جن بھوت کالا علم اور شعبدے بازیاں
اس قسم کے لوگ دوسروں کی زندگیاں تو کیا خاک بنائیں گے، وہ اپنی ہی زندگی انھی فٹ پاتھوں پر گزار دیتے ہیں
RIYADH:
ایک زمانے سے ہم اور شاید ہم سے پہلے کی نسلیں بھی ایسے لوگوں کو دیکھتی آرہی ہیں جو کہ فٹ پاتھ پر بیٹھ کر طوطوں کی مدد سے قسمت کا حال بتاتے ہیں، فٹ پاتھ پر رکھے شو کیس میں سجے پتھروں سے قسمت بدلنے کے نسخے تجویز کرتے ہیں۔ کچھ عاملین اپنے آفس اور آستانہ بھی رکھتے ہیں۔ گاڑیوں میں سینٹر نمبر، دیواروں پر چاکنگ اور پوسٹر کے علاوہ اخبارات میں اشتہارات تک دیتے ہیں، جس میں بہت سے دعوے اور خوشخبریاں تحریر ہوتی ہیں۔
محبوب آپ کے قدموں میں، بے اولادوں کے لیے اولاد، بے روزگاروں کے لیے روزگار، کاروبار اور رشتوں کی بندش، ملازمت کا حصول، لاعلاج اور مخصوص بیماریوں اور ایسی بیماریاں جن کا جدید سائنس کے پاس بھی کوئی علاج نہیں ہے شرطیہ علاج، مایوسی کفر ہے، مایوس اور ناکامران لوگ ایک مرتبہ ضرور آزمائیں، شرطیہ کام، کام نہ ہونے کی صورت میں رقم کی واپسی، تین دن یا 24 گھنٹے میں مسئلہ حل ہونے کی گارنٹی وغیرہ وغیرہ۔ اس قسم کے لوگ دوسروں کی زندگیاں تو کیا خاک بنائیں گے، وہ اپنی ہی زندگی انھی فٹ پاتھوں پر گزار دیتے ہیں۔
انھیں اکثر پولیس اور علاقے کے بااثر افراد اور ناپسندیدہ عناصر کا تعاون و سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ ایسے افراد کے گرد اکثر و بیشتر غیر تعلیم یافتہ، سادہ لوح مسائل زدہ، مایوس یا شارٹ کٹ سے ترقی حاصل کرنے والوں کا جمگھٹا ہوتا ہے۔ اس قسم کے مسیحا، جعلی پیر اور عاملین اپنے معتقدین کی زندگیاں مزید برباد ہی کرتے ہیں۔ کچھ سال قبل اس قسم کے ایک جعلی پیر کا کیس سامنے آیا تھا جو علاج کی غرض سے آنے والی خواتین سے بوس و کنار کرتا تھا، ان کی تصاویر بناتا تھا، چھاپے کے دوران ایسی سیکڑوں تصاویر برآمد ہوئیں، جنھیں مقامی اخباروں نے بڑی چٹخارے دار شہ سرخیوں کے ساتھ شایع کیا،
جس پر کئی خواتین کو طلاقیں بھی ہوگئیں۔ اس قسم کے جعلی پیر اپنے معتقدین یا مریدوں کی عقلیں سلب کرکے اتنا معتوب بنادیتے ہیں کہ ان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ہی ختم ہوجاتی ہیں۔ ایسے کئی واقعات سامنے آتے رہتے ہیں کہ جعلی عامل یا پیر نے جن اتارنے کے بہانے مریض کو اس کے گھر والوں کی موجودگی میں ہی تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کردیا۔
پہلے تو صرف پریشان و مفلوک الحال، ضعیف العقیدہ یا شارٹ کٹ کے ذریعے ترقی حاصل کرنے کے خواہاں افراد ہی ایسے عاملوں اور پیروں کے دفتروں اور آستانوں کا رخ کیا کرتے تھے، لیکن آج کل ٹی وی پر اس قسم کے پروگراموں کے ذریعے قسمت کا حال بتانے والوں، پتھروں اور وظائف سے مشکلات کا حل بتانے والوں اور جن بھوت اتارنے والوں نے پڑھے لکھے، آسودہ حال افراد کے گھروں، دفتروں، بیڈرومز اور ڈرائنگ رومز تک رسائی دے دی ہے۔
