امریکا کی شمالی کوریا کوگیدڑ بھبکی

امریکا جب ہم پہ ڈرون حملہ کرتا ہے تو ہم مذمتی بیان دے کر خاموش ہوجاتے ہیں

zb0322-2284142@gmail.com

امریکا کوریا سے ہزاروں کلومیٹر دور واقع ہے، امریکا کا جنگی بحری بیڑا جنوبی چین کے سمندر میں لنگر انداز ہے، امریکا جنوبی کوریا کے ساتھ مل کر فوجی مشقیں کررہا ہے ،امریکا ہزاروں ایٹمی وار ہیڈ لیے بیٹھا ہے اورکہہ رہا ہے کہ شمالی کوریا سے ہمیں خطرہ ہے ۔ نہ مانا تو اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے گا، یہ تو بھیڑ اور بھیڑیے والے قصے کے مترادف ہے۔

یہ واقعہ پہلی بار رونما نہیں ہورہا ہے بلکہ یہ سامراجی ہتھکنڈوں کے قدیم نمونے ہیں ۔ پرتگیزیوں نے برصغیر میں کالی مرچ لینے اور برطانیہ نے بنگال میں چمڑا سکھانے کے لیے تھوڑی سی زمین وقتی طور پر لینے کی گذارش کی تھی ۔ بعدازاں پورے کا پورا ملک ہی ہڑپ کرلیا ۔کوریا ایک آزاد ملک تھا، امریکا نے اپنے پٹھوؤں کے ذریعے کوریا کے جنوب میں اپنی فوج پہنچائی ۔ 1950-53 تک کمیونسٹ گوریلا ؤں نے امریکی فوج کو شکست سے دوچارکیا ۔ بعد ازاں یو این او کے نمایندوں کے ذریعے یہ طے پایا کہ کوریا سے امریکی فوج واپس چلی جائے گی اور غیر ملکی کمیونسٹ گوریلے بھی کوریا سے چلے جائیں گے ۔ کمیونسٹوں نے اس فیصلے پر عمل کیا اور وہ چلے گئے لیکن کوریا کے جنوبی حصے میں امریکی افواج اب بھی موجود ہیں۔

کم ال سنگ کی تجویز تھی کہ دونوں کوریاؤں کا مختلف نظام ہونے کے باوجود فیڈریشن کی شکل دی جاسکتی ہے ۔ اس پر ماضی کی جنوبی کوریا کی حکومت نے اتفاق کیا تھا اور مذاکرات بھی شروع ہوگئے تھے اور متعدد بار وفود کی ملاقاتیں بھی ہوئیں، مگر امریکی سامراج اس عمل سے خوش نہ تھا،اس لیے کہ اس کا توکام ہی یہ ہے کہ تقسیم کرو اور لڑاؤ، یہ فارمولا اس نے سلطنت روما سے سیکھا تھا ۔اس لیے اس نے اپنی مذموم سازشیں شروع کردیں، ان سازشوں میں جنوبی کوریا اور جاپان ساجھے دار بن گئے ۔

شمالی کوریا (سوشلسٹ کوریا) اور جنوبی کوریا (سامراجی آلہ کارکوریا) بجائے اپنے اندورونی اختلاف کو خود حل کرتے اور مذاکرات کے ذریعے دونوں کوریاؤں کومتحد کرنے کے لیے سر جوڑ کر دوستانہ ماحول میں مذاکرات کرتے،الٹا جنگی صورت حال پیدا کردی ۔ یہ صورتحال امریکا نے صرف شمالی کوریا کے لیے پیدا نہیں کی بلکہ افغانستان، برما، ویتنام ، لاؤس ، شام ، عراق اورکل 88 مما لک کے ساتھ کیا۔ ان مذموم مقاصد کی تکمیل میں اب تک ڈھائی کروڑ انسانوں کا امریکا قتل کر چکا ہے ، مگر افسوس کی بات ہے کہ ہم ہندوستان، اسرائیل،کولمبیا، پولینڈ، یوکرائن اور سعودی عرب کو برا بھلا تو کہتے ہیں لیکن ان سب کا جو ''ماما '' ہے اس سے دوستی رکھتے ہیں۔ایک جانب ہم امریکا کی خواہش پر افغانستان میں مداخلت کرتے ہیں اور امریکا مخالف حکومت کا دھڑن تختہ کردیتے ہیں۔


امریکا جب ہم پہ ڈرون حملہ کرتا ہے تو ہم مذمتی بیان دے کر خاموش ہوجاتے ہیں اور جب امریکا خود ہم سے اپنے تعلقات میں دوری لانے کی بات کرتا ہے تو ہم بجائے اس کا سامراجی سرمایہ بحق سرکار ضبط کرنے کے اس آسرے کے منتظر رہتے ہیں کہ وہ ہمیں اس کی کاسہ لیسی کرنے پر شاباشی دے ۔ ابھی شمالی کوریا کو امریکی گیڈر بھبکی دینے پر پاکستانی حکمران خاموش نظر آتے ہیں، چین سے ہماری دوستی بھی ہے ۔ بقول ٹرمپ کے شمالی کوریا کو اپنی ضرورت کا سو فیصد تیل چین فراہم کرتا ہے اور روس روزگار فراہم کرتا ہے جب کہ ہم چین اور روس سے دوستی کا دم بھرتے ہیں۔ ابھی تک پاکستانی حکمرانوں نے ( سول یا فوجی) شمالی کوریا کے خلاف امریکی جارحیت پر ایک لفظ بھی نہیں بولے ۔

