عدم سے کرامت تک

ہمارے ملک میں اب اعلیٰ اور اہم عہدوں پر میرٹ‘ قابلیت اور سینیارٹی کی بنیاد پر تعیناتیاں نہیں ہوتیں

h.sethi@hotmail.com

ابھی تقریب شروع ہونے میں کچھ وقت تھا۔ آرٹس کونسل الحمرا کے ہال نمبر3 میں میرے برابر والی کرسی پر بیٹھے شخص نے مجھ سے پوچھا کیا آپ بھی شاعر ہیں۔ میرے انکار پر اس نے پھر پوچھا کیا آپ سید کرامت بخاری صاحب کے دوست ہیں، میں نے اثبات میں سر ہلانے کے بعد اب اس شخص سے دریافت کیا کہ کیا وہ کرامت بخاری کا کلام سننے آیا ہے۔

اس نے مجھ سے بے تکلف ہوتے ہوئے قمیض کی جیب سے الحمرا کی طرف سے اخبار میں چھپے اشتہار کا ٹکڑا مجھے دکھا کر کہا کہ اسے شعر و ادب سے کوئی تعلق نہیں لیکن وہ میانوالی کے اس گاؤں ہرنولی کا رہنے والا ہے جہاں سے کرامت بخاری اکاؤنٹنٹ جنرل پنجاب کا تعلق ہے۔ نہ تو بخاری صاحب اسے جانتے ہیں نہ ہی اس کی کبھی ان سے ملاقات ہوئی ہے۔ وہ بخاری صاحب کا غائبانہ عاشق ہے کہ وہ ایک صاحب کا کردار اور ان کے ''گرائیں'' ہیں جب کہ وہ پہلی بار اخبار میں اشتہار پڑھ کر الحمرا آیا ہے جس کے مطابق ڈاکٹر اجمل نیازی آف میانوالی کی صدارت میں ''ایک شام سید کرامت بخاری کے نام'' منعقد ہو رہی تھی۔ میرے لیے یہ انوکھی بات تھی کہ دو شخصیات کا میانوالی سے تعلق ایک شخص کو باوجود شعر و ادب سے عدم دلچسپی محفل شعر میں لے آئے۔

AG آفس سے میرا تعارف اسکول کے دنوں میں ہوا جب اسلامیہ ہائی اسکول سیالکوٹ میں منعقد ایک مشاعرے میں اسٹیج سیکریٹری نے رات گئے جناب عبدالحمید عدمؔ کو اپنا کلام سنانے کی دعوت دی۔ عدمؔ صاحب کا اسٹیج کی طرف آنا مجھے اس لیے یاد رہا کہ دو لوگ انھیں تھام کر ایک کمرے سے لائے تھے اور جب انھوں نے شعر سنانے شروع کیے تو پنڈال داد کی آوازوں سے گونج رہا تھا۔ وہیں پر مجھے معلوم ہوا تھا کہ وہ اکاؤنٹنٹ جنرل آفس میں ایک سینئر اکاؤنٹس آفیسر تھے۔ ان کے دو شعر مجھے آج تک یاد ہیں۔

ان مست آنکھڑیوں کو کنول کہہ گیا ہوں میں

محسوس ہو رہا ہے غزل کہہ گیا ہوں میں

قسمت کی الجھنوں کو عدمؔ کس گریز سے

اُس گیسوئے دراز کا بَل کہہ گیا ہوں میں

تقریب کی میزبانی صوفیہ بیدار کے ذمے تھی جو ع ادیب کی صاحبزادی اور خوش کلام شاعرہ ہے۔ مرے کالج سیالکوٹ میں تقریری مقابلہ ہوتا تو وارث میر اور ع ادیب مدمقابل ہوتے۔ یہاں صوفیہ نے سب سے پہلے معروف شاعر کنول فیروز کو کرامت بخاری پر اظہار خیال کی دعوت دی جو مہمان خصوصی کے قریبی اور دیرینہ ساتھی اور راز داں ہیں۔ انھوں نے سچ بولنے کی قسم کھاتے ہوئے کئی واقعات بیان کیے جن میں بخاری صاحب کی سادگی، دیانت و امانت، اصول پسندی، کھرے سچ کا اظہار اتنے خلوص نیت اور سفاکی و بیباکی سے کیا جسے شاید آج کل کا سیاست زدہ بیورو کریٹ کھلی توہین کا نام دے، خصوصاً اس لیے کہ میر مجلس ڈاکٹر اجمل نیازی آج کل کی بیورو کریسی کو تضحیک سے بُرا کریسی کہتے ہیں۔

کرامت بخاری کے ساتھ شام منانے کا اہتمام الحمراء کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کپٹن عطاء نے موصوف کی شاعری کے حوالے سے کیا تھا لیکن بخاری صاحب کو اپنی سروس میں بھی عام بیوروکریٹس سے مختلف تجربات اور مشکلات سے دو چار ہونا پڑا اور اس کی وجہ ان کا دیانتدار اور بااصول ہونا تھا۔ اپنی 32 سالہ ملازمت کے دوران جتنی بار وہ OSD یعنی آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی رہے شاید کوئی اور ان کا ریکارڈ توڑنے کا دعویٰ نہیں کر سکتا، OSD کا مطلب ہوتا ہے: Duty on Special Officer۔ ایک بار جب وہ اپنے افسر اعلیٰ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی ناجائز خدمات انجام دینے سے انکاری ہوئے تو انھوں نے بخاری صاحب کو تین سال تک OSD رہنے کی سزا دی۔ سنا ہے کہ وہ افسر اعلیٰ ان دنوں اپنی فرصت کے رات دن پس زنداں گزارتے ہیں۔

سید کرامت بخاری پندرہ کتب کے مصنف ہیں جن میں چھ شعری مجموعے' پانچ نثر کی کتب، تین بچوں کے ادب پر اور دو مختلف مشاہیر کے فن اور شخصیت کے بارے میں ہیں۔ انھوں نے کئی ممالک میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے کانفرنسز اور سیمینارز میں شرکت کی ا ور متعدد ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔ اکاؤنٹنٹ جنرل پنجاب تعیناتی سے قبل وہ AG سندھ تھے۔

ہمارے ملک میں اب اعلیٰ اور اہم عہدوں پر میرٹ' قابلیت اور سینیارٹی کی بنیاد پر تعیناتیاں نہیں ہوتیں بلکہ سفارش اور جی حضوری کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ جب کہ ملکی سیاست چلانے والوں میں بھی اکثریت نے تاریخ اور پولیٹیکل سائنس کی کسی کتاب کا ایک صفحہ تک نہیں پڑھا ہوتا یہی وجہ ہے کہ ملک کا Talented نوجوان فرار کے رستے تلاش کرتا پایا جاتا ہے۔ اور لوگوں کو وہ وقت نہیں بھولا جب غیر ملکی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے پاکستان کا رخ کیا کرتے تھے۔ اگر کوئی سروے کرے تو معلوم ہو گا کہ مختلف شعبوں کے ہر اعلی تعلیم یافتہ سول اور باوردی گھرانے کا قابل اور ذہین نوجوان ملک چھوڑ رہا ہے جس کی وجہ سے کرپٹ اور نالائق بھکاریوں کو اقتدار پر قبضے میں آسانی پیدا ہو رہی ہے۔

آرٹس کونسل (الحمراء) کے مہمان سید کرامت بخاری نے اپنا جو کلام نذر سامعین کیا اس میں سے کچھ اشعار اور ایک نظم درج ذیل ہے؎

غزل کو ناقد و ناصح کہاں سمجھتے ہیں

یہ اہل دل ہیں جو دل کی زبان سمجھتے ہیں

جو ایک گھونٹ کی لذت سے بھی نہیں واقف

وہ اپنے آپ کو پیرمغاں سمجھتے ہیں

کچھ اور اس کی حقیقت نہیں ہے اس کے سوا

ہم اپنے گھر کو سفر کا نشاں سمجھتے ہیں

ستم ایجاد ہوتا جا رہا ہے

یہ گھر برباد ہوتا جا رہا ہے

جو مردہ باد ہونا چاہیے تھا


وہ زندہ باد ہوتا جا رہا ہے

جو اک حرف دعا تھا میرے لب پر

وہ اب فریاد ہوتا جا رہا ہے

اے خرد کے پاسبانوں کبھی پاس جا کے دیکھو

وہ جنوں کدہ ہے اب کہ جو خرد کا تھا ٹھکانہ

اس غم کا غم رہے گا مجھے عمر بھر کرامت

مجھے ہا ئے تو نہ سمجھا مجھے ہائے تو نہ جانا

مرا انجام ہی ہو گا مرے آغاز کا باعث

نئی دنیا کی خاطر یہ پرانی چھوڑ جاؤں گا

مجھے معلوم ہے آخر کسی دن تیری دنیا سے

چلا جاؤں گا پر اپنی کہانی چھوڑ جاؤں گا

مرے الفاظ زندہ ہیں انھیں زندہ ہی رہنا ہے

میں فانی ہو کے نقش غیر فانی چھوڑ جاؤں گا

ہمارا کیا ہے، ہمارا کیا ہے۔

ہماری عادت سی ہو چکی ہے

شفق کی بے خواب وادیوں میں بھٹکتے رہنا۔

گئی بہاروں کو یاد کرنا فریب خوردہ سماعتوں کے فسوں میں رہنا

افق میں تحلیل ہوتے رنگوں کو رتجگوں میں تلاش کرنا

تمام اجڑے ہوئے دیاروں میں خاک ہوتے ہوئے مزاروں پہ جا نکلنا اور اپنے گزرے ہوئے دنوں کو حساب کر کے کتاب کر کے ملول ہونا ملول کرنا ہمارا کیا ہے۔

ہماری عادت سی ہو چکی ہے حروف و قرطاس سے الجھنا' الجھتے رہنا خیال کی بے پناہ و سعت میں گرد ہوتی ہوئی مسافت کی چاپ سننا کہیں کہیں پہ خود اپنے سائے کی صف بنا کر قیام کرنا کلام کرنا۔

خلا کی نیلی ردا پہ جو کچھ رقم ہوا ہے اسے سمجھنا سمجھ کے دنیا میں عام کرنا اور آنے والی تمام نسلوں کے نام کرنا۔ ہمارا کیا ہے۔
Load Next Story