ہم نے اپنا علم کیونکر کمتر سمجھنا شروع کیا
انگریزوں کے آنے پر ہم یہ سوچنے لگے کہ ہمارا جو علم ہے وہ کمتر ہے، اور کمتر یوں ہے کہ ہم سائنس نہیں جانتے،کتاب۔
اس موضوع میں میری دل چسپی کی وجہ یہ ہے کہ میرے اسکول کے زمانے میں دیکھا جاتا کہ آٹھویں جماعت میں ریاضی میں آپ کے کتنے نمبرہیں،اس پر فیصلہ ہوتا کہ آپ سائنس میں جائیں گے یا آرٹس میں۔
تو مجھے یاد ہے ، آٹھویں میں جب میرا رزلٹ آرہا تھا تو میں بہت پریشان اور گھبرایا ہوا تھا کہ کہیں ریاضی میں میرے نمبر کم نہ ہوں۔ کیوں کہ جو آرٹس میں جاتے، ان کے بارے میں سمجھاجاتا کہ وہ بیوقوف ہیں، تیز نہیں ہیں، یا پھر لڑکی ہیں۔ اورمیں لڑکی کہلوانا چاہتاتھا، نہ ہی بیوقوف۔ بہرحال ریاضی میں میرے اچھے نمبر آئے اور میں سائنس میں گیا۔ میں سوچتاتھا، ایسا کیوں ہے؟یہ کیوں کہتے ہیں کہ جو صحیح نالج ہے، وہ سائنس سے آتاہے۔کتاب میں یہی بتایاہے کہ ہندوستان میں سائنس کا بول بالا کیسے ہوناشروع ہوا۔
کتاب کا کہنا ہے کہ انگریزوں کے آنے پر ہم یہ سوچنے لگے کہ ہمارا جو علم ہے وہ کمتر ہے، اور کمتر یوں ہے کہ ہم سائنس نہیں جانتے، اور جب تک ہم سائنس نہیں سیکھ لیں گے، کمتر رہیں گے۔انگریزوں نے یہ سوچ ہم پر مسلط کی جسے ہم نے مان لیا۔گاندھی جی نے اپنی خودنوشت میں لکھا ہے کہ بہت سے لوگوں کا کہنا تھا کہ انگریزوں نے ہمیں اس لیے ہرایا کہ ہم کمزور تھے ، کمزور اس لیے تھے کہ انگریز گوشت کھاتے تھے، اس لیے جب گاندھی اسکول میں تھے تو ایک مسلم دوست کے ساتھ جاکر گوشت کھاتے تھے تاکہ وہ بھی انگریزوں کی طرح سے طاقتورہوں۔
اس طرح ہم نے یہ تسلیم کرلیاکہ ہم کو سائنس نہیں آتی، اور ہم گوشت نہیں کھاتے تو ہم ان سے کمتر ہیں۔ اس کے بعد ہمارے ہاں یہ بات شروع ہوئی کہ ہمیں بھی سائنس سیکھنی چاہیے۔اور اب ہم نے اپنے علم اور تاریخ کو مغربی طریقے سے دیکھنا شروع کردیا۔اس پریہ بات بھی شروع ہوگئی کہ ہمارے پاس تو پہلے سے سائنس تھی، آریا سماج کے سوامی دیانند نے کہا کہ سائنس ویدانت نے دی تھی تو ہم نے ان سے پہلے ہی سائنس سیکھ لی۔
سرسید احمد خان نے لکھا کہ اسلام اور سائنس میں جھگڑانھیں۔سائٹفک سوسائٹی بھی انھوں نے بنائی۔ہماری دماغی غلامی یہ تھی کہ ہم یہ سوچنے لگے کہ ہمیں بھی ان جیسابننا ہے اور اپنی تاریخ بھی ان کی طرح سے دیکھنے لگے۔میں نے اپنی کتاب میں اس ذہنی غلامی کے بارے میں جاننا چاہا ہے۔چھ برس میں نے کتاب پر کام کیا۔ انگریزوں نے ہم پرحکومت کی ہے تو ان کے عہد کے بارے میں لکھتے ہوئے کہیں نہ کہیں غصہ تو آہی جاتا ہوگا۔
تو مجھے یاد ہے ، آٹھویں میں جب میرا رزلٹ آرہا تھا تو میں بہت پریشان اور گھبرایا ہوا تھا کہ کہیں ریاضی میں میرے نمبر کم نہ ہوں۔ کیوں کہ جو آرٹس میں جاتے، ان کے بارے میں سمجھاجاتا کہ وہ بیوقوف ہیں، تیز نہیں ہیں، یا پھر لڑکی ہیں۔ اورمیں لڑکی کہلوانا چاہتاتھا، نہ ہی بیوقوف۔ بہرحال ریاضی میں میرے اچھے نمبر آئے اور میں سائنس میں گیا۔ میں سوچتاتھا، ایسا کیوں ہے؟یہ کیوں کہتے ہیں کہ جو صحیح نالج ہے، وہ سائنس سے آتاہے۔کتاب میں یہی بتایاہے کہ ہندوستان میں سائنس کا بول بالا کیسے ہوناشروع ہوا۔
کتاب کا کہنا ہے کہ انگریزوں کے آنے پر ہم یہ سوچنے لگے کہ ہمارا جو علم ہے وہ کمتر ہے، اور کمتر یوں ہے کہ ہم سائنس نہیں جانتے، اور جب تک ہم سائنس نہیں سیکھ لیں گے، کمتر رہیں گے۔انگریزوں نے یہ سوچ ہم پر مسلط کی جسے ہم نے مان لیا۔گاندھی جی نے اپنی خودنوشت میں لکھا ہے کہ بہت سے لوگوں کا کہنا تھا کہ انگریزوں نے ہمیں اس لیے ہرایا کہ ہم کمزور تھے ، کمزور اس لیے تھے کہ انگریز گوشت کھاتے تھے، اس لیے جب گاندھی اسکول میں تھے تو ایک مسلم دوست کے ساتھ جاکر گوشت کھاتے تھے تاکہ وہ بھی انگریزوں کی طرح سے طاقتورہوں۔
اس طرح ہم نے یہ تسلیم کرلیاکہ ہم کو سائنس نہیں آتی، اور ہم گوشت نہیں کھاتے تو ہم ان سے کمتر ہیں۔ اس کے بعد ہمارے ہاں یہ بات شروع ہوئی کہ ہمیں بھی سائنس سیکھنی چاہیے۔اور اب ہم نے اپنے علم اور تاریخ کو مغربی طریقے سے دیکھنا شروع کردیا۔اس پریہ بات بھی شروع ہوگئی کہ ہمارے پاس تو پہلے سے سائنس تھی، آریا سماج کے سوامی دیانند نے کہا کہ سائنس ویدانت نے دی تھی تو ہم نے ان سے پہلے ہی سائنس سیکھ لی۔
سرسید احمد خان نے لکھا کہ اسلام اور سائنس میں جھگڑانھیں۔سائٹفک سوسائٹی بھی انھوں نے بنائی۔ہماری دماغی غلامی یہ تھی کہ ہم یہ سوچنے لگے کہ ہمیں بھی ان جیسابننا ہے اور اپنی تاریخ بھی ان کی طرح سے دیکھنے لگے۔میں نے اپنی کتاب میں اس ذہنی غلامی کے بارے میں جاننا چاہا ہے۔چھ برس میں نے کتاب پر کام کیا۔ انگریزوں نے ہم پرحکومت کی ہے تو ان کے عہد کے بارے میں لکھتے ہوئے کہیں نہ کہیں غصہ تو آہی جاتا ہوگا۔