بـولـتـی دیـواریـں
شہر کی دیواروں پر مصوری کے ذریعے ناگوار چاکنگ اور اشتہاربازی سے چھٹکارہ حاصل ہوسکتا ہے.
ایک خاتون سر پر چھوٹی سی گٹھڑی دھرے چلی آ رہی ہے اور دور کھیتوں کے اس پار چند کچے پکے مکان نظر آ رہے ہیں۔
اس منظر کو دیکھنے والے کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ آن کی آن میں شہر کی بھری پری سڑک سے نکل کرکسی گاؤں میں پہنچ گیا ہو، یہ کمال ہے ان اسٹریٹ آرٹسٹوں کا جنھوں نے اپنے فن کے اظہارکے لئے شہر کی سڑکوں اور گلی کوچوں کے در و دیوار کا انتخاب کیا ہے۔ یوں دکھائی دیتا ہے جیسے قوس قزح کے رنگ دیواروں پر بکھرے ہوئے ہوں، آرٹ کے ان فن پاروں نے دیواروں سے گویا ان کا دیوار ہونے کا مقام چھین کر کسی اور اعلٰی درجے پر فائز کر دیا ہے۔ آرٹ کے شیدائی اور دیوانے تو ان پر نظر پڑتے ہی مبہوت رہ جاتے ہیں ، پتھر کی نظر رکھنے والے بھی چونکے بنا نہیں رہ سکتے اور ان پر خوشگوار حیرت طاری ہو جاتی ہے۔
اسٹریٹ آرٹ کا مقصدسڑکوں اور گلیوں میں پینٹنگز' مجسمہ سازی یا آرٹ کی دیگر نوع کے ذریعے اپنے پیغام کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا ہے ۔ اسٹریٹ آرٹ کی روایت ہمارے ملک میں بالکل نئی ہے جبکہ یورپی ممالک میںاس پر کافی عرصے سے کام ہو رہا ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ فن صدیوں قدیم ہے کیونکہ دیواروں پر پینٹنگز یا نقش و نگاربنانے کی روایت بہت پرانی ہے،مگر جدید دور میں اسٹریٹ آرٹ خاص طورپر سڑکوں اور گلیوں میں پینٹنگز بنا کر اپنا پیغام دوسروں تک پہنچانے کا سلسلہ چالیس پچاس سال قبل شروع ہوا۔
اسٹریٹ آرٹ کی پہلی بڑی نمائش واشنگٹن پروجیکٹ کے نام سے منعقد ہوئی جس میں اربن آرٹ کے بانی جان فکنر سمیت فب فائیو فریڈی اور لی کیوننز کے شاہکار پیش کئے گئے۔اسٹریٹ آرٹسٹ کسی ایک جگہ محدود نہیں رہتے وہ فن کو پیش کرنے کے لئے اکثر دوسرے ملکوں کا سفر کرتے رہتے ہیں،اس وقت دنیا بھر کے بڑے شہروں میں اسٹریٹ آرٹ پروان چڑھ رہا ہے،جن میں امریکا کے شہر نیویارک، میامی، اسپین کا شہر بارسلونا، ویلنشیا، ذرا گوزا، روس کا شہر ماسکو،فرانس کا شہر پیرس ، مصر کا شہر قاہرہ ، پولینڈ کے شہر وارسا اور جداستک،ارجنٹینا کا شہر بیونس آئرس، برازیل کا شہر سائو پولو،کینیڈا کا شہر ٹورانٹو، جرمنی کا شہربرلن، یونان کا شہر ایتھنز ، اٹلی کا شہر روم، ہالینڈ کا شہر ایمسٹر ڈیم،انگلینڈ کا شہر لندن، ناروے کا شہر برجن، آسٹریلیا کے شہر ملبورن ، پرتھ ، ملائشیا کے شہر پے ناننگ ، نیوزی لینڈ کا شہر آک لینڈ اور بلغاریہ کا شہر صوفیہ شامل ہیں۔
یہی نہیں کہ اسٹریٹ آرٹ کے نام پر دنیا بھر کے مشہورشہروں میں نمائشیں منعقد کی جاتی ہیں بلکہ اسے پروان چڑھانے کے لئے 2009ء میں Living Walls (زندہ دیواریں) کے نام سے اسٹریٹ آرٹ کانفرنس کی بنیا د رکھی گئی ، 2010ء میں یہ کانفرنس اٹلانٹا میں منعقد ہوئی ، اگلے سال نیویارک ،البانی اور اٹلانٹا میں مختلف سیشن ہوئے۔ لیونگ والز نے آرٹ بیسل میامی بیچ میں اسٹریٹ آرٹ کی ترویج کے لئے بھی کافی کام کیا ۔ اس طرح لیونگ والز نے اسٹریٹ آرٹ کو پوری دنیا میں پھیلانے اور پروان چڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا ۔