ایسے پروگرام انٹرٹینمنٹ اور معلومات دونوں کے لیے استعمال ہورہے ہیں۔ جن بھوت اتارنے والے عاملین کے ایڈریسز اور ٹیلی فون نمبر حاصل کرنے کے لیے عوام کی ٹیلی فون کالز کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ عقاید سے ہٹ کر جن بھوتوں کے وجود، ان کی شرارتیں یا ضرر رسانی یا کوئی سائنٹیفک فارمولا یا علاج تو دریافت نہیں ہوا ہے البتہ جعلی پیر اور عاملین اپنی اپنی عقلی اختراع، مفادات اور کارگزاریوں کے لیے جنّات اور غیر مرئی مخلوقات کے متعلق مختلف رائے اور طریقۂ کار استعمال کرتے ہیں۔
جنّات، شیطان اور ابلیس حقیقت ہیں، ان کا وجود قرآن سے بھی ثابت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جنّات کی تخلیق حضرت آدم سے دو ہزار سال قبل ہوئی تھی۔ یہ بہت سی صورتیں بدل سکتے ہیں۔ سب سے مرغوب اور عام شکل سانپ کی ہے اور اس شکل میں کسی جن کو مارنے پر قصاص بھی واجب نہیں ہوتا۔ جنّات عام طور پر سمندروں، جزیروں، پہاڑوں، بیابانوں یا تاریک و گندی جگہوں پر رہتے ہیں۔ مسلمان جنّات مسلمان گھروں کی چھتوں پر رہتے ہیں، ان میں بھی مذاہب اور فرقہ اور نیکی و بدی کی تمیز پائی جاتی ہے۔ ہڈیاں، لید، کوئلہ وغیرہ ان کی غذا ہیں۔ یہ شادیاں بھی کرتے ہیں، ان کی اولاد بھی ہوتی ہیں۔
بعض روایات کے مطابق حضرت سلیمان کی اہلیہ کے والدین میں سے کوئی ایک جنّات میں سے تھا۔ جنّات کی روح قبض کرنے کے لیے فرشتہ الگ ہے۔ آخرت میں ان کی بھی جزا سزا ہوگی۔ قرآن پاک میں اس واقعے کا ذکر ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے دو فرشتوں کو آزمایش کے لیے دنیا میں بھیجا، جنھوں نے بازار ساحری میں اپنی دکان لگائی اور خبردار کیا کہ اپنی عاقبت خراب نہ کرنا، اس کے باوجود لوگ سفلی عملیات، نقوش اور تعویذ پر ٹوٹ پڑے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس قسم کے اعمال میں کتنی کشش اور رغبت ہے کہ انسان جانتے بوجھتے اور دیکھتے بھالتے بھی اپنے مفادات و فلاح کو پس پشت ڈالتے ہوئے خود فریب کاری کا شکار ہوجاتا ہے۔ ملک میں تعلیم و سائنس سے دوری، عقاید کی کمزوری، دین سے دوری، طبی سہولیات کی کمی، غربت، مایوسی اور جعلی پیر اور عاملین کی شعبدے بازیاں ان خرابیوں کی بنیادی وجوہات ہیں۔
روحانیت، رہنمائی اور مسیحائی کا لبادہ اوڑھے اس قسم کے شعبدہ اور نوسرباز ہمیشہ سے توہم پرستی، ضعیف الاعتقادی، مایوسی اور مصائب کا شکار لوگوں کی جان، مال، عزت تک سے کھیلتے چلے آئے ہیں۔ جن اتارنے اور علاج کرنے کے نام پر خواتین کی عزتیں پامال کرنا، علاج کے نام پر اور جن اتارنے کے لیے مریضوں کو ان کے خاندان کے افراد کے سامنے ہی تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کردینا، آئے دن کا معمول بن گیا ہے۔ آج کل ٹی وی چینلز پر ایسے پروگراموں میں پیروں اور عاملین کے علاوہ مختلف ماہرین، مفتی، علامہ، پروفیسرز حضرات شریک ہوتے ہیں۔
