یہ مسلم لیگ ن نے کیا کردیا

مسلم لیگ (ن) ایسا کچھ ثابت نہ کرسکی جو حملہ عمران خان کی ساکھ کو متاثر کرنے کے لیے کیا گیا تھا

شاہ زیب خانزادہ

NEW DEHLI:
گزشتہ بدھ کے روز مسلم لیگ نواز کی طرف سے شوکت خانم اسپتال کی طرف سے کی گئی سرمایہ کاری پر لگائے گئے الزامات نے یہ واضح کردیا ہے کہ اگلے الیکشن کس نوعیت کے ہوں گے۔ اس بات کا اندازہ لگانا اب مشکل نہیں رہ گیا کہ ایشوز اور پالیسی کی نہیں بلکہ الزامات کی سیاست پر انحصار کیا جائے گا اور اس کے لیے اسٹریٹجی جلسے جلوسوں کے لیے کم اور میڈیا کے لیے زیادہ بنائی جائے گی۔ اس الزامات کی سیاست میں آپ ہر دوسرے دن کسی نہ کسی جماعت کی طرف سے ایک پریس کانفرنس ملاحظہ کریں گے۔

پھر اس سے اگلے دن اس کا جواب اور پھر جواب کا جواب۔ یہ سلسلہ الیکشن تک چلتا رہے گا۔ ہاں یہ کوشش بھی کی جائے گی کہ کسی بھی پریس کانفرنس کا جواب اسی دن دے دیا جائے۔ کیونکہ الیکشن میں تو سیاسی جماعتیں ووٹوں کی برتری کے لیے میدان میں اتریں گی مگر پریس کانفرنس کے لیے دیکھا جائے گا کہ کون ٹی وی چینلز کے ٹیکرز کی زیادہ دیر تک اور زیادہ خوبصورت انداز میں زینت بنتا ہے۔یہ واضح رہے کہ خوبصورتی کا معیار خالصتاً اس بات سے ہے کہ کون اپنے مخالف پر زیادہ کیچڑ اچھالنے میں کامیاب ہوگا۔

الزامات کی ایسی کیچڑ جو ناصرف پارٹی لیڈر شپ، کارکن، ووٹر اور سپورٹر کو بہت خوش کردے بلکہ مخالف کو تلملا کر رکھ دے۔ ان پریس کانفرنسز میں لگائے گئے الزامات سے اس بات کی بھر پور کوشش کی جائے گی کہ خبرنامہ میں ناصرف ہیڈ لائن نیوز ہو بلکہ ڈھیروں ٹاک شوز کے اینکرز بھی انھیں الزامات کو بنیاد بناکر اپنا روزانہ کا موضوع منتخب کریں۔

عوام الزام در الزام کی سیاست میں بالکل بور نہیں ہوں گے کیونکہ ہر دوسرے دن نہ صرف الزامات نئے ہوں گے بلکہ جماعتیں بھی بدل جائیں گی۔کبھی مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی کا، کبھی تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کا، کبھی پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف اور ایم کیو ایم اور اے این پی کے درمیان۔ اس سب میں جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام اور دوسری جماعتیں بھی اپنے اپنے الزامات کا حصہ ڈالتی رہیں گی۔

اس قسم کی سیاست کا محور پنجاب ہوگا۔ کیونکہ اگلے الیکشن میں پنجاب نے ملکی سیاست کی قسمت طے کرنی ہے۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف تینوں جماعتیں پنجاب میں زیادہ سے زیادہ نشستوں کے لیے میدان میں اتریں گی جب کہ مسلم لیگ ق کا الیکشن میں کردار ان کے کسی بھی جماعت سے باقاعدہ انتخابی الحاق سے واضح ہوگا جو فی الحال پیپلزپارٹی کے ساتھ ہی نظر آتا ہے۔