پاکستان میں اسٹریٹ آرٹ کی ترویج کے لئے پرائیویٹ کمپنیوں نے کوشش کی اوردو سال قبل آرٹس کے طلبہ میں مقابلے منعقد کرائے،شہری انتظامیہ نے بھی بھرپور ساتھ دیتے ہوئے کمپنیوں کو مقابلے کرانے کی اجازت دے دی اور طلبہ کے لئے سڑکیں مخصوص کر دیں جن کے ساتھ بنی عمارتوں کی دیواروں کو پینٹنگز کے لئے استعمال کیا جانا تھا ۔ یہ وہی دیواریں ہیں جو پہلے عموماً سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے نعروں ، عاملوں کے دعووں اور بزنس اشتہارات سے بھری رہتی تھیں، حالانکہ حکومت کی طرف سے وال چاکنگ پر پابندی ہے مگر پھر بھی یہ لوگ رات کے پچھلے پہر میں اپنا کام دکھا جاتے ہیں ، رہی سہی کسر کلر سپرے نے پوری کر دی ہے جو عموماً طلبہ تنظیمیں استعمال کرتی ہیں اور چند منٹوں میں دیوار پر آڑی ترچھی لکیریں کھینچ کر یہ جا وہ جا اور روکنے والے تیاری ہی کرتے رہ جاتے ہیں یا پھر ان کے خوف سے کچھ بولتے نہیں ۔
اسٹریٹ آرٹ کے اس نئے رجحان نے جہاں شہروں میں خوبصورتی کی نئی روایت کو جنم دیا ہے وہیں اس سے وال چاکنگ کی بدصورتی میں کمی ہوئی ہے، تاہم ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے اندر کی بدصورتی سے ہر حال میں معاشرے کو آلودہ کرتے رہتے ہیں اور اسٹریٹ آرٹ کے حسیں فن پاروں کو بدنما کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ، کہیں تو تصویر کو بگاڑ دیتے ہیں اور کہیں تصویر پر کچھ لکھ دیتے ہیں اور کچھ نہیں تو اس کے اوپر بڑا سا اشتہار چسپاں کر کے چلتے بنتے ہیں ، حالانکہ ایسا بھی کیا جا سکتا ہے کہ جن دیواروں پرتصاویر پینٹ کی گئی ہیں وہ ان سے ہٹ کر دوسری دیواروں پر اپنی مخصوص سوچ کی عکاسی کر سکتے ہیں ۔ مگر لگتا ہے کہ وہ اپنی ذہنیت سے مجبور ہیں، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے چمن میں پھول کھلے ہوں تو خوبصورتی سے محبت کرنے والا انھیں دیکھ کر فرحت محسوس کرتا ہے اور جو اس احساس سے عاری ہوتا ہے وہ انھیں پامال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
پرنسپل کالج آف آرٹ اینڈ ڈیزائن پنجاب یونیورسٹی لاہور ڈاکٹر راحت نوید مسعود نے اسٹریٹ آرٹ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ''اسٹریٹ آرٹ کے ذریعے سوچ کے اظہار کا موقع ملتا ہے،مگر اس میں اہم بات یہ ہے کہ کیا معیار کو برقرار رکھا گیا ہے،حکومت کو چاہئے کہ آرٹ کی تمام اقسام کی سرپرستی کرے ، یورپی ممالک میںآرٹ کی بہت زیادہ قدر کی جاتی ہے جیسے اٹلی کے ایک ایئر پورٹ کا نام مشہور آرٹسٹ لیونارڈو کے نام پر ہے اسی طرح کرنسی نوٹوں پر آرٹسٹوں کی تصویریں شائع کی جاتی ہیں یعنی انھیں وہاں ہیروز کا درجہ حاصل ہے جبکہ ہمارے یہاں ایسی کوئی بات نہیں، حالانکہ معاشرے میں آرٹ اور فن کی روایات کو پختہ کرنے سے تشدد اور انتہا پسندی میں کمی ہوتی ہے''۔
اسٹریٹ آرٹ کے یہ فن پارے ہمارے معاشرے میں بالکل ایسے ہی خوبصورتی بکھیر رہے ہیں جیسے پھول خوشبو بکھیرتا ہے،اگر اس روایت کو حکومتی سطح پر پروان چڑھایا جائے تو اس سے ایک تو نوجوان آرٹسٹوں کو اظہار کا موقع ملے گا دوسرے فن و ثقافت کی ترویج ہو گی تاہم اس سلسلے میں معیار کو برقرار رکھنا بہت ضروری ہے اور یہ بھی تب ہی ممکن ہے جب حکومت اسٹریٹ آرٹ کی سرپرستی کرے کیونکہ اس سے ہماری روایات کے مطابق آرٹ پروان چڑھے گا۔