ان کی موجودگی میں پیر اور عامل آسیب و سحر کا شکار اور جنّات سے متاثرہ افراد کا علاج کرتے ہیں۔ جنّات کی حاضری ہوتی ہے، عامل جنّات سے بات چیت کرتے ہیں، انھیں قابو کرکے ہدایات دی جاتی ہیں۔ حکم نہ ماننے پر جلا ڈالا جاتا ہے۔ پروگراموں میں شریک پیر اور عاملین اپنی کرامات کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ ان ہر پروگرام کے میزبان کے شریک مہمان بھی اپنی اپنی حیثیت و مرتبے کے مطابق تبصرے اور رائے زنی بھی کرتے ہیں۔ میڈیا اور خاص طور پر ٹی وی چینلز آج کے دور کا بڑا موثر ہتھیار ہے جس کے مثبت اور منفی دونوں اثرات عوام النّاس پر فوری مرتب ہوتے ہیں، پھر انھیں زائل کرنا بھی ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہوتا ہے۔
لہٰذا میڈیا، ماہرین، علما اور تمام مسلمانوں کی اوّلین ذمے داری ہے کہ وہ جعلی پیروں اور عاملین کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں اور شعبدے بازی پر نظر رکھیں، ان کا تدارک کریں۔ سادہ لوح افراد کو ان کے چنگل میں پھنسنے سے بچائیں اور ایسے جعلی اور فراڈ پیروں کے کرتوتوں اور شعبدے بازیوں کا پردہ چاک کریں۔
ایک زمانے سے ہم اور شاید ہم سے پہلے کی نسلیں بھی ایسے لوگوں کو دیکھتی آرہی ہیں جو کہ فٹ پاتھ پر بیٹھ کر طوطوں کی مدد سے قسمت کا حال بتاتے ہیں، فٹ پاتھ پر رکھے شو کیس میں سجے پتھروں سے قسمت بدلنے کے نسخے تجویز کرتے ہیں۔ کچھ عاملین اپنے آفس اور آستانہ بھی رکھتے ہیں۔ گاڑیوں میں سینٹر نمبر، دیواروں پر چاکنگ اور پوسٹر کے علاوہ اخبارات میں اشتہارات تک دیتے ہیں، جس میں بہت سے دعوے اور خوشخبریاں تحریر ہوتی ہیں۔
محبوب آپ کے قدموں میں، بے اولادوں کے لیے اولاد، بے روزگاروں کے لیے روزگار، کاروبار اور رشتوں کی بندش، ملازمت کا حصول، لاعلاج اور مخصوص بیماریوں اور ایسی بیماریاں جن کا جدید سائنس کے پاس بھی کوئی علاج نہیں ہے شرطیہ علاج، مایوسی کفر ہے، مایوس اور ناکامران لوگ ایک مرتبہ ضرور آزمائیں، شرطیہ کام، کام نہ ہونے کی صورت میں رقم کی واپسی، تین دن یا 24 گھنٹے میں مسئلہ حل ہونے کی گارنٹی وغیرہ وغیرہ۔ اس قسم کے لوگ دوسروں کی زندگیاں تو کیا خاک بنائیں گے، وہ اپنی ہی زندگی انھی فٹ پاتھوں پر گزار دیتے ہیں۔
