مسائل کشمیر سے جڑے ہوئے ہیں
مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل ہو
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ملک کی نمائندگی اور قومی امنگوں کی کس درجہ درست ترجمانی کی ہے، میڈیا اور سیاسی حلقوں میں اس پر بحث اور اظہار خیال کا سلسلہ اب جاری رہے گا تاہم اس تناظر میں جو بنیادی نکتہ ہے اسے ملکی سیاسی، سماجی اور معاشی صورتحال کی پیدا شدہ نزاکت اور سیمابیت سے الگ کر کے محض پوائنٹ اسکورنگ کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے، اور جس فورم پر وزیراعظم کا محاسبہ یا عالمی برادری کے سامنے پاکستان کے بیانیے کو اجاگر کرنے کا معاملہ ہو اسے سنجیدگی سے سیاسی، علمی اور تجزیاتی بحث کا حصہ بننا چاہیے۔
عمومی اتفاق رائے یہی ہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قومی امنگوں کی درست اور بامعنی ترجمانی کی۔ بھارت و امریکا سمیت پوری دنیا کو پاکستان کے امن پسند طرز عمل، دہشتگردی کے خلاف حقیقی کردار اور خطے میں پاکستان کی اصل قربانیوں کو فراموش کرنے پر عالمی برادری کو بھارتی عزائم اور زمینی حقائق سے روشناس کرنے کی موثر کوشش کی اور پاکستانی بیانیے کے ابلاغ میں کسی قسم کا جھول نہیں آنے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے بدترین مخالف بھی پاکستان کے انداز نظر اور اس کے موقف پر منصفانہ طریقہ سے سوچ بچار کر سکتے ہیں۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے خطاب پر بھارتی مندوب کی تنقید کا سخت نوٹس لیتے ہوئے اسے دوٹوک طور پر مسترد کر دیا ہے، پاکستانی مندوب ٹیپو عثمان نے کہا جنوبی ایشیا میں تمام برائیوں کی جڑ حل طلب جموں و کشمیر کا تنازع ہے۔
خطے میں بالادستی کا بھارتی خواب ہمیشہ ایک خواب ہی رہیگا۔ پاکستان نے اقوام متحدہ میں کشمیر سے متعلق اٹوٹ انگ کے بھارتی دعوے کو مسترد کر دیا۔ اقوام متحدہ میں پاکستانی قونصلر نے کہا ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں، مسئلہ کشمیر کو حل کیے بغیر خطے میں امن ممکن نہیں اور اس معاملے میں بھارت کی ضد اور ہٹ دھرمی افسوسناک ہے۔ قونصلر کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کی درست ترجمانی جب کہ کشمیر ی امنگوں کی ترجمانی کی۔ وزیراعظم کی تقریر استدلال بدوش تھی، کسی زاویہ سے زیب داستاں کی محتاج نہیں تھی، جو حقائق تھے وہ پاکستان کے مقدمہ کی صورت بیان ہوئے، عالمی برادری تک دہشتگردوں کے ٹھکانوں اور محفوط پناہ گاہوں کے مغالطے کی تصحیح کی گئی جسے بھارتی عزائم نے ہمیشہ پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے سے مشروط رکھا، بھارتی حکمت عملی بے نقاب ہو چکی ہے۔
اس کا سیکولرازم بے گناہ شہریوں کے خون سے تر ہے، بھارتی ہائی کمشنر کی دفتر خارجہ طلبی ہوئی ہے، اب اس آئینہ میں شورش زدہ خطے کو امریکا، اس کے اتحادی، بھارت، افغانستان اور یورپی ممالک نئے سرے سے دیکھنے کے پابند ہیں، بھارت کو اپنا مائنڈ سیٹ بدلنا ہو گا، جنوبی ایشیائی صورتحال کی گردشی گیند دنیا کی کورٹ میں ہے اور امن عالم کے ٹھیکیداروں کو فیصلہ کرنا ہے کہ خطے کی ضروریات کیا ہیں؟ امریکا کی افغان پالیسی بھارتی مہم جوئی سے نتھی ہے لہٰذا پاکستانی وزیراعظم کا موقف واضح ہے کہ کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن کا بھرپور جواب دیا جائے گا، بھارت کشمیریوں کی جدو جہد آزادی کو طاقت کے ذریعے کچلنے سے باز رہے، دہشتگردی اب ایک عالمی مسئلہ بن چکی ہے لیکن دہشتگردی کے خاتمے کے لیے ریاستی سرپرستی میں ہونے والی دہشتگردی کا خاتمہ بھی نہایت ضروری ہے۔
مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل ہو، مسئلے کے منصفانہ اور پرامن حل کے لیے اقوام متحدہ کا خصوصی نمائندہ مقرر کیا جائے، مقبوضہ کشمیر میں 7 لاکھ بھارتی فوجیوں کی موجودگی حالیہ تاریخ میں بد ترین غیرملکی فوجی قبضہ ہے، بھارت کو پاکستان کے خلاف ریاستی پشت پناہی سے کی جانیوالی دہشتگردی اور تخریب کاری کی مہم سے اجتناب کرنا ہو گا، ادھر 16 سال سے جاری افغان جنگ کا حل بھی صرف مذاکرات میں ہے، اسرائیل کا فلسطین پر قبضہ خطے میں تشدد کا سبب بن سکتا ہے۔
وزیر خارجہ خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ بھارت محدود جنگ میں ہمارے علاقے پر قبضہ کر کے بات چیت کرنا چاہتا ہے، وزیر خارجہ خواجہ آصف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر روس کی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف سے ملاقات میں کہی جس میں دونوں وزرائے خارجہ نے اتفاق کیا کہ افغانستان کے مسئلے کا حل صرف سیاسی ہے۔ اسی اجلاس میں خواجہ آصف کی بھارتی ہم منصب سشما سوراج سے غیر رسمی ملاقات بھی ہوئی مگر خطے کی صورتحال پر کوئی بات نہیں ہوئی۔
ادھر چین نے امید ظاہر کی ہے کہ پاکستان اور بھارت دیرینہ مسئلہ کشمیرکو مناسب طریقے سے پرامن مذاکرات کے ذریعے حل کریں گے، مسئلہ کشمیر پر چین کا موقف بہت واضح اور اٹل ہے۔ پاک بھارت مشترکہ طورپر علاقائی امن و استحکام کے لیے کام کریں۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لوکھانگ نے پریس بریفنگ میںکہا کہ کشمیر کا تنازع دونوں ممالک کے درمیان اہم ترین مسئلہ ہے، دیگر تمام مسائل بھی اس مسئلے سے جڑے ہیں۔ چین کی طرح دیگر عالمی قوتوں کو بھارت پر زور ڈالنا چاہیے کہ وہ کشمیر کے دیرینہ مسئلہ کے حل کے لیے بلا تاخیر غیر مشروط بات چیت کرے۔
عمومی اتفاق رائے یہی ہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں قومی امنگوں کی درست اور بامعنی ترجمانی کی۔ بھارت و امریکا سمیت پوری دنیا کو پاکستان کے امن پسند طرز عمل، دہشتگردی کے خلاف حقیقی کردار اور خطے میں پاکستان کی اصل قربانیوں کو فراموش کرنے پر عالمی برادری کو بھارتی عزائم اور زمینی حقائق سے روشناس کرنے کی موثر کوشش کی اور پاکستانی بیانیے کے ابلاغ میں کسی قسم کا جھول نہیں آنے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے بدترین مخالف بھی پاکستان کے انداز نظر اور اس کے موقف پر منصفانہ طریقہ سے سوچ بچار کر سکتے ہیں۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے خطاب پر بھارتی مندوب کی تنقید کا سخت نوٹس لیتے ہوئے اسے دوٹوک طور پر مسترد کر دیا ہے، پاکستانی مندوب ٹیپو عثمان نے کہا جنوبی ایشیا میں تمام برائیوں کی جڑ حل طلب جموں و کشمیر کا تنازع ہے۔
خطے میں بالادستی کا بھارتی خواب ہمیشہ ایک خواب ہی رہیگا۔ پاکستان نے اقوام متحدہ میں کشمیر سے متعلق اٹوٹ انگ کے بھارتی دعوے کو مسترد کر دیا۔ اقوام متحدہ میں پاکستانی قونصلر نے کہا ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ نہیں، مسئلہ کشمیر کو حل کیے بغیر خطے میں امن ممکن نہیں اور اس معاملے میں بھارت کی ضد اور ہٹ دھرمی افسوسناک ہے۔ قونصلر کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کی درست ترجمانی جب کہ کشمیر ی امنگوں کی ترجمانی کی۔ وزیراعظم کی تقریر استدلال بدوش تھی، کسی زاویہ سے زیب داستاں کی محتاج نہیں تھی، جو حقائق تھے وہ پاکستان کے مقدمہ کی صورت بیان ہوئے، عالمی برادری تک دہشتگردوں کے ٹھکانوں اور محفوط پناہ گاہوں کے مغالطے کی تصحیح کی گئی جسے بھارتی عزائم نے ہمیشہ پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے سے مشروط رکھا، بھارتی حکمت عملی بے نقاب ہو چکی ہے۔
اس کا سیکولرازم بے گناہ شہریوں کے خون سے تر ہے، بھارتی ہائی کمشنر کی دفتر خارجہ طلبی ہوئی ہے، اب اس آئینہ میں شورش زدہ خطے کو امریکا، اس کے اتحادی، بھارت، افغانستان اور یورپی ممالک نئے سرے سے دیکھنے کے پابند ہیں، بھارت کو اپنا مائنڈ سیٹ بدلنا ہو گا، جنوبی ایشیائی صورتحال کی گردشی گیند دنیا کی کورٹ میں ہے اور امن عالم کے ٹھیکیداروں کو فیصلہ کرنا ہے کہ خطے کی ضروریات کیا ہیں؟ امریکا کی افغان پالیسی بھارتی مہم جوئی سے نتھی ہے لہٰذا پاکستانی وزیراعظم کا موقف واضح ہے کہ کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن کا بھرپور جواب دیا جائے گا، بھارت کشمیریوں کی جدو جہد آزادی کو طاقت کے ذریعے کچلنے سے باز رہے، دہشتگردی اب ایک عالمی مسئلہ بن چکی ہے لیکن دہشتگردی کے خاتمے کے لیے ریاستی سرپرستی میں ہونے والی دہشتگردی کا خاتمہ بھی نہایت ضروری ہے۔
مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل ہو، مسئلے کے منصفانہ اور پرامن حل کے لیے اقوام متحدہ کا خصوصی نمائندہ مقرر کیا جائے، مقبوضہ کشمیر میں 7 لاکھ بھارتی فوجیوں کی موجودگی حالیہ تاریخ میں بد ترین غیرملکی فوجی قبضہ ہے، بھارت کو پاکستان کے خلاف ریاستی پشت پناہی سے کی جانیوالی دہشتگردی اور تخریب کاری کی مہم سے اجتناب کرنا ہو گا، ادھر 16 سال سے جاری افغان جنگ کا حل بھی صرف مذاکرات میں ہے، اسرائیل کا فلسطین پر قبضہ خطے میں تشدد کا سبب بن سکتا ہے۔
وزیر خارجہ خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ بھارت محدود جنگ میں ہمارے علاقے پر قبضہ کر کے بات چیت کرنا چاہتا ہے، وزیر خارجہ خواجہ آصف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر روس کی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف سے ملاقات میں کہی جس میں دونوں وزرائے خارجہ نے اتفاق کیا کہ افغانستان کے مسئلے کا حل صرف سیاسی ہے۔ اسی اجلاس میں خواجہ آصف کی بھارتی ہم منصب سشما سوراج سے غیر رسمی ملاقات بھی ہوئی مگر خطے کی صورتحال پر کوئی بات نہیں ہوئی۔
ادھر چین نے امید ظاہر کی ہے کہ پاکستان اور بھارت دیرینہ مسئلہ کشمیرکو مناسب طریقے سے پرامن مذاکرات کے ذریعے حل کریں گے، مسئلہ کشمیر پر چین کا موقف بہت واضح اور اٹل ہے۔ پاک بھارت مشترکہ طورپر علاقائی امن و استحکام کے لیے کام کریں۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لوکھانگ نے پریس بریفنگ میںکہا کہ کشمیر کا تنازع دونوں ممالک کے درمیان اہم ترین مسئلہ ہے، دیگر تمام مسائل بھی اس مسئلے سے جڑے ہیں۔ چین کی طرح دیگر عالمی قوتوں کو بھارت پر زور ڈالنا چاہیے کہ وہ کشمیر کے دیرینہ مسئلہ کے حل کے لیے بلا تاخیر غیر مشروط بات چیت کرے۔