اس منظر کو دیکھنے والے کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ آن کی آن میں شہر کی بھری پری سڑک سے نکل کرکسی گاؤں میں پہنچ گیا ہو، یہ کمال ہے ان اسٹریٹ آرٹسٹوں کا جنھوں نے اپنے فن کے اظہارکے لئے شہر کی سڑکوں اور گلی کوچوں کے در و دیوار کا انتخاب کیا ہے۔ یوں دکھائی دیتا ہے جیسے قوس قزح کے رنگ دیواروں پر بکھرے ہوئے ہوں، آرٹ کے ان فن پاروں نے دیواروں سے گویا ان کا دیوار ہونے کا مقام چھین کر کسی اور اعلٰی درجے پر فائز کر دیا ہے۔ آرٹ کے شیدائی اور دیوانے تو ان پر نظر پڑتے ہی مبہوت رہ جاتے ہیں ، پتھر کی نظر رکھنے والے بھی چونکے بنا نہیں رہ سکتے اور ان پر خوشگوار حیرت طاری ہو جاتی ہے۔
اسٹریٹ آرٹ کا مقصدسڑکوں اور گلیوں میں پینٹنگز' مجسمہ سازی یا آرٹ کی دیگر نوع کے ذریعے اپنے پیغام کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا ہے ۔ اسٹریٹ آرٹ کی روایت ہمارے ملک میں بالکل نئی ہے جبکہ یورپی ممالک میںاس پر کافی عرصے سے کام ہو رہا ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ فن صدیوں قدیم ہے کیونکہ دیواروں پر پینٹنگز یا نقش و نگاربنانے کی روایت بہت پرانی ہے،مگر جدید دور میں اسٹریٹ آرٹ خاص طورپر سڑکوں اور گلیوں میں پینٹنگز بنا کر اپنا پیغام دوسروں تک پہنچانے کا سلسلہ چالیس پچاس سال قبل شروع ہوا۔
اسٹریٹ آرٹ کی پہلی بڑی نمائش واشنگٹن پروجیکٹ کے نام سے منعقد ہوئی جس میں اربن آرٹ کے بانی جان فکنر سمیت فب فائیو فریڈی اور لی کیوننز کے شاہکار پیش کئے گئے۔اسٹریٹ آرٹسٹ کسی ایک جگہ محدود نہیں رہتے وہ فن کو پیش کرنے کے لئے اکثر دوسرے ملکوں کا سفر کرتے رہتے ہیں،اس وقت دنیا بھر کے بڑے شہروں میں اسٹریٹ آرٹ پروان چڑھ رہا ہے،جن میں امریکا کے شہر نیویارک، میامی، اسپین کا شہر بارسلونا، ویلنشیا، ذرا گوزا، روس کا شہر ماسکو،فرانس کا شہر پیرس ، مصر کا شہر قاہرہ ، پولینڈ کے شہر وارسا اور جداستک،ارجنٹینا کا شہر بیونس آئرس، برازیل کا شہر سائو پولو،کینیڈا کا شہر ٹورانٹو، جرمنی کا شہربرلن، یونان کا شہر ایتھنز ، اٹلی کا شہر روم، ہالینڈ کا شہر ایمسٹر ڈیم،انگلینڈ کا شہر لندن، ناروے کا شہر برجن، آسٹریلیا کے شہر ملبورن ، پرتھ ، ملائشیا کے شہر پے ناننگ ، نیوزی لینڈ کا شہر آک لینڈ اور بلغاریہ کا شہر صوفیہ شامل ہیں۔
یہی نہیں کہ اسٹریٹ آرٹ کے نام پر دنیا بھر کے مشہورشہروں میں نمائشیں منعقد کی جاتی ہیں بلکہ اسے پروان چڑھانے کے لئے 2009ء میں Living Walls (زندہ دیواریں) کے نام سے اسٹریٹ آرٹ کانفرنس کی بنیا د رکھی گئی ، 2010ء میں یہ کانفرنس اٹلانٹا میں منعقد ہوئی ، اگلے سال نیویارک ،البانی اور اٹلانٹا میں مختلف سیشن ہوئے۔ لیونگ والز نے آرٹ بیسل میامی بیچ میں اسٹریٹ آرٹ کی ترویج کے لئے بھی کافی کام کیا ۔ اس طرح لیونگ والز نے اسٹریٹ آرٹ کو پوری دنیا میں پھیلانے اور پروان چڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا ۔