انھیں اکثر پولیس اور علاقے کے بااثر افراد اور ناپسندیدہ عناصر کا تعاون و سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ ایسے افراد کے گرد اکثر و بیشتر غیر تعلیم یافتہ، سادہ لوح مسائل زدہ، مایوس یا شارٹ کٹ سے ترقی حاصل کرنے والوں کا جمگھٹا ہوتا ہے۔ اس قسم کے مسیحا، جعلی پیر اور عاملین اپنے معتقدین کی زندگیاں مزید برباد ہی کرتے ہیں۔ کچھ سال قبل اس قسم کے ایک جعلی پیر کا کیس سامنے آیا تھا جو علاج کی غرض سے آنے والی خواتین سے بوس و کنار کرتا تھا، ان کی تصاویر بناتا تھا، چھاپے کے دوران ایسی سیکڑوں تصاویر برآمد ہوئیں، جنھیں مقامی اخباروں نے بڑی چٹخارے دار شہ سرخیوں کے ساتھ شایع کیا،
جس پر کئی خواتین کو طلاقیں بھی ہوگئیں۔ اس قسم کے جعلی پیر اپنے معتقدین یا مریدوں کی عقلیں سلب کرکے اتنا معتوب بنادیتے ہیں کہ ان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ہی ختم ہوجاتی ہیں۔ ایسے کئی واقعات سامنے آتے رہتے ہیں کہ جعلی عامل یا پیر نے جن اتارنے کے بہانے مریض کو اس کے گھر والوں کی موجودگی میں ہی تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کردیا۔
پہلے تو صرف پریشان و مفلوک الحال، ضعیف العقیدہ یا شارٹ کٹ کے ذریعے ترقی حاصل کرنے کے خواہاں افراد ہی ایسے عاملوں اور پیروں کے دفتروں اور آستانوں کا رخ کیا کرتے تھے، لیکن آج کل ٹی وی پر اس قسم کے پروگراموں کے ذریعے قسمت کا حال بتانے والوں، پتھروں اور وظائف سے مشکلات کا حل بتانے والوں اور جن بھوت اتارنے والوں نے پڑھے لکھے، آسودہ حال افراد کے گھروں، دفتروں، بیڈرومز اور ڈرائنگ رومز تک رسائی دے دی ہے۔
ایسے پروگرام انٹرٹینمنٹ اور معلومات دونوں کے لیے استعمال ہورہے ہیں۔ جن بھوت اتارنے والے عاملین کے ایڈریسز اور ٹیلی فون نمبر حاصل کرنے کے لیے عوام کی ٹیلی فون کالز کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ عقاید سے ہٹ کر جن بھوتوں کے وجود، ان کی شرارتیں یا ضرر رسانی یا کوئی سائنٹیفک فارمولا یا علاج تو دریافت نہیں ہوا ہے البتہ جعلی پیر اور عاملین اپنی اپنی عقلی اختراع، مفادات اور کارگزاریوں کے لیے جنّات اور غیر مرئی مخلوقات کے متعلق مختلف رائے اور طریقۂ کار استعمال کرتے ہیں۔
جنّات، شیطان اور ابلیس حقیقت ہیں، ان کا وجود قرآن سے بھی ثابت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جنّات کی تخلیق حضرت آدم سے دو ہزار سال قبل ہوئی تھی۔ یہ بہت سی صورتیں بدل سکتے ہیں۔ سب سے مرغوب اور عام شکل سانپ کی ہے اور اس شکل میں کسی جن کو مارنے پر قصاص بھی واجب نہیں ہوتا۔ جنّات عام طور پر سمندروں، جزیروں، پہاڑوں، بیابانوں یا تاریک و گندی جگہوں پر رہتے ہیں۔ مسلمان جنّات مسلمان گھروں کی چھتوں پر رہتے ہیں، ان میں بھی مذاہب اور فرقہ اور نیکی و بدی کی تمیز پائی جاتی ہے۔ ہڈیاں، لید، کوئلہ وغیرہ ان کی غذا ہیں۔ یہ شادیاں بھی کرتے ہیں، ان کی اولاد بھی ہوتی ہیں۔
بعض روایات کے مطابق حضرت سلیمان کی اہلیہ کے والدین میں سے کوئی ایک جنّات میں سے تھا۔ جنّات کی روح قبض کرنے کے لیے فرشتہ الگ ہے۔ آخرت میں ان کی بھی جزا سزا ہوگی۔ قرآن پاک میں اس واقعے کا ذکر ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے دو فرشتوں کو آزمایش کے لیے دنیا میں بھیجا، جنھوں نے بازار ساحری میں اپنی دکان لگائی اور خبردار کیا کہ اپنی عاقبت خراب نہ کرنا، اس کے باوجود لوگ سفلی عملیات، نقوش اور تعویذ پر ٹوٹ پڑے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس قسم کے اعمال میں کتنی کشش اور رغبت ہے کہ انسان جانتے بوجھتے اور دیکھتے بھالتے بھی اپنے مفادات و فلاح کو پس پشت ڈالتے ہوئے خود فریب کاری کا شکار ہوجاتا ہے۔ ملک میں تعلیم و سائنس سے دوری، عقاید کی کمزوری، دین سے دوری، طبی سہولیات کی کمی، غربت، مایوسی اور جعلی پیر اور عاملین کی شعبدے بازیاں ان خرابیوں کی بنیادی وجوہات ہیں۔
روحانیت، رہنمائی اور مسیحائی کا لبادہ اوڑھے اس قسم کے شعبدہ اور نوسرباز ہمیشہ سے توہم پرستی، ضعیف الاعتقادی، مایوسی اور مصائب کا شکار لوگوں کی جان، مال، عزت تک سے کھیلتے چلے آئے ہیں۔ جن اتارنے اور علاج کرنے کے نام پر خواتین کی عزتیں پامال کرنا، علاج کے نام پر اور جن اتارنے کے لیے مریضوں کو ان کے خاندان کے افراد کے سامنے ہی تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کردینا، آئے دن کا معمول بن گیا ہے۔ آج کل ٹی وی چینلز پر ایسے پروگراموں میں پیروں اور عاملین کے علاوہ مختلف ماہرین، مفتی، علامہ، پروفیسرز حضرات شریک ہوتے ہیں۔
ان کی موجودگی میں پیر اور عامل آسیب و سحر کا شکار اور جنّات سے متاثرہ افراد کا علاج کرتے ہیں۔ جنّات کی حاضری ہوتی ہے، عامل جنّات سے بات چیت کرتے ہیں، انھیں قابو کرکے ہدایات دی جاتی ہیں۔ حکم نہ ماننے پر جلا ڈالا جاتا ہے۔ پروگراموں میں شریک پیر اور عاملین اپنی کرامات کا مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔ ان ہر پروگرام کے میزبان کے شریک مہمان بھی اپنی اپنی حیثیت و مرتبے کے مطابق تبصرے اور رائے زنی بھی کرتے ہیں۔ میڈیا اور خاص طور پر ٹی وی چینلز آج کے دور کا بڑا موثر ہتھیار ہے جس کے مثبت اور منفی دونوں اثرات عوام النّاس پر فوری مرتب ہوتے ہیں، پھر انھیں زائل کرنا بھی ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہوتا ہے۔
لہٰذا میڈیا، ماہرین، علما اور تمام مسلمانوں کی اوّلین ذمے داری ہے کہ وہ جعلی پیروں اور عاملین کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں اور شعبدے بازی پر نظر رکھیں، ان کا تدارک کریں۔ سادہ لوح افراد کو ان کے چنگل میں پھنسنے سے بچائیں اور ایسے جعلی اور فراڈ پیروں کے کرتوتوں اور شعبدے بازیوں کا پردہ چاک کریں۔