اب ذرا مسلم لیگ (ن) کی طرف سے شوکت خانم اسپتال پر لگائے گئے الزامات کا ذکر ہوجائے۔ عمران خان اسپتال کو اپنی کامیابی بتاتے ہوئے اکثر یہ کہتے ہیں کہ مجھ پر قوم نے بھروسہ کیا تو میں نے شوکت خانم اسپتال جیسا ایک کامیاب ادارہ کھڑا کردیا۔ اسی طرح اگر قوم نے موقع دیا تو ملک و قوم کو بھی ترقی کی منازل پر لے جائیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکمت عملی یہی تھی کہ کسی طرح شوکت خانم اسپتال کے ذریعے عمران خان کوکرپٹ ثابت کیا جائے۔

شوکت خانم کے انڈومنٹ فنڈ کی طرف سے کی گئی ایک بڑی سرمایہ کاری کو بنیاد بناکر یہ کوشش کی گئی کہ کسی طرح یہ ثابت کیا جائے کہ عمران خان عوام کی زکوٰۃ اور خیرات کے پیسوں کے امین نہیں ہیں تو بھلا ملک کی باگ ڈور کیسے سنبھال سکتے ہیں۔ تاثر یہ دیا گیا کہ تحریک انصاف کو بدنام کرنے کے لیے نہیں بلکہ شوکت خانم جیسے ادارے کو اس قسم کے معاملات سے بچانے کے لیے یہ حقائق قوم کے سامنے لائے گئے ہیں۔


مسلم لیگ ن سے ایک ایسے موقع پر جب الیکشن سر پر منڈلا رہے ہیں، ایسی سیاسی حکمت عملی کی توقع نہ تھی۔ اول تو شوکت خانم میموریل اسپتال ایک کامیاب ادارہ ہے۔ بہتر ہو تا ایک ایسے ادارے پر جس کو عمران خان کے مخالف بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اگر الزامات لگانے ہی تھے تو ٹھوس ثبوت کے ساتھ لگائے جاتے جو مسلم لیگ (ن) کو سیاسی فائدہ اور عمران خان کو سیاسی نقصان پہنچاتے۔

یہ پریس کانفرنس ایسے ثبوت کے ساتھ کی جاتی کہ جس کی کڑیاں براہ راست عمران خان سے جاملتیں۔ ایسے ثبوت جو یہ ثابت کرتے کہ شوکت خانم اسپتال کے انڈومنٹ فنڈ کی طرف سے یہ سرمایہ کاری عمران خان کے ذاتی مفاد کے لیے کی گئی۔ منافع ہوتا تو عمران خان کی جیب میں جاتا اور اگر نقصان ہوا ہے تو شوکت خانم کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے اور یہ ثابت کیا جاتا کہ اس قسم کی سرمایہ کاری میں عمران خان اپنا ذاتی اثرو رسوخ استعمال کرتے ہیں اور اپنے رشتے داروں یا دوست احباب کو فائدے پہنچاتے ہیں مگر نقصان کی صورت میں عوام کی زکوٰۃ اور خیرات کا پیسہ ضایع ہوتا ہے

کیونکہ شوکت خانم اسپتال کو نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ مگر مسلم لیگ (ن) ایسا کچھ ثابت نہ کرسکی جو حملہ عمران خان کی ساکھ کو متاثر کرنے کے لیے کیا گیا تھا وہ یہ تاثر دینے لگا کہ مسلم لیگ (ن) نے شوکت خانم کی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش کی ہے، اس لیے کوئی ان الزامات کو قبول کرنے کو تیار نہ ہوا۔ شوکت خانم کے چیف ایگزیکٹو شوکت سلطان نے بھی الزامات کا دفاع کیا۔ مسلم لیگ ن کی سیاسی حکمت عملی بیک فائر کرتی نظر آئی۔ مقصد تھا پاکستان تحریک انصاف کو نقصان پہنچانا مگر ایک خراب حکمت عملی کے تحت فائدہ پہنچاگئے۔ وہ عمران خان جو اس بات کی شکایت کرتے نظر آئے تھے کہ میڈیا پر تحریک انصاف کو ٹائم نہیں ملتا ان کی تحریک انصاف کے لوگ میڈیا کے ہر شو میں آنے لگے۔