پاکستان میں اسٹریٹ آرٹ کی ترویج کے لئے پرائیویٹ کمپنیوں نے کوشش کی اوردو سال قبل آرٹس کے طلبہ میں مقابلے منعقد کرائے،شہری انتظامیہ نے بھی بھرپور ساتھ دیتے ہوئے کمپنیوں کو مقابلے کرانے کی اجازت دے دی اور طلبہ کے لئے سڑکیں مخصوص کر دیں جن کے ساتھ بنی عمارتوں کی دیواروں کو پینٹنگز کے لئے استعمال کیا جانا تھا ۔ یہ وہی دیواریں ہیں جو پہلے عموماً سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے نعروں ، عاملوں کے دعووں اور بزنس اشتہارات سے بھری رہتی تھیں، حالانکہ حکومت کی طرف سے وال چاکنگ پر پابندی ہے مگر پھر بھی یہ لوگ رات کے پچھلے پہر میں اپنا کام دکھا جاتے ہیں ، رہی سہی کسر کلر سپرے نے پوری کر دی ہے جو عموماً طلبہ تنظیمیں استعمال کرتی ہیں اور چند منٹوں میں دیوار پر آڑی ترچھی لکیریں کھینچ کر یہ جا وہ جا اور روکنے والے تیاری ہی کرتے رہ جاتے ہیں یا پھر ان کے خوف سے کچھ بولتے نہیں ۔
اسٹریٹ آرٹ کے اس نئے رجحان نے جہاں شہروں میں خوبصورتی کی نئی روایت کو جنم دیا ہے وہیں اس سے وال چاکنگ کی بدصورتی میں کمی ہوئی ہے، تاہم ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے اندر کی بدصورتی سے ہر حال میں معاشرے کو آلودہ کرتے رہتے ہیں اور اسٹریٹ آرٹ کے حسیں فن پاروں کو بدنما کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ، کہیں تو تصویر کو بگاڑ دیتے ہیں اور کہیں تصویر پر کچھ لکھ دیتے ہیں اور کچھ نہیں تو اس کے اوپر بڑا سا اشتہار چسپاں کر کے چلتے بنتے ہیں ، حالانکہ ایسا بھی کیا جا سکتا ہے کہ جن دیواروں پرتصاویر پینٹ کی گئی ہیں وہ ان سے ہٹ کر دوسری دیواروں پر اپنی مخصوص سوچ کی عکاسی کر سکتے ہیں ۔ مگر لگتا ہے کہ وہ اپنی ذہنیت سے مجبور ہیں، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے چمن میں پھول کھلے ہوں تو خوبصورتی سے محبت کرنے والا انھیں دیکھ کر فرحت محسوس کرتا ہے اور جو اس احساس سے عاری ہوتا ہے وہ انھیں پامال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
پرنسپل کالج آف آرٹ اینڈ ڈیزائن پنجاب یونیورسٹی لاہور ڈاکٹر راحت نوید مسعود نے اسٹریٹ آرٹ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ''اسٹریٹ آرٹ کے ذریعے سوچ کے اظہار کا موقع ملتا ہے،مگر اس میں اہم بات یہ ہے کہ کیا معیار کو برقرار رکھا گیا ہے،حکومت کو چاہئے کہ آرٹ کی تمام اقسام کی سرپرستی کرے ، یورپی ممالک میںآرٹ کی بہت زیادہ قدر کی جاتی ہے جیسے اٹلی کے ایک ایئر پورٹ کا نام مشہور آرٹسٹ لیونارڈو کے نام پر ہے اسی طرح کرنسی نوٹوں پر آرٹسٹوں کی تصویریں شائع کی جاتی ہیں یعنی انھیں وہاں ہیروز کا درجہ حاصل ہے جبکہ ہمارے یہاں ایسی کوئی بات نہیں، حالانکہ معاشرے میں آرٹ اور فن کی روایات کو پختہ کرنے سے تشدد اور انتہا پسندی میں کمی ہوتی ہے''۔
اسٹریٹ آرٹ کے یہ فن پارے ہمارے معاشرے میں بالکل ایسے ہی خوبصورتی بکھیر رہے ہیں جیسے پھول خوشبو بکھیرتا ہے،اگر اس روایت کو حکومتی سطح پر پروان چڑھایا جائے تو اس سے ایک تو نوجوان آرٹسٹوں کو اظہار کا موقع ملے گا دوسرے فن و ثقافت کی ترویج ہو گی تاہم اس سلسلے میں معیار کو برقرار رکھنا بہت ضروری ہے اور یہ بھی تب ہی ممکن ہے جب حکومت اسٹریٹ آرٹ کی سرپرستی کرے کیونکہ اس سے ہماری روایات کے مطابق آرٹ پروان چڑھے گا۔