شمالی کوریا دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں سو فیصد لوگ لکھے پڑھے ہیں ۔ ٹرانسپورٹ ، رہائش، تعلیم اور صحت عوام کو مفت فراہم کی جاتی ہے ۔ اس پر دنیا جہاں کی اقتصادی پابندیوں کے باوجود عالمی سامراج ( امریکا اور یو این او) کے آ نکھوں میں آ نکھیں ڈال کر بات کررہا ہے ۔کم ال سنگ نے درست کہا تھا کہ ( socialism will not perish ) اشتراکی نظام تباہ نہیں ہوسکتا ۔ یہ بات آج کیرالا ، ہندوستان میں ایشیائی ملکوں کی کانفرنس کی قرارداد نے درست ثابت کردی ہے ۔ شمالی کوریا نے امریکی سامراج سے لڑکر آزادی حاصل کی ہے ۔ بھیک مانگنے سے آ زادی نہیں ملتی اگر ملتی بھی ہے تو وہ برصغیر کے ممالک کی طرح ملتی ہے ۔ سوشلسٹ کوریا نے امریکی سامراج کے آ نکھوںمیں آ نکھیں ڈال کرجو جرات مندی اور کمیونسٹ شان دکھائی ہے وہ قابل رشک ہی نہیں بلکہ قابل تقلید بھی ہے ۔اس طرح کی جرات مندی وینزویلا،کیوبا، بولیویا اور ایکواڈورکی حکومتوں سمیت فلپائن، تھائی لینڈ ، جنوبی کوریا، کولمبیا اور ہندوستان کے کمیونسٹ بھی دکھا رہے ہیں۔

اب پاکستان کی باری ہے پا کستان امریکا کو صرف بیان اور جوابی بیان دینے کی بجائے عملی اقدام کرے ۔ جیسا کہ سامراجی سرمایے کی ضبطگی ،شمالی کوریا کے موقف کی حمایت ، ایران ، شام ، منگو لیہ، کیوبا اور وینزویلا سے بہتر تعلقات کی بحالی وغیرہ ۔ دنیا کی تاریخ طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہے۔کہیں درپردہ اورکہیں برملا، یہ لڑائی آج بھی جاری ہے ۔

سوشلسٹ کوریا تقریبا ڈھائی کروڑکی آبادی والا ملک ہے ۔اب و ہ کہہ رہا ہے کہ ہم امریکا سے برابرکی ٹکر لیں گے ، اگر شرافت سے مذاکرات کرتا ہے توکر لے اور اگر بدمعاشی کرتا ہے تو ہم بھی بھرپورکارروائی کرنے کو تیار ہیں ۔ جب سوویت یونین کا انہدام ہوا تھا تو شمالی کوریا کی ورکرز پارٹی نے ایک اعلامیہ جاری کیا تھا ، جس کا عنوان socialism will not perish تھا یعنی اشترا کیت تباہ نہیں ہوسکتی ہے۔ اس اعلامیے پر شروع میں صرف 17پارٹیوں نے دستخط کیے تھے مگر آج 200 پارٹیاں دستخط کرچکی ہیں۔ شمالی کوریا نے کمیونسٹ نظریات کے ساتھ ' ژوچے آڈیا ' یعنی 'خود انحصاریت ' کے اصول کو جو ڑا ہے ۔ یعنی جوکچھ تمھارے پاس ہے، اسی پرانحصارکرو اور مل بانٹ کے گذارہ کرو۔ دوسرا فرق انھوں نے اپنے علامتی نشان ہتھوڑا درانتی کے ساتھ قلم کو بھی شامل کیا ہے ۔

ایک بڑا دلچسپ واقعہ ہے کہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو شمالی کوریا کے دورے پر گئی تھیں ۔ واپسی پر شدید برف باری ہوئی اورائیر پورٹ برف سے ڈھک گیا تھا۔ انھیں اسی روز پا کستان واپس آنا تھا۔ کم ال سنگ نے ٹی وی پر آکر عوام سے اپیل کی کہ پاکستان سے ہمارے مہمان آئے ہوئے ہیں،انھیں آج ہی واپس جانا ہے اور ائیر پورٹ برف سے ڈھکا ہوا ہے ۔آپ ہماری مدد کریں ۔ چندگھنٹوں میں عوام نے ائیرپورٹ کو صاف کردیا اور بے نظیر بھٹو پاکستان لوٹ آئیں ۔ بے نظیر بھٹو نے پا کستان آ کر تعریفی الفاظ میں کوریائی صدر اورکوریائی عوام کا شکریہ ادا کیا۔ وقت آگیا ہے کہ دنیا بھر کے سامراج مخالف حکمران اور عوام عالمی سامراج کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور سامراجی سازشوں کو ملیامیٹ کر کے دنیا میں کمیونسٹ سماج قائم کریں۔
Load Next Story