتائج کے انتظار کیلیے سماعت ملتوی کر دیتے ہیں۔ مزید سماعت 26فروری تک ملتوی کر دی گئی۔
لوگ محفوظ نہیں تو وفاقی حکومت کو سوچنا ہوگا اور فیصلے کرنا پڑیں گے۔ سپریم کورٹ کے3رکنی بینچ کے روبرو سماعت کے دوران وفاقی حکومت نے اپنا جواب جمع کرا دیا جسے عدالت نے اٹارنی جنرل کی استدعا پر خفیہ رکھنے کی ہدایت کی، اٹارنی جنرل نے کہا اسے صدر اور وزیر اعظم کا جواب تصور کیا جائے۔ حالات معمول پر لانے کیلیے مکمل نقشہ تیار ہو گیا ہے، اہم فیصلے کرلیے گئے ہیں، رپورٹ صرف عدالت کی معلومات کیلیے ہے، لیکیج ہوئی تو آپریشن متاثر ہو سکتا ہے، مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق وزیراعظم سیکریٹریٹ کے جواب میں کہا گیا کہ خفیہ معلومات صوبائی انتظامیہ سے شیئر کی گئی تھیں۔ کمانڈر شہباز نے10جنوری کے واقعے پر آئی ایس آئی کی خفیہ رپورٹ پیش کی۔
فاضل بینچ نے ایف سی کی رپورٹ غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے حکم دیا کہ کمانڈنٹ خود اس پر دستخط کریں۔ چیف جسٹس نے کہا تمام خفیہ رپورٹس کے بعد یہ طے ہو چکاحملہ پولیس اور ایف سی کی غفلت سے ہوا، ایف سی کی6 چوکیوںکے باوجود دہشتگرد ٹینکر اندر لے گئے، ہوم سیکریٹری بلوچستان نے کہا خفیہ معلومات میں کہا گیا تھا کہ بڑے حملے کا خطرہ ہے، مخصوص معلومات نہیں تھیں۔ ڈی آئی جی آپریشنز میر زبیر نے کہا دہشتگردوں نے نئی اسٹرٹیجی اپنائی، ہزارہ ٹائون میں پانی کی قلت ہے اور ٹینکرز سے پانی فراہم کیا جاتا ہے، بی بی سی کے مطابق میر زبیر کا کہنا تھا کہ جان بوجھ کر پانی کی قلت پیدا کرکے یہ کارروائی کی گئی، ٹینکر پولیس کی3چوکیوں سے گّْزرا اور پانی کی کمی کے باعث کسی نے نوٹس نہیں لیا۔
خفیہ اداروں نے پیشگی اطلاع نہیں دی، مانیٹرنگ ڈیسک کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ ٹینکر کس گیراج میں بنا اور کس نے ڈیزائن کیا، وہ گرفتار ہوا یا نہیں، کیا پولیس کو علم نہیں ہوتا کہ علاقے میں کیا ہو رہا ہے ؟ میرزبیر نے بتایا کہ 183 افراد کو شامل تفتیش کیاگیا ہے، یقین دلاتا ہوں جلد بڑی کامیابی حاصل ہوگی ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جو برادری بار بار نشانہ بن رہی ہے، اسکو خصوصی تحفظ ملنا چاہیے، دہشتگرد جیل توڑ کر فرار ہو جاتے ہیں، سب جانتے ہیں یہ کیسے ہو رہا ہے۔ 1996میں جنرل عمران نے سب کچھ ٹھیک کر دیا تھا، اب تو جدید ٹیکنالوجی آگئی ہے، اس کے باوجود انتظامیہ ناکام ہے، الیکشن سر پر ہیں، ایسا نہ ہو ایک حملہ آج کوئٹہ میں ہو، کل خضدار میں اور پرسوں پشتون آباد میں ہو، انتخابات کیلیے ہرصورت حالات سازگار ہونے چاہیئں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ کوئٹہ میں آپریشن نہیں آپریشن کلین اپ کی ضرورت ہے، الیکشن ہونے والے ہیں اور ایسے واقعات کو روکنا ہوگا۔ جسٹس خلجی عارف نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر غیر قانونی سم بنداور غیر قانونی گاڑیاں ضبط کی جاتیں تو یہ حملے نہ ہوتے، ہر واقعے کے پیچھے پیسہ ہوتا ہے، انکا کھوج لگایا جائے، حکومت کو واضح لائحہ عمل اپنانا پڑے گا۔ آن لائن کے مطابق جسٹس خلجی نے کہا کہ دنیا بھر میں دہشتگردی پر قابو پالیا گیا ہے مگر ہمارے ہاں اداروں میں حوصلہ نہیں، چیف جسٹس نے کہا عوام کی زندگی کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔
گورنر راج کی موجودگی میں وفاقی حکومت اور وزیر اعظم براہ راست ذمے دار ہیں، اگر اس کے باوجود لوگ محفوظ نہیں تو وفاقی حکومت کو سوچنا ہو گا اور فیصلے کرنے پڑینگے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جمہوریت کی بساط لپیٹ کر بھی دہشتگردی سے چھٹکارا نہ مل سکا۔ اٹارنی جنرل نے کہا بہت اقدامات کیے ورنہ حالات بہت خراب ہوتے، چیف جسٹس نے کہا100 لوگ جاں بحق ہو جائے، اس سے زیادہ خراب حالات نہیں ہو سکتے۔ حکومت نے تمام سوالات کا جواب نہیں دیا لیکن نتائج کے انتظار کیلیے سماعت ملتوی کر دیتے ہیں۔ مزید سماعت 26فروری تک ملتوی کر دی گئی۔