میاں نواز شریف کے سیاسی طور پر بہت زیادہ ایکٹو ہونے کے بعد یہ تاثر جنم لینے لگا تھا کہ شاید جتنا بڑا خطرہ تحریک انصاف پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے لیے پیدا کرسکتی تھی وہ اب نہیں کرپائے گی۔ اسی لیے مسلم لیگ (ن) اطمینان میں بھی نظر آتی ہے اور اپنی توپوں کا رخ پاکستان پیپلزپارٹی کی طرف کیے ہوئے ہے۔ سیاست میں اس تاثر کی بھی بڑی اہمیت ہوتی ہے کہ آپ اپنے مخالف سے زیادہ پریشان نہیں ہیں۔ اس بلا وجہ کی پریس کانفرنس نے ایک الٹا تاثر پیدا کردیا کہ مسلم لیگ (ن) تحریک انصاف سے بہت زیادہ خوفزدہ ہے۔ تحریک انصاف جو ہمیشہ دفاعی حکمت عملی اپناتی نظر آتی ہے چاہے وہ عمران خان کے شاندار گھر کا معاملہ ہو،

ان کے اثاثوں کا یا پھر جنرل مشرف کی جماعت کے لوگوں کی تحریک انصاف میں شمولیت کا۔ پہلی دفعہ اپنا دفاع کرنے کے بعد جارحانہ حکمت عملی بناتی نظر آئی۔ عمران خان نے میاں نواز شریف سے گیارہ سوال کر ڈالے اور ن لیگ الزامات کا دفاع کرتی نظرآئی۔ اور یہ برائی بھی حصے میں آئی کہ سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے مسلم لیگ (ن) نے شوکت خانم جیسے عظیم ادارے کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔ الیکشن کا سال ہے اس لیے عوام بہت سی الزامات سے بھری پریس کانفرنسوں اور جلسوں کے لیے تیار ہوجائیں۔ مگر بہتر ہوگا کہ شوکت خانم اسپتال جیسے ادارے کو سیاست سے دور رکھا جائے۔

اگر شوکت خانم جیسے ادارے کو نقصان پہنچا تو یہ سراسر غریب عوام کا نقصان ہوگا۔ اس ملک میں بہت سے فلاحی ادارے ہیں مگر شوکت خانم اسپتال بلا شبہ وہ ادارہ ہے جو عوام سے لیے گئے پیسے اور اس کے خرچ کی تمام تفصیلات عوام کے سامنے رکھتا ہے۔ ساری دنیا میں فلاحی ادارے انڈومنٹ فنڈ بناتے ہیں تاکہ مشکل حالات میں اس کا استعمال کرسکیں۔ ان فنڈز کی سرمایہ کاری میں کبھی نقصان اور کبھی فائدہ ہوتا ہے مگر نقصان کی صورت میں ادارے کی سرمایہ کاری کی حکمت عملی پر تو تنقید کی جاسکتی ہے

مگر اس کی نیت پر نہیں۔آخر میں ایک بات یہ کہ تحریک انصاف میں نئے آنے والے اور پرانے سیاستدانوں کی بحث اکثر موضوع بحث رہتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی پریس کانفرنس کے بعد اس وقت جب عمران خان پر شدید دبائو پڑا تو مختلف ٹاک شوز میں ان کا دفاع کرنے کے لیے پارٹی میں نئے آنے والوں میں سے کیوں صرف مخدوم جاوید ہاشمی ہی نظرآئے۔ کیوں عمران اسماعیل، ڈاکٹر عارف علوی، عمر چیمہ اور فوزیہ قصوری جیسے پارٹی کے پرانے وفادار ہی میڈیا پر بڑھ چڑھ کر پارٹی، عمران خان اور شوکت خانم اسپتال کا دفاع کرتے نظر آئے۔ یہ بات عوام بھی سوچیں اور خود عمران خان بھی۔
Load